اعتراض۔ بعض لوگ شہادۃ القرآن کے حوالہ سے کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی بہت مذمت کی ہے۔ پس آپ کے آنے کا اثر کیا ہو ا؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض۔ بعض لوگ شہادۃ القرآن کے حوالہ سے کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی بہت مذمت کی ہے۔ پس آپ کے آنے کا اثر کیا ہو ا؟

جواب۔ شہادۃ القرآن حضرت اقدس کے ابتدائے دعویٰ کی تصنیف ہے جب کہ ابھی سلسلۂ بیعت شروع ہوئے دو تین سال کا عرصہ ہو ا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو غیر احمدیت کی حالت سے نکل کر اس سلسلہ میں داخل ہوئے تھے ان کی وہ پرانی بیماری یک دم تو دور نہ ہو سکتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کے عظیم الشان اثر کا اندازہ ابتدائی سالوں میں کرنا نادانی ہے۔ لازم ہے کہ حضرت کی وفات کے قریب احمدیوں کی اخلاقی حالت کامقابلہ ان کی ابتدائے دعویٰ مسیح موعود کی اخلاقی حالت کے ساتھ کیا جائے تو اس میں زمین آسمان کا فرق نکلے گا۔

بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائے دعویٰ میں بعض مریدین کی بد اخلاقی کا ذکر فرماکر ان کواصلاح کی طرف توجہ دلائی جس طرح ایک شفیق اور محسن باپ اپنے بیٹوں کی خطا کاریوں پر ان کو سرزنش بھی کرتا ہے۔ لیکن کیا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنی اصلاح نہیں کر لی تھی؟ اور کیا حضرت نے بعد میں اپنی جماعت کی حیرت انگیز اخلاقی و روحانی ترقی کا ذکر نہیں فرمایا؟’’‘‘ (البقرۃ:۸۶)لو سنو!

۱۔ ’’ افسوس کہ ہماری جماعت کی ایمانداری اور اخلاص پر اعتراض کرنے والے دیانت اور راستبازی سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۷۲)

۲۔پھر اپنی جماعت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ اکثران میں صالح اور نیک بخت ہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۷۲)

۳۔’’میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہر گز ایسا صاف نہیں ہو سکتا اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۴۹)

۴۔’’ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔ جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا !درحقیقت ذرّہ ذرّہ پر تیرا تصرف ہے تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۳۹،۲۴۰)

۵۔’’میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گر یبان تر ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے ہزار ہا بیعت کنند گان میں اسقدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جوان کی زندگی میں ان پرایمان لائے تھے، ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں۔ اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں۔ شاذو نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذو نادر میں داخل ہے۔ میں دیکھتا ہوں میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے……پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا، مگر دل میں خوش ہوں۔‘‘

(الذکر الحکیم نمبر ۱۔ صفحہ ۱۶، صفحہ۱۷۔ و سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ۱۴۶،۱۴۷مصنفہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے)

۶۔’’میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے………… میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں۔ ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں۔ اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔‘‘

(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۱۵ بقیہ حاشیہ)

۷۔ ’’میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں د یکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتا ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جا تا ہے۔ میری طرف سے کسی امر کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار۔ حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے واسطے اس قسم کا جوش او ر اخلاص اور وفاکا مادہ نہ ہو۔‘‘

(الحکم جلد ۸نمبر ۲۵،۲۶ ۔ ۳۱ جولائی و ۱۰ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم نمبر۴)

۸۔’’وَأَشْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی مَا أَعْطَانِیْ جَمَاعَۃً أُخْرٰی مِنَ الْأَصْدِقَاءِ الْأَتْقِیَاءِ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالصُّلَحَاءِ الْعُرَفَاءِ، الَّذِیْنَ رُفِعَتِ الْأَسْتَارُ مِنْ عُیُوْنِہِمْ، وَمُلِئَتِ الصِّدْقُ فِیْ قُلُوْبِہِمْ۔ یَنْظُرُوْنَ الْحَقَّ وَیَعْرِفُوْنَہٗ، وَیَسْعَوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا یَمْشُوْنَ کَالْعَمِیْنِ۔ وَقَدْ خُصُّوْا بِإِفَاضَۃِ تَہْتَانِ الْحَقِّ وَوَابِلَ الْعِرْفَانِ، وَرَضَعُوْا ثَدْیٰ لِبَانِہٖ، وَأُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَجْہَ اللّٰہِ…… وَشَرَحَ اللّٰہُ صُدُوْرَہُمْ وَفَتَحَ أَعْیُنَہُمْ وَآذَانَہُمْ، وَسَقَاہُمْ کَأْسَ الْعَارِفِیْنَ۔ ‘‘

(حمامۃ البشری۔ روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۱۸۱)

پس شہادۃ القرآن صفحہ ۹۸ تا ۱۰۴ کے زمانہ کی تحریر سے (جو اوائل دعویٰ کا زمانہ ہے )تمسک کر کے جماعت احمدیہ کے اخلاق اور روحانیت پر حملہ کرنا بد دیانتی ہے اور اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ تمہارے جیسا کوئی عقلمند کسی طبیب یا ڈاکٹر کے مطب یا ہسپتال میں نوآمد مریضوں کو دیکھ کر فوراً کہہ اٹھے کہ یہ طبیب یا ڈاکٹر تو بڑا ناقابل ہے۔ کیونکہ اس کے پاس جس قدر مریض ہیں ان میں سے ایک بھی تندرست نہیں۔ حالانکہ کسی معالج کی اہلیت یا عدم اہلیت کے اندازہ کیلئے اس کے نو وارد مریضوں کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان لوگوں کی حالت کو دیکھا جاتا ہے جو کافی عرصہ اس کے زیر علاج رہ چکے ہوں۔
 
Top Bottom