اعتراض 14۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے حج کیوں نہیں کیا ؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 14۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے حج کیوں نہیں کیا ؟

الجواب:۔ حج کے لئے بعض شرائط ہیں (۱) راستہ میں امن ہو۔(اٰل عمران:۹۸) (۲) صحت ہو۔(۳) بوڑھے والدین نہ ہوں۔(دیکھوتفسیر کبیر امام رازی زیر آیت آل عمران:۹۸۔ نیز دیکھو کشف المحجوب مصنفہ داتا گنج بخشؒ مترجم اردو صفحہ ۳۷۷۔ ما لا بد منہ اردو صفحہ ۶۸ تاجران کتب برکت علی اینڈ سنز لاہور)جن کی خدمت اس پر فرض ہو یا چھوٹی اولاد نہ ہو جس کی تربیت اس پر فرض ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں تینوں شرائط نہ پائی جاتی تھیں۔ لاہور گئے، رستہ میں قتل کرنے کے لئے لوگ بیٹھ گئے۔ امرتسر اور سیالکوٹ میں گئے مخالفین نے اینٹیں ماریں۔ دہلی گئے وہاں آپ پر حملہ کیا گیا۔ اور مکہ میں تو حضرت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔ پس آپ پر حج کے لیے جانا فرض نہ تھا کیونکہ حج صرف اس حالت میں ہوسکتا ہے کہ رستہ میں امن ہو۔ خود آنحضرت صلعم نے حدیبیہ کے سال حج نہیں کیا۔ محض اس وجہ سے کہ کافر مانع ہوئے۔

۲۔ آپ کو دوران سر اور ذیابیطس کی دو بیماریاں تھیں۔ ۳۔آپ کے والد بزرگوارآپ کے سر پر چالیس سال کی عمر تک زندہ رہے اور اس کے بعد اولاد تھی۔

۴۔ تذکرۃ الالیاء میں ہے۔’’ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ حج کا کیا۔ جب میں بغداد پہنچا تو حضرت ابو حازم مکیؒ کے پاس گیا۔ میں نے ان کو سوتے پایا۔میں نے تھوڑی دیر صبر کیا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو فرمانے لگے کہ میں نے اس وقت حضرت پیغمبر علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ کو تیرے لئے پیغام دیا اور فرمایاکہ کہہ دو اپنی ماں کے حقوق کی نگہداشت کرے کہ اس کے لئے وہی بہتر ہے حج کرنے سے۔ ا ب تو لوٹ جا۔ اور اس کے دل کی رضا طلب کر۔ میں واپس پھرا اور مکہ معظمہ نہ گیا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء ذکر ابوحازم مکیؒ باب نمبر ۷ صفحہ ۶۸۔ انوار الازکیاء اردو ترجمہ ظہیر الاصفیاء صفحہ ۵۷)

بھلا ایک ماں کی خدمت تو حج سے بہتر ہے پھر اسلام( جس پر ہزاروں مائیں قربان کی جاسکتی ہیں) کی خدمت کرنا کیوں حج سے بہتر نہیں۔

۵۔’’فَجَائَتْ اِمْرَأَۃٌ مِنْ خَثْعَمٍ…… فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ فَرِیْضَۃَ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ فِی الْحَجِّ اَدْرَکَتْ اَبِیْ شَیْخًا کَبِیْرًا لَا یَثْبُتُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ اَفَاَحُجُّ عَنْہُ قَالَ نَعَمْ۔ ‘‘

( بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہٖ)

خثعم قبیلہ کی ایک عورت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا یا رسول اﷲ میرا باپ بہت بوڑھا ہے اور اس پر اﷲ تعالیٰ کا فریضہ حج فرض ہوگیا ہے۔ وہ بوجہ بڑھاپا اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہاں۔ یہی حدیث مسلم کتاب الحج باب الحج عن العاجز……مع شرح نووی میں بھی ہے۔

۶۔’’عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اَبِیْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ اَفَاَحُجُّ عَنْہُ قَالَ اَرَاَیْتَ لَوْ کَانَ عَلٰی اَبِیْکَ دَیْنٌ اَکُنْتَ تَقْضِیْہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فََدَیْنُ اللّٰہِ اَحَقُّ۔ ‘‘ ( نسائی کتاب مناسک الحج باب تشبیہ قضاء الحج بقضاء الدین)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عکرمہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے آنحضرت صلعم سے عرض کیا۔ یا رسو ل اﷲ میرا باپ فوت ہوگیا اور اس نے حج نہیں کیا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ فرمایا کیا اگر تیرے باپ پر کوئی قرضہ ہوتا تو تو اس کو ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا پھر اﷲ کا قرضہ زیادہ قابل ادائیگی ہے یعنی اس کو ادا کردو۔ حضرت مسیح موعودؑکی طرف سے بھی حج بدل کرایا گیا اور حضرت حافظ احمد اﷲ صاحب مرحوم نے فریضۂ حج ادا کیا۔

