گیارہویں دلیل ۔ عالم الغيب فلا يظهر على غيب احدا۔ الا من ارتضى من رسول فانه يسلك من بين يديه ومن خلفه رصدا ۔ الجن 26۔ 27
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا۔ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
کہ خدا عالم الغیب ہے۔ وہ اپنے غیب پر اپنے رسولوں کے سوا اور کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا (یعنی اس پر غیب ظاہر نہیں کرتا)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لاکھوں پیشگوئیاں بیان کیں جو پوری ہوئیں اور اس کا انکار مخالف بھی نہیں کر سکتے۔ مثلاً
سعد اﷲ لدھیانوی اور اس کے بیٹے کے ابتر ہونے کی پیشگوئی (تفصیل کے لئے دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۲ و تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶،۷، ۱۳، ۱۸) چند اور پیشگوئیاں بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔ تفصیلاً حقیقۃ الوحی میں دیکھو۔
۱۔ کرم دین جہلمی والے مقدمہ سے بریت اور اس کا مفصل حال پہلے سے شائع کیا۔
(مواہب الرحمن۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۳۵۰)
وَمِنْ آیَاتِیْ مَا أَنْبَأَنِی الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، فِیْ أَمْرِ رَجُلٍ لَئِیْمٍ وَبُہْتَانِہِ الْعَظِیْمِ، وَأُوْحِیَ إِلَیَّ أَنَّہٗ یُرِیْدُ أَنْ یَتَخَطَّفَ عِرْضَکَ، ثُمَّ یَجْعَلُ نَفْسَہٗ غَرْضَکَ. وَأَرَانِیْ فِیْہِ رُؤْیًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَرَانِیْ أَنَّ الْعَدُوَّ أَعَدَّ لِذَالِکَ ثَلَاثَۃَ حُمّامًا لِتَوْہِیْنٍ وَإِعْنَاتٍ…… وَرَأَیْتُ أَنَّ آخِرَ أَمْرِیْ نِجَاۃٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ۔
اور یہ مقدمہ چندو لال اور آتما رام کی کچہری میں چلتا رہا۔ جس میں آخر کار حضرت اقدسؑ بری ہوئے۔
۲۔ ڈوئی کی موت کی پیشگوئی۔ کہ اگر مباہلہ کرے یا اگر نہ بھی کرے تب بھی اس کو اﷲ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ سو وہ ایک لاکھ کی ملکیت سے بے دخل ہوا اور پھر اس کے بیوی بچے اس سے علیحدہ ہو گئے اور آخر فالج کے ذریعہ بہت خراب حالت میں مرا۔ (تفصیل دیکھو تتمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۲)
۴۔ عبدالرحیم ابن نواب محمد علی خان کے متعلق۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹)
۵۔ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں چراغ دین جمونی کے طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ سو وہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے بمرض طاعون ہلاک ہوا۔ کیا یہ کم نشان ہے؟
۶۔ پیشگوئی ’’زلزلہ کا دھکا۔ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَمُقَامُھَا۔‘‘ یہ چار اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ والے زلزلہ کے نام سے واقع ہوا۔
۷۔ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘
(الہام ۳؍ مئی ۱۹۰۵ء شائع شدہ اخبار بدر جلد ۱ نمبر۴ مورخہ ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ نمبر ۱۔ و تذکرہ صفحہ۴۶۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
اس الہام میں بتایا گیا تھا کہ (۱) کسی ملک میں ایسے ایسے عظیم الشان انقلابات وقوع پذیر ہونگے کہ ہر طرف سے نادر خان کو ’’المدد۔ المدد ‘‘کی پکار سے بلایا جائے گا اور جب لوگ اس کو ’’نادر خاں‘‘ کہہ رہے تھے خدا اس کو ’’نادر شاہ‘‘ کے نام سے پکارتا تھا۔ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ ’’نادر خاں‘‘ تخت پر متمکن ہو کر ’’نادر شاہ ‘‘کے لقب سے حکومت کرے گا۔
۲۔ پھر اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آخر کار وہ ’’نادر شاہ‘‘ کسی ہیبت ناک اور فوری حادثہ کے باعث طرفۃ العین میں صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائیگا او ر اس کا یہ قتل ایسے وقت میں ہو گا جبکہ ملک کو اس کی خدمات کی اشد ضرورت ہوگی اور چاروں طرف سے آوازیں آئیں گی کہ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘ چنانچہ اس پیشگوئی کا پہلا حصہ ۱۹۲۹ء میں پورا ہوا۔ جبکہ افغانستان میں امان اﷲ کی حکومت کا تختہ الٹنے اور بچہ سقہ کے ہاتھ سے حکومت لے لینے کے لئے ’’نادر خاں‘‘ کو فرانس سے بلایا گیا۔ اور ’’نادر خاں‘‘ کابل میں آ کر ’’نادر شاہ‘‘ کے لقب سے سریر آرائے سلطنت ہوا۔
