اعتراض 17 ۔ اعتراض۔ مسیح یہ مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے چندہ کیوں لیا ؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 17 ۔ اعتراض۔ مسیح یہ مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے چندہ کیوں لیا ؟

حضرت مرز ا صاحب چندہ لیتے ہیں۔ حالانکہ مہدی نے تو مال بانٹنا تھا یہاں تک کہ کوئی قبول کرنے والا باقی نہیں رہے گا۔
جواب:۔ مولویوں کو پیسو ں کی خاص طور پر فکر ہوتی ہے۔ حدیث میں ’’یَفِیْضُ الْمَالُ ‘‘ ہے ۔(دیکھو ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسٰی بن مریم)یعنی اس زمانہ میں دولت اور مال زیادہ ہوگا۔ جیسا کہ اب ہے۔

۲۔ اگر’’یَفِیْضُ الْمَالُ ‘‘ (ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسٰی بن مریم )کو صحیح سمجھ کر یہ معنی کئے جائیں کہ مسیح موعودؑآکر مال تقسیم کرے گا مگر کوئی اس کو قبول کرے گا تو اس سے مراد دنیوی مال و دولت تو ہو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ترمذی شریف کی ایک اور صحیح حدیث میں ہے:۔ ’’لَوْ کَانَ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَادِیًا مِّنْ مَالٍ لَابْتَغٰی عَلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْکَانَ لَہٗ ثَانِیًا لَابْتَغٰی عَلَیْہِ ثَالِثًا وَلَا یَمْلَاءُ جَوْفَ ابْنِ اٰدَمَ اِلَّا التُّرَابُ ‘‘ (ترمذی کتاب المناقب ابی ابن کعب)

’’اگر انسان کو ایک وادی مال و دولت سے بھرپور مل جائے تواس پر بھی وہ ضرور دوسری وادی کا آرزومند ہوگا۔ اور جب اس کو دوسری وادی بھی حاصل ہو جائے تو اس پر بھی وہ تیسری وادی کا خواہشمند ہوگا۔ اور( سچ تو یہ ہے کہ) انسان کے پیٹ کو سوائے خاک کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ (یعنی قبر میں ہی جا کر اس کی حرص مٹتی ہے ۔)‘‘

پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ مہدی کے وقت میں یہ انسانی فطرت بدل جائے اور آنحضرت صلعم کا یہ فرمان غلط ہو جائے۔ پس مہدی کے مال بانٹنے سے مراد وہ علوم آسمانی اور حقائق معارف کا خزانہ ہے جو مسیح موعودؑنے لوگوں کو دیا اور جس کو تمہارے جیسے بد قسمت قبول نہیں کرتے۔

۳۔ اس مال سے مراد وہ متعدد انعامات ہیں جو آپ نے اپنی مختلف کتابوں کے جواب لکھنے والوں کے لیے مقرر فرمائے۔ مگر کسی کو ان کے قبول کرنے کی جرأ ت نہیں ہوئی۔


۴۔ قرآن مجید میں ہے:۔الف۔(المجادلۃ:۱۳)کہ اے مسلمانو ! جب تم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشورہ کرنے جاؤ تو کچھ چندہ بھی لے جایا کرو۔
ب۔(التوبۃ:۱۱۱)
کہ اﷲ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے مال اور ان کی جانیں خرید کر اس کے عوض ان کو جنت دے دیا ہے۔

ج۔ قرآن مجیدمیں سینکڑوں آیات انفاق فی سبیل اﷲ کے متعلق ہیں۔
۵۔الزامی جواب

بخاری میں ایک نہایت دلچسپ حدیث ہے۔ جس کے مطابق حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ بعض صحابہؓ کسی گاؤں میں بحالت سفر ٹھہرے اور اہل گاؤں سے دعوت طلب کی، مگر ان لوگوں نے مہمانی سے انکار کیا۔ اتنے میں اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ سب علاج کئے لیکن فائدہ نہ ہوا۔ کسی نے انہیں کہا کہ گاؤں سے باہر جو لوگ (صحابہ)ٹھہرے ہوئے ہیں ان سے پوچھو۔ شاید ان میں سے کسی کو کوئی علاج معلوم ہو۔ چنانچہ جب وہ لوگ صحابہ کے پاس آئے تو ایک صحابی نے کہا ہاں میں دم کرنا جانتا ہوں۔ مگر چونکہ تم لوگوں نے ہمیں مہمانی دینے سے انکار کر دیا تھا اس لئے اب بلااُجرت علاج نہیں کروں گا۔ ا س پر ان لوگوں کے ساتھ ان کا معاوضہ چند بھیڑیں ، بکریاں مقرر ہوا۔ اس صحابی نے قبیلہ کے سردار پر’’‘‘پڑھ کر دم کیا جس سے وہ یکدم اچھا ہو گیا اور اس صحابی کو گاؤں والو ں نے معاوضہ ادا کر دیا۔ اس پر باقی صحابہ نے کہا اس معاوضہ میں ہمارا بھی حق ہے پس ہمارا حصہ بانٹ دو مگر وہ صحابی جنہوں نے دم کیا تھا کہتے تھے کہ چونکہ دم میں نے کیاہے اس لئے یہ میرا ذاتی حق ہے کسی دوسرے کا اس میں حصہ یا دخل نہیں۔ اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ آنحضرت صلعمکے پاس چلتے ہیں جو فیصلہ حضورؐ کریں۔ آخر وہ سب اصحاب آنحضرت صلعم کے حضور پیش ہوئے۔ حضور صلعم نے سب واقعہ سنا۔ پھر اس دم کرنے والے صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا:۔

’’وَمَا یَدْرِیْکَ اَنَّھَا رُقْیَۃٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ اَصَبْتُمْ اَقْسِمُوْا وَاضْرِبُوْا لِیْ مَعَکُمْ سَھْمًا فَضَحِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‘‘

(بخاری کتاب الاجارۃ باب مَا یُعْطِیْ فی الرقیۃ علٰی أحیاءِ العَرَب بفاتحۃِ الکتاب)

یعنی آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم کو کیسے معلوم ہو ا کہ (سورۃ فاتحہ سے) جھاڑ پھونک یا دم کیا جاتا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا اب اس کو بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگا دو۔‘‘ یہ کہہ کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے۔

سوال یہ ہے کہ(۱) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا حصہ کیوں نکلوایا۔ (۲) مسکرائے کیوں تھے ؟

۶۔ اسی طرح بخاری کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ فی قضاء الدیوان پر ہے کہ آنحضرت صلعم سے ایک شخص نے اپنا سابقہ قرض طلب کیا اور آپؐسے جھگڑا کر کے سخت کلامی کی۔ جس پر صحابہ اسے مارنے لگے مگر آنحضرتؐنے صحابہ کو اس سے منع فرمایا مگر اپنا قرض صحابہؓ سے ادا کروایا۔
 
Top Bottom