پہلی دلیل ۔ فقد لبثت فيكم عمرا من قبله افلا تعقلون ۔ ۔ پس میں اس سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں تو کیا تم عقل نہیں کرتے ۔ یونس 16

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
پہلی دلیل
قل لو شاء الله ما تلوته عليكم ولا أدراكم به فقد لبثت فيكم عمرا من قبله أفلا تعقلون

قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ


(یونس:۱۷)کہ میں نے تم میں دعویٰ نبوت سے قبل ایک لمبی عمر گزاری ہے ۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔ اگر میں پہلے جھوٹ بولتا تھا تو اب بھی بولتا ہوں لیکن اگر میری چالیس سالہ زندگی پاک اور بے عیب ہے تو یقینا آج میرا دعویٰ الہام و نبوت بھی حق ہے ۔ ؂

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است

حضر ت قطب الاولیاء ابو اسحق ابراہیم بن شہریار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔

’’جوشخص جوانی میں اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگا وہ بڑھاپے میں بھی اﷲ ہی کاتابعدار رہے گا۔ ‘‘

(تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فرید الدین عطار ؒ باب ۷۶ حالات ابو اسحق ابراہیم بن شہریار مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہو ر۔ و ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ الدین سراج الدین صفحہ ۴۲۷)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو صاحبانِ حق کے پیشرو اور امام ہوئے اور محبانِ خدا کے پیشوا ۔ جب تک برہانِ حق اور رسالت نے ان پر ظہور نہ پایا اور وحی نازل نہ ہوتی تب تک نیک نام رہے اور جب دوستی کی خلعت نے سرِ مبارک پر زیب دیا تو خلقت نے ملامت سے ان پر زبان درازی کیبعض نے کاہن کہہ دیا اور بعض نے شاعر اور بعض نے دیوانہ اور بعض نے جھوٹ کا الزام دیا ۔ ایسی ہی اور گستاخی جائز رکھی ۔‘‘

(کشف المحجوب باب چہارم ’’ملامت کے بیان میں‘‘ مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش جلال دین لاہوری ۱۳۲۲ء صفحہ۶۵، ۶۶)

چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو اس سے قبل ابو لہب اور دوسرے کافر یہی کہتے تھے مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا (بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء و انذر عشیرتک الاقربین)کہ ہم نے آپ سے سوائے سچ کے اور کبھی کچھ تجربہ نہیں کیا مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا دعویٰ بیان فرمایا۔ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ کہ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہوں اور یہ کہ ایک خطرناک عذاب آنے والا ہے ۔ تو انہی مصدقین نے انکار کیا اور ابو لہب نے تو تَبًّا لَکَبھی کہہ دیا کہ آپ کو ہلاکت ہو ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہی لوگ جو پہلے مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًاکہا کرتے تھے بعد از دعویٰ نبوت جھوٹا کہنے لگ گئے۔ (ص:۵)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہ صرف جادو گرہیں بلکہ نعوذ باﷲ کذاب بھی ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ نبی کی قبل از دعویٰ زندگی دوست و دشمن کے تجربہ کے رو سے پاک ہوتی ہے۔ گو پاک تو اس کی دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی ہوتی ہے مگر چونکہ دعویٰ نبوت کی وجہ سے لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اس پر طرح طرح کے اعتراض ’’دشمن بات کرے انہونی‘‘ کے مطابق کیا کرتے ہیں ۔ پس اگر کسی مدعی نبوت کی صداقت پرکھنی ہو توا س کی دعویٰ سے قبل کی زندگی پر نظر ڈالنی چاہیے۔

حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

’’اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۴)

اس چیلنج کو شائع ہوئے ۵۲ سال گزر گئیمگر آج تک کسی شخص کو اس کے قبول کرنے کی جرأتنہیں ہوئی۔ ہاں مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن کے زمانہ سے جانتا تھا۔ یہ شہادت دی۔

’’ مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے(جب ہم قطبی و شرح ملّا پڑھتے تھے )ہمارے ہم مکتب ۔‘‘( اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر ۶از مولوی محمد حسین بٹالوی)