اسی وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے جہاں اس الہام کے ایک پہلو کے پورا ہونے پر اظہار مسرت کیا گیا وہاں ساتھ ہی اس الہام کے دوسرے پہلو کی طرف بھی صاف طور پر اشارہ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ نادر خاں کے قتل سے 3 ½سال پہلے لکھا گیا کہ:۔
’’دوسرے مفہوم میں ایک ایسا خیال جھلک رہا ہے کہ موسوم (نادر شاہ) کو کوئی خطرناک مصیبت پیش آئے گی اور اس کے نقصان پر بہت رنج و غم محسوس کیا جائیگا‘‘…… اوپر لکھا جا چکا ہے کہ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا‘‘ کا ایک اور مفہوم بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ الفاظ کسی اور موقع پر کسی اور طرح بھی پورے ہوں، لیکن ہم نادر شاہ کی بہتری کے لئے دعا کرتے ہیں۔‘‘
(الفضل ۳؍ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱ کالم ۱ و ۳)
چنانچہ ۸؍ دسمبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت نادر شاہِ افغانستان ایک شخص ’’عبد الخالق‘‘ نامی کے ہاتھوں سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا اور افغانستان نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلامی نے زبانِ حال سے پکارا۔ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا‘‘
۸۔ مندرجہ بالا الہام کے بعد اگلا الہام یہ تھا:۔
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی …… صَدَّقْنَا الرُّؤْیَاءَ اِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ۔‘‘ یعنی (زلزلہ کی نسبت) تیرے رویاء کو سچا کر دکھایا اور اسی طرح ہم صدقہ دینے والوں کو اجر دیتے ہیں۔‘‘ (بدر جلد ۱نمبر ۷ مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ وتذکرہ صفحہ ۴۶۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
وہ رؤیا جس کی طرف مندرجہ بالا عبارت میں اشارہ ہے یہ ہے:۔
’’رؤیا میں دیکھا کہ بشیر احمد (ابن حضرت مسیح موعودؑ) کھڑا ہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا۔‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱۸ صفحہ ۱ کالم ۱، و مکاشفات صفحہ ۵۹) مندرجہ بالا الہامات کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی:۔
اور آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہوگا مجھے خبر دی…… اور فرمایا: ’’ـ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ ‘‘…… لیکن راستباز اس سے امن میں ہیں۔‘‘
(الوصیت۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۳)
’’خدا کے نشان ابھی ختم نہیں ہوئے اُس پہلے زلزلہ کے نشان کے بعد جو ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء میں ظہور میں آیا جس کی ایک مدت پہلے خبر دی گئی تھی پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والا ہے وہ بہار کے دن ہوں گے نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہوگا جب کہ درختوں میں پتّہ نکلتاہے یا درمیان اُس کا یا اخیر کے دن۔ جیسا کہ الفاظ وحی الٰہی یہ ہیں۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں تھا اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتّہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اِسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے۔‘‘
(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴)
’’ایک سخت زلزلہ آئے گا اور زمین کو یعنی زمین کے بعض حصوں کو زیر و زبر کر دے گا جیسا کہ لوط ؑکے زمانہ میں ہوا۔ ‘‘ (الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴)
مندرجہ بالا الہامات اور رؤیا اور عبارات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) کانگڑے والے زلزلے سے زیادہ شدید زلزلہ آئیگا (۲) زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آئیگا (۳) وہ زلزلہ بہار کے دنوں میں جو جنوری سے شروع ہوتے ہیں آئیگا (۴) جنوری کے مہینہ میں خوف کے ایام شروع ہونگے (۵) وہ زلزلہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کی زندگی میں آئیگا (۶) صاحبزادہ صاحب موصوف سب سے پہلے شخص ہونگے جو ا س پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف متوجہ ہو کر دوسروں کو توجہ دلائیں گے (۷) وہ زلزلہ نادر شاہ کے قتل کے بعد جو پہلی بہار آئے گی اس میں آئیگا۔
