سترھویں دلیل ۔ لا يمسه الا المطهرون ۔ الواقعہ 79
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
کہ قرا ٓن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف انہی پر کھولے جاتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒاپنے مکتوبات میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
’’مساس نکنند اسرارِ مکنونۂِ قرآنی را مگر جماعۃ را کہ از لوثِ تعلقاتِ بشریہ پاک شدہ باشند۔ ہر گاہ نصیب پاکاں مساس اسرار قرآنی بود بدیگراں چہ رسد؟‘‘
(مکتوبات امام ربانی ؒجلد ۳ صفحہ ۱۱ مکتوب چہارم شروع)
پس قرآن مجید کے حقائق و معارف پر آگاہ ہونا صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا کہ قرآن مجید کے علوم اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں۔ دنیا کا کوئی عالم میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے۔ مگر مولویوں نے اپنی خاموشی سے ثابت کر دیا کہ آسمانی علوم انہیں پر کھولے جاتے ہیں جو آسمان سے اپنے تعلقات وابستہ کر چکے ہوں۔ اور یہ کہ دنیا کے مولویوں اور عالموں کا کوئی بڑے سے بڑا استاد بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاگرد کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں علاوہ مختلف آیات کی تفسیر لکھنے کے قرآن مجید کی تفسیر کے نہایت قیمتی اصول بتائے اور خود ان اصول کے مطابق آیاتِ قرآنی کی تفسیر کر کے بتا دیا کہ آسمانی علوم آسمان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔ محض ضَرَبَ یَضْرِبُ ضَرْبًا کی گردان رٹ لینے اور عربی سیکھ لینے سے قرآن مجید نہیں آ جاتا۔ اگر قرآن مجید کے حقائق و معارف کے سمجھنے کا معیار محض عربی زبان کا جاننا ہی ہوتا تو ’’جرجی زیدان‘‘ یا اس جیسے عیسائی دہریہ اور یہودی جو عربی زبان کے مسلم استاد اور ادیب ہیں وہ قرآن مجید کے حقائق و معارف اور معانی و مطالب کے سب سے بڑے مفسر ہوتے۔ مگر خدا تعالیٰ نے فرما کر بتا دیا کہ قرآن مجید کے علوم کو وہی مس کر سکتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوں۔ گویا جتنی جتنی طہارت و پاکیزگی زیادہ ہو گی، اتنا اتنا علوم قرآنی کا دروازہ کھلتا چلا جائے گا۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے علوم قرآنی کے مقابلہ میں تمام دنیا کے علماء و فضلاء و فصحاء و بلغاء کا صاف طور پر عاجز آ جانا آپ کے صادق اور راستباز ہونے پر نا قابل تردید گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’پھر ایک اور پیشگوئی نشان الٰہی ہے جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں درج ہے۔ اور وہ یہ ہے (الرحمٰن:۲،۳) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے علم قرآن کا وعدہ دیا تھا۔ سو اس وعدہ کو ایسے طور سے پورا کیا کہ اب کسی کو معارف قرآنی میں مقابلہ کی طاقت نہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورۃ کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رخ نہیں کیا۔ پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ان کے لئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام، روحانی خزائن جلد ۱۱ آتھم صفحہ ۲۹۱ تا ۲۹۳)
’’میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورۃ کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا۔ ‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۳۱)
’’ ابؔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قدر نشانوں کو دیکھ کر پھر کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور مولویوں کے لئے تو خود اُن کی بے علمی کا نشان اُن کے لئے کافی تھا کیونکہ ہزارہا روپے کے انعامی اشتہار دئے گئے کہ اگر وہ بالمقابل بیٹھ کر کسی سورۃ قرآنی کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں میرے مقابل پر لکھ سکیں تو وہ انعام پاویں۔ مگر وہ مقابلہ نہ کر سکے تو کیا یہ نشان نہیں تھا کہ خدا نے اُن کی ساری علمی طاقت سلب کر دی۔ باوجود اس کے کہ وہ ہزاروں تھے تب بھی کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ سیدھی نیّت سے میرے مقابل پر آوے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ اس مقابلہ میں کس کی تائید کرتا ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۸-۴۰۷)
’’ نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو ؔطرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دُوسرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ (۲) دوسرے یہ کہ زبانِ قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کرکے بھی اِس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو ناکام اور نامراد رہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق و معارف و نکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں۔
