بیسویں دلیل ۔ اذا خرج ھذا الامام المھدی فلیس لہٗ عدو مبین الا الفقھآء خآصۃ فانہٗ لایبقی لھم تمییز عن العامۃ ۔ فتوحات مکیہ

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
بیسویں دلیل ۔ اذا خرج ھذا الامام المھدی فلیس لہٗ عدو مبین الا الفقھآء خآصۃ فانہٗ لایبقی لھم تمییز عن العامۃ ۔ فتوحات مکیہ

مولوی ثناء اﷲ مرحوم امرتسری جماعت احمدیہ کے مشہور معاندین میں سے تھے اور عام طور پر یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ جماعت احمدیہ کے لڑیچر سے خوب واقف ہیں۔ ہم اس جگہ اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کہ ان کا یہ ادعا کس حد تک درست تھا، لیکن ببانگ بلند کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اس دعویٰ کو بھی صداقت حضر ت مسیح موعود علیہ السلا م کا ایک روشن اور واضح نشان بنا یا ہے ۔

آج سے تیس سال قبل ۱۹۲۳ء میں جب وہ حیدر آباد دکن میں بغرض تردید احمدیت گئے ہوئے تھے سیٹھ عبد اﷲ الٰہ دین صاحب آف سکندر آباد نے (جو جماعت احمدیہ کے ایک ممتاز فرد ہیں ۔) ایک اشتہار انعامی دس ہزار سات صد روپیہ شائع کیا جس میں مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ فی الواقعہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے دعاوی میں سچا نہیں سمجھتے تو وہ حلف اٹھا کراس امر کا اعلان کر دیں۔ اگر اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہ جائیں تو دس ہزار روپیہ ان کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔او رحلف اٹھانے کے وقت نقد پانسو روپیہ ان کی نذر ہوگا۔ علاوہ ازیں اس شخص کوبھی جو مولوی ثناء اﷲ صاحب کو اس حلف کے اٹھانے پر آمادہ کرے دو صد روپیہ انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد مولوی ثناء اﷲ تقریباً ۲۶ سال زندہ رہے مگر مولوی صاحب موصوف نے حلف مؤکد بعذاب اٹھانے کا نام نہ لیا اور ان کا اس سیدھے اور صاف طریق فیصلہ سے پہلو تہی کرنا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ ان کو دل سے اس بات کا یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے۔ ہم ذیل میں جناب سیٹھ صاحب کا انعامی اشتہار نقل کرکے تما م اہل انصاف حضرات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کا یہ حیرت انگیز مگر دانشمندانہ گریز بتاتا ہے کہ وہ صداقت کی بنا پر احمدیت کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا اصل موجب دنیا طلبی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

جیسا کہ حضرت محی الدین ابن عربی ؒ فرماتے ہیں :۔

اِذَا خَرَجَ ھٰذَا الْاِمَامُ الْمَھْدِیُّ فَلَیْسَ لَہٗ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ اِلَّا الْفُقَھَآءُ خَآصَّۃً فَاِنَّہٗ لَایَبْقٰی لَھُمْ تَمِیِیْزٌ عَنِ الْعَامَّۃِ(فتوحات مکیہ از امام محی الدین ابن عربی جز ثالث مطبوعہ داراحیاء التراث الاسلامی بیروت۔لبنان جلد ۳ صفحہ۳۳۸)کہ جب حضرت امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اس زمانہ کے مولوی خاص طور پر ان کے دشمن ہوں گے محض اس وجہ سے کہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان پر ایما ن لانے سے عوام پر اثر اور رسوخ قائم نہیں رہے گا۔
نقل اشتہار مؤرخہ ۲۲ فروری ۱۹۲۳ء