چنانچہ جیسا کہ یہاں ہوا۔ ’’نادر شاہ‘‘ ۸؍ نومبر ۱۹۳۳ء کو قتل ہوا۔ اور اس کے بعد جو پہلی بہار آئی یعنی جنوری ۱۹۳۴ء میں شمال مشرقی ہندوستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا جو ’’زلزلہ بہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں آیا اور آپ ہی نے سب سے پہلے اس طرف توجہ دلائی اور ایک ٹریکٹ ’’ایک اور نشان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس پیشگوئی میں ایک لطیف امر قابلِ غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے متعلق الہام ہوا کہ رَبِّ لَا تَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ رَبِّ لَا تَرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ کہ اے میرے رب! مجھ کو وہ قیامت خیز زلزلہ نہ دکھانا۔ اے میرے رب! مجھے میری جماعت میں سے ایک آدمی کی موت نہ دکھانا۔ چنانچہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں نہیں آیا۔ جیسا کہ حضرتؑ کا الہام تھا اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمًّی۔ اس میں تاخیر ڈال دی (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳ حاشیہ) اور پھر اس زلزلہ میں صرف ایک احمدی فوت ہوا۔
۹۔ پنڈت دیانند کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’انکی زندگی کا خا تمہ ہو گیا ہے۔‘‘ اس الہام کا گواہ لالہ شرم پت ساکن قادیان ہے جس کو حضرت اقدس ؑ نے قبل از وقوع یہ بات بتائی تھی۔ سو وہ اسی سال مر گیا۔
۱۰۔ اپنی کتاب انوار الاسلام میں سعد اﷲ لدھیانوی کے اعتراض کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہونے کی پیشگوئی کی جس کا حلیہ بھی بیان فرمایا۔ خصوصًا یہ کہ اس کے جسم پر پھوڑے ہیں۔ (دیکھو انوار الاسلام صفحہ۶۶ حاشیہ مطبوعہ ستمبر ۱۸۹۴ء) چنانچہ اس کے قریبًا پانچ سال بعد حضرت خلیفہ اوّل کے گھر عبد الحی پیدا ہوا جس کے جسم پر پھوڑے تھے۔
۱۱۔ لیکھرام کی موت کی پیشگوئی بہت ہی واضح طور پر بیان فرمائی
الا اے دشمنِ نادان و بے راہ بترس از تیغ برّانِ محمدؐ
اور پھر عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ لَہٗ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ۔ اور پھر دن کی بھی تعیین فرمائی کہ
وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَ قَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَ الْعِیْدُ اَقْرَبُ
لیکھرام کے چھ سال کے اندر مرنے کی پیشگوئی کرامات الصادقین جو صفر ۱۳۱۱ھ میں مطبوع ہوئی اور پھر ۲۲؍ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں جو آئینہ کمالاتِ اسلام میں ہے۔ اس کے ٹکڑے ہونے کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ پھر وہ ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہوا ۱ ۔
۱۳۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
(براہین احمدیہ حصہ سوم۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷ حاشیہ در حاشیہ)
۱۳۔ سر الخلافہ کے ۶۲ صفحہ پر مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے دعا کی۔ (نیز حمامۃ البشریٰ صفحہ ۱ مطبوعہ ۱۸۹۳ء میں) اس پر الہام ہو ا۔
’’اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کر دی۔‘‘ ( تذکرہ صفحہ ۴۲۵الہام ۱۲؍ اپریل ۱۹۰۴ء مطبوعہ ۲۰۰۴ء) سو پھر طاعون ملک میں آئی اور ہزاروں دشمن ہلاک ہوئے۔نمونۃً دیکھئے:۔
رُسل بابا امرتسری، محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ، چراغ دین جمونی، نور احمد تحصیل حافظ آباد، زین العابدین مقرب مولوی فاضل انجمن حمایت الاسلام، حافظ سلطان سیالکوٹی، مرزا سردار بیگ سیالکوٹی۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۶)
۱۴۔ مباہلہ کے طور پر کہنے پر مندرجہ ذیل منکرین مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوئے۔ رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا۔ پھر سانپ کے ڈسنے سے مر گیا۔ مولوی عبد العزیز ، مولوی عبد اﷲ، مولوی محمد لدھیانوی، مولوی شاہ دین لدھیانوی دیوانہ ہو کر ہلاک ہوا۔ عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے بعد الہام ھٰذا ہلاک ہو گئے۔ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہو گیا۔
۱۵۔ مولوی غلام دستگیر قصوری بد دعا کے بعد ہلاک ہو گیا اور نمونہ برائے اخوان خود مولویان منکرینِ مسیح ہیں۔