فَجِّ الرَّوْحَاءِ

آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ مسیح موعود حج کرے گا اور فَجِّ الرَّوْحَاءِ سے عمرہ کرے گا۔ آنحضرتؐ نے مسیح موعودؑکو حج کرتے دیکھا ہے:۔

الجوا ب۔۱۔ آنحضرت صلعم نے دجّال کو بھی حج کرتے دیکھا ہے۔ کیا دجّال بھی حاجی ہوگا ؟ ’’رَجُلٌ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ فَقُلْتُ مَنْ ھٰذَا قَالُوا الْمَسِیْحُ الدَّجَّالُ۔ ‘‘

(بخاری کتاب بدء الخلق کتا ب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم )

کہ آنحضرت صلعم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا آپ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ دجّال ہے۔ باقی رہی حدیث لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ حَاجًّا اَوْ مُعْتَمِرًا اَوْ لَیَثْنِیَنَّھُمَا۔ (صحیح مسلم کتاب الحج باب اھلال النبیؐ و ھدیہ) تو یاد رکھنا چاہیے کہ (۱)حدیث کے الفاظ میں اَوْ۔ اَوْ۔ اَوْ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آنحضرتؐکے اصل الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔ یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی محمد بن مسلم بن شہاب الزہری ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے’’قَالَ اَبُو الزَّنَّادِ کُنَّا نَکْتُبُ الْحَلَالَ وَالْحَرَامَ وَکَانَ ابْنُ شُھَّابٍ یَکْتُبُ کُلَّمَا سَمِعَ۔ ‘‘ (تہذیب التہذیب باب المیم زیرلفظ محمد)۔ کہ ابولزناد نے کہا ہے کہ ہم تو حلال اورحرام کی بابت حدیث جمع کرتے تھے۔ مگر ابن شہاب جو سنتا تھا لکھ لیتا تھا۔پس و ہ حجت نہیں ہے اور ابو داؤد کہتے ہیں کہ’’قَدْ رُوِیَ مِأَتَیْنِ عَنْ غَیْرِ الثِّقَاتِ کہ زہری کی روایت کردہ روایتوں میں دو صد کے قریب روایتیں غیرثقہ راویوں سے مروی ہیں۔ (تہذیب التہذیب باب المیم زیرلفظ محمد)نیز اس کے متعلق علامہ ذہبی کی رائے یہ ہے کہکَانَ یُدَلِّسُ فِی النَّادِرِ۔ (میزان الاعتدال زیرلفظ محمدبن مسلم)

اسی طرح حدیث کا دوسرا راوی سعید بن منصور بن شعبۃ الخراسانی ابو عثمان ہے اس کے متعلق لکھا ہے کہ اِذَا رَأَی فِیْ کِتَابِہٖ خَطَاءً لَمْ یَرْجِعْ عَنْہُ۔ (تہذیب التہذیب باب الحاء زیرلفظ حُرملۃ و میزان الاعتدال زیر لفظ سعید بن منصور) یعنی یہ راوی اتنا ضدی تھا کہ اگر اپنی تحریر کردہ حدیث میں کوئی غلطی بھی دیکھتا تھا تو اپنی غلطی سے رجوع نہ کرتا تھا۔ اسی طرح دوسری سند میں سعد بن عبدالرحمن الفہمی بھی ہے جس نے یہ روایت زہری سے لی ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے کہ ’’وَھُوَ دُوْنَھُمْ فِی الزُّھْرِیِّ‘‘……فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنِ الزُّھْرِیِّ بَعْضُ الْاِضْطِرَابِ۔ (تہذیب التہذیب باب السین زیرلفظ سعد)کہ لیث کی جو روایت زہری سے ہو وہ مشکوک ہوتی ہے۔ پس روایت متنازعہ بھی مشکوک ہے۔ تیسرے طریقہ میں حرملہ بن یحییٰ بن عبداﷲ بھی ضعیف ہے۔ ابو حاتم اس کے متعلق کہتے ہیں کہ’’لَا یُحْتَجُّ بِہٖ ‘‘ کہ اس کا قول حجت نہیں۔ نیز یہ روایت اس راوی نے ابن وہب سے لی ہے۔ حالانکہ یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان دشمنی تھی۔ پس یہ روایت حجت نہیں۔(تہذیب التہذیب باب الحاء زیرلفظ حُرملۃ )