’’مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام ‘‘

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے مؤرخہ ۱۰ فروری ۱۹۲۳ء کو ایک خاص مجلس میں جس میں کہ ہمارے شہر کے ایک معزز محترم باوقار انسان یعنی عالی جناب مہارا جہ سرکرشن پرشاد بہادر بالقابہ بھی رونق افروز تھے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میرے حیدر آباد آنے کا اصل مقصود سیٹھ عبدا ﷲ الٰہ دین ہیں تاکہ ان کو ہدایت ہوجائے ۔اس لئے میں اپنے ذاتی اطمینان اور تسلی کے لئے بذاتِ خود یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب اس حلف کے مطابق جو میں اس اشتہار میں درج کرتا ہوں قسم کھا جائیں مگر قبل اس کے کہ مولوی صاحب حلف اٹھائیں ضرور ی ہوگا کہ ایک اشتہار کے ذریعہ صاف طور پر حیدر آباد و سکندر آباد میں شائع کردیں کہ میں اس حلف کو جناب مرز ا غلام احمد صاحب قادیانی اور اپنے عقائد کے درمیان حق وباطل کے تصفیہ کا فیصلہ کن معیار قرار دیتا ہوں اور یہ کہ اس حلف کے بعد سال کی میعاد کے اخیردن تک میں اپنے اس اقرار معیار فیصلہ کن کے خلاف کوئی تحریر یا تقریر شائع نہ کروں گا اور نہ بیان کروں گا ۔ہاں ویسے مولوی صاحب کو اختیار ہے کہ مرزا صاحب کی تردید بڑے زور سے کرتے رہیں مگر اس حلف کے فیصلہ کن معیار ہونے سے حلف کے بعد سال بھر تک انکا رنہ کریں ۔میری طرف سے یہ اقرار ہے کہ اس حلف کے بعد اگر مولوی صاحب ایک سال تک صحیح وسلامت رہے یا ان پر کوئی عبرتناک و غضبناک عذاب نہ آیا تو میں اہل حدیث ہوجاؤں گا ۔یا مولوی ثناء اﷲ صاحب کے حسبِ خواہش مبلغ دس ہزار روپیہ مولوی صاحب موصوف کو بطور انعام کے ادا کر دوں گا ۔

حلف کے الفاظ یہ ہیں :۔جو مولوی ثناء اﷲ صاحب جلسۂ عام میں تین مرتبہ دہرائیں گے اور ہر دفعہ خود بھی او رحاضرین بھی آمین کہیں گے ۔

’’میں ثناء اﷲ ایڈیٹر اہلحدیث خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات پر حلف کرتا ہوں کہ میں نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے تمام دعاوی ودلائل کو بغور دیکھا اور سنا اور سمجھا اور اکثر تصانیف ان کی میں نے مطالعہ کیں اور عبدا ﷲ الٰہ دین کا چیلنج انعامی دس ہزار روپیہ کا بھی پڑھا ۔مگر میں نہایت وثوق اور کامل ایمان اور یقین سے یہ کہتا ہوں کہ مرز ا صاحب کے تمام دعاوی والہامات جو چودہویں صدی کے مجدد وامامِ وقت ومسیح موعود و مہدی موعود اور اپنے نبی ہونے کے متعلق ہیں وہ سراسر جھوٹ وافتراء اور دھوکا وفریب اور غلط تاویلات کی بناء پر ہیں ۔بر خلاف اس کے عیسیٰ علیہ السلام وفات نہیں پائے بلکہ وہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ہنوز اسی خاکی جسم کے ساتھ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور وہی مسیح موعود ہیں اور مہدی علیہ السلام کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا۔ جب ہوگا تو وہ اپنے منکروں کو تلوار کے ذریعہ قتل کرکے اسلام کو دنیا میں پھیلائیں گے۔ مرزا صاحب نہ مجدد وقت ہیں، نہ مہدی ہیں نہ مسیح موعود ہیں، نہ امتی نبی ہیں بلکہ ان تمام دعاوی کے سبب میں ان کو مفتری اور کافر اور خارج از اسلام سمجھتا ہوں ۔اگر میرے یہ عقائد خداتعالیٰ کے نزدیک جھوٹے اور قرآن شریف وصحیح احادیث کے خلاف ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی درحقیقت اپنے تمام دعاوی میں خداتعالیٰ کے نزدیک سچے ہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادر وذوالجلال خدا جو تمام زمین آسمان کا واحد مالک ہے اور ہر چیز کے ظاہر وباطن کا تجھے علم ہے ۔پس تمام قدرتیں تجھی کو حاصل ہیں۔ تو ہی قہار اور منتقم حقیقی ہے اور تو ہی علیم وخبیر وسمیع وبصیر ہے ۔اگر تیرے نزدیک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعاوی والہامات میں صادق ہیں اور جھوٹے نہیں اور میں ان کے جھٹلانے اور تکذیب کرنے میں ناحق پر ہوں تو مجھ پر ان کی تکذیب اور ناحق مقابلہ کی و جہ سے ایک سال کے اندر موت وارد کر یا کسی دردناک اور عبرت ناک عذاب میں مبتلا کر کہ جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو۔تاکہ لوگوں پر صاف ظاہر ہوجائے کہ میں ناحق پر تھا اور حق وراستی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ جس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا مجھے ملی ہے۔ آمین! آمین!! آمین!! !‘‘

