mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 11۔ نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاگرد رہے۔

جواب۔ (ا)قرآن مجید:۔ موسیٰ علیہ السلام ایک بندہ خدا (خضر) سے کہتے ہیں ـ:۔

(الکہف:۶۷)

یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کی اس امر میں پیروی کروں کہ آپ مجھے وہ علم پڑھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ؟

اگر نبی کا کسی سے علم سیکھنا منافی نبوت ہے تو کیا حضرت موسیٰ ؑنے اپنی نبوت سے دستبردار ہونے کے لئے یہ تدبیر نکالی تھی ؟

۲۔ تمہارایہ من گھڑ ت قاعدہ کہ نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ کہاں لکھا ہے ؟ قرآن و حدیث کا ایک ہی حوالہ پیش کر و ورنہ اپنی جہالت کا ماتم کرو !

۳۔ حدیث میں ہے:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسبت فرماتے ہیں۔ اِذَا کَانَ بِھَا اَھْلُ اَبْیَاتٍ مِنْھُمْ وَ شَبَّ الْغُلَامُ وَ تَعَلَّمَ الْعَرَبِیَّۃَ مِنْھُمْ۔

(بخاری کتا ب الانبیاء باب یَزِفُّوْنَ النَّسْلَان فِی الْمَشْیِ و تجرید بخاری مترجم اردو مع اصل متن عربی مرتبہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور ۱۳۴۱ ھ جلد ۲ صفحہ ۱۳۷ ترجمہ از تجرید بخاری)

’’یہاں تک کہ جس وقت ان( بنو جرہم۔ خادمؔ) میں سے کچھ گھر والے( چشمۂ زمزم کے اردگرد جمع۔ خادمؔ) ہوگئے اور وہ بچہ (حضرت اسمٰعیل ؑ۔ خادمؔ )جوان ہو ا اور اس نے ان سے عربی زبان سیکھی۔‘‘

۴۔ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ آنحضرت صلعم نے قصہ موسیٰ و خضر کے سلسلہ میں فرمایا:۔

’’قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِیْ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔

(بخاری کتا ب الانبیاء باب فضل خضر حدیث الخضر مع موسی علیہما السلام صحیح مسلم کتا ب الفضائل۔ باب من فَضَائِلِ خِضر )

یعنی حضرت موسیٰ ؑنے خضر سے کہا کہ میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہو ں تاکہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ پڑھائیں جو آپ کو دیا گیا ہے۔‘‘

۵۔تفسیر:۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی تحریر فرماتے ہیں:۔

اِسْتَدَلَّ الْعُلَمَاءُ بِسُؤَالِ مُوْسَی السَّبِیْلِ اِلٰی لِقَاءِ الْخِضْرِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِمَا وَسَلَّمَ عَلٰی اِسْتِحْبَابِ الرَّحْلَۃِ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ وَاِسْتِحْبَابِ الْاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ وَاِنَّہٗ یَسْتَحِبُّ لِلْعَالِمِ وَاِنْ کَانَ مِنَ الْعِلْمِ بِمَحَلٍّ عَظِیْمٍ اَنْ یَّاخُذَہٗ مِمَّنْ ھُوَ اَعْلَمُ مِنْہُ وَ یَسْعٰی اِلَیْہِ فِیْ تَحْصِیْلِہٖ وَ فِیْہِ فَضِیْلَۃُ طَلَبِ الْعِلْمِ۔‘‘

(حاشیہ النووی علی مسلم کتاب الفضائل باب فضائل زکریا و خضر)

یعنی موسیٰ علیہ السلام کے خضر کی ملاقات کی درخواست کرنے سے علماء نے اس بات کی دلیل لی ہے کہ طلب علم کیلئے سفر کرنا اور حصول علم کے لئے بار بار درخواست کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ اگرچہ کوئی خود کتنا ہی بڑا صاحب علم کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے سے علم حاصل کرے اور حصول علم کی غرض سے کوشش کر کے اس کے پاس جائے۔ نیز اس سے علم کے سیکھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

۶۔ تفسیر سعیدی ترجمہ اردو تفسیر قادری حسینی جلد ۲صفحہ ۱۵ میں ہے :۔

’’رسول ایسا چاہیے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے ان سے ان اصول و فروعِ دین کا عالم زیادہ ہو جو ان کی طرف لایا ہے اور جو علم اس قبیل سے نہیں اس کی تعلیم امورِ نبوت کے منافی نہیں اور اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُ مْ اس قول کا مؤید ہے۔ (جلد ۱ صفحہ ۶۳۸ سورۃ الکہف :۶۶، ۶۷)

۷۔ تفسیر بیضاوی میں ہے:۔

وَلَا یُنَافِیْ نُبُوَّتَہٗ وَ کَوْنَہٗ صَاحِبَ شَرِیْعَۃٍ اَنْ یَّتَعَلَّمَ مِنْ غَیْرِہٖ مَا لَمْ یَکُنْ شَرْطًا فِیْ اَبْوَابِ الدِّیْنِ۔

(بیضاوی زیر آیتالخ الکہف :۶۷ )

یعنی حضرت موسیٰ ؑکا کسی غیر سے ایسا علم سیکھنا جو امور دین میں سے نہ ہو۔ ان کی نبوت اور ان کے صاحب شریعت ہونے کے منافی نہیں ہے۔ (یعنی نہ صرف نبی بلکہ صاحب شریعت نبی بھی دوسرے علوم میں دوسروں کا شاگرد ہو سکتا ہے۔ )

۸۔ تفسیر الجلالین الکمالین از علامہ جلال الدین سیوطی میں زیر آیت الکہف:۷۱ لکھا ہے:۔

فَقَبِلَ مُوْسٰی شَرْطَہٗ رِعَایَۃً لِاَ دَبِ الْمُتَعَلِّمِ مَعَ الْعَالِمِ۔

(زیر آیت ۔ الکہف :۷۱)

کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خضرکی پیش کردہ شرط اسی طرح قبول کرلی جس طرح ایک شاگرد اپنے استاد کی شرط کوکمال ادب سے قبول کیا کرتا ہے۔

۹۔یاد رہے کہ خضر کے نبی ہونے میں بھی اختلاف ہے جلالین میں ہے :۔

نُبُوَّۃً فِیْ قَوْلٍ وَ وِلَایَۃً فِیْ آخِرً وَعَلَیْہِ اَکْثَرُ الْعُلَمَاءِ۔

(جلالین زیر آیت ۔الکہف:۶۶ نیز دیکھو حاشیہ نووی علی المسلم۔ فضائل زکریا والخضر علیہماالسلام)

یعنی علماء کی اکثریت اس طرف ہے کہ خضر نبی نہیں بلکہ ولی تھے۔
 
Top Bottom