غیر احمدی اعتراض ۔ قرا ٓن مجید میں ہے اولئك الذين آتيناهم الكتاب والحكم والنبوة(الانعام: ۹۰)پس ہر نبی کا صاحب کتاب ہونا ضروری ہے۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
غیر احمدی اعتراض ۔ قرا ٓن مجید میں ہے اولئك الذين آتيناهم الكتاب والحكم والنبوة(الانعام: ۹۰)پس ہر نبی کا صاحب کتاب ہونا ضروری ہے۔

اولئك الذين آتيناهم الكتاب والحكم والنبوة فان يكفر بها هولاء فقد وكلنا بها قوما ليسوا بها بكافرين

أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ

جواب:۔ اس آیت کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہر نبی کے لئے فرداً فرداً مستقل جدید کتاب لے کر نازل ہونا ضروری ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کسی نہ کسی مُنْزَل من اﷲ کتاب کی طرف لوگوں کو دعوت دے کر اس کتاب کے ذریعہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے خواہ وہ کتاب اﷲ تعالیٰ نے خود اس پر نازل فرمائی ہو یا اس سے کسی پہلے نبی پر نازل ہوئی ہو۔ چنانچہ ملاحظہ ہو حوالجات ذیل:۔

۱۔ حضرت امام رازیؒ تحریرفرماتے ہیں :۔

الف۔ ’’اَنَّ جَمِیْعَ الْاَنْبِیَآءِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ اُوْتُواالْکِتَابَ بِمَعْنٰی کَوْنِہٖ مُھْتَدِیًا بِہٖ دَاعِیًا اِلَی الْعَمَلِ بِہِ وَ اِنْ لَمْ یُنْزَلْ عَلَیْہِ۔ ‘‘ زیر آیت(اٰل عمران:۸۲)

کہ ہر نبی کو ان معنوں میں کتاب دی گئی ہے کسی نہ کسی کتاب کے ذریعہ سے رشد و ہدایت کا کام کرتا اور اس پر عمل کرنے کی لوگوں کو دعوت دیتا تھا۔اگرچہ وہ کتاب خود اس پر نازل نہ ہوئی ہو۔

ب۔ امام رازی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔

وَ یَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ الْمُرَادُ مِنْہُ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فَھْمًا تَامًّا لِمَا فِی الْکِتَابِ وَ عِلْمًا مُحِیْطًا بِحَقَائِقِہٖ وَاَسْرَارِہٖ وَھٰذَا ھُوَ الْاَوْلٰی لِاَنَّ الْاَنْبِیَآءَ الثَّمَانِیَۃَ عَشْرَ الْمَذْکُوْرِیْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ کِتَابًا۔ (تفسیر کبیر زیرآیت الخ الانعام: ۹۰)

یعنی اس ایتاء کتاب کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر نبی کو کتاب کے حقائق و معارف اور اسرار و رموز کا کامل علم عطا فرماتا ہے اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیونکہ قرآن مجید میں جن اٹھارہ انبیاء کا ذکر ہے ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ کتاب نازل نہیں کی ہوئی تھی۔

۲۔ تفسیر بیضاوی میں ہے۔

۔ یُرِیْدُ بِہٖ الْجِنْسَ وَلَا یُرِیْدُ بِہٖ اَنَّہٗ اُنْزِلَ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ کِتَابًا یَخُصُّہٗ فَاِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَمْ یَکُنْ مَعَھُمْ کِتَابٌ یَخُصُّھُمْ وَ اِنَّمَا کَانُوْا یَأْ خُذُوْنَ بِکُتُبِ مَنْ قَبْلَھُمْ۔ ‘‘ (تفسیر بیضاوی زیر آیت ۔ البقرۃ:۲۱۳)

ا س آیت میں لفظ کتاب بطور جنس استعمال ہوا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک نبی کو الگ الگ خاص کتاب دی گئی۔ کیونکہ انبیاء میں سے اکثریت ان کی ہے جن کے پاس کوئی ان کی مخصوص کتاب نہ تھی۔ بلکہ وہ اپنے سے پہلے نبی کی کتاب سے ہی احکام اخذ کرتے تھے۔

۳۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء باب چھٹا ذکر حضرت حسن بصری اردو ترجمہ )

۴۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اَوْ یَکُوْنُ نَظْمَ مَا قَضٰی لِقَوْمٍ مِنْ اِسْتِمْرَارِ دَوْلَۃٍ اَوْ دِیْنٍ یَقْتَضِیْ بَعْثَ مُُجَدَّدٍ کَدَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ وَ جَمْعِ مِنْ اَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔ ‘‘

(حجۃ اﷲ البالغہ حصہ اوّل صفحہ ۱۵۹ مترجم اردو مطبع حمایت اسلام پریس لاہور )

یعنی انبیاء ؑ کی دوسری قسم وہ ہے کہ جو ایسے وقت میں مبعو ث کئے جاتے ہیں جبکہ پہلے نبی کے ذریعہ سے قائم شدہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے تجدید کی ضرورت کے لئے ایک مجدد کومبعوث کرنا مقصود ہوتاہے۔ جیسا کہ حضرت داؤد اور سلیمانؑ اوربنی اسرائیل کے تمام انبیاء۔‘‘

۵۔ تفسیر حسینی میں لکھا ہے:۔

’’ایک کتاب جس کا نام زبور تھا اور اس میں حق تعالیٰ کی ثناء تھی فقط۔ اوامر نواہی کچھ نہ تھے۔ بلکہ حضرت داؤد کی شریعت وہی توریت کی شریعت تھی۔‘‘

(تفسیر قادری حسینی جلد ۱ مترجم اردو صفحہ۲۰۶ زیر آیت سورۃ النساء :۱۶۴ )

۶۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو ( اٰل عمران: ۵۱) آیا ہے تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکوئی نئی شریعت لائے تھے۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ یہود کے علماء نے از خود جن حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے ان کے بارہ میں توراۃ کے اصل حکم کو بحال فرما کر توریت ہی کو قائم کیا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔

’’اِنَّ الْاَحْبَارَ کَانُوْا قَدْ وَضَعُوْا مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ شَرَایِعَ بَاطِلَۃً وَ نَسَبُوْھَا اِلٰی مُوْسٰی فَجَاءَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ رَفَعَھَا وَاَبْطَلَھَا وَ اَعَادَ الْاَمْرَ اِلٰی مَا کَانَ فِیْ زَمَنِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ ‘‘

(تفسیر کبیر زیر آیت ۔اٰل عمران :۱۶۴)

یعنی یہود کے علماء نے بعض احکام باطل آپ ہی اپنے پاس سے وضع کر کے ان کو موسیٰ ؑکی طرف منسوب کر رکھا تھا۔ پس عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ انہوں نے ان غلط احکام کو قائم نہ رہنے دیا،بلکہ ان کو باطل قرار دے کر سابق اصل حکم کو برقرار رکھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا۔‘‘

۷۔ حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں:۔

’’نبی کبھی صاحب شریعت ہوتا ہے جیسے رسل علیہم السلام ہیں اور کبھی صاحب شریعت جدید نہیں ہوتا ہے بلکہ پہلی ہی شریعت میں اس کے حقائق کو ان کی استعداد کے موافق تعلیم کرتا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں۔‘‘ (فصوص الحکم مقدمہ فصل نمبر ۱۲ نبوت ورسالت کے بیان میں مترجم اردو صفحہ ۷۴)
 
Top Bottom