دوسری حدیث ۔ و قد روی من حدیث انس بن مالک قال لو بقی یعنی ابراہیم ابن النبی صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم لکان نبیا و لکن لم یبق لان نبیکم اخر الانبیآء

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
دوسری حدیث ۔ و قد روی من حدیث انس بن مالک قال لو بقی یعنی ابراہیم ابن النبی صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم لکان نبیا و لکن لم یبق لان نبیکم اخر الانبیآء

علامہ قسطلانی نے حضرت انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے وَ قَدْ رُوِیَ مِنْ حَدِیْثِ اَنْسِ بْنِ مَالِکَ قَالَ لَوْ بَقِیَ یَعْنِیْ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَکَانَ نَبِیًّا وَ لٰکِنْ لَمْ یَبْقَ لِاَنَّ نَبِیَّکُمْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ۔

(مواہب اللدنیہ از علامہ قسطلانی جز ثالث صفحہ ۱۶۳ طبع اولیٰ المطیعۃ الازھریۃ المصریۃ ۱۳۲۶ھ)

کہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ (ابراہیمؑ) باقی رہتا تو نبی ہو جاتا۔ اس کے آگے (ناقل) اپنی رائے لکھتا ہے کہ مگر وہ زندہ نہ رہا۔ کیونکہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں راوی کا اپنا اجتہاد حجت نہیں اور وہ کس قدر غلط ہے۔ اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں گویا خدا کو ڈر تھا کہ اگر ابراہیم زندہ رہا تو خواہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوتا ہو یا نہ وہ ضرور نعوذ باﷲ جبرًا نبی بن جائے گا۔ اس لئے اسے بچپن میں مار دیا۔

نوٹ نمبر۱:۔ مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے لکھا ہے کہ امام نووی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں بلکہ اس کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بہتان عظیم قرار دیتے ہیں؟

(محمدیہ پاکٹ بک از مولوی عبد اﷲ معمار امرتسری صفحہ ۵۰۱ ایڈیشن اپریل ۱۹۸۵ء)

جواب:۔ حدیث نبویؐ کے مقابلہ میں امام نووی کی رائے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ پھر یہ کہ نووی نے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا ہے کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس حدیث کے معنی کیا ہیں۔ اولاد نوح نبی نہ تھے‘‘ اس کا جواب ایک تو ملا علی قاریؒ نے دیا ہے جو نقل ہو چکا۔ دوسرا جواب علامہ شوکانی ؒ نے درج کیا ہے وہ یہ ہے:۔

’’وَھُوَ عَجِیْبٌ مِنَ النَّوَوِیْ مَعَ وَرُوْدِہٖ عَنْ ثَلَاثَۃٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَ کَاَنَّہٗ لَمْ یَظْھَرْ لَہٗ تَاوِیْلُہٗ۔‘‘

(فوائد المجموعہ از محمد بن علی شوکانی ؒالناشر دار الکتب العربی بیروت لبنان الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۸۶ء )

کہ نووی کا یہ اعتراض تعجب خیز ہے حالانکہ اس حدیث کو تین صحابیوں نے بیان کیا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ نووی کو اس حدیث کے اصل معنی سمجھ نہیں آئے۔

نوٹ نمبر ۲:۔ یہ کہنا کہ ’’لو‘‘ محال کے لئے آتا ہے صریحًا دھوکا ہے کیونکہ ’’لو‘‘ جس جملہ میں آئے اس کی شرط تو محال ہوتی ہے مگر جزا ممکن ہوتی ہے جیسا کہ:۔ (الانبیاء:۳۳) اگر خدا کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) خراب ہو جاتے۔ اب خدا کے سوا اور خدا کا ہونا تو ممکن نہیں۔ مگر زمین میں فساد کا ہونا ممکن ہے اسی طرح لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ والی حدیث میں ابراہیم کا زندہ رہنا محال ہے مگر اس کا نبی بننا ممکن۔
 
Top Bottom