پانچویں دلیل ۔ ام يقولون افتراه قل فاتوا بعشر سور مثله مفتريات وادعوا من استطعتم من دون الله ان كنتم صادقين ۔ ہود 13

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
پانچویں دلیل ۔ ام يقولون افتراه قل فاتوا بعشر سور مثله مفتريات وادعوا من استطعتم من دون الله ان كنتم صادقين ۔ ہود 13

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۔ فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

کہ کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں بلکہ اس نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے ۔ ان سے کہہ دے کہ پھر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ ۔ اور سوا خدا کے جس کو چاہو بطور مدد گار بلا لو ۔ پس اگر تم اور تمہارے مددگار بنانے پر کامیاب نہ ہوں ۔ تو پھر جان لو کہ یہ انسانی علم کا نتیجہ نہیں بلکہ علم الٰہی سے ہے ۔

قرآن مجید کا یہ چیلنج اس کے کلام الٰہی ہونے پر زبردست دلیل ہے اور پچھلی تیرہ صدیاں قرآن مجید کے اس دعویٰ کی صداقت پر گواہ ہیں مگر چودہویں صدی میں جو قلم کا زمانہ ہے اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات ہونے شروع ہوگئے ۔ مخالفین نے اپنی بد باطنی کا اظہار یہ کہہ کر کر نا شروع کیا کہ قرآن کا یہ چیلنج بدؤں اور جاہل عربوں کو دیا گیا تھا اور ایسیزمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ چاروں طرف جہالت کا دور دورہ تھا ۔ پس ان لوگوں کا قرآن شریف کی مثل لانے پر قادر نہ ہوسکنا قرآن کی صداقت کی دلیل نہیں ہوسکتا ۔ ہاں اگر ہمارے زمانہ میں جبکہ علوم و فنون کی ترقی سے انسانی دماغ ارتقاء کی انتہائی منازل طے کر چکا ہے کوئی شخص اس قسم کا چیلنج دے تو ایک نہیں ہزاروں انسان اس کا جواب لکھنے پرآمادہ ہو جائیں۔ ا س اعتراض کو غلط ثابت کرنے اور مخا لفین اسلام کا ایک دفعہ پھر منہ بند کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا اور آپ نے تمام دنیا کے سامنے بضرب دہل اعلان فرمایا کہ خداتعالیٰ نے مجھ کو اپنے خاص مکالمہ مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور مجھ کو وہ علوم اور معارف عطا فرمائے ہیں کہ دنیا کا کوئی انسان ان میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’اعجاز احمدی‘‘ اور ’’اعجاز المسیح‘‘ وغیرہ کتابیں لکھیں اور کہا کہ اگر اعجاز احمدی کا جواب وقت مقررہ کے اند ر لکھو تو دس ہزار روپیہ انعام لو۔ اور فرمایا :۔

’’خداتعالیٰ اُن کی قلموں کو توڑ دے گا اور اُن کے دِلوں کو غبی کردے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۴۸) پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کی دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تویوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہوگیا اورمیرا سلسلہ باطل ہو گیا ۔ اس صورت میں میری جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں ۔

(اعجاز احمدی ۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۴۷)

اعجاز المسیح کے متعلق پانچ سو روپیہ انعام کا اشتہار دیا اور لکھا :۔

’’فَاِنَّہٗ کِتَابٌ لَیْسَ لَہٗ جَوَابٌ وَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ یَرٰی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَ تَدَمَّرَ ۔‘‘ (ٹائٹل پیج اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ )

کہ یہ وہ کتا ب ہے جس کا کوئی جواب نہیں اور جو شخص اس کے جواب کے لئے کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ وہ کس طرح نادم اور شرمندہ کیا جائیگا ۔ پھر فرمایا :۔

