mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض ۔ حضرت اماں جانؓ نے آپ کی وفات کے بعد وراثت میں سے کیوں حصہ نہ لیا؟

جواب:۔ بربنائے تسلیم۔ اپنے حق کو اپنی مرضی اور خوشی سے ترک کر دینا اعلیٰ اخلاق میں سے ہے نہ کہ قابل اعتراض۔ مثال ملاحظہ ہو:۔حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ابو مجاہد سے مروی ہے کہ ابو قحافہ رضی اﷲ عنہ( حضرت ابو بکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے والد ماجد)نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی میراث سے حصہ شرعی نہیں لیا بلکہ اپنے پوتے ہی کو دے دیا۔آپ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے بعد چھ مہینے اور چند یوم تک ہی زندہ رہے۔‘‘

(تاریخ الخلفاء مترجم موسومہ محبوب العلماء شائع کردہ ملک غلام محمد اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور مطبوعہ مطبع پبلک پرنٹنگ پریس صفحہ ۱۰۴ فصل وفات ابو بکرؓ)

ایک ناقابل تردید ثبوت:۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے بلکہ ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء تک پنجاب کے تمام اضلاع میں مغل قوم کے تمام افراد شریعت کی بجائے ’’رواجِ زمیندارہ‘‘ کے پابند تھے مگر ’’رواجِ عام‘‘ پنجاب کی مشہور و معروف اور مستند ترین کتاب

The Digest of Customary Law

(پنجاب کا رواجِ زمیندارہ)

مصنفہ Sir W.H.Rattigan (سر ڈبلیو۔ ایچ۔ ریٹیگن) کے گیارھویں ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۲۹ء کے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے:۔

The family of the Mughal Barlas of Qadian,

Tehsil Batala, is governed by Muhammadan Law.

’’یعنی قادیان کا مغل برلاس خاندان رواجِ زمیندارہ کا نہیں بلکہ قانونِ شریعت کا پابند ہے۔‘‘

اب دیکھنا چاہیے کہ پنجاب کے تمام مغلوں میں سے صرف قادیان کے اس مغل خاندان کو شریعت کے پابند ہونے کا فخر کیونکر حاصل ہوگیا؟ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے قبل یہ خاندان بھی دوسرے مغل خاندانوں کی طرح رواجِ زمیندارہ ہی کا پابند تھا تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ ہی کے ’’احیائے شریعت‘‘ کے عظیم الشان کارنامہ کا ایک پہلو ہے۔ پس بجائے اس کے کہ حضرت کے اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا حاسد بد بیں اب بھی اعتراض کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہ حقیقت ہے کہ حضور کی بعثت سے قبل حضور کا خاندان شریعت کی بجائے رواج کا پابند تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور کی بعثت کے بعد یہ خاندان (تمام باقی مغل خاندانوں سے بالکل منفرد ہو کر) شریعت کا پابند ہوگیا۔ کیا یہ تغیر مرزا کمال دین اور نظام دین کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کی قوت قدسیہ کا نتیجہ تھا کہ ’’ابنائے فارس‘‘ نے ابد تک کے لیے احیائے شریعت کا عَلَم اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

ع کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

۳۲۔ایک بیٹے کے دو باپ یا ایک بیوی کے دو خاوند

احراری مقررین اپنے جوش خطابت میں جو جی میں آئے احمدیت کے خلاف اناپ شناپ کہتے چلے جاتے ہیں۔ اس قسم کی بے سرو پا باتوں میں سے ایک احسان احمد شجاع آبادی کے الفاظ میں یہ ہے:۔
 
Top Bottom