اعتراض 12 ۔ آج تک کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں آیا اور نہ کسی نبی نے کوئی کتاب لکھی۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 12 ۔ آج تک کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں آیا اور نہ کسی نبی نے کوئی کتاب لکھی۔

جواب:۔ ایسا کہنا صریح جہالت ہے کیونکہ’’اُمِّی‘‘ ہونا تو صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ اگر ہر نبی ہی ’’اُمِّی‘‘ ہو تو پھر آپ ؐ کی یہ خصوصیت کیونکر ہوئی ؟

اور پھر (الاعراف:۱۵۸ )فرمانے کی کیا ضرورت تھی ؟ چنانچہ لکھا ہے:۔

۱۔ پڑھا لکھا ہونا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہے۔…… حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ؑکے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے تھے لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو کہ سِرِّ نبوت کی تفصیل شرح اور علوم باطنی کے حقیقی رازدان تھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش ہوناگوارا نہ فرمایا۔

چنانچہ گذشتہ آسمانی کتب میں بھی امّی کے لقب کے ساتھ آپ کو بشارتیں دی ہیں۔

(تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب جے۔ راج۔پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحہ ۱۳ و صفحہ ۱۴ با ختلاف الفاظ مطبوعہ مطبع فیض عام علی گڑھ ۱۳۲۶ ھ زیر عنوان ’’تمہید‘‘ صفحہ۸)

۲۔ تفسیر حسینی میں ہے :۔

’’حضرت موسیٰ اور حضرت داؤ د علیہما السلام پر کتا ب جو ایک بار اتری تو وہ لکھتے پڑھتے تھے اورہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہٖ اجمعین امّی تھے۔‘‘

(تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۱۴۰ زیر آیت (الفرقان:۳۳ )

۳۔ بیضاوی میں آیت مندرجہ بالا (الفرقان:۳۳)کے ماتحت لکھا ہے:۔

وَکَذَالِکَ اَنْزَلْنَاہُ مُفَرِّقًا لِنُقَوِّیَ بِتَفْرِیْقِہٖ فُؤَادَکَ عَلٰی حِفْظِہٖ وَفَھْمِہٖ لِاَنَّ حَالَہٗ یُخَالِفُ حَالَ مُوْسٰی وَدَاوٗدَ وَ عِیْسٰی عَلَیْھِمُ السَّلَامُ حَیْثُ کَانَ اُمِّیًا وَکَانُوْا یَکْتُبُوْنَ۔ ‘‘

(بیضاوی مطبوعہ مطبع احمدی دہلی جلد ۳ صفحہ ۹۶)

یعنی ہم نے ایسے ہی قرآن مجید کو بیک وقت نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ ہم تیرے دل کو اس سے مضبوط کریں اور توا سے بآسانی یاد رکھ سکے اور سمجھ سکے۔ یہ اس لئے ہوا کہ آنحضرت صلعمکا حال موسیٰ۔ داؤ د اور عیسیٰ علیہم السلام سے مختلف تھا۔ بدیں وجہ کہ آپؐ ’’اُمّی‘‘تھے مگر موسیٰ داؤد اور عیسیٰ علیہم السلام لکھے پڑھے ہوئے تھے۔

۴۔ حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اِنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمْ یَکُنْ مِنْ اَھْلِ الْقِرَاءَ ۃِ وَالْکِتَابَۃِ فَلَوْ نُزِّلَ عَلَیْہِ ذٰلِکَ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَانَ لَا یَضْبِطُہٗ وَلَجَازَ عَلَیْہِ الْغَلَطُ وَالسَّھْوُ وَاِنَّمَا نَزَلَتِ التَّوْرَاۃُ جُمْلَۃً لِاَنَّھَا مَکْتُوْبَۃٌ یَقْرَءُ ھَا مُوْسٰی۔ ‘‘

(تفسیر کبیر رازی جلد۶ صفحہ ۴۷۲ مطبوعہ مطبع اوّل۔ نیا ایڈیشن جلد ۲۴ صفحہ ۷۸ مصر زیر آیت بالا الفرقان :۳۳)