نوٹ:۔ اس عبارت حلف میں اگر کوئی ایسا عقیدہ درج ہو جسے مولوی ثناء اﷲ صاحب نہیں مانتے تو میرے نام ان کی دستخطی تحریر آنے پر اس عقیدہ کو اس حلف سے خارج کردوں گا ۔

خاکسار عبد اﷲ الٰہ دین سکندر آباد

۱۲ فروری ۱۹۲۳ء

نقل اشتہار مورخہ ۸ مارچ ۱۹۲۳ء

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری اور ان کے ہم خیالوں پر آخری اتمامِ حجت

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعاوی والہامات کے مخالف اپنے عقائد ظاہر کرتے ہیں اور جن کے متعلق سکند ر آباد وحیدر آباد میں انہوں نے بہت سے لیکچر دیئے ہیں اگر درحقیقت ان عقائد میں مولوی ثناء اﷲ کے نزدیک حضرت مرزا صاحب حق پر نہیں ہیں اور جو عقائد مولوی ثناء اﷲ صاحب بیان کرتے ہیں وہی سچے ہیں تو کیوں مولوی صاحب اپنے ان عقائد کو حلفاً بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔مولوی ثناء اﷲ صاحب خود اپنی تفسیر ثنائی جلد اول صفحہ۱۹۳ زیرآیت اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ آل عمران:۲۹ صفحہ ۱۹۳ اشاعت دسمبر ۲۰۰۲ء میں لکھتے ہیں کہ ’’گواہی نہ چھپاؤ۔جو کوئی اس کو چھپائے گا خواہ وہ کسی غرض سے چھپاوے تو جان لو کہ اس کا دل بگڑا ہوا ہے ۔‘‘ یہ قرآن شریف کی آیت شریفہ کا ترجمہ ہے اور حکم الٰہی ہے کہ شہادت کو نہ چھپاؤبلکہ ظاہر کرو۔توپھر مولوی ثناء اﷲ صاحب اس حکم کی تعمیل کیوں نہیں کرتے ۔یہ شہادت ایسی تھی کہ اس کے لئے مولوی صاحب کو محض ثواب کی خاطر بھی تیار ہوجانا چاہیے تھا مگر جب انہوں نے ۶ فروری ۱۹۲۳ء کے اشتہار میں دس ہزار روپیہ کا مجھ سے مطالبہ کیا تو وہ بھی میں نے دینا منظور کیا ۔اب میں آخری اتمام حجت کے طور پر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب میرے اشتہار مورخہ ۱۲؍فروری ۱۹۲۳ء کے الفاظ وشرئط کے مطابق اب حلف اٹھانے کو تیار ہوجائیں (ہاں اس میں جوعقائد وہ نہ مانتے ہوں۔وہ ان کی دستخطی تحریر آنے پر نکال دیئے جاسکتے ہیں )تو میں ان کو فوراً مبلغ پانسوروپیہ نقد بھی دینے کے لئے تیار ہوں جس کا مولوی صاحب حلف کے وقت ہی مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ ایک سال تک موت یاعبرتناک غضبناک عذاب سے جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو۔بچ جائیں تو پھر دس ہزار روپیہ ان کو نقد دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ مولوی صاحب کے ہم خیالوں میں جو کوئی صاحب ان کو اس بات کے لئے آمادہ کریں گے دو صد روپیہ ان کو بھی انعام دیا جائے گا ۔اگر اب بھی مولوی ثناء اﷲ صاحب نے میرے اشتہار مؤرخہ ۱۲؍ فروری ۱۹۲۳ء کے مطابق حلف اٹھانے سے گریز کیا تو مولوی ثناء اﷲ صاحب اور ان کے ہم خیالوں پر ہماری طرف سے ہر طرح اتمام حجت سمجھی جائے گی اور آئندہ کے لیے ان کو کسی طرح کا حق حاصل نہ ہوگا کہ حضر ت مرزا صاحب یا آپ کی جماعت کے عقائد پر بے جا حملے کریں۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب کو اس حلف کے لئے میں نے ابتداء سے اس لئے منتخب کیا ہے کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی کتابوں کا کا فی مطالعہ کیا ہوا ہے اور بذریعہ کئی مباحثات کے ان پر حجت پوری ہوچکی ہے ۔فقط مؤرخہ ۱۹ رجب ۱۳۴۱ھ مطابق ۸ مارچ ۱۹۲۳ء

