اعتراض 31 ۔ بخاری میں ہے کہ نبیوں کا ورثہ نہیں ہوتا ، لیکن مرزا صاحب کا ورثہ تھا۔ رزا صاحب نے لڑکیوں کو ورثہ نہ دیا

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 31 ۔ ( ۱)۔ بخاری میں ہے کہ نبیوں کا ورثہ نہیں ہوتا ، لیکن مرزا صاحب کا ورثہ تھا۔ (۲) مرزا صاحب نے لڑکیوں کو ورثہ دینے کی مسلمانوں کو تلقین نہیں کی اور نہ آپ کی لڑکیوں کو ورثہ ملا۔

پہلے سوال کا جواب ( ۱) اسی بخاری میں جہا ں آنحضرت صلعم کی حدیث انبیا ء کے ورثہ نہ ہونے والی درج ہے۔ وہیں پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی مندرجہ ذیل تشریح بھی درج ہے:۔

’’یُرِیْدُ بِذَالِکَ نَفْسَہٗ ‘‘( بخاری کتاب المغازی باب حدیث نبی نضیر نیز تجرید بخاری مترجم اردو جلد۲ صفحہ ۲۴۵ روایت نمبر۴۳۵ قصہ بنو نضیر)یعنی آنحضرت صلعم کی اس سے مراد صرف اپنا وجود تھا۔ باقی انبیاء کی وراثت کے متعلق بیان کرنا مقصود نہ تھا۔

(۲) قرآن مجید سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس تشریح کی تائید ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیاء کاورثہ ان کے ورثاء نے لیا اور انبیاء نے بھی اپنے باپ کا ورثہ لیا۔ ملاحظہ ہو۔

الف۔ حضرت داؤدعلیہ السلام خدا کے نبی اور بادشاہ تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کے وارث ہوئے۔ تخت کے بھی اور نبوت کے بھی۔ قرآن مجید میں ہے۔ ( النمل:۱۶) کہ حضرت سلیما ن علیہ السلام وارث ہوئے حضرت داؤد ؑ کے۔ گویا نبی (سلیمان ؑ)نے ورثہ لیا اور نبی ( داؤد) کا ورثہ ان کے وارث نے حاصل بھی کیا۔ چنانچہ حضرت امام رازی ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’قَالَ قَتَادَۃُ وَرَّثَ اللّٰہُ تَعَالٰی سُلَیْمَانَ مِنْ دَاوٗدَ مُلْکَہٗ وَ نُبُوَّتَہٗ۔ ‘‘

(تفسیر کبیرزیر آیت ۔ الانبیاء:۷۹)

یعنی حضرت قتادۃ ؓ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو حضرت داؤد ؑ کا ان کی حکومت اور نبوت دونوں کا وارث کیا۔ پس حضرت سلیمان ؑ باوجود نبی ہونے کے اپنے باپ حضرت داؤد ؑ نبی کے دنیوی و دینی، جسمانی و روحانی میراث کے پانے والے ہوئے۔ سلیمان نے ہزار گھوڑا ورثہ میں پایا۔

(قصص الانبیاء مصنفہ عبدالواحد قصہ حضرت سلیمانؑ ، تفسیر خازن زیر آیت الانبیاء:۷۹ و معالم التنزیل زیرآیت النمل:۱۶)

ب۔ اسی طرح حضرت امام رازی ؒ کی تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۴۳۶ مطبوعہ مصر پر لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کا ’’تابوت سکینہ‘‘ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل فرمایا گیا اس میں سب نبیوں کی تصویریں تھیں اور وہ اولادِ آدم میں بطور ورثہ منتقل ہو تے ہوتے حضرت یعقوب ؑ تک پہنچا ( اصل عبار ت ملاحظہ ہو زیر عنوان ’’تصویر کھنچوانا‘‘ صفحہ ۶۹۶پاکٹ بک ہذا۔

ثابت ہوا کہ یہ صندوق حضرت اسحاقؑ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ورثہ میں پایا۔

ج۔ حضرت زکریا ؑ نے خدا سے دعاکی کہ اے خدا! مجھے بیٹا عطا کر جو’’(مریم:۷) کہ وہ بیٹا میرا اور یعقوب کے گھرانے کا وارث ہو۔اِنَّ الْمُرَادَ مِنْ وِرَاثَۃِ الْمَالِ (لوذی جلد۲ صفحہ ۹۲)

دوسرے سوال کا جواب :۔ تمہارایہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بیٹیوں کو ورثہ نہیں ملا سفید جھوٹ ہے۔ کاغذاتِ مال اس امر کے گواہ ہیں کہ حضرت اقدس کی دونوں بیٹیوں کو شریعتِ اسلام کے عین مطابق پورا پورا حصہ دیا گیا اور وہ اپنے اپنے حصوں پر قابض ہیں۔ یوں ہی اپنے پاس سے گھڑ گھڑ کے جھوٹے اعتراض کرنے سے کیا فائدہ ہے؟نیز دیکھو کتاب حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے صفحہ ۱۱۸، باقی رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی یا نہیں کہ لڑکیوں کو ورثہ دینا چاہیے تو اس کا جواب یقینا اثبات میں ہے۔ مندرجہ ذیل حوالجا ت ملاحظہ ہوں۔

۱۔عام تعلیم کہ قرآن مجید کے تمام حکموں پر عمل کرو۔

(کشتی نوح صفحہ۲۴، صفحہ۲۵ طبع اوّل و ایام الصلح صفحہ ۸۶، صفحہ ۸۷)

۲۔خاص مسئلہ وراثت یا لڑکیوں کو حصہ دینے کے متعلق۔

( چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۲۱۱)

۳۔ فاسقہ کے حقِ وراثت کے متعلق فتویٰ

( بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶ کالم نمبر ۳ و فتاویٰ احمدیہ صفحہ ۱۴۹ مطبوعہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۵ء)

۴۔ بیوی کی وفات پر مہر شرعی حصص کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔ ( فتا ویٰ احمدیہ جلد۲ صفحہ ۱۲، صفحہ۱۳)

۵۔ نیز دیکھو آریہ دھرم صفحہ۱ تا صفحہ ۷۸ طبع اوّل و مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۱۴۳ تا ۱۸۸۔ ۱۸۸۸ء

۶۔ ’’ورثہ کے متعلق…………قرآن شریف نے مرد سے عورت کا حصہ نصف رکھا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ نصف اس کو والدین کے ترکہ میں سے مل جاتا اور باقی نصف وہ اپنے سسرال میں سے جا لیتی ہے۔

(الحکم جلد ۱۲ نمبر۲۲ مورخہ ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۸ کالم۳)
 
Top Bottom