چودھویں دلیل ۔ ان لمھدینا ایتین لم تکونا منذ خلق السموت والارض ینکسف القمر لاول لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ ۔
(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلوٰۃ الخسوف)
اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ
کہ ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں۔ اور یہ صداقت کے دونوں نشان کبھی کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان میں چاند کو (چاند گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات کو اور (سورج گرہن کے دنوں میں سے) درمیانے دن کو سورج کو گرہن لگے گا۔
چنانچہ یہ گرہن ۱۸۹۴ء میں لگا۔ یعنی چاند کی ۱۳۔۱۴۔۱۵ تاریخوں میں سے ۱۳ تاریخ کو رمضان کے مہینہ میں چاند (قمر) کو اور ۲۷۔۲۸۔۲۹ تاریخوں میں سے ۲۸ تاریخ کو ماہ رمضان میں سورج کو گرہن لگا۔
رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن لگنا حدیث شریف میں مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے لفظ ’’قمر‘‘ بولا ہے اور ’’قمر‘‘ پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند کو کہتے ہیں۔ پہلی رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔
یُسَمَّی الْقَمَرُ لِلَیْلَتَیْنِ مِنْ اَوَّلِ الشَّھْرِ ھِلَالًا…… قَالَ الْجَوْھَرِیُّ اَلْقَمَرُ بَعْدَ ثَلَاثٍ اِلٰی اٰخِرِ الشَّھْرِ…… قَالَ ابْنُ السَّیْدَۃِ…… وَ الْقَمْرُ یَکُوْنُ فِی لَیْلَۃِ الثَّالِثَۃِ مِنَ الشَّھْرِ۔‘‘
(لسان العرب زیر لفظ قمر)
کہ جوہری کہتا ہے کہ قمر وہ ہوتا ہے جو دوسری رات کے بعد کا چاند ہو۔ اور اسی طرح ابن سیدہ نے بھی کہا ہے کہ مہینہ کی تیسری رات کو چاند قمر ہو جاتا ہے۔
۲۔ ’’وَھُوَ قَمَرٌ بَعْدَ ثَلَاثِ لَیَالٍ اِلٰی اٰخِرِ الشَّھْرِ وَ اَمَّا قَبْلُ ذَالِکَ فَھُوَ ھِلَالٌ۔‘‘
( منجد زیر لفظ قمر)
کہ تین راتوں کے بعد چاند قمر ہو جاتا ہے اور اس سے پہلے جو چاند ہوتا ہے اس کو ہلال کہتے ہیں۔ پس حدیث میں اول اور درمیانے سے مراد وہی ہو سکتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس کا پورا ہونا خود اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔
۳۔ اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے جو خود ایک بڑا عالم اور علمِ حدیث میں یگانہ تھا۔ جیسا کہ ضمن نمبر ۱۲ میں نخبۃ الفکر کے حوالہ سے بتایا گیا ہے۔
(شرح نخبۃ الفکر للقاری۔ الموضوع جزء نمبر۱ صفحہ ۴۳۶)
نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث کی صحت کے متعلق خوب مفصل بحث ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں تحریر فرما دی ہے۔ وہاں سے دیکھی جائے۔
چاند کو یہ گرہن ۲۱؍ مارچ ۱۸۹۴ء کو لگا۔ دیکھو اخبار آزاد ۴؍ مئی ۱۸۹۴ء۔ نیز سول اینڈ ملٹری گزٹ ۶؍ اپریل ۱۸۹۴ء۔
۳۔ یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں پائی جاتی ہے۔ جس سے اس کی صحت کا پتہ چلتا ہے۔
(۱) دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلٰوۃ الخسوف۔
(۲) فتاویٰ حدیثیہ حافظ ابن حجر مکیؒ۔ مصنفہ علامہ شیخ احمد شہاب الدین ابن حجر الہیتمی مطلب فی علامۃ خروج المہدی و ان القحطانی بعد المہدی ۔