مختصر یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے اور اس میں زہری کی تدلیس اور لیث کا اضطراب اور حرملہ کی عدم ثقاہت کا دخل ہے۔لہٰذا حجت نہیں۔

۲۔ فَجِّ الرَّوْحَاءِ کوئی میقات نہیں۔ چنانچہ (الف)فَجَّ بمعنی طریق است و ہر دور امکانیست ما بین مدینہ طیبہ روادمی صغر ا در راہ مکہ مکرمہ(حجج الکرامۃ صفحہ ۳۲۹ از نواب صدیق حسن خان صاحب بزبان فارسی)پس ثابت ہو ا کہ یہ میقات نہیں۔

ب۔ لَیْسَ بِمِیْقَاتٍ (اکمال الاکمال شرح مسلم جلد ۳ ص ۳۹۸)کہ فج روحاء کوئی میقات نہیں۔

ج۔ لغت کی کتاب قاموس میں ہے اَلرَّوْحَاءُ بَیْنَ الْحَرَمَیْنِ عَلٰی ثَلَاثِیْنَ وَ اَرْبَعِیْنَ مِیْلًا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ (قاموس فصل الرّاء باب الحاء )کہ روحاء حرمین کے درمیان مدینہ سے تیس چالیس میل کے فاصلہ پر ہے۔ پس یہ نہ میقات ہے اور نہ میقات کے بالمقابل۔

۳۔ مسلم کی ایک دوسری حدیث اس حدیث کی شرح کرتی ہے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ فَقَالَ اَیُّ وَادٍ ھٰذَا؟ فَقَالُوْا وَادِی الْاَزْرَقِ فَقَالَ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی مُوْسٰی فَذَکَرَ مِنْ لَوْنِہٖ وَ شَعْرِہٖ شَیْئًا…… وَاضِعًا اَصْبَعَیْہِ فِیْ اُذُنَیْہِ لَہٗ جُؤَارٌ اِلَی اللّٰہِ بِالتَّلْبِیَۃِ مَارًّا بِھٰذَا الْوَادِیْ۔ قَالَ ثُمَّ سِرْنَا حَتّٰی اٰتَیْنَا عَلٰی ثَنِیَّۃً فَقَالَ اَیُّ ثَنِیَّۃً ھٰذِہٖ؟ فَقَالُوْا ھَرْشٰی……فَقَالَ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی یُوْنُسَ عَلٰی نَاقَۃٍ حَمْرَاءَ عَلَیْہِ جُبَّۃُ صُوْفٍ…… مَارًّا بِھٰذَا الْوَادِیْ مُلَبِّیًا۔ ‘‘

(مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللّٰہ الی السموت و فرض الصلٰوۃ)

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ ہم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان گئے۔ پس ہم ایک وادی سے گزر ے۔ آنحضرت صلعم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ وادی ارزق۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر آنحضرت صلعم نے حضرت موسیٰ کے رنگ اور بالوں کاکچھ ذکر کیا انہوں نے اپنی انگلیاں دونوں کانوں میں ڈالی ہوئی ہیں اور وہ اس وادی سے گزرتے ہوئے لبیک کہہ رہے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر ہم آگے چلے یہاں تک کہ ہم ایک ٹیلے پرپہنچے۔ آنحضرتؐنے پوچھا یہ کونسا ٹیلا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہرشیٰ ٹیلہ ہے آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ گویا میں یونس ؑ کو ایک سرخ اونٹنی پر سوار ایک صوف کا جبہ پہنے ہوئے اس وادی سے گزرتے ہوئے اور لبیک کہتے ہوئے دیکھ رہاہوں۔‘‘

معلوم ہوا کہ جس طرح کشفی حالت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان انبیاء کو تلبیہ کہتے ہوئے دیکھا اسی طرح وادی فج الروحاء میں احرام باندھے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔

۴۔چنانچہ تصوف کی مشہور کتاب التعرف کی شرح میں ابو ابراہیم اسمٰعیل بن محمد بن عبداﷲ المستملی لکھتے ہیں۔قَالَ اَبُوْ مُوْسٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ مَرَّ بِالصَّخْرَۃِ مِنَ الرَّوْحَاءِ سَبْعُوْنَ نَبِیًَّا حُفَاۃً عَلَیْھِمُ الْعَبَاءُ یَطُوْفُوْنَ الْبَیْتَ الْعَتِیْقَ۔ (شرح التعرف صفحہ۷)کہ ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں نے روحاء کے مقام پر ایک چٹان کے پاس گذشتہ ستر نبیوں کو ننگے پاؤں چادریں اوڑھے کعبہ کا طواف کرتے دیکھا ہے۔ پس اسی فج الروحاء کے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا ہے۔