’’وَإنِ اجْتَمَعَ آبَاءُ ُہُمْ وَأَبْنَاءُ ہُمْ۔ وَأَ کْفَاءُ ہُمْ وَعُلَمَاءُ ہُمْ۔ وَحُکَمَاءُ ہُمْ وَفُقَہَاءُ ہُمْ۔ عَلَی أَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا التَّفْسِیْرِ۔ فِیْ ہٰذَا الْمُدَی الْقَلِیْلِ الْحَقِیْرِ۔ لَا یَأْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ کَالظَّہِیْرِ۔‘‘ (اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۵۶،۵۷)

اگر ان کے باپ اور ان کے بیٹے اوران کے ہمسر اور ان کے علماء اور ان کے حکماء او ران کے فقہاء (غرضیکہ چھوٹے بڑے )سب مل کر اس مدت میں جس میں مَیں نے اس کو لکھا ہے اس جیسی کتاب لکھنا چاہیں تو کبھی بھی نہ لکھ سکیں گے۔

چنانچہ جب مولوی محمد حسین فیض ساکن بھیں ضلع جہلم نے اس کا جواب لکھنا چاہا تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہو ا۔ مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِنَ السَّمَآءِ‘‘ کہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے اسے جواب لکھنے سے روک دیا ہے ۔ چنانچہ وہ ابھی نوٹ ہی تیار کر رہا تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر مر گیا اور پیر گو لڑوی نے اس کے لکھے ہوئے نوٹوں کو میعاد مقررہ گز ر جانے کے بعد سرقہ کر کے اپنے نا م سے شائع کردیا اور اس کا نام سیف چشتیائی رکھا۔ (تفصیل دیکھو نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۵۲تا۴۵۴)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی اعجازی کتب کے لئے میعاد اس لئے مقر ر کی کہ

(۱)یہ اعتراض نہ ہو سکے کہ قرآن کا مقابلہ کیا ہے اور اس طرح سے قرآن کے معجزہ میں کسی قسم کا شبہ نہ پڑسکے ۔ کیونکہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ مجھے جو اعجازی کلام کا معجزہ دیا گیا ہے ۔ وہ قرآن کے ماتحت اور اس کے ظِلّ کے طور پر ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :۔

’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں۔‘‘

(نزول المسیح ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۳۷)

ب۔کُلَّمَا قُلْتُ مِنْ کَمَالِ بَلَاغَتِیْ فِی الْبَیَانِ۔فَہُوَ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ

الْقُرْآنُ۔ (لجۃ النور۔ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۴۶۴ حاشیہ)

یعنی میں نے اپنے کمال فصاحت اور بلاغت کے متعلق جو کچھ کہا وہ سب قرآن مجید کے ماتحت ہے ۔

ج۔ ضرورۃ الامام ۔صفحہ۲۲ پر فرمایا :۔

’’ قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔‘‘ (ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۴۹۶)

۲۔میعاد کامقرر کرنا معجزہ کی شان کو کم نہیں کرتا جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’لَوْ قَالَ نَبِیٌّ اٰیَۃُ صِدْقِیْ اَنِّیْ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ اُحَرِّکُ اِصْبَعِیْ وَلَا یَقْدِرُ اَحَدٌ مِنَ الْبَشَرِ عَلٰی مُعَارِضَتِیْ فَلَمْ یُعَارِضْہُ اَحَدٌ فِیْ ذَالِکَ الْیَوْمِ ثَبَتَ صِدْقُہٗ‘‘(الاقتصاد فی الاعتقادصفحہ۹۴)یعنی اگر مدعی نبوت یہ کہے کہ میری صداقت کا یہ نشان ہے کہ آج میں اپنی انگلی کو حرکت دیتا ہوں مگر انسانوں میں سے کوئی میرے مقابلہ پر ہرگز ایسا نہیں کر سکے گا۔پس اگر فی الواقعہ اس دن کوئی شخص اس کے مقابلہ میں انگلی نہ ہلا سکے تو اس مدعی کی صداقت ثابت ہوگئی۔

۲۔ چونکہ آپ نے اعجازی کلام کے جواب کے لئے انعام مقرر کیا تھا اس لئے اس کے واسطے کوئی میعاد مقرر ہونی چاہییتھی تا کہ انعام کا فیصلہ ہو سکے۔ کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔

اعجاز احمدی کی مزعومہ غلطیاں

باقی رہا یہ اعتراض کہ اعجاز احمدی میں غلطیاں ہیں ایسا ہی ہے جیسے عیسائیوں کا اعتراض قرآن مجید کی عربی پر ہے۔

اِنَّ فِیْہِ لَحْنًا نَحْوَ اِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ عَلٰی قِرَاءَ ۃِ اَنَّ الْمُشَدَّۃِ(نبراس شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ۴۳۹)طَعْنُ الْمُلَاھِدَۃِ فِیْ اِعْجَازِالْقُرْاٰنِ(نبراس صفحہ۴۳۸)کہ ملحدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن میں غلطیاں ہیں جیسا کہ اِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ والی آیت میں جو قراء ۃ انّ مشدہ والی ہے اس میں اِنَّ ھٰذَیْنِ چاہیے۔

اسی طرح قرآن مجید میں آتا ہے کہ (الاعراف:۱۵۰) اس کی ترکیب کے متعلق روح المعانی میں لکھا ہے:۔ ذَکَرَ بَعْضُھُمْ اِنَّ ھٰذَا التَّرْکِیْبُ لَمْ یُسْمَعْ قَبْلَ نُزُوْلِ الْقُرْاٰنِ وَلَمْ تَعْرِفُہُ الْعَرَبُ وَلَمْ یُوْجَدُ فِیْ اَشْعَارِھِمْ وَکَلَامِھِمْ(روح المعانی زیر آیت ۔(الاعراف:۱۵۰) کہ بعض نے کہا ہے کہ یہ ترکیب نزول القرآن سے قبل نہیں سنی گئی اور نہ اس کو عرب جانتے تھے اور نہ اہل عرب کے اشعار اور کلام میں یہ ترکیب پائی جاتی ہے۔

پس غلطیاں نکالنا تو آسان ہے۔ صرف اس کی مثل بنانا ہی مشکل ہے جس طرح اہل عرب کا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَا کہنا کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن جیسی کتاب بنا سکتے ہیں۔ نیز اعجاز احمدی کی غلطیاں نکال کر جن لوگوں نے اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے ان کی آنکھوں کو روشنی پہنچانے کے لئے حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب ہلال پوری مرحوم مولوی فاضل و منشی فاضل قادیان نے ایک کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کے نام سے شائع فرما دی ہوئی ہے جس میں مزعومہ اغلاط کی حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے۔

غیر احمدی:۔مولوی غنیمت حسین مونگھیری اور قاضی ظفر الدین نے جواب میں قصیدے لکھے۔

الجواب:۔کیا ان لوگوں نے میعاد کے اندر یہ جواب لکھے؟ نہیں! بلکہ میعاد گزرنے کے سالہا سال بعد۔ پس ع

مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید برکلمہ خودباید زد

غیر احمدی:۔بیس دن کی میعاد بہت تھوڑی تھی۔

الجواب:۔(۱)حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ صفحہ۹۴ کا حوالہ اوپر درج ہو چکا ہے کہ اگر نبی یہ کہے کہ میں اپنی انگلی کو آج حرکت دیتا ہوں اور کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی کہ آج …… وہ اپنی انگلی کو میرے بالمقابل حرکت دے سکے تو گو اس میں میعاد ایک دن کی ہو صداقت کی دلیل ہے۔

