آٹھویں دلیل ۔ ومن يتول الله ورسوله والذين آمنوا فان حزب الله هم الغالبون ۔ المائدہ 56
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
خدا تعالیٰ یہاں اپنے سچے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ الْاَعْدَاءِ ترقیات اور پے بہ پے فتوحات عطا فرماتا ہے وہاں جھوٹے مدعیان نبوت کو ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہوتی اور خسران اور شکست کا طوق ان کے گلے کا ہار ہو کر رہ جاتا ہے۔
قرآن مجید نے اس زبردست معیار صداقت کا ذکر متعدد مقامات پر فرمایا ہے:۔
۱۔ فرمایا: (المائدۃ:۵۷) یاد رکھو کہ خدا ہی کی جماعت ہمیشہ غالب اور کامیاب ہوتی ہے۔
۲۔ اور اس کے بالمقابل کذابوں کی جماعت کا ذکر اس طرح فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:۲۰) یاد رکھو کہ شیطانی گروہ ہمیشہ ناکام و نامراد ہوتا ہے اور گھاٹے اور خسارے میں رہتا ہے۔
اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ ’’غالب‘‘ گروہ کون سا ہے۔ کیونکہ ہر ایک جماعت یہی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ غالب ہے۔
۳۔ اس اہم سوال کو خدائے تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ حل فرمایا ہے۔ فرمایا: (الانبیاء:۴۵) کہ یہ لوگ جو مدعیٔ نبوت کے منکر ہیں۔ ایک زمین کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم اس زمین کو آہستہ آہستہ چاروں طرف سے کم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا اب بھی وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہی ’’غالب‘‘ ہیں یعنی سچے نبی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی جماعت تدریجًا بڑھتی ہے اور اس کے مقابل اس کے مخالفین کی جماعت بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ مدعیٔ نبوت کی تدریجی ترقی اور اس کے بالمقابل اس کے مخالفین کا تدریجی تنزل اس مدعی کے صادق اور منجانب اﷲ ہونے پر قطعی اور یقینی دلیل ہے۔
۴۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ (المومن:۵۲) کہ ہم اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی اسی دنیا میں مدد کرتے ہیں اور پھر قیامت کے دن بھی ہم ہی ان کے مددگار ہوں گے۔ گویا خدا تعالیٰ کا یہ ازلی اور ابدی قانون ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی دشمنوں کے مقابلہ میں مدد اور نصرت فرماتا ہے اور ان کے مخالفین کی معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کو (جو انبیاء کی تباہی اور بربادی کے لئے کی جاتی ہیں) کبھی کامیاب ہونے نہیں دیتا۔
۵۔ چنانچہ ایک اور جگہ کھلے الفاظ میں اپنے اس اٹل قانون کا ذکر فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:۲۲) کہ خدا نے روزِ ازل سے یہ لکھ چھوڑا اور مقرر کر دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہی ہمیشہ ’’غالب‘‘ رہیں گے۔ گویا ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت ہو اور پھر اس کی جماعت دن بدن بڑھتی چلی جائے۔ یہ خدا تعالیٰ کا غیر متغیر اور غیر متزلزل قانون ہے جو جھوٹے اور سچے مدعیان نبوت کے درمیان ایک واضح اور روشن فیصلہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اوراق اس اصول کی صداقت پر معتبر گواہ ہیں۔ آج دنیا میں موسیٰؑ اور ابراہیمؑ اور محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام لیوا تو موجود ہیں مگر فرعون، نمرود، مسیلمہ کذاب وغیرھم کی طرف منسوب ہونے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔
۶۔ خدا تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے۔ (النحل:۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جھوٹے مدعیان وحی و الہام کی ناکامی کا باعث یہ ہے کہ ایسے جھوٹے مدعیوں کے دعویٰ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اور نصرت نہیں ہوتی جو خدا کے سچے نبیوں اور رسولوں کے شامل حال ہوتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو دوسرے مقام پر بیان فرمایا ہے۔
۷۔ (اٰل عمران:۶۲) (ھود:۱۹) کہ کذابوں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنانے والے ظالموں پر خدا کی *** ہوتی ہے۔
۸۔ خدا کی *** کا خوفناک نتیجہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ (النساء:۵۳) کہ جس پر خدا *** کرے اس کا کوئی مددگار اور ممد و معاون نہیں رہتا۔
پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ وہ لوگ جو جھوٹے طور پر نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خدا کی *** کے نیچے ہوتے ہیں اور آخر کار وہ بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا۔ اور جلد سے جلد خدا تعالیٰ ان کو جڑھ سے اکھاڑ دیتا ہے۔
۹۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ (طٰہٰ:۶۲) کہ وہ شخص جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ ناکام و نامراد رہتا ہے۔
۱۰۔ اسی طرح سورۃ اعراف:۱۵۳ میں بھی خدا تعالیٰ پر افتریٰ کرنے والوں کے متعلق اپنا قانون بیان فرمایا دیا ہے کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور وہ اسی دنیا میں ذلیل و رسوا اور خائب و خاسر رہتے ہیں۔ ()
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ
نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مندرجہ بالا دس آیات میں اﷲ تعالیٰ نے جس معیار کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صادق مدعی نبوت تدریجًا آہستہ آہستہ ترقی پاتا چلا جاتا ہے۔ اس کی ترقی یکدم اور فوری نہیں ہوتی۔ تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وہ اتفاقی طور پر کامیاب ہو گیا۔ اور یہ کہ ہمیں اس کے استیصال اور مقابلہ کے لئے پورا موقع نہیں ملا۔ ورنہ ہم اگر ذرا زیادہ زور لگاتے تو اس کو مٹا سکتے تھے اور اس طرح سے یہ امر دنیا پر مشتبہ ہو جاتا کہ مدعی کی ترقی اتفاقی تھی یا خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت اس کے شامل حال تھی۔ پس خدا تعالیٰ ان کے مخالفین کو کھلا کھلا موقع دیتا ہے تا وہ انفرادی طور پر بھی اس کو مٹانے کے منصوبے کر لیں اور پھر اپنی تمام طاقتیں مجتمع کر کے بھی زور لگالیں۔ ایک بار کوشش کر لیں۔ پھر کر لیں۔ پھر کر لیں۔ تا کسی کو اس میں شبہ نہ رہ جائے کہ مخالفین کی ناکامی اور مدعی کی کامیابی میں خدا کا زبردست ہاتھ کام کر رہا تھا۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب کے گو دو سال کے عرصہ میں دو لاکھ کے قریب پیرو ہو گئے مگر اسی عرصہ میں وہ انتہائی بے بسی کے ساتھ قتل ہوا۔ جس سرعت اور تیزی کے ساتھ وہ اٹھا تھا اسی کے ساتھ وہ گرا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے کھڑے ہوئے اور خدا نے آپ کو بتایا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍکہ تیرے پاس اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ سٹرک میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ ’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مسیلمہ کذاب کی جماعت ایک دو سال کے عرصہ میں یکدم کچھ بڑھ گئی مگر وہ اور اس کی جماعت فورًا تباہ کر دیئے گئے۔ سچ کی نشانی یہی ہے کہ اس کی ترقی تدریجًا ہوتی ہے۔ جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہوئی اور ہو رہی ہے اور آئندہ ہو گی انشاء اﷲ تعالیٰ۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ۔
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
خدا تعالیٰ یہاں اپنے سچے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ الْاَعْدَاءِ ترقیات اور پے بہ پے فتوحات عطا فرماتا ہے وہاں جھوٹے مدعیان نبوت کو ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہوتی اور خسران اور شکست کا طوق ان کے گلے کا ہار ہو کر رہ جاتا ہے۔
قرآن مجید نے اس زبردست معیار صداقت کا ذکر متعدد مقامات پر فرمایا ہے:۔
۱۔ فرمایا: (المائدۃ:۵۷) یاد رکھو کہ خدا ہی کی جماعت ہمیشہ غالب اور کامیاب ہوتی ہے۔
۲۔ اور اس کے بالمقابل کذابوں کی جماعت کا ذکر اس طرح فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:۲۰) یاد رکھو کہ شیطانی گروہ ہمیشہ ناکام و نامراد ہوتا ہے اور گھاٹے اور خسارے میں رہتا ہے۔
اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ ’’غالب‘‘ گروہ کون سا ہے۔ کیونکہ ہر ایک جماعت یہی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ غالب ہے۔
۳۔ اس اہم سوال کو خدائے تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ حل فرمایا ہے۔ فرمایا: (الانبیاء:۴۵) کہ یہ لوگ جو مدعیٔ نبوت کے منکر ہیں۔ ایک زمین کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم اس زمین کو آہستہ آہستہ چاروں طرف سے کم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