یعنی آنحضرت صلعم لکھے پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ پس اگر آپؐ پر قرآن مجید ایک ہی مرتبہ سارا نازل ہو جاتا توآپ اسے محفوظ نہ رکھ سکتے اور اس میں غلطیاں اور سہو جا ئز ہو جاتا ،لیکن تورات جو بیک وقت نازل ہو گئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لکھی لکھائی تھی اور حضرت موسیٰ ؑ پڑھنا جانتے تھے۔‘‘

۵۔ حدیث نبویؐ میں ہے:۔

اَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ اِدْرِیْسُ۔

(مسند امام احمد بن حنبلؒ بحوالہ کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق مصنفہ امام عبدالرؤف المنادی باب الالف برحاشیہ جامع الصغیر مطبوعہ مصر جلد ۱ صفحہ ۸۹ )

کہ سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنا شروع کیا۔

۶۔سیرۃ ابن ہشام میں ہے:۔

’’یہی ادریس پیغمبر ہیں اور انہی کو پہلے نبوت ملی اور انہی نے قلم سے لکھنا ایجاد کیا۔‘‘

( سیرۃ ابن ہشام مترجم اردو جلد ۱ صفحہ ۱ مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور و مطبوعہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن ۱۳۶۷ ھ)

احراری امیر شریعت:۔ اگر نبی کسی سے پڑھے تو پھر استاد کبھی کبھی اس کے کان بھی کھینچے گا۔ اسے مار بھی پٹے گی۔ بڑاہو کر پھر کس طرح ان کے سامنے سر اٹھا سکے گا۔

جواب:۔ ہر طالب علم ضروری تو نہیں کہ تمہارے جیسا ہو۔ بعض ہونہار اور نیک طالبعلم ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی بھی استاد سے مار پٹنے تک نوبت نہیں آنے دیتے بلکہ استاد ان کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن اگر محض احتمال اور فرضی قیاس آرائی پر بنیاد رکھنا جائز ہو تو پھر تو یہ بھی کہو کہ کسی نبی کا باپ ، ماں بڑا بھائی، دادا، چچا کوئی نہیں ہو نا چاہیے۔ کیونکہ بچپن میں ان بزرگان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھوں کان کھنچوانے اور مار پٹنے کا خطرہ اور احتمال ہے۔ خیر یہ تو بچپن میں مار کھانے کا قصہ ہے۔ لیکن قرآن مجید میں تو لکھا ہے کہ ایک نبی نے بڑ ے ہو کر بلکہ نبی بن کر اپنے چھوٹے بھائی موسیٰ ؑسے ڈاڑھی اور سر کے بال نچوائے۔ ملاحظہ ہو:۔

(الاعراف:۱۵۱)کہ موسیٰ ؑ نے (غصّہ کی حالت میں )اپنے بھائی( ہارونؑ) کا سر پکڑ کر اسے اپنی طرف جھٹکا دیا توحضرت ہارونؑ نے کہا ’’اے میری ماں کے بیٹے! مجھے قوم نے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر دیتے۔ پس تو دشمنوں کو خوشی نہ دکھا۔ نیز ملاحظہ ہو سورۃ طٰہٰ:۹۵۔

(طٰہٰ:۹۵ ) کہ اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر(کے بال) نہ پکڑ! مگر باوجود اس شماتتِ اعداء اور مار پیٹ کے ہارون نبی کے نبی ہی رہے۔ یہ تو قرآن ہے مگر یہاں احراری امیر شریعت کی عقل کے رو سے کوئی نبی پڑھا لکھا نہیں ہو سکتا۔ محض اس خوف سے کہ کہیں بچپن میں استاد سے مار نہ کھا بیٹھے پھر بڑا ہو کر کیا کرے گا؟

۲۔پھر حضرت مسیح موعودؑکے اساتذہ تو ہمیشہ آپ کی عزت کرتے تھے اور ہرگز ثابت نہیں کہ حضور کو کسی استاد نے کبھی ایک دفعہ بھی مارا ہو۔ پس محض فرضی احتمالات و قیاسات پر اعتراضات کی بنیاد رکھنا اور واقعات کو نظر انداز کر دینا کسی معقول انسان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
 
Top Bottom