۵۔پس اس کشف کی تعبیر ہوگی اور تعبیر یہ ہے۔ ’’وَاَنْ رَّاٰی اَنَّہٗ حَجَّ اَوِعْتَمَرَ فَاِنَّہٗ یَعِیْشُ عَیْشًا طَوِیْلًا وَ تُقْبَلُ اُمُوْرُہٗ۔ (تعطیر الانام فی تعبیر الاحلام باب الحاء)یعنی جو شخص یہ دیکھے کہ اس نے حج یا عمرہ کیا ہے پس اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ لمبی عمر پائے گا اور اس کی مرادیں پوری ہوں گی۔

۶۔ وَمَنْ رَّاٰی فَعَلَ شَیْئًا مِنَ الْمَنَاسِکِ فَھُوَ خَیْرٌ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَ قِیْلَ اِنَّ الْاَحْرَامَ تَجَرَّدٌ فِی الْعِبَادَۃِ اَوْخُرُوْجٌ مِنَ الذَّنُوْبِ……فَاِنَّہٗ یَدُلُّ عَلٰی حُصُوْلِ رَحْمَۃٍ۔

(کتاب الاشارات فی علم العبارات باب ۱۰ صفحہ ۴۱ بر حاشیہ تعطیر الانام جلد۲ باب الصّاد)

کہ اگرکوئی شخص دیکھے کہ اس نے حج کے مناسک میں سے کوئی اد ا کیا ہے۔ تو یہ بہرحال اچھا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ احرام باندھنا (خواب میں )صرف عبادت کے لئے یا گناہوں سے نکلنے کے لئے خاص ہے۔ کیونکہ یہ حصول رحمت پر دلالت کرتا ہے۔

۷۔
وَمَنْ رَاٰی کَاَنَّہٗ خَارِجٌ اِلَی الْحَجِّ فِیْ وَقْتِہٖ……وَاِنْ کَانَ مَغْمُوْمًا فُرِجَ عَنْہٗ……فَاِنْ رَاٰی کَاَنَّہٗ یُلَبِّیُ فِی الْحَرَمِ فَاِنَّہٗ یَظْفُرُ بِعَدُوِّہٖ وَ یَأْمَنُ خَوْفَ الْغَالِبِ۔
(منتخب الکلام فی تفسیر الاحلام لامام محمد بن سیرین باب نمبر ۱۴ صفحہ ۳۷ بر حاشیہ تعطیر الانام باب الباء جلد ۱ صفحہ ۳۷)

کہ خواب میں جو شخص یہ دیکھے کہ حج کے ایام میں حج کے لئے جا رہا ہے پس اگر تو اس کو کوئی خوف ہے تو وہ امن پائے گا۔ اور اگر وہ ہدایت یافتہ نہیں تو ہدایت پائے گا۔ اور اگر وہ مغموم ہے تو غم دور ہو گا۔ اور اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ احرام کی حالت میں لبیک کہہ رہا ہے پس وہ کامیاب ہو جائے گا اور خوف سے امن میں ہو جائے گا۔

۸۔ اور یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ دجّال کافر ہے۔ اس کا طواف سے کیا کام ؟ جواب اس کا یہ دیا ہے علما ء نے کہ یہ آنحضرتؐ کے مکاشفات سے ہے۔ خواب میں تعبیر اس کی یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کو دکھایا ۔ روز ہوگا کہ عیسیٰ ؑ گرد دین کے پھریں گے واسطے قائم کرنے دین کے اور درستی کرنے خلل و فساد کے۔ اور دجّال بھی پھرے گا گرد دین کے بقصد خلل و فساد ڈالنے کے دین میں۔ کَذَا قَالَ الطَّیْبِیُّ۔

(مظاہر حق شرح مشکوٰۃ کتاب علامات قیامت باب حلیہ دجّال و مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکرالدجّال۔ مجمع البحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۳۲۲ و بر حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ ۴۰۵ مطبع نظامی)

۹۔’’ لَیُھِلَّنَّ‘‘ کا مضارع اس حدیث میں مولوی ثنااﷲ امرتسری کے ترجمہ قرآن کو مدنظر رکھتے ہوئے حال کے لئے بھی ہو سکتا ہےَ جیسا کہ مولو ی صاحب مذکور نے آیت (النساء:۷۳)کا ترجمہ کوئی تم میں سے سستی کر تا ہے کیا ہے۔

(دیکھوتفسیر ثنائی تفسیر سورۃ النساء زیر آیت )
 
Top Bottom