خاکسار عبد اﷲ الٰہ دین احمدی

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام

پاکٹ بک کے سابق ایڈیشن کی اشاعت کے وقت جناب سیٹھ صاحب مذکور نے ہمیں اختیار دیا تھا کہ ہم اس انعامی اعلان کو پھر شائع کریں ۔’’یہ خاکسار ان کو وہی حلف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے اور پھر ان کے لئے پہلے کی طرح ایک انعام پانصد روپیہ کا اور دوسرا دس ہزار روپیہ کا مقرر کرتا ہے۔ اور ہمارے غیر احمدی بھائیوں میں سے جو شخص بھی ان کو حلف اٹھانے کے لئے آمادہ کرے گا اس کے لئے بھی حسبِ سابق دو سو روپیہ انعام تیار ہے ۔اب بھی اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب نے حلف اٹھانے سے گریز کیا تو اے آسمان وزمین تم گواہ رہو کہ ہم نے ہر طرح سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مخالفین ومنکرین پر اتمام حجت کر دی ۔اب ان کے اور خدا کے درمیان معاملہ ہے۔‘‘

اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ ’’ہم اپنی بصیرت کی بناء پر کہتے ہیں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب اب بھی اپنی مخصوص حیلہ بازی کے ذریعہ لیت ولعل کرتے رہیں گے اور ہرگز حلف مؤکد بعذاب اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوں گے ۔چنانچہ ہماری بصیرت درست ثابت ہوئی ۔اس ایڈیشن کی اشاعت کے وقت وہ حسرت ناک موت مرچکے ہیں ۔کیا کوئی ہے جو جماعتِ احمدیہ کی صداقت کے اس واضح اور کھلے نشان سے فائدہ اٹھائے ’’اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْدٌ‘‘ سچ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

’’سنت اﷲ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا ثابت کر دیتا ہے۔ تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے۔ اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے۔ بات سہل تھی۔ کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطورایک حَکم کے فعل کے مان لیتے مگر ان لوگوں کو تو اس قسم کے مقابلہ کا نام سُننے سے بھی موت آتی ہے۔ ‘‘ (اربعین نمبر ۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۴۵۱،۴۵۲)

نوٹ:۔سابق ایڈیشن محمدیہ پاکٹ بک میں مولوی ثناء اﷲ صاحب نے عذر کیا ہے کہ میں کئی کئی مرتبہ پہلے مطبوعہ حلف کھا چکا ہوں ۔سو یاد رہے کہ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ مولوی صاحب نے آج تک کبھی مؤکد بعذاب حلف نہیں اٹھائی جس کا ان سے مطالبہ ہے۔ نیز ان کا یہ کہنا کہ میں اس شرط پر حلف اٹھاؤں گا کہ حضرت امیر المؤمنین مجھے یہ بات لکھ دیں محض دفع الوقتی ہے کیونکہ مطالبۂ حلف حضرت صاحب کی طرف سے نہیں جناب سیٹھ صاحب کا ذاتی مطالبہ ہے اور انعام بھی انہی کی طرف سے مقرر ہے ۔ خادمؔ

ضروری یادداشت

پاکٹ بک ہذا میں فردوس الاخبار دیلمی کے جس قد ر حوالے ہیں ان کا نمبر صفحہ اس نسخہ کے مطابق ہے جو کتب خانہ آصفیہ نظام حیدر آبا د دکن میں موجود ہے اور جس کا نمبر ’’۲۱۴ فن حدیث‘‘ ہے۔ اس کا ثبوت کہ حوالے درست ہیں وہ مصدقہ نقل ہے جس پر مہتمم صاحب کتب خانہ آصفیہ کے دستخط ہیں جو خاکسارخادم ؔ کے پاس محفوظ ہے اس کی نقل مطابق اصل درج ذیل ہے ۔

’’نقل عبارت فردوس الاخبار صحیح ہے مقابلہ کیا گیا۔ دستخط سید عباس حسین مہتمم کتب خانہ آصفیہ سرکارِعالی ۲۲جمادی الاوّل ۱۳۵۲ھ حیدر آباد دکن اصل تحریر جو چاہے مجھ سے دیکھ سکتا ہے ۔

۲۔یاد رکھنا چاہیے کہ کتاب کا اصل نام ’’دیلمی ‘‘دال کے ساتھ ہے۔

۳۔دیلمی ؔمشہور محدث گزرا ہے۔ وفات ۵۰۷ھ علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں اس کے متعلق ھُوَ حُسْنُ الْمَعْرِفَۃِ فِی الْحَدِیْثِ لکھا ہے۔ نیز کشف الظنون جلد ۱صفحہ۱۸۲پر بھی اس کا ذکر ہے اس سے مشکوٰۃ اور سیوطی وغیرہ نے روایت لی ہے ۔ خادمؔ
 
Top Bottom