اعتراض 33 ۔ نئے نبی کے آنے سے نئی امت بن جاتی اور اس کے ماننے والے نئی قوم بن جاتے ہیں۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 33 ۔ نئے نبی کے آنے سے نئی امت بن جاتی اور اس کے ماننے والے نئی قوم بن جاتے ہیں۔

مولوی محمد علی صاحب احراری بھی ایک دور کی کوڑی لائے ہیں۔آپ نے ہر مقام پر ہر احرارکانفرنس میں یہ نیا’’علمی نکتہ‘‘ پیش کیا ہے کہ چونکہ قوم نبی سے بنتی ہے اس لیے ہر نئے نبی کے آنے پر اس کی قوم کا نام بھی بدل جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے یہودی کہلاتے تھے مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو جن یہودیوں نے ان کو مان لیا۔وہ یہودی نہ رہے بلکہ ’’عیسائی‘‘ ہوگئے۔ پھر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو جن عیسائیوں نے حضور کے دعویٰ کو قبول کر لیا وہ عیسائی نہ رہے بلکہ مسلمان کہلانے لگے۔بعینہٖ اسی طرح مرزا صاحب کے ماننے والے مسلمان نہیں کہلاسکتے۔ان کو احمدی یا قادیانی کہا جائے گا کیونکہ انہوں نے ایک نیا نبی تسلیم کر لیا ہے۔

جواب ۔ یہ ہے وہ مایۂ ناز اعتراض کہ جب گجرات احرار کانفرنس منعقدہ ۳۰ نومبر ۱۹۴۹ء کے موقع پر مولوی محمد علی احراری نے اسے بیان کیا تو ’’امیر شریعت احرار‘‘ نے اچھل اچھل کر اس نئے ’’نکتہ‘‘ پر انہیں دل کھول کر داد دی۔بلکہ یہاں تک کہا ’’جامیں نے تجھے سارے ارمان بخش دیئے‘‘ پھر مولوی محمد علی احراری نے ہرمقام پر یہی اعتراض دہرایا اور قریباً ہر جگہ ’’امیر شریعت احرار‘‘ نے اسی انداز میں انہیں داد علم وعقل کے ساتھ یہی ڈرامہ دہرایا۔

اب آئیے! اس اعتراض کا تجزیہ کریں اور دیکھیں اس میں کس قدر صداقت اور سچائی ہے۔

پہلا مغالطہ :۔ اس مزعومہ دلیل میں پہلا مغالطہ تو یہ دیا گیا ہے کہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پہلا نبی جو آیا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان قریباً چودہ سو سال کا فاصلہ ہے اس عرصہ میں بنی اسرائیل میں ہزاروں انبیاء آئے۔حضرت یوشع بن نون ،داؤد،سلیمان ،حزقیل ،سموئیل ،یوئیل ،ملاکی ،ایلیاہ، میکاہ،عزراء وغیرہ ہزاروں نبی ہیں جو حضرت عیسیٰؑ سے پہلے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک ہی قوم بنی اسرائیل میں آئے۔پس اگر یہ بات درست ہے! کہ قوم نبی سے بنتی ہے اور نئے نبی کے آنے سے قوم بدل جاتی ہے تو پھر مولوی محمد علی صاحب احراری اور ان کے اس ’’نکتہ‘‘پر عش عش کر اٹھنے والے احراری امیر شریعت بتائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے بھائی ہارون جو نبی تھے تو ان کے ذریعہ سے کونسی ’’نئی قوم‘‘ معرض وجود میں آئی تھی اور ان کے ماننے والوں کا نام کیا رکھا گیا تھا؟پھر ان کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام بن نون کے نبی ہونے پر جو نئی قوم پیدا ہوئی تھی وہ کونسی تھی؟اور اس کا کیا نام تھا؟اسی طرح ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعہ کونسی نئی قوم بنی تھی!پھر ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلا م نے کس قوم کی تشکیل فرمائی تھی ان کی قوموں کے کیا کیا نام تھے؟خود احراری معترض کو بھی مسلم ہے کہ موسیٰ کی قوم کا نام یہودی تھا اور یہ نام قائم رہا جب تک کہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں آگئے۔ تب جا کر بقول معترض اس قوم کا نام بدلا۔ اگر قوم نبی سے بنتی ہے او رنئے نبی کے آنے سے پہلے نبی کی قوم کا نام بدل جاتا ہے تو پھر کیوں اس قوم کا نام چودہ سو سال تک نہ بدلا؟ اوراس وقت باوجود اس کے کہ بقول قرآن مجید ’’‘‘ (المومنون:۴۵) ’’‘‘(البقرۃ:۸۸)کہ اﷲ تعالیٰ نے پہ بہ پے اور قدم بقدم رسول بھیجے مگر پھر بھی اس قوم کا نام نہ بدلا۔تو اب کیوں نام بدل جائیگا؟حقیقت یہ ہے کہ یا تو یہ لوگ علم دین سے بکلی بے بہرہ ہیں جو ایسی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں کہ ایک طالب علم بھی دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑے اور یا جان بوجھ کر مغالطہ آفرینی کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔

