اعتراض 31۔ حضرت مرزا صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں تحریر فرمایا ہے کہ میں غیر تشریعی نبی ہوں۔مگر اربعین میں لکھا ہے کہ میں صاحبِ شریعت نبی ہوں۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں تحریر فرمایا ہے کہ میں غیر تشریعی نبی ہوں۔ صاحب شریعت نہیں۔ مگر اربعین نمبر ۴ صفحہ ۶ طبع اول متن و حاشیہ پر لکھا ہے کہ میں صاحبِ شریعت نبی ہوں۔

جواب:۔ سراسر افتراء ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ہر گز اربعین چھوڑ کسی اور کتاب میں بھی تحریر نہیں فرمایا۔ کہ میں تشریعی نبی ہوں بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنی آخری تحریر میں بھی شدّت کے ساتھ اس الزام کی تردید فرمائی ہے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:۔

’’یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ میں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتا۔ اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں۔ یہ الزام میرے پر صحیح نہیں۔ بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر ایک کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے۔‘‘ (اخبار عام ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء)

سو جو حوالہ تم اربعین نمبر ۴ صفحہ ۶ طبع اول متن و حاشیہ سے پیش کرتے ہو۔ اس میں ہر گز یہ نہیں لکھا ہوا کہ میں تشریعی نبی ہوں۔ آپ نے تو مخالفین کو ملزم کرنے کے لیے کی بحث کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر کہو کہ والا ۲۳ سالہ معیار تشریعی انبیاء کے متعلق ہے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔

پھر معترض کو مزید ملزم اور لاجواب کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ:۔

’’تمہاری مراد ’’صاحبِ شریعت‘‘ سے کیا ہے اگر کہو ’’صاحب شریعت‘‘ سے مراد وہ ہے جس کی وحی میں امر اور نہی ہو تو اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘

گویا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مخالفین کو محض ’’اس تعریف کی رو سے ’’ملزم‘‘ کیا ہے۔ نہ یہ کہ صاحبِ شریعت نبی کی تعریف اپنی مسلمہ پیش کی ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے آگے جو اپنی وحی ہو پیش کی ہے۔

’’‘‘ (سورۃالنور :۳۱)

(اربعین نمبر ۴ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۳۵۔۴۳۶)

یہ قرآن مجید کی آیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ’’تجدید‘‘ کے رنگ میں نازل ہوئی ہے۔ پس حضرت اقدس علیہ السلام کی وحی قرآنی شریعت کی ’’تجدید‘‘ کر کے از سرِ نو اس کو دنیا میں شائع کرنے کے لئے ہے۔ مستقل طور پر اس میں نہ کوئی نئے اوامر ہیں نہ نواہی۔ پس آپ کا دعویٰ ’’صاحب شریعت‘‘ ہونے کا نہ ہوا۔ بلکہ شریعت کے مجدد ہونے کا ہوا۔

چنانچہ اسی صفحہ ۶ اربعین نمبر ۴ طبع اوّل دسمبر ۱۹۰۰ء کے حاشیہ پر حضرت اقدس علیہ السلام نے صاف طور پر تحریر فرما دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے امر اور نہی میری وحی میں ’’تجدید‘‘ کے رنگ میں نازل فرمائے ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ صاحب شریعت نبی اس کو کہتے ہیں۔ جس کی وحی میں نئے اوامر اور نئے نواہی ہوں۔ جو پہلی شریعت کے اوامر ونواہی کو منسوخ کرنے والے ہوں۔ مگر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی میں ہرگز ایسا نہیں۔

لہٰذا یہ کہنا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ محض افتراء اور بہتان ہے کہاں الزامی جواب جو حضرت اقدس علیہ السلام نے محولہ عبارت میں دیا ہے۔ اور کہاں اپنی طرف سے اپنا ایک عقیدہ بیان کرنا ہے ؂

کہا ہم نے جو دل کا درد تم اس کو گلہ سمجھے

تصدّق اس سمجھ کے مرحبا سمجھے تو کیا سمجھے
 
Top Bottom