mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 25۔ بہشتی مقبرہ تو قبروں کی تجارت ہے ۔

جواب۔
۱۔ قرآن مجید میں ہے:۔

(سورۃ توبۃ: ۱۱۱) یعنی اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ یہ سودا کیا ہے کہ ان کی جانیں اور ان کے مال لے لئے ہیں اور ان کے بدلے ان کو ’’جنت‘‘ دی ہے۔

۲۔ اسی طرح سورۃ صف آیت ۱۱، ۱۳ رکوع ۲ میں ’’احمد رسول‘‘ کے متبعین کو بالخصوص مخاطب کر کے فرمایا:۔

’’ (سورۃ الصّفّ:۱۱ تا۱۳)

اس آیت میں ان مومنوں کے لیے جو ایمان اور عملی صورت میں مالی و جانی قربانیاں کرنے والے ہوں جنت کا وعدہ دیاگیا ہے۔

۳۔ (البقرۃ:۱۸۱)

یعنی تم میں سے جب کسی کو موت آوے اس حا لت میں کہ وہ مال بطور ترکہ چھوڑنے والا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ معروف کے مطابق والدین اور اقربین کو وصیت کر جائے۔

۴۔ شریعتِ اسلامیہ میں بموجب ارشاد نبوی صلعممندرجہ بخاری شریف کتا ب الوصایا بَابُ الْوَصِیَّۃِ بِالثُّلُثِ اپنی متروکہ جا ئیداد کے ۱/۳حصہ کے بارے میں ہر شخص کو وصیت کرنے کاحق ہے۔

۵۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

’’ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۲۱ حاشیہ)


۶۔ لیکن بایں ہمہ مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں:۔

الف۔’’مَثَلُ اَھْلِ بَیْتِیْ مِثْلُ سَفِیْنَۃِ نُوْحٍ مَنْ رَکِبَھَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْھَا غَرَقَ۔ ‘‘

(مستدرک امام حاکمؒ بحوالہ جامع الصغیر للسیوطیؒ جلد۲ باب المیم و تجرید الاحادیث از علامہ مناوی صفحہ ۳۰۷)

کہ میرے اہلِ بیت کی مثال نوح کی کشتی کی سی ہے جوکوئی اس کشتی پر سوار ہو گا نجات پائے گا اور جوان سے پیچھے ہٹے گا وہ غرق ہو جائے گا۔

ب۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تذکرۃ الاولیا ء میں حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔

’’لوگوں نے پوچھا آپ کی مسجد اور دوسری مسجدوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا۔ بروئے شریعت سب یکساں ہیں۔ مگر بروئے معرفت اس مسجد میں بہت طول ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ دوسری مسجدوں میں سے ایک نور نکل کر آسمان کی طرف جاتاہے مگر اس مسجد پر ایک نور کاقُبّہ بناہوا ہے اور آسمان سے نورِ الٰہی اس طرف آتا ہے۔ فرماتے ہیں ایک روز ندا سنی کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص تمہاری مسجد میں آئے گا اس پر دوزخ حرام کردی جائے گی۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء باب ۷۷ اردو ترجمہ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز لاہور بار سوم صفحہ ۲۹۴)

نوٹ:۔ یاد رہے کہ حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اﷲ علیہ وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’شرف اہلِ زمانہ اور اپنے زمانہ میں یگانہ ابو الحسن علی بن احمد الخرقانی رحمۃ اﷲ علیہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوئے ہیں۔ اور ان کے زمانے میں سب اولیاء ان کی تعریف کرتے تھے……اور استاد ابو القاسم عبدالکریم قشیری رحمۃ اﷲ علیہ سے میں نے سنا ہے کہ جب ولایت خرقان میں آیا تو اس پیر ( یعنی ابو الحسن خرقانی ؒ۔ خادمؔ)کے دبدبہ کے باعث میری فصاحت تمام ہوئی اور عبارت نہ رہی اور میں نے خیا ل کیا کہ میں ولایت سے جداہو گیاہوں۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش و محمد جلال الدین فصل سوم ذکر حضرت ابوالحسن بن احمد الخرقانی ؒ باب چھٹا)

ج۔ حضرت ابو نصر سراج رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’فرماتے ہیں کہ جو جنازہ میری قبر کے پاس سے گزرے گااس کی مغفرت ہو گی۔‘‘

( تذکرۃالاولیاء ایڈیشن متذکرہ بالا صفحہ ۳۰۰ باب نمبر ۷۹)

د۔ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃاﷲ علیہ کے ساتھ محمود غزنوی کی ایک گفتگو کا حال ان الفاظ میں مذکور ہے:۔

’’محمود نے کہا بایزیدؔ ( رحمۃاﷲ علیہ)کی نسبت کچھ فرمائیں۔آپ ( حضرت ابو الحسن خرقانی ؒ) نے کہا کہ بایزیدؔ ؒ ٔنے فرمایا ہے کہ جس نے مجھ کودیکھا وہ شفاعت سے بے خوف ہو گیا۔ محمودؔ نے کہا کہ کیا بایزیدؒ پیغمبرخدا صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہیں؟ ابو جہل اور ابو لہب نے ان کو دیکھا مگر ان کی شفاعت نہ کی گئی؟ فرمایا کہ ادب کرو پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کو سوائے ان کے چاروں صحابہ کرام ؓ کے اور کسی نے نہ دیکھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے۔ ’’۔‘‘ (الاعراف:۱۹۹) محمود کو یہ بات پسند آئی۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء مترجم اردو باب ۷۷ صفحہ ۲۷۹ و ظہیرالاصفیاء ترجمہ اردو)

(تذکرۃ الاولیاء باب ۷۷ صفحہ ۴۸۲ مطبوعہ شیخ چراغدین سراجدین کشمیری بازار لاہور)
 
Top Bottom