اعتراض۔ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کیسے کی اور جماعت احمدیہ نے اسلام کی کیا خدمت ہے ؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض۔ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کیسے کی اور جماعت احمدیہ نے اسلام کی کیا خدمت ہے ؟

جماعت احمدیہ کی خدمات کا اقرار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عظیم الشان خدمتِ اسلام کرنے والی جماعت اپنے پیچھے چھوڑی۔ یہی ’’کسر صلیب‘‘کا مفہوم ہے۔ جماعت احمدیہ کو ایسے صحیح عقائد دیئے، خصوصاً مسئلہ وفاتِ مسیح۔ اور پھر دلائل کا وہ بے بہا خزانہ دیا کہ عیسائی مناظرین کی جرأت نہیں کہ احمدی مناظرین کے بالمقابل میدان میں کھڑے ہو سکیں۔ پھر لنڈن میں مسجد بنانا اور اس کے مینار سے مرکز کفر و شرک میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکا نعرہ بلند کرنا یہ بھی جماعت احمدیہ ہی کے حصہ میں آیا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔

ذیل میں چند اقتباسات مخالفین سلسلہ کی تحریرات سے درج کئے جاتے ہیں جن میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامی کا خصوصاً معرکہ شدھی کے متعلق خدمات کا اقرار کیا ہے۔

۱۔ مولوی ظفرعلی آف زمیندا ر لکھتے ہیں:۔

’’مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار۔ کمر بستگی۔ نیک نیتی اورتوکل علی اﷲ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے۔ وہ اگر ہندو ستان کے موجود ہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اورقدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولو العزم جماعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی۔‘‘

(زمیندا ر ۲۴ جون ۱۹۲۳ء )

۲۔ مولانا محمد علی صاحب جوہر برادر مولا نا شوکت علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں:۔

’’نا شکر گزاری ہوگی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت اگرا یک جانب مسلمانوں کی سیا سیا ت میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اورمسلمانوں کی تنظیم اورتجارت میں بھی انتہائی جد و جہد سے منہمک ہیں۔ اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلا م کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اﷲ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا۔‘‘ (اخبار ہمدرد دہلی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء)

۳۔ ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص۔ جس ایثار۔ جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے۔‘‘ (زمیندار ۱۸ اپریل ۱۹۲۳ء)

۴۔ جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کی کو شش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی۔‘‘ (اخبار مشرق ۲۵ مارچ ۱۹۲۳ء)

۵۔ ’’اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جماعت سے مرعوب نہیں ہے اور خالص اسلامی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔‘‘ (اخبار مشرق گورکھ پور ۱۲ستمبر ۱۹۲۷ء)

۶۔’’گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے ، لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور امریکہ یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء و دیوبند فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ و اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں۔ کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بلا دقت ایک ایک مشن کا خرچ اس طرح سے دے سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہے ، لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے۔ فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چکاہے۔‘‘ (زمیندار ۱۷ دسمبر ۱۹۲۷ء)

۷۔ جناب مولانا عبدالحلیم صاحب شررؔ فرماتے ہیں:۔

’’احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت او ر شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پر جوش خدمت ادا کر تے ہیں جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے۔‘‘ (رسالہ د لگداز بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء)
 
Top Bottom