دوسر ا مغالطہ :۔احراری معترض نے دوسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ گویا ’’یہودی‘‘ اس قوم کا نام ہوا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائی۔حالانکہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھے اور حضر ت موسیٰ علیہ السلام خود اپنی نبوت سے پہلے بھی یہودی تھے۔پولوس رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کے باوجود خود کو ’’یہودی‘‘قرار دیتا ہے۔ (دیکھو اعمال باب ۲۲ آیت ۳)

کیونکہ یہودی’’مذہب‘‘نہیں بلکہ نسل ہے آج اس وقت دنیا میں لاکھوں عیسائی موجود ہیں جو نسلاً یہودی ہیں۔ پس احراری معترض کا یہ کہنا کہ موسیٰ کے ماننے والے ’’یہودی‘‘ کہلائے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے عیسائی بالبداہت باطل ہے۔

تیسرا مغالطہ :۔احراری معترض نے تیسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ گویا ’’مسلمان‘‘ کا نا م اور لقب صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مسلمانوں کوآپ پر ایمان لانے کے باعث دیا گیا۔ حالانکہ قرآن مجید سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام ’’مسلم‘‘ تھا۔قرآن مجید میں ہے۔

الف۔(اٰل عمران:۶۸) کہ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ خالص مسلمان تھا۔

ب۔(البقرۃ :۱۳۳)کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوب ؑنے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے دین (اسلام) کو چن لیا ہے۔ پس تم پر ایسی حالت میں موت آئے جبکہ تم مسلمان ہو۔

ج۔حضرت یوسف علیہ السلام کی دعاقرآن مجید میں ہے:۔

…………(یوسف:۱۰۲)

کہ اے میرے خدا ! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا دے۔

د۔موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی ’’مسلم‘‘ ہی تھا۔قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے کہا۔

’’‘‘(یونس:۹۱) کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ اس خد ا کے سوا اور کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لاتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔اگر موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام ’’یہودی‘‘ تھا تو فرعون کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں ’’یہودی‘‘ ہوتا ہوں نہ یہ کہ ’’مسلمان‘‘ ہوتا ہوں۔

ھ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی ’’مسلمان‘‘ ہی تھا۔ملاحظہ ہو قرآن مجید میں ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو جو خط لکھا اس میں لکھا ۔’’(النمل :۳۲)کہ میرے بالمقابل سر کشی نہ کرو او رمیرے پاس ’’مسلمان‘‘ ہو کر آجاؤ۔

و۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی ’’مسلمان‘‘ ہی تھا۔قرآن مجید میں ہے:۔

(اٰل عمران:۵۳)کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ان کے مخالفین ان کی نبوت کے انکار پر مصر ہیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ خدا کے دین کا مددگار کون ہے؟حواریوں نے عرض کیا ہم خدا کے دین کے انصار ہیں۔پس اے عیسیٰ آپ گواہ رہیں کہ ہم ’’مسلمان‘‘ ہیں۔پس قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہر سچے نبی کے پیرؤں کا نام مسلمان ہی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (اٰل عمران :۲۰)خدا کے نزدیک صحیح اور درست ایک ہی مذہب ہے جس کا نام اسلام ہے۔ پس خدا کی طرف سے جو بھی نبی آئے گا وہ خدا کے دین اسلام ہی کی طرف انسانوں کو دعوت دے گا اور اس کے ماننے والوں کا نام ’’مسلم‘‘ ہی ہوگا۔
 
Top Bottom