۱۶۔ مواہب الرحمان صفحہ ۱۲۷، ۱۲۸ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۳۴۶، ۳۴۸ میں محمد حسین بھیں کے متعلق پیشگوئی تھی۔ سو وہ مطابق وعید ہلاک ہوا۔
۱۷۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ (براہین احمدیہ) حالانکہ بعد میں مارٹن کلارک وغیرہ نے مقدمہ بنایا۔ پھر بھی خدا نے بچایا۔
۱۸۔ اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃِ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیگا۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۳)
۱۹۔ دلیپ سنگھ والی پیشگوئی (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۸ )
۲۰۔ عبد الحق غزنوی نے حضرت مسیحؑ کو کافر کا فتویٰ دیا …… تو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے اصرارِ مباہلہ پر دعا کی۔ کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جاؤں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے۔ (صفحہ ۲۴۰ حقیقۃ الوحی) سو یہ پوری ہوئی۔
۲۱۔ کی دعا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی متجاوز از پانچ لاکھ ہیں اور یہ آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے۔
۲۲۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کو بخار ہوا۔ اور ان کو ظن ہو گیا کہ یہ طاعون ہے چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتے تھے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے۔ پھر آپ نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا تو بخار اتر گیا۔
۲۳۔ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ صاحبزادہ سید عبد اللطیفؓ مرحوم اور شیخ عبدالرحمن ؓ مرحوم شہدائے کابل مراد ہیں۔
۲۴۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے مضمون متعلقہ جلسہ دھرم مہوتسو کے بارے میں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ ’’مضمون بالا رہا۔‘‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ اور بھی بہت سے اردو اخبارات نے اس کا اقرار کیا۔
۲۵۔ فروری ۱۹۰۴ء کو بنگال کی تقسیم کے متعلق پیشگوئی فرمائی پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی۔ پھر ۱۹۱۱ء میں ملک معظم جارج پنجم اس کے پورا ہونے کا باعث بنے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا۔ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
کہ خدا عالم الغیب ہے۔ وہ اپنے غیب پر اپنے رسولوں کے سوا اور کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا (یعنی اس پر غیب ظاہر نہیں کرتا)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لاکھوں پیشگوئیاں بیان کیں جو پوری ہوئیں اور اس کا انکار مخالف بھی نہیں کر سکتے۔ مثلاً
سعد اﷲ لدھیانوی اور اس کے بیٹے کے ابتر ہونے کی پیشگوئی (تفصیل کے لئے دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۲ و تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶،۷، ۱۳، ۱۸) چند اور پیشگوئیاں بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔ تفصیلاً حقیقۃ الوحی میں دیکھو۔
۱۔ کرم دین جہلمی والے مقدمہ سے بریت اور اس کا مفصل حال پہلے سے شائع کیا۔
(مواہب الرحمن۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۳۵۰)
وَمِنْ آیَاتِیْ مَا أَنْبَأَنِی الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، فِیْ أَمْرِ رَجُلٍ لَئِیْمٍ وَبُہْتَانِہِ الْعَظِیْمِ، وَأُوْحِیَ إِلَیَّ أَنَّہٗ یُرِیْدُ أَنْ یَتَخَطَّفَ عِرْضَکَ، ثُمَّ یَجْعَلُ نَفْسَہٗ غَرْضَکَ. وَأَرَانِیْ فِیْہِ رُؤْیًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَرَانِیْ أَنَّ الْعَدُوَّ أَعَدَّ لِذَالِکَ ثَلَاثَۃَ حُمّامًا لِتَوْہِیْنٍ وَإِعْنَاتٍ…… وَرَأَیْتُ أَنَّ آخِرَ أَمْرِیْ نِجَاۃٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ۔
اور یہ مقدمہ چندو لال اور آتما رام کی کچہری میں چلتا رہا۔ جس میں آخر کار حضرت اقدسؑ بری ہوئے۔
۲۔ ڈوئی کی موت کی پیشگوئی۔ کہ اگر مباہلہ کرے یا اگر نہ بھی کرے تب بھی اس کو اﷲ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ سو وہ ایک لاکھ کی ملکیت سے بے دخل ہوا اور پھر اس کے بیوی بچے اس سے علیحدہ ہو گئے اور آخر فالج کے ذریعہ بہت خراب حالت میں مرا۔ (تفصیل دیکھو تتمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۲)
