بارہویں دلیل ۔ وآخرين منهم لما يلحقوا بهم وهو العزيز الحكيم ۔ الجمعہ 3

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
بارہویں دلیل ۔ وآخرين منهم لما يلحقوا بهم وهو العزيز الحكيم ۔ الجمعہ 3

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

کہ ’’‘‘ میں بھی جو ابھی تک صحابہ ؓ سے نہیں ملے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول کی بعثت مقدر ہے۔ سورۃ جمعہ کی اس آیت کو پہلی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بعثتیں مقرر کی گئی ہیں۔ پہلی بعثت آپ کی اُمّیین میں ہوئی اور دوسری بعثت آخرین کی جماعت میں ہو گی۔ اس کی تفصیل خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے بتائی ہے۔

چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیَْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُوْرَۃُ الْجُمْعَۃِ قَالَ قُلْتُ مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! فَلَمْ یُرَاجِعْہُ حَتّٰی سَأَلَ ثَلَا ثًا وَ فِیْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہٗ عَلٰی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِنْ ھٰؤُلَآءِ۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ جمعہ باب قولہ ۔ و تجرید البخاری مکمل معہ عربی ترجمہ شائع کردہ لاہور فیروز الدین اینڈ سنز جلد ۲ صفحہ ۳۷۰۔ نیز مشکوٰۃ کتاب المناقب باب جامع المناقب الجمعۃ زیرآیت۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ جمعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جس میں یہ آیت بھی تھی۔ حضور ؐ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اﷲ! یہ کون لوگ ہیں۔ جن کا اس آیت میں ذکر ہے یعنی سے کون لوگ مراد ہیں؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ حتیّٰ کہ حضور ؐ سے تین دفعہ پوچھا گیا۔ اسی مجلس میں حضرت سلمان فارسیؓ بھی بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت سلمانؓ پر رکھ کر فرمایا۔ کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہو گا۔ تو ان (اہلِ فارس) میں سے ایک شخص یا ایک سے زائد اشخاص اس کو پا لیں گے۔

اس حدیث نے قرآن مجید کی اس آیت کی بالکل صاف اور واضح تفسیر کر دی ہے۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) اس میں کسی شخص کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کی آمد گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی آمد تصور کی جائیگی۔ (۲) اس کے ماننے والے صحابہؓ کے رنگ میں رنگین ہو کر صحابی کہلانے کے مستحق ہونگے۔ (۳) وہ شخص فارسی الاصل ہو گا۔ (۴) وہ ایسے زمانہ میں مبعوث ہو گا۔ جبکہ اسلام دنیا سے اٹھ جائیگا اور قرآن کے الفاظ ہی الفاظ دنیا میں باقی رہ جائیں گے۔ (۵) اس کا کام کوئی نئی شریعت لانا نہ ہو گا بلکہ قرآن مجید کو ہی دوبارہ دنیا میں لا کر شائع کرے گا اور اسی کی طرف لوگوں کو بلائے گا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اس حدیث میں ہرگز یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ شخص حضرت سلمان فارسیؓ کی نسل میں سے ہو گا بلکہ بتایا یہ گیا ہے کہ ’’ھٰؤُلَآءِ‘‘ ان میں سے ہو گا۔ یعنی قوم فارس میں سے یعنی فارسی الاصل ہو گا۔ اگر یہ کہنا ہوتا کہ وہ سلمان فارسیؓ کی نسل میں سے ہو گا تو بجائے مِنْ ھٰؤُلَآئِکہنے کے مِنْ ھٰذَا فرماتے کہ ’’اس میں سے‘‘ ہو گا۔ چنانچہ اسی حدیث کی دوسری روایت میں جو فردوس الاخبار دیلمی میں ہے۔ اس موقع پر یہ الفاظ ہیں:۔ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ ھٰؤُلَآءِ الَّذِیْنَ ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فَضَرَبَ عَلٰی فَخْذِ سَلْمَانَ فَقَالَ قَوْمُ ھٰذَا (دیلمی صفحہ ۱۶۲ نسخہ موجودہ کتب خانہ آصفیہ نظام دکن) صحابہؓ نے پوچھا۔ یا رسول اﷲ! وہ کون لوگ ہیں جن کا اﷲ تعالیٰ نے میں ذکر فرمایا ہے؟ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلمان فارسیؓ کی ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ’’اس کی قوم سے‘‘ پس مسیح موعودؑ کا فارسی الاصل ہونا ضروری ہے نہ کہ سلمان ؓ کی نسل سے ہونا۔

دوسری بات جو قابلِ غور ہے۔ وہ یہ ہے کہ حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح موعودؑ کی بعثت کا زمانہ بتا دیا ہے۔ ’’وَلَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا۔‘‘ گویا جب ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا یعنی عملی طور پر مسلمان زوال پذیر ہو رہے ہونگے۔

پس اس حدیث سے مراد ’’حضرت امام ابو حنیفہؒ ‘‘ ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دوسری صدی کے قریب پیدا ہوئے۔ اور وہ زمانہ عروج اسلام کا زمانہ تھا، لیکن یہ اس زمانہ کے متعلق پیشگوئی ہے جس کے متعلق فرمایا کہ ایمان اٹھ جائیگا اور اس زمانہ کے متعلق نواب نور الحسن خاں صاحب لکھتے ہیں کہ:۔