اس الہام کے بعد میں نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی تفسیریں لکھیں اور نیز عربی زبان میں کئی کتابیں نہایت بلیغ و فصیح تالیف کیں اور مخالفوں کو ان کے مقابلہ کے لئے بلایا بلکہ بڑے بڑے انعام ان کے لئے مقرر کئے اگروہ مقابلہ کرسکیں اور ان میں سے جو نامی آدمی تھے جیسا کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السُّنہ ان لوگوں کو بار بار اس امر کی طرف دعوت کی گئی کہ اگر کچھ بھی ان کو علم قرآن میں دخل ہے یا زبان عربی میں مہارت ہے یا مجھے میرے دعویٰ مسیحیت میں کاذب سمجھتے ہیں تو ان حقائق و معارف پُر از بلاغت کی نظیر پیش کریں جو میں نے کتابوں میں اِس دعویٰ کے ساتھ لکھے ہیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بالاتر اور خدا تعالیٰ کے نشان ہیں مگر وہ لوگ مقابلہ سے عاجز آگئے ۔نہ تو وہ ان حقائق معارف کی نظیر پیش کرسکے جن کو میں نے بعض قرآنی آیات اور سورتوں کی تفسیر لکھتے وقت اپنی کتابوں میں تحریر کیا تھا اور نہ اُن بلیغ اور فصیح کتابوں کی طرح دو سطر بھی لکھ سکے جو میں نے عربی میں تالیف کرکے شائع کی تھیں۔ ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۳۲-۲۳۰)
’’خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے۔ اول۔ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے۔ دوم اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے۔ سوم۔ اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں۔ پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہوکر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالاتفاق منظور ہوکر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۳ حاشیہ)
’’میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے۔ اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے۔ پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۴)
’’غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے۔ تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرسکے۔سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۱)
’’ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں۔ بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں۔ ‘‘ (اربعین ضمیمہ نمبر ۴، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۸۴)
غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علومِ قرآن کے مقابلہ کے لئے تمام دنیا کے علماء کو للکارا مگر انہوں نے فرار اختیار کر کے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ خدا کا پیارا مسیح آسمانی علوم لے کر دنیا میں آیا تھا جس کے بالمقابل ان کے زمینی اور خشک علوم کی حیثیت جہالت سے بڑھ کر نہ تھی۔
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
کہ قرا ٓن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف انہی پر کھولے جاتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒاپنے مکتوبات میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
’’مساس نکنند اسرارِ مکنونۂِ قرآنی را مگر جماعۃ را کہ از لوثِ تعلقاتِ بشریہ پاک شدہ باشند۔ ہر گاہ نصیب پاکاں مساس اسرار قرآنی بود بدیگراں چہ رسد؟‘‘
(مکتوبات امام ربانی ؒجلد ۳ صفحہ ۱۱ مکتوب چہارم شروع)
پس قرآن مجید کے حقائق و معارف پر آگاہ ہونا صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا کہ قرآن مجید کے علوم اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں۔ دنیا کا کوئی عالم میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے۔ مگر مولویوں نے اپنی خاموشی سے ثابت کر دیا کہ آسمانی علوم انہیں پر کھولے جاتے ہیں جو آسمان سے اپنے تعلقات وابستہ کر چکے ہوں۔ اور یہ کہ دنیا کے مولویوں اور عالموں کا کوئی بڑے سے بڑا استاد بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاگرد کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں علاوہ مختلف آیات کی تفسیر لکھنے کے قرآن مجید کی تفسیر کے نہایت قیمتی اصول بتائے اور خود ان اصول کے مطابق آیاتِ قرآنی کی تفسیر کر کے بتا دیا کہ آسمانی علوم آسمان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔ محض ضَرَبَ یَضْرِبُ ضَرْبًا کی گردان رٹ لینے اور عربی سیکھ لینے سے قرآن مجید نہیں آ جاتا۔ اگر قرآن مجید کے حقائق و معارف کے سمجھنے کا معیار محض عربی زبان کا جاننا ہی ہوتا تو ’’جرجی زیدان‘‘ یا اس جیسے عیسائی دہریہ اور یہودی جو عربی زبان کے مسلم استاد اور ادیب ہیں وہ قرآن مجید کے حقائق و معارف اور معانی و مطالب کے سب سے بڑے مفسر ہوتے۔ مگر خدا تعالیٰ نے فرما کر بتا دیا کہ قرآن مجید کے علوم کو وہی مس کر سکتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوں۔ گویا جتنی جتنی طہارت و پاکیزگی زیادہ ہو گی، اتنا اتنا علوم قرآنی کا دروازہ کھلتا چلا جائے گا۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے علوم قرآنی کے مقابلہ میں تمام دنیا کے علماء و فضلاء و فصحاء و بلغاء کا صاف طور پر عاجز آ جانا آپ کے صادق اور راستباز ہونے پر نا قابل تردید گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’پھر ایک اور پیشگوئی نشان الٰہی ہے جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں درج ہے۔ اور وہ یہ ہے (الرحمٰن:۲،۳) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے علم قرآن کا وعدہ دیا تھا۔ سو اس وعدہ کو ایسے طور سے پورا کیا کہ اب کسی کو معارف قرآنی میں مقابلہ کی طاقت نہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورۃ کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رخ نہیں کیا۔ پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ان کے لئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام، روحانی خزائن جلد ۱۱ آتھم صفحہ ۲۹۱ تا ۲۹۳)