’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار و صداقت شعار ہیں۔‘‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر ۹)

’’اب ہم اس(براہین احمدیہ ) پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی……اور اس کا مؤلف (حضرت مسیح موعودؑ) بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۶)

اعتراض:۔مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ حیاتِ مسیح کا عقیدہ مشرکانہ عقیدہ ہے اور خود بارہ سال حیات مسیح کے قائل رہے۔

جواب(۱)حد ہمیشہ اتمام حجت کے بعد لگتی ہے جب تک نبی ایک بات کو ممنوع قرار نہیں دے دیتا اس وقت تک اس کی خلاف ورزی کرنے والا کسی فتویٰ کے ماتحت نہیں آتا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ وَ اَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ(مسلم کتاب الایمان باب بیان الصلوات التی ھی احد ارکان الاسلام) کہ اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ کامیاب ہو گیا۔ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’باپ‘‘ کی قسم وَاَبِیْہِ کے الفاط میں کھائی ہے مگر دوسری جگہ فرمایا:۔

(۲)مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِاللّٰہِ فَقَدْ اَشْرَکَ (ترمذی ابواب الایمان والنذور باب ما جاء فی عن من حلف بغیراﷲ و مشکوٰۃ کتاب الایمان والنذور باب الایمان و النذور)

جو خدا کے سوا کسی کی قسم کھائے وہ مشرک ہو جاتا ہے۔

چنانچہ مشکوٰۃ مجتبائی کتاب الاطعمہ باب اکل المضطرصفحہ ۳۷۰ میں ابو داؤد کی یہ روایت درج ہے :۔

’’قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاکَ وَ اَبِیْ الجُوْعُ‘‘ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے باپ کی قسم یہ بھوک ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے باپ کی قسم کھائی ہے اور اس کے متعلق حضرت ملّا علی قاری فرماتے ہیں:۔ ’’و قولہ و ابی الجوع قِیْلَ لَعَلَّ ھٰذَا الْحَلْفَ قَبْلَ النَّھْیِ عَنِ الْقَسْمِ بِالْاٰبَاءِ‘‘(مرقاۃ برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی صفحہ ۳۷۰) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’میرے باپ کی قسم‘‘ کہا گیا ہے کہ شاید باپوں کی قسم کی ممانعت سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ قسم اٹھائی ہے یا عادۃً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے نکل گئی ہے۔

(۳) فَقَدْ لَبِثْتُ والی آیت میں تو چالیس سالہ قبل از دعویٰ زندگی میں جھوٹ اور فسق و فجور سے پا کیزگی کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ۔ورنہ عقائد تو انبیاء کو خدا تعالیٰ کی وحی ہی آکر مکمل طور پر بتاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی اپنے چیلنج میں فرمایا :۔

’’ تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ ‘‘

(۴) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا۔ مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذِبَ(بخاری کتا ب التفسیر تفسیر سورۃ النساء با ب قولہ اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا الخ ) کہ جو کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے

پھر فرمایا ’’لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی ‘‘(صحیح بخاری کتاب الانبیاء کتاب خصومات باب مایذکر فی الاشخاص) کہ مجھ کو موسیٰ ؑ سے افضل نہ کہو۔ مگر بعد میں فرمایا۔’’اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ لَا فَخْرَ‘‘ کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ بطور فخر نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے ۔ پھر فرمایا ’’اَنَا اِمَامُ النَّبِیِّیْنَ وَاَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘کہ میں تمام نبیوں کا امام اور رہبر ہوں۔ نیز دیکھو مسلم جلد ۲ صفحہ ۳۰۷ جہاں لکھا ہے کہ کسی شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا۔ یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ! تو آپ نے فرمایا۔ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کہ میں تمام انسانوں سے افضل نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سب انسانوں سے افضل ہیں ۔

(۵)آج اگر کوئی مسلما ن بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تو اس پر یہودی اور کافر ہونے کا فتوی لگ جائے مگر خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نبوت کے بعد ۱۴سال اور ۷مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب التوجہ نحو القبلہ)

