چھٹی دلیل ۔ قل يا ايها الذين هادوا ان زعمتم انكم اولياء لله من دون الناس فتمنوا الموت ان كنتم صادقين ۔ جمعہ 6
قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
یعنی یہودی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں۔ اور یہ کہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے۔ () فرمایا۔ ان سے کہہ دو کہ اے یہودیو! اگر تم اپنے آپ کو خدا کے دوست سمجھتے ہو تو اپنے لئے بد دعا کرو، موت کی تمنا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ لوگ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی بداعمالیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اور خدا ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ برے اعمال کرنے والے ظالم لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں وہ موت کی تمنا نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
اے قدیر و خالقِ ارض و سما
5اے رحیم و مہربان و راہ نما
9اے کہ مے داری تو بر دلہا نظر
7اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
=گر تو مے بینی مرا پُر فسق و شر
9گر تو دیداستی کہ ہستم بد گہر
1پارہ پارہ کن من بدکار را
3شاد کن این زمرۂ اغیار را
5آتش افشاں بر در و دیوار من
7دشمنم باش و تباہ کن کارِ من
yمگر اس کے باوجود آپ کی جماعت نے ترقی کی۔ آپ کو خدا نے لمبی عمر عطا فرمائی اور اپنے دعویٰ کی تبلیغ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اولاد بڑھی۔ اور ہر قسم کے روحانی جسمانی فوائد حضور کو حاصل ہوئے۔
غیر احمدی:۔ ابوجہل نے بھی کی بد دعا کی تھی۔ (الانفال:۳۳)
جواب: سورۃ الجمعہ کی آیت میں تو یہ مذکور ہے کہ وہ شخص بد دعا نہیں کرتا جو خود اپنی ذات کے متعلق کوئی دعویٰ رکھتا ہو۔ مثلًا یہ کہتا ہو کہ خدا تعالیٰ میرا دوست ہے یا مجھ سے محبت کرتا ہے۔ یا اس نے مجھے مامور کیا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ اے خدا! اگر قرآن سچا ہے تو مجھ پر عذاب آئے۔ یہ ایسی ہی بد دعا تھی جس طرح ایک بچہ اپنی نادانی سے آگ کے کوئلے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ سزا ہمیشہ اتمامِ حجت کے بعد ہی مقرر فرمایا ہے۔
۲۔ یہ بد دعا ابوجہل نے کی تھی۔ جیسا کہ بخاری کتاب التفسیر باب و اذ قالوا اللھم ان کان ھٰذا ھوالحق میں مذکور ہے اور ابوجہل جنگ بدر میں مقتول ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق کا ارشاد فرمایا ہے۔ گویا کفار اُن آسمانی پتھروں کے ساتھ ہلاک کئے گئے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ ابوجہل بھی انہیں کافروں میں سے تھا۔ اس نے ڈبل بد دعا کی تھی۔ (۱) (۲)۔ پہلی بد دعا کے مطابق وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے نکلے ہوئے آسمانی پتھروں کا نشانہ بنا اور ہلاک ہوا۔ اور دوسری بد دعا کے مطابق وہ مقتول ہوا۔ اور قرآن مجید نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے کو عذاب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ (التوبۃ:۱۴)کہ کافروں کو قتل کرو۔ خدا چاہتا ہے کہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے پس ابوجہل کی بد دعا کے مطابق خدا نے اس کو ڈبل ہی سزا دی۔ گویا آسمانی پتھر بھی اس پر پڑے اور عذاب الیم بھی آیا۔ یاد رہے کہ آیت (الانفال:۳۴) میں یہ صرف وعدہ تھا کہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں ہیں ان پر عذاب نہیں آئے گا، لیکن جب حضورؑ بعد از ہجرت مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو اس کے بعد ابوجہل اور اس کے ساتھیوں پر عذاب آیا۔ سے مراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا مکہ میں موجود ہونا ہے۔
قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
یعنی یہودی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں۔ اور یہ کہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے۔ () فرمایا۔ ان سے کہہ دو کہ اے یہودیو! اگر تم اپنے آپ کو خدا کے دوست سمجھتے ہو تو اپنے لئے بد دعا کرو، موت کی تمنا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ لوگ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی بداعمالیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اور خدا ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ برے اعمال کرنے والے ظالم لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں وہ موت کی تمنا نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
اے قدیر و خالقِ ارض و سما
5اے رحیم و مہربان و راہ نما
9اے کہ مے داری تو بر دلہا نظر
7اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
=گر تو مے بینی مرا پُر فسق و شر
9گر تو دیداستی کہ ہستم بد گہر
1پارہ پارہ کن من بدکار را
3شاد کن این زمرۂ اغیار را
5آتش افشاں بر در و دیوار من
7دشمنم باش و تباہ کن کارِ من
yمگر اس کے باوجود آپ کی جماعت نے ترقی کی۔ آپ کو خدا نے لمبی عمر عطا فرمائی اور اپنے دعویٰ کی تبلیغ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اولاد بڑھی۔ اور ہر قسم کے روحانی جسمانی فوائد حضور کو حاصل ہوئے۔
غیر احمدی:۔ ابوجہل نے بھی کی بد دعا کی تھی۔ (الانفال:۳۳)
جواب: سورۃ الجمعہ کی آیت میں تو یہ مذکور ہے کہ وہ شخص بد دعا نہیں کرتا جو خود اپنی ذات کے متعلق کوئی دعویٰ رکھتا ہو۔ مثلًا یہ کہتا ہو کہ خدا تعالیٰ میرا دوست ہے یا مجھ سے محبت کرتا ہے۔ یا اس نے مجھے مامور کیا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ اے خدا! اگر قرآن سچا ہے تو مجھ پر عذاب آئے۔ یہ ایسی ہی بد دعا تھی جس طرح ایک بچہ اپنی نادانی سے آگ کے کوئلے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ سزا ہمیشہ اتمامِ حجت کے بعد ہی مقرر فرمایا ہے۔
۲۔ یہ بد دعا ابوجہل نے کی تھی۔ جیسا کہ بخاری کتاب التفسیر باب و اذ قالوا اللھم ان کان ھٰذا ھوالحق میں مذکور ہے اور ابوجہل جنگ بدر میں مقتول ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق کا ارشاد فرمایا ہے۔ گویا کفار اُن آسمانی پتھروں کے ساتھ ہلاک کئے گئے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ ابوجہل بھی انہیں کافروں میں سے تھا۔ اس نے ڈبل بد دعا کی تھی۔ (۱) (۲)۔ پہلی بد دعا کے مطابق وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے نکلے ہوئے آسمانی پتھروں کا نشانہ بنا اور ہلاک ہوا۔ اور دوسری بد دعا کے مطابق وہ مقتول ہوا۔ اور قرآن مجید نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے کو عذاب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ (التوبۃ:۱۴)کہ کافروں کو قتل کرو۔ خدا چاہتا ہے کہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے پس ابوجہل کی بد دعا کے مطابق خدا نے اس کو ڈبل ہی سزا دی۔ گویا آسمانی پتھر بھی اس پر پڑے اور عذاب الیم بھی آیا۔ یاد رہے کہ آیت (الانفال:۳۴) میں یہ صرف وعدہ تھا کہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں ہیں ان پر عذاب نہیں آئے گا، لیکن جب حضورؑ بعد از ہجرت مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو اس کے بعد ابوجہل اور اس کے ساتھیوں پر عذاب آیا۔ سے مراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا مکہ میں موجود ہونا ہے۔