’’میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورۃ کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا۔ ‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۳۱)
’’ ابؔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قدر نشانوں کو دیکھ کر پھر کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور مولویوں کے لئے تو خود اُن کی بے علمی کا نشان اُن کے لئے کافی تھا کیونکہ ہزارہا روپے کے انعامی اشتہار دئے گئے کہ اگر وہ بالمقابل بیٹھ کر کسی سورۃ قرآنی کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں میرے مقابل پر لکھ سکیں تو وہ انعام پاویں۔ مگر وہ مقابلہ نہ کر سکے تو کیا یہ نشان نہیں تھا کہ خدا نے اُن کی ساری علمی طاقت سلب کر دی۔ باوجود اس کے کہ وہ ہزاروں تھے تب بھی کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ سیدھی نیّت سے میرے مقابل پر آوے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ اس مقابلہ میں کس کی تائید کرتا ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۸-۴۰۷)
’’ نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو ؔطرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دُوسرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ (۲) دوسرے یہ کہ زبانِ قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کرکے بھی اِس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو ناکام اور نامراد رہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق و معارف و نکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں۔
اس الہام کے بعد میں نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی تفسیریں لکھیں اور نیز عربی زبان میں کئی کتابیں نہایت بلیغ و فصیح تالیف کیں اور مخالفوں کو ان کے مقابلہ کے لئے بلایا بلکہ بڑے بڑے انعام ان کے لئے مقرر کئے اگروہ مقابلہ کرسکیں اور ان میں سے جو نامی آدمی تھے جیسا کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السُّنہ ان لوگوں کو بار بار اس امر کی طرف دعوت کی گئی کہ اگر کچھ بھی ان کو علم قرآن میں دخل ہے یا زبان عربی میں مہارت ہے یا مجھے میرے دعویٰ مسیحیت میں کاذب سمجھتے ہیں تو ان حقائق و معارف پُر از بلاغت کی نظیر پیش کریں جو میں نے کتابوں میں اِس دعویٰ کے ساتھ لکھے ہیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بالاتر اور خدا تعالیٰ کے نشان ہیں مگر وہ لوگ مقابلہ سے عاجز آگئے ۔نہ تو وہ ان حقائق معارف کی نظیر پیش کرسکے جن کو میں نے بعض قرآنی آیات اور سورتوں کی تفسیر لکھتے وقت اپنی کتابوں میں تحریر کیا تھا اور نہ اُن بلیغ اور فصیح کتابوں کی طرح دو سطر بھی لکھ سکے جو میں نے عربی میں تالیف کرکے شائع کی تھیں۔ ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۳۲-۲۳۰)
’’خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے۔ اول۔ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے۔ دوم اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے۔ سوم۔ اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں۔ پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہوکر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالاتفاق منظور ہوکر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۳ حاشیہ)
’’میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے۔ اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے۔ پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۴)
’’غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے۔ تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرسکے۔سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۱)
’’ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں۔ بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں۔ ‘‘ (اربعین ضمیمہ نمبر ۴، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۸۴)
غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علومِ قرآن کے مقابلہ کے لئے تمام دنیا کے علماء کو للکارا مگر انہوں نے فرار اختیار کر کے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ خدا کا پیارا مسیح آسمانی علوم لے کر دنیا میں آیا تھا جس کے بالمقابل ان کے زمینی اور خشک علوم کی حیثیت جہالت سے بڑھ کر نہ تھی۔