’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی نَحْوَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ سِتَّۃَ عَشَرَ شَھْرًا‘‘

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمبیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ سولہ یا سترہ مہینے (ہجرت کے بعد)اس تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو خدا تعالیٰ نے سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ کہہ کر بیوقوف قرار دیا ہے۔

نوٹ:۔ بعض مخالف مولوی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعض اس قسم کی عبارات پیش کر دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں دعویٰ سے قبل گمنام تھا۔ مجھے کوئی نہ جانتا تھا وغیرہ وغیرہ اور ان عبارات سے یہ دھوکا دیتے ہیں کہ جب آپ کو ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا پھر آپ کی پہلی زندگی پر اعترا ض کون کرے؟ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کر نی چاہیے:۔

’’اور میں اپنے باپ کی موت کے بعد محروموں کی طرح ہوگیا۔ اور میرے پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ بجز چند گاؤں کے لوگوں کے اور کوئی مجھ کو نہیں جانتا تھا۔ یا کچھ ارد گرد کے دیہات کے لوگ تھے کہ روشناس تھے اور میری یہ حالت تھی کہ اگر میں کبھی سفر سے اپنے گاؤں میں آتا تو کوئی مجھے نہ پوچھتا کہ تو کہاں سے آیا ہے اور اگر میں کسی مکان میں اترتا تو کوئی سوال نہ کرتا کہ تو کہاں اترا ہے اور میں ا س گمنامی اور اس حال کو بہت اچھا جانتا تھا اور شہرت اور عزت اور اقبال سے پرہیز کرتا تھا……پھر میرے رب نے مجھے عزت اور برگزیدگی کے گھر کی طر ف کھینچا اور مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ مجھے مسیح موعود بنائے گا اور اپنے عہد مجھ میں پورے کرے گا اور میں اس بات کو دوست رکھتا تھا کہ گمنامی کے گو شہ میں چھوڑا جاؤں ‘‘ (ریویو اردو فروری ۱۹۰۳ء جلد ۲ نمبر ۲ صفحہ۵۷، ۵۸)

۲۔اگر معترض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل از دعویٰ زندگی کو نہیں جانتا تو مولوی محمد حسین بٹالوی تو جانتا تھا جس نے لکھا کہ:۔

’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات اور خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین میں سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل کے (جب ہم قطبی وشرح ملّا پڑھا کرتے تھے ) ہمارے ہم مکتب بھی ‘‘ ( اشاعۃ السنہ جلد ۷ نمبر ۶)

۳۔پھر اسی طرح مولوی سراج الدین صاحب (جو مولوی ظفر علی صاحب آف ’’ زمیندار ‘‘ کے والد تھے ) نے شہادت دی کہ:۔

’’ مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء و ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ،۲۳ سال کی ہو گی۔ ہم چشم دید شہادت سے کہتیہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ ‘‘ (زمیندار ۸؍ جون ۱۹۰۸ء)

۴۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل آریوں کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کی قبل از دعویٰ زندگی کو نہیں جانتے اس پر اعتراض کیا کریں؟ تو اس کا بھی یہی جواب ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو ابو جہل اور ابو لہب تو جانتے تھے۔ ہم جب ان کی گواہی سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا بے عیب اور پاک ہونا ثابت کر سکتے ہیں تو صداقت واضح ہے۔

بعینہٖ اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت ا ٓ پ کی قبل از دعویٰ زندگی کو دیکھنے والوں کی شہادت سے ثابت ہوتی ہے۔

نوٹ:۔ بعض مولوی جب کوئی جواب نہیں دے سکتے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل از دعویٰ زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ قبل از دعویٰ زندگی کا پاک ہونا دلیل صداقت نہیں کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبو ت نہیں ہو سکتا۔ شاید درپردہ کوئی اور اعمال ہوں ۔

