اٹھارہویں دلیل ۔ ثم نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين ۔ آل عمران 61

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اٹھارہویں دلیل ۔ ثم نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين ۔ آل عمران 61

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ کہ اگر مخالفین باوجود زبردست دلائل اور عظیم الشان نشانات کے پھر بھی خدا کے فرستادہ پر ایمان نہ لائیں تو آخری طریقِ فیصلہ ’’مباہلہ‘‘ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین اپنے جھگڑے کو اس احکم الحاکمین خدا کی عدالت میں لے جائیں جو اپنے فیصلہ میں غلطی نہیں کرتا۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

۔(اٰل عمران:۶۲)

کہ اگر یہ لوگ باوجود دلائل بیّنہ اور براہین قاطعہ کے پھر بھی نہیں مانتے تو ان سے کہہ دے کہ آؤ! ہم دونوں فریق اپنے اہل و عیال اور جماعت کو لے کر خدا کے سامنے دعائے مباہلہ کریں اور جھوٹے پر *** اﷲ کہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے منکرین نے بھی جب باوجود دلائلِ بیّنہ کے آپ کی مخالفت کو نہ چھوڑا تو آپ نے ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا لیکن حق کی کچھ ایسی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہوئی کہ بجز فرار کے ان کو کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ’’لَمَّا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی حَتّٰی یَھْلِکُوْا کُلُّھُمْ‘‘ (تفسیر کبیر از امام فخر الدین رازیؒ جلد ۲ صفحہ ۱۹۹ زیر آیت مذکور) کہ اگر وہ مباہلہ کرتے تو ایک سال کے اندر سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ پس مذہبی اختلافات کے لئے آخری فیصلہ ’’مباہلہ‘‘ ہے۔ فریقین احکم الحاکمین خدا کی عدالت سے صحیح اور سچے فیصلے کے لئے ملتجی ہوتے ہیں اور وہ ایک سال کے اندر جھوٹے کو برباد کر کے حق اور باطل میں ابدی فیصلہ صادر فرما دیتا ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے پیارے آقا و سردار محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس سنت پر عمل کیا اور جب دلائل عقلی و نقلی اور نشانات ارضی و سماوی غرضیکہ ہر طریق سے ان پر اتمامِ حجت ہو چکی تو آپ نے ان کو آخری طریق فیصلہ (مباہلہ) کی طرف بلایا اور تحریر فرمایا:۔

’’سو اب اٹھو اور مباہلہ کیلئے تیار ہو جاؤ۔ تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا۔ اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر۔ دوسرے الہامات الٰہیہ پر۔ سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے۔ اب میرے بناء دعویٰ کا دوسرا شق باقی رہا۔ سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کرسکتا کہ اب اس دوسری بناء کے تصفیہ کیلئے مجھ سے مباہلہ کر لو۔‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۵)

اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گااور دعا کروں گا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میر اہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے۔ یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آ جائے۔ تامیری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں۔ اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے۔ لیکن اے خدائے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں۔ اور تیرے منہ کی باتیں ہیں۔ تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر۔ کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔ اور جب میں یہ دعا کرچکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین۔ ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہریک شخص جو مباہلہ کیلئے حاضر ہو جناب الٰہی میں یہ دعا کرے………… اور یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں ’’آمین‘‘۔ اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا۔ یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں۔ تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے۔ اور میں ہمیشہ کی *** کے ساتھ ذکر کیا جاؤنگا۔ لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفاتِ بدنی سے بچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الٰہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہو گئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا۔ اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا۔‘‘

آپ ؑ نے یہاں تک لکھا کہ:۔

’’میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہوجائیں۔ اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ ‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۷)

یہ دعوت مباہلہ تحریر فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالف علماء کو نہایت غیرت دلانے والے الفاظ میں مخاطب فرمایا۔

’’گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی *** اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے ۔‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۷)

یہ وہ آخری طریق فیصلہ تھا جس کے لئے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ بالا پُرشوکت الفاظ میں اپنے مکفر علماء کو دعوت دی۔ رسالہ ’’انجام آتھم‘‘ ان کو بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا۔ مگر ان میں سے ایک بھی میدان میں نہ آیا۔
 
Top Bottom