اعتراض 22۔ مرزا صاحبؑ بعض اوقات ایک پاؤں کا جوتا دوسرے میں پہن لیتے تھے۔ کبھی قمیض کے بٹن نیچے اوپر لگا لیتے تھے

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 22۔ مرزا صاحبؑ بعض اوقات ایک پاؤں کا جوتا دوسرے میں پہن لیتے تھے۔ کبھی قمیض کے بٹن نیچے اوپر لگا لیتے تھے عام طور پر لو گوں کے نا م
بھول جاتے تھے۔ کیااس قسم کا شخص بھی مقرب بارگاہ الٰہی ہو سکتا ہے ؟

جواب۔ یہی تو مقربان بارگاہ الٰہی کی علامت ہے کہ ان کو انقطاع الی اﷲ کی وہ حالت میسر ہوتی ہے جس سے دنیا وار لوگ بکلی محروم ہوتے ہیں ان کی یہ محویت اس لئے ہوتی ہے کہ ان کو دنیا اور اس کے دھندوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا۔ کیونکہ وہ دن رات اپنے خالق کی طرف سے مفوضہ فرائض کی سر انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں ان کو دنیا اور دنیا کے دھندوں میں قطعاً انہماک نہیں ہوتا کیونکہ وہ دنیا میں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ؂

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

(درثمین اردو صفحہ ۸۲)

۱۔ حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:۔’’اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ۔‘‘(کنز العمال جلد ۱۱ صفحہ ۴۲۵ نیا ایڈیشن )یعنی دنیا میری نہیں بلکہ تمہاری ہے اور تم ہی اپنی دنیا کے امور کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو۔

(نیز دیکھیں مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال عن انس ؓ و عائشہ ؓ)

۲۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے ہم کو ہدایت فرمائی ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کے جاتے رہنے میں خطرہ نہیں۔ ان کی طرف دل مشغول نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب تو فانی کی طرف مشغول ہو گا تو باقی سے درپردہ رہے گا۔ جبکہ نفس اور دنیا طالب کے واسطے حق سے حجاب ہوتا ہے۔ اس لئے دوستانِ خداوند عز وجل نے اس سے منہ موڑا ہے۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم ا ردو مولوی فیروزالدین صاحب فصل اوّل ذکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ)

پھر فرماتے ہیں:۔

’’ایک گروہ نے لباس کے ہونے یا نہ ہونے میں تکلف نہیں کیا۔ اگر خداوند تعالیٰ نے ان کو گڈری دی تو پہن لی۔ اور اگر قبادی تو بھی پہن لی۔ اور اگر ننگا رکھا تو بھی ننگے رہے۔ اور میں کہ علی بن عثمان جلابی رضی اﷲ عنہ کا بیٹا ہوں اس طریق کو میں نے پسند کیاہے اور اپنا لباس پہننے میں ایسا ہی کیا ہے۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو چوتھا باب فصل سوم )


۳۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:۔

الف۔ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ فرید الدین عطار تحریر فرماتے ہیں:۔

’’تیس سال تک ایک کنیز آپ کے ہاں رہی، لیکن آپ نے اس کا منہ تک نہ دیکھا۔ آپ نے اس لونڈی کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس تیس سالی کی مدت مجھ کو یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے سوا کسی اورکی طرف دھیان کروں۔ اس وجہ سے تیر ی طرف متوجہ نہ ہو سکا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیا ء اردو ترجمہ صفحہ ۳۷ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )

(ب) حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت لکھا ہے:۔

’’آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرید جو بیس سال سے ایک دم کے لئے آپ سے جدا نہ ہوا تھا، جب بلاتے تھے تو اس سے اس کا نام دریافت فرماتے۔ ایک دن اس مرید نے عرض کی کہ حضرت ! شاید آپ مذاق میں ایسا کہتے ہیں اور ہر روز میرا نام دریافت فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ میں مذاق نہیں کرتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کے نام نے تمام مخلوق کو میرے ذہن سے فراموش کر دیا ہے۔ اگر چہ میں تیرا نام یاد کرتا ہوں لیکن پھر بھول جاتا ہوں۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۱۹۔ باب چودھواں شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )

ج۔ حضرت داؤ د طائی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں لکھا ہے:۔

’’ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی ہے ، گر پڑے گی۔ فرمایا بیس سال ہوئے میں نے چھت کو نہیں دیکھا پھر آپ سے پوچھا گیاکہ خلقت سے کیوں نہیں ملتے ؟ فرمایا اگر اپنے آپ سے فراغت ہو تو دوسروں کے پاس بیٹھوں۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۵۴۔اکیسواں باب شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )؂

د۔ حضرت ابو سفیان ثوری ؒ کی نسبت لکھا ہے:۔

’’ایک دفعہ اآپ نے ایک کپڑا الٹاپہن لیا۔ لوگوں نے کہا کہ سیدھا کر کے پہنو مگر آپ نے نہ کیا اور فرمایا کہ یہ کپڑا میں نے خدا کی خاطر پہنا ہے۔ خلقت کی خاطر اس کو بدلنا نہیں چاہتا۔ ‘‘

(تذکرۃ الاولیا ء اردو صفحہ ۱۴۰۔ سولہواں باب شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )
 
Top Bottom