الجواب:۔(۱) یاد رکھناچاہیے کہ یہ محض دھوکہ ہے اور اس کا ازالہ خود آیت (یونس:۱۷)میں موجود ہے ۔ یعنی یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص درحقیقت پاک نہ ہو ’’بلکہ در پردہ کوئی اور اعمال ہوں ‘‘ اور کچھ عرصہ تک وہ لوگوں کی نظر میں پاک باز بنا رہے۔ جیسا کہ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی ٔ نبوت ہو اور در حقیقت اس کی زندگی ناپاک ہو اور وہ ایک لمبے عرصہ تک جو چالیس برس تک ممتد ہو پاک باز بنا رہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ ’’ ‘‘کہ میں تم میں رہاہوں۔بلکہ فرمایا یعنی میں تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں۔ پس لمبے عرصہ () تک اس کا پاک باز ہونا یقینا حقیقی راست بازی کی دلیل ہے۔

(۲)ہم نے یہ نہیں کہا کہ محض عمدہ چال چلن حقیقی پاکیزگی پر گواہ ہے ۔اور نہ ہم نے یہ کہا کہ ظاہری راست بازی کے لئے صرف یہ دعویٰ کافی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پرچلتاہے۔بلکہ ہماری بحث تو ایک’’ مدعی الہام ‘‘ کی قبل از دعویٰ زندگی کی پاکیزگی کے متعلق ہے۔ہم نے یہ دلیل نہیں دی کہ جس شخص کو عام لوگ راست باز کہیں وہ ضرور حقیقی طور پر سچا ہوتا ہے۔ بلکہ ہم نے تو یہ کہا ہے کہ مدعی ٔ نبوت کی دعویٰ سے پہلی زندگی پر دشمن سے دشمن کو بھی کوئی صحیح اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ چنانچہ یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاہے کہ آپ کے مخالفین کو بھی حضورؑ کے دعویٰ سے پہلی زندگی پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پس سوال عام راستباز کا نہیں بلکہ مدعی ٔ وحی و الہام کی قبل از دعویٰ پاکیزہ زندگی کا ہے۔

۳۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقی راستباز کے متعلق وہ عبارت تحریر نہیں فرمائی بلکہ ’’ظاہری راستباز‘‘ کے متعلق تحریر فرمائی ہے جیسا کہ اس کا پہلا ہی جملہ یہ ہے۔’’ ایک ظاہری راستباز کے لئے۔‘‘

(۴) اگر بغرض بحث اس عبارت کو مدعی ٔ نبوت کے متعلق بھی تسلیم کر لیا جائے تو حضور ؑ نے تحریر فرمایا ہے کہ محض دعویٰ پا کیزگی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کوئی امتیازی نشان بھی ہونا چاہیے سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کے ثبوت میں ہم محض حضرت اقدس کا دعویٰ ہی پیش نہیں کرتے بلکہ آپ کے اشد ترین دشمنوں کی شہادت کے علاوہ آسمانی نشان بھی حضورؑ کے اس دعویٰ کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً پاکیزہ زندگی بسر کرنے میں تو خود انسان کا بھی دخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی زندگی کے بڑھانے یا گھٹانے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا۔پس’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘ والے معیار کے مطابق ( جس کو ہم نے دوسری دلیل کے ضمن میں تفصیل سے بیان کیاہے)حضرت اقدس علیہ السلام کا بعد از دعویٰ وحی و الہام ۲۳ برس سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہنا ایک یقیناامتیازی نشان ہے۔ نیز اس کے علاوہ وہ لاکھوں نشانات بھی جو حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ پراﷲ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہماری تائید میں ہیں۔ پس حضرت اقدسؑ کے نزدیک حضورؑکی قبل از دعویٰ زندگی کا پاکیزہ ہونا یقینا دلیل صداقت ہے۔ چنانچہ حضور خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ پاک زندگی جو ہم کو ملی ہے یہ صرف ہمارے منہ کی لاف و گزاف نہیں اس پر آسمانی گواہیاں ہیں۔‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ۳۴۲)

پس ؂

صوفیاء اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ آسماں سے آگئی میری شہادت باربار

( المسیح الموعود)
 
Top Bottom