’’اب اسلام کا فقط نام قرآن کا صرف نقش باقی رہ گیا ہے۔‘‘

(اقتراب الساعہ صفحہ ۱۲ مطبع مفید عام الکائنۃ فی الرواۃ ۱۳۰۱ھ)

نیز ’’سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے۔‘‘ (اہلحدیث امرتسر ۱۴؍ جون ۱۹۱۲ء)

غرضیکہ یہی وہ زمانہ ہے جو خود پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کسی مصلح ربانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس فارسی الاصل مرد، فتح نصیب جرنیل کو عین ضرورت کے وقت قادیان کی مقدس بستی میں کھڑا کیا جس نے ایمان اور قرآن کو دوبارہ دنیا میں لانے کی ڈیوٹی کو کما حقّہٗ سر انجام دیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمیں

ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار

(ب) ’’افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں۔ اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ میں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو۔ ‘‘

(ضمیمہ اربعین نمبر ۳،۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۶۹)

نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مغل ہیں اس لئے فارسی الاصل نہیں ہو سکتے؟ تو اس کے جواب میں شاہانِ اسلامیہ کی تاریخ کے متعلق مستند ترین کتاب میڈیول انڈیا مصنفہ مسٹر سٹینلے لین پول (جو تاریخ کی مشہور کتاب ہے)۔

(Mediaeval India under Mohammadan Rule)

میں لکھا ہے کہ شاہانِ مغلیہ کے زمانہ میں یہ عام طور پر قاعدہ تھا کہ جو شخص درّہ خیبر کے راستہ سے ہندوستان میں داخل ہوتا۔ خواہ وہ افغان ہو یا فارسی یا کسی اور قوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہو پھر بھی ’’مغل‘‘ ہی کہلاتا تھا۔ اس لئے کسی کا محض ’’مرزا‘‘ یا ’’مغل‘‘ کہلانا اسے فارسی الاصل ہونے سے محروم نہیں کرتا۔

"The term Mughal…… came to mean any fair man from central Asia or Afghanistan as distinguished from the darker native, foreign invaders or governing Muslim class, Turks, Afghans, Pathans and Mughals eventually because so mixed that were indifferently termed Mughals."

(کتاب مذکور مطبوعہ ٹی فشران ون لمیٹڈ لندن پندرھواں ایڈیشن ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۹۷ حاشیہ)

یعنی لفظ ’’مغل‘‘ ہندوستان کے کالے باشندوں کو ایشیاء کے دوسرے باشندوں سے ممیز کرنے کیلئے بولا جاتا تھا۔ مختلف حملہ آور یا حکمران مسلمان، ترک، افغان، پٹھان اور مغل کچھ اسی طرح مل جل گئے کہ سب کو بلا امتیاز ’’مغل‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ہر گورے شریف آدمی کو ’’مغل‘‘ کہا جاتا تھا۔


ناقابل تردید ثبوت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی الاصل ہونے کا نا قابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ بندوبست مال ۱۸۶۵ء میں حضرت صاحب کے دعویٰ سے سالہا سال پہلے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد اور دوسرے بزرگ زندہ موجود تھے قادیان کے مالکان کے شجرۂ نسب کے ساتھ ’’فٹ نوٹ‘‘ میں بعنوان ’’قصبہ قادیان کی آبادی اور و جہ تسمیہ‘‘ لکھا ہے:۔

’’مورث اعلیٰ ہم مالکانِ دیہہ کا بعہد شاہانِ سلف (ملک فارس) سے بطریق نوکری …… آ کر …… اس جنگل افتادہ میں گاؤں آباد کیا۔‘‘

اور اس کے نیچے مرزا غلام مرتضیٰ صاحب و مرزا غلام جیلانی صاحب و مرزا غلام محی الدین وغیرھم کے دستخط ہیں۔ پس:۔

(ا) یہ سرکاری کاغذات کا اندراج حضرت صاحبؑ کے دعویٰ سے سالہا سال قبل کا حضرت صاحب کے فارسی الاصل ہونے کا یقینی ثبوت ہے۔

(ب) مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتا ہے:۔

’’مؤلّف براہینِ احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۷ صفحہ ۱۹۳)

(ج) ’’جناب مرزا صاحب یافث بن نوحؑ کی اولاد سے ہیں۔‘‘

(ٹریکٹ امر بھائی اور قرآنِ حکیم مصنفہ ایم۔ اے لطیف صفحہ ۱۶)

یافث بن نوحؑ کے متعلق ملاحظہ ہو غیاث اللغات فارسی:۔

’’شیخ ابن حجرؒ شارح صحیح بخاری گفتہ است کہ فارسی منسوب بفارس بن غامور بن یافث بن نوح علیہ السلام است۔‘‘

پس حضرت اقدس علیہ السلام کا فارسی الاصل ہونا ثابت ہے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:۔

ا۔’’اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا …… معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے انکو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدانے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۱ حاشیہ)

(ب) ’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے …… اب خدا کی کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا شکی اور ظنّی۔‘‘ (اربعین نمبر ۱،۲۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۵حاشیہ)
 
Top Bottom