۴۔ عبدالرحیم ابن نواب محمد علی خان کے متعلق۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹)
۵۔ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں چراغ دین جمونی کے طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ سو وہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے بمرض طاعون ہلاک ہوا۔ کیا یہ کم نشان ہے؟
۶۔ پیشگوئی ’’زلزلہ کا دھکا۔ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَمُقَامُھَا۔‘‘ یہ چار اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ والے زلزلہ کے نام سے واقع ہوا۔
۷۔ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘
(الہام ۳؍ مئی ۱۹۰۵ء شائع شدہ اخبار بدر جلد ۱ نمبر۴ مورخہ ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ نمبر ۱۔ و تذکرہ صفحہ۴۶۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
اس الہام میں بتایا گیا تھا کہ (۱) کسی ملک میں ایسے ایسے عظیم الشان انقلابات وقوع پذیر ہونگے کہ ہر طرف سے نادر خان کو ’’المدد۔ المدد ‘‘کی پکار سے بلایا جائے گا اور جب لوگ اس کو ’’نادر خاں‘‘ کہہ رہے تھے خدا اس کو ’’نادر شاہ‘‘ کے نام سے پکارتا تھا۔ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ ’’نادر خاں‘‘ تخت پر متمکن ہو کر ’’نادر شاہ ‘‘کے لقب سے حکومت کرے گا۔
۲۔ پھر اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آخر کار وہ ’’نادر شاہ‘‘ کسی ہیبت ناک اور فوری حادثہ کے باعث طرفۃ العین میں صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائیگا او ر اس کا یہ قتل ایسے وقت میں ہو گا جبکہ ملک کو اس کی خدمات کی اشد ضرورت ہوگی اور چاروں طرف سے آوازیں آئیں گی کہ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘ چنانچہ اس پیشگوئی کا پہلا حصہ ۱۹۲۹ء میں پورا ہوا۔ جبکہ افغانستان میں امان اﷲ کی حکومت کا تختہ الٹنے اور بچہ سقہ کے ہاتھ سے حکومت لے لینے کے لئے ’’نادر خاں‘‘ کو فرانس سے بلایا گیا۔ اور ’’نادر خاں‘‘ کابل میں آ کر ’’نادر شاہ‘‘ کے لقب سے سریر آرائے سلطنت ہوا۔
اسی وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے جہاں اس الہام کے ایک پہلو کے پورا ہونے پر اظہار مسرت کیا گیا وہاں ساتھ ہی اس الہام کے دوسرے پہلو کی طرف بھی صاف طور پر اشارہ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ نادر خاں کے قتل سے 3 ½سال پہلے لکھا گیا کہ:۔
’’دوسرے مفہوم میں ایک ایسا خیال جھلک رہا ہے کہ موسوم (نادر شاہ) کو کوئی خطرناک مصیبت پیش آئے گی اور اس کے نقصان پر بہت رنج و غم محسوس کیا جائیگا‘‘…… اوپر لکھا جا چکا ہے کہ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا‘‘ کا ایک اور مفہوم بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ الفاظ کسی اور موقع پر کسی اور طرح بھی پورے ہوں، لیکن ہم نادر شاہ کی بہتری کے لئے دعا کرتے ہیں۔‘‘
(الفضل ۳؍ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱ کالم ۱ و ۳)
چنانچہ ۸؍ دسمبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت نادر شاہِ افغانستان ایک شخص ’’عبد الخالق‘‘ نامی کے ہاتھوں سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا اور افغانستان نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلامی نے زبانِ حال سے پکارا۔ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا‘‘
۸۔ مندرجہ بالا الہام کے بعد اگلا الہام یہ تھا:۔
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی …… صَدَّقْنَا الرُّؤْیَاءَ اِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ۔‘‘ یعنی (زلزلہ کی نسبت) تیرے رویاء کو سچا کر دکھایا اور اسی طرح ہم صدقہ دینے والوں کو اجر دیتے ہیں۔‘‘ (بدر جلد ۱نمبر ۷ مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ وتذکرہ صفحہ ۴۶۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
وہ رؤیا جس کی طرف مندرجہ بالا عبارت میں اشارہ ہے یہ ہے:۔
’’رؤیا میں دیکھا کہ بشیر احمد (ابن حضرت مسیح موعودؑ) کھڑا ہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا۔‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱۸ صفحہ ۱ کالم ۱، و مکاشفات صفحہ ۵۹) مندرجہ بالا الہامات کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی:۔