(۳) احوال الآخرۃ حافظ محمد لکھوکے صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۳۰۵ھ۔
(۴) آخری گت مصنفہ مولوی محمد رمضان حنفی۔ مجتبائی مطبوعہ ۱۲۷۸ھ
(۵) حجج الکرامہ صفحہ ۳۴۴۔ مؤلفہ نواب صدیق حسن خان صاحب۔مطبع شاہجہانی واقع بلاہ بھوپال
(۶) عقائد الاسلام مصنفہ مولانا عبد الحق صاحب محدث دہلوی صفحہ ۱۸۲،۱۸۳ مطبوعہ ۱۲۹۲ھ
(۷) قیامت نامہ فارسی و علاماتِ قیامت اردو مصنفہ شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی۔
(۸) اقتراب الساعۃ نواب نور الحسن خان صفحہ ۱۰۶ و ۱۰۷ مطبوعہ ۱۳۰۱ھ۔
(۹) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی جلد ۲ صفحہ ۱۳۲ مکتوب نمبر ۶۷
(۱۰) اکمال الدین صفحہ ۳۶۹ از شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمۃ جلد دوم مطبوعہ کتاب فروشی تہران۔
(۱۱) حجج الکرامہ میں لکھا ہے کہ نعیم بن حماد، ابو الحسن خیری، حافظ ابو بکر بن احمد اور بیہقی اس کے راوی ہیں (صفحہ ۳۴۴)
(۱۲)علاوہ ازیں یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور دار قطنی اس بلند پایہ کا محدث ہے کہ شرح نخبۃ الفکر میں لکھا ہے:۔ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ یَا اَھْلَ بَغْدَادَ لَا تَظُنُّوْا اَنَّ اَحَدًا یَقْدِرُ اَنْ یَّکْذِبَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاَنَا حَیٌّ۔ (شرح نخبۃ الفکر للقاری ۔ الموضوع جزء نمبر ۱ صفحہ ۴۳۶)
کہ امام دار قطنی نے فرمایا کہ اے اہل بغداد! یہ خیال نہ کرو کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی حدیث منسوب کر سکتا ہے جبکہ میں زندہ ہوں۔
(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلوٰۃ الخسوف)
اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ
کہ ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں۔ اور یہ صداقت کے دونوں نشان کبھی کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان میں چاند کو (چاند گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات کو اور (سورج گرہن کے دنوں میں سے) درمیانے دن کو سورج کو گرہن لگے گا۔
چنانچہ یہ گرہن ۱۸۹۴ء میں لگا۔ یعنی چاند کی ۱۳۔۱۴۔۱۵ تاریخوں میں سے ۱۳ تاریخ کو رمضان کے مہینہ میں چاند (قمر) کو اور ۲۷۔۲۸۔۲۹ تاریخوں میں سے ۲۸ تاریخ کو ماہ رمضان میں سورج کو گرہن لگا۔
رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن لگنا حدیث شریف میں مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے لفظ ’’قمر‘‘ بولا ہے اور ’’قمر‘‘ پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند کو کہتے ہیں۔ پہلی رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔
یُسَمَّی الْقَمَرُ لِلَیْلَتَیْنِ مِنْ اَوَّلِ الشَّھْرِ ھِلَالًا…… قَالَ الْجَوْھَرِیُّ اَلْقَمَرُ بَعْدَ ثَلَاثٍ اِلٰی اٰخِرِ الشَّھْرِ…… قَالَ ابْنُ السَّیْدَۃِ…… وَ الْقَمْرُ یَکُوْنُ فِی لَیْلَۃِ الثَّالِثَۃِ مِنَ الشَّھْرِ۔‘‘
(لسان العرب زیر لفظ قمر)
کہ جوہری کہتا ہے کہ قمر وہ ہوتا ہے جو دوسری رات کے بعد کا چاند ہو۔ اور اسی طرح ابن سیدہ نے بھی کہا ہے کہ مہینہ کی تیسری رات کو چاند قمر ہو جاتا ہے۔