(۲) محمدیہ پاکٹ بک کے مؤلف کا یہ لکھنا کہ بیس دن میں ایسی کتاب کا لکھنا قطعی طور پر ناممکن ہے اور یہ کہنا کہ بڑے سے بڑا زود نویس مصنف بھی صرف پانچ صفحہ روزانہ کا مضمون لکھ سکتا ہے محض ایک بہانہ سازی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کی تصنیف ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ جس میں مسئلہ نبوت پر فیصلہ کن بحث ہے اور مولوی محمد علی صاحب امیر اہل پیغام کے تمام دلائل کا مکمل رد ہے یہ کتاب تقریباً تین صد (۲۹۷) صفحات کی ہے مگر یہ بیس روز کے اندر اندر تصنیف اور طبع ہو کر شائع بھی ہوگئی۔ مضمون نویس نے مضمون لکھا۔ کاتب نے کتابت بھی کی۔ پریس میں بھی گئی۔ پروف بھی دیکھے گئے مگر تین سو صفحات کی معرکۃ الآراء تصنیف بیس یوم کے اندر تصنیف ہونے کے علاوہ شائع بھی ہو گئی۔ مگر ’’اعجاز احمدی‘‘ تو کُل نوّے صفحات کا رسالہ ہے۔ یعنی ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ سے تیسرے حصے سے بھی کم ہے۔ مگر عجیب بات ہے اور یہ بھی خدا کا ایک نشان ہے کہ بڑے بڑے مخالف جُبّہ دار مولوی اس کے جواب سے عاجز آگئے اور اب سوائے بہانہ سازی اور حیلہ جوئی کے ان کو کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کی تصنیف ’’القول الفصل‘‘ جو خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ ’’اندرونی اختلافاتِ سلسلہ احمدیہ کے اسباب‘‘ کا مکمل رد ہے اور مبسوط جواب ہے۔ یہ رسالہ ۷۸ صفحات پر مشتمل ہے اور بلحاظ مضمون کے ’’اعجاز احمدی‘‘ سے اس کا مضمون زیادہ ہے لیکن یہ رسالہ صرف ایک دن میں لکھا گیا۔ علاوہ ازیں اور بھی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں۔ ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ اور ’’القول الفصل‘‘ کی میعاد معینہ کی اصالت اور صحت میں کوئی کلام نہیں کیونکہ میعاد ہذا بطور معجزہ یا نشان کے بیان نہیں کی گئی بلکہ محض سرسری طور پر ایک واقعہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ معجزہ نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ دعویٰ اور تحدی نہیں ہے لیکن باوجود اس کے کہ ’’اعجاز احمدی‘‘ کا مضمون ان دونوں کتابوں سے کم ہے اور میعاد بہت زیادہ۔ نیز حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے دس ہزاری انعام اور تحدی بھی ہے کہ ’’خدا ان کے قلموں کو توڑ دے گا‘‘ مگر کوئی بھی جواب نہ لکھ سکا۔ عقل کے اندھو! حیلہ سازی سے کیا بنتا ہے تمہیں دس ہزار روپیہ جو دیا جا رہا تھا تو اسی لئے کہ ۸۰،۹۰ ملاں مل کر ہی بیٹھ جائیں۔ اعجاز احمدی کا ایک ایک صفحہ آپس میں تقسیم کرکے اس کا جواب دو چار گھنٹہ میں لکھ دیں۔ اسی طرح ۱۵،۲۰ کاتب لگا کر ایک ہی دن میں اس کی کتابت کروالیں اور مختلف پریسوں میں اس کو چھپوا کر دوسرے ہی دن اس کا جواب شائع کر دیں۔ اے دنیا کے کیڑو! دس ہزار روپیہ میں ایک ۸۰ صفحہ کی کتاب کا جواب بیس یوم میں (تم لاکھوں مولویوں کا لکھنا) کونسی بڑی بات تھی۔ اور اگر تمہیں مال کا طمع نہ تھا تو کم از کم آرام طلبی چھوڑ کر لوگوں کی ’’ہدایت‘‘ ہی کے لئے کچھ محنت کرتے۔ مگر اس وقت خدا نے اپنے اعجازی ہاتھ سے تمہارے قلموں کو توڑ دیا اور تمہارے دلوں کو غبی کر دیا تھا۔ اس لئے اس وقت تو تم مبہوت ہو کر رہ گئے لیکن اب جبکہ تیر ہاتھ سے نکل چکا ہے تم لاجواب ہونے کی صورت میں بھی مقولہ ’’ملاں آں باشد کہ چپ نہ شود‘‘ کے مطابق قابل شرم اور مضحکہ خیز حیلہ سازیوں سے وقت گذارتے ہو ؂

کچھ تو خوف خدا کرو لوگو

کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ
 
Top Bottom