اور آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہوگا مجھے خبر دی…… اور فرمایا: ’’ـ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ ‘‘…… لیکن راستباز اس سے امن میں ہیں۔‘‘
(الوصیت۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۳)
’’خدا کے نشان ابھی ختم نہیں ہوئے اُس پہلے زلزلہ کے نشان کے بعد جو ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء میں ظہور میں آیا جس کی ایک مدت پہلے خبر دی گئی تھی پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والا ہے وہ بہار کے دن ہوں گے نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہوگا جب کہ درختوں میں پتّہ نکلتاہے یا درمیان اُس کا یا اخیر کے دن۔ جیسا کہ الفاظ وحی الٰہی یہ ہیں۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں تھا اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتّہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اِسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے۔‘‘
(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴)
’’ایک سخت زلزلہ آئے گا اور زمین کو یعنی زمین کے بعض حصوں کو زیر و زبر کر دے گا جیسا کہ لوط ؑکے زمانہ میں ہوا۔ ‘‘ (الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴)
مندرجہ بالا الہامات اور رؤیا اور عبارات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) کانگڑے والے زلزلے سے زیادہ شدید زلزلہ آئیگا (۲) زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آئیگا (۳) وہ زلزلہ بہار کے دنوں میں جو جنوری سے شروع ہوتے ہیں آئیگا (۴) جنوری کے مہینہ میں خوف کے ایام شروع ہونگے (۵) وہ زلزلہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کی زندگی میں آئیگا (۶) صاحبزادہ صاحب موصوف سب سے پہلے شخص ہونگے جو ا س پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف متوجہ ہو کر دوسروں کو توجہ دلائیں گے (۷) وہ زلزلہ نادر شاہ کے قتل کے بعد جو پہلی بہار آئے گی اس میں آئیگا۔
چنانچہ جیسا کہ یہاں ہوا۔ ’’نادر شاہ‘‘ ۸؍ نومبر ۱۹۳۳ء کو قتل ہوا۔ اور اس کے بعد جو پہلی بہار آئی یعنی جنوری ۱۹۳۴ء میں شمال مشرقی ہندوستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا جو ’’زلزلہ بہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں آیا اور آپ ہی نے سب سے پہلے اس طرف توجہ دلائی اور ایک ٹریکٹ ’’ایک اور نشان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس پیشگوئی میں ایک لطیف امر قابلِ غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے متعلق الہام ہوا کہ رَبِّ لَا تَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ رَبِّ لَا تَرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ کہ اے میرے رب! مجھ کو وہ قیامت خیز زلزلہ نہ دکھانا۔ اے میرے رب! مجھے میری جماعت میں سے ایک آدمی کی موت نہ دکھانا۔ چنانچہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں نہیں آیا۔ جیسا کہ حضرتؑ کا الہام تھا اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمًّی۔ اس میں تاخیر ڈال دی (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳ حاشیہ) اور پھر اس زلزلہ میں صرف ایک احمدی فوت ہوا۔
۹۔ پنڈت دیانند کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’انکی زندگی کا خا تمہ ہو گیا ہے۔‘‘ اس الہام کا گواہ لالہ شرم پت ساکن قادیان ہے جس کو حضرت اقدس ؑ نے قبل از وقوع یہ بات بتائی تھی۔ سو وہ اسی سال مر گیا۔
۱۰۔ اپنی کتاب انوار الاسلام میں سعد اﷲ لدھیانوی کے اعتراض کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہونے کی پیشگوئی کی جس کا حلیہ بھی بیان فرمایا۔ خصوصًا یہ کہ اس کے جسم پر پھوڑے ہیں۔ (دیکھو انوار الاسلام صفحہ۶۶ حاشیہ مطبوعہ ستمبر ۱۸۹۴ء) چنانچہ اس کے قریبًا پانچ سال بعد حضرت خلیفہ اوّل کے گھر عبد الحی پیدا ہوا جس کے جسم پر پھوڑے تھے۔
۱۱۔ لیکھرام کی موت کی پیشگوئی بہت ہی واضح طور پر بیان فرمائی
الا اے دشمنِ نادان و بے راہ بترس از تیغ برّانِ محمدؐ
اور پھر عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ لَہٗ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ۔ اور پھر دن کی بھی تعیین فرمائی کہ
وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَ قَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَ الْعِیْدُ اَقْرَبُ
لیکھرام کے چھ سال کے اندر مرنے کی پیشگوئی کرامات الصادقین جو صفر ۱۳۱۱ھ میں مطبوع ہوئی اور پھر ۲۲؍ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں جو آئینہ کمالاتِ اسلام میں ہے۔ اس کے ٹکڑے ہونے کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ پھر وہ ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہوا ۱ ۔
۱۳۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
(براہین احمدیہ حصہ سوم۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷ حاشیہ در حاشیہ)
۱۳۔ سر الخلافہ کے ۶۲ صفحہ پر مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے دعا کی۔ (نیز حمامۃ البشریٰ صفحہ ۱ مطبوعہ ۱۸۹۳ء میں) اس پر الہام ہو ا۔
’’اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کر دی۔‘‘ ( تذکرہ صفحہ ۴۲۵الہام ۱۲؍ اپریل ۱۹۰۴ء مطبوعہ ۲۰۰۴ء) سو پھر طاعون ملک میں آئی اور ہزاروں دشمن ہلاک ہوئے۔نمونۃً دیکھئے:۔
رُسل بابا امرتسری، محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ، چراغ دین جمونی، نور احمد تحصیل حافظ آباد، زین العابدین مقرب مولوی فاضل انجمن حمایت الاسلام، حافظ سلطان سیالکوٹی، مرزا سردار بیگ سیالکوٹی۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۶)
۱۴۔ مباہلہ کے طور پر کہنے پر مندرجہ ذیل منکرین مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوئے۔ رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا۔ پھر سانپ کے ڈسنے سے مر گیا۔ مولوی عبد العزیز ، مولوی عبد اﷲ، مولوی محمد لدھیانوی، مولوی شاہ دین لدھیانوی دیوانہ ہو کر ہلاک ہوا۔ عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے بعد الہام ھٰذا ہلاک ہو گئے۔ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہو گیا۔
۱۵۔ مولوی غلام دستگیر قصوری بد دعا کے بعد ہلاک ہو گیا اور نمونہ برائے اخوان خود مولویان منکرینِ مسیح ہیں۔
۱۶۔ مواہب الرحمان صفحہ ۱۲۷، ۱۲۸ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۳۴۶، ۳۴۸ میں محمد حسین بھیں کے متعلق پیشگوئی تھی۔ سو وہ مطابق وعید ہلاک ہوا۔
۱۷۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ (براہین احمدیہ) حالانکہ بعد میں مارٹن کلارک وغیرہ نے مقدمہ بنایا۔ پھر بھی خدا نے بچایا۔
۱۸۔ اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃِ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیگا۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۳)
۱۹۔ دلیپ سنگھ والی پیشگوئی (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۸ )
۲۰۔ عبد الحق غزنوی نے حضرت مسیحؑ کو کافر کا فتویٰ دیا …… تو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے اصرارِ مباہلہ پر دعا کی۔ کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جاؤں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے۔ (صفحہ ۲۴۰ حقیقۃ الوحی) سو یہ پوری ہوئی۔
۲۱۔ کی دعا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی متجاوز از پانچ لاکھ ہیں اور یہ آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے۔
۲۲۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کو بخار ہوا۔ اور ان کو ظن ہو گیا کہ یہ طاعون ہے چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتے تھے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے۔ پھر آپ نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا تو بخار اتر گیا۔
۲۳۔ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ صاحبزادہ سید عبد اللطیفؓ مرحوم اور شیخ عبدالرحمن ؓ مرحوم شہدائے کابل مراد ہیں۔
۲۴۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے مضمون متعلقہ جلسہ دھرم مہوتسو کے بارے میں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ ’’مضمون بالا رہا۔‘‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ اور بھی بہت سے اردو اخبارات نے اس کا اقرار کیا۔
۲۵۔ فروری ۱۹۰۴ء کو بنگال کی تقسیم کے متعلق پیشگوئی فرمائی پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی۔ پھر ۱۹۱۱ء میں ملک معظم جارج پنجم اس کے پورا ہونے کا باعث بنے۔