۲۔ ’’وَھُوَ قَمَرٌ بَعْدَ ثَلَاثِ لَیَالٍ اِلٰی اٰخِرِ الشَّھْرِ وَ اَمَّا قَبْلُ ذَالِکَ فَھُوَ ھِلَالٌ۔‘‘
( منجد زیر لفظ قمر)
کہ تین راتوں کے بعد چاند قمر ہو جاتا ہے اور اس سے پہلے جو چاند ہوتا ہے اس کو ہلال کہتے ہیں۔ پس حدیث میں اول اور درمیانے سے مراد وہی ہو سکتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس کا پورا ہونا خود اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔
۳۔ اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے جو خود ایک بڑا عالم اور علمِ حدیث میں یگانہ تھا۔ جیسا کہ ضمن نمبر ۱۲ میں نخبۃ الفکر کے حوالہ سے بتایا گیا ہے۔
(شرح نخبۃ الفکر للقاری۔ الموضوع جزء نمبر۱ صفحہ ۴۳۶)
نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث کی صحت کے متعلق خوب مفصل بحث ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں تحریر فرما دی ہے۔ وہاں سے دیکھی جائے۔
چاند کو یہ گرہن ۲۱؍ مارچ ۱۸۹۴ء کو لگا۔ دیکھو اخبار آزاد ۴؍ مئی ۱۸۹۴ء۔ نیز سول اینڈ ملٹری گزٹ ۶؍ اپریل ۱۸۹۴ء۔
۳۔ یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں پائی جاتی ہے۔ جس سے اس کی صحت کا پتہ چلتا ہے۔
(۱) دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلٰوۃ الخسوف۔
(۲) فتاویٰ حدیثیہ حافظ ابن حجر مکیؒ۔ مصنفہ علامہ شیخ احمد شہاب الدین ابن حجر الہیتمی مطلب فی علامۃ خروج المہدی و ان القحطانی بعد المہدی ۔
(۳) احوال الآخرۃ حافظ محمد لکھوکے صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۳۰۵ھ۔
(۴) آخری گت مصنفہ مولوی محمد رمضان حنفی۔ مجتبائی مطبوعہ ۱۲۷۸ھ
(۵) حجج الکرامہ صفحہ ۳۴۴۔ مؤلفہ نواب صدیق حسن خان صاحب۔مطبع شاہجہانی واقع بلاہ بھوپال
(۶) عقائد الاسلام مصنفہ مولانا عبد الحق صاحب محدث دہلوی صفحہ ۱۸۲،۱۸۳ مطبوعہ ۱۲۹۲ھ
(۷) قیامت نامہ فارسی و علاماتِ قیامت اردو مصنفہ شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی۔
(۸) اقتراب الساعۃ نواب نور الحسن خان صفحہ ۱۰۶ و ۱۰۷ مطبوعہ ۱۳۰۱ھ۔
(۹) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی جلد ۲ صفحہ ۱۳۲ مکتوب نمبر ۶۷
(۱۰) اکمال الدین صفحہ ۳۶۹ از شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمۃ جلد دوم مطبوعہ کتاب فروشی تہران۔
(۱۱) حجج الکرامہ میں لکھا ہے کہ نعیم بن حماد، ابو الحسن خیری، حافظ ابو بکر بن احمد اور بیہقی اس کے راوی ہیں (صفحہ ۳۴۴)
(۱۲)علاوہ ازیں یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور دار قطنی اس بلند پایہ کا محدث ہے کہ شرح نخبۃ الفکر میں لکھا ہے:۔ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ یَا اَھْلَ بَغْدَادَ لَا تَظُنُّوْا اَنَّ اَحَدًا یَقْدِرُ اَنْ یَّکْذِبَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاَنَا حَیٌّ۔ (شرح نخبۃ الفکر للقاری ۔ الموضوع جزء نمبر ۱ صفحہ ۴۳۶)
کہ امام دار قطنی نے فرمایا کہ اے اہل بغداد! یہ خیال نہ کرو کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی حدیث منسوب کر سکتا ہے جبکہ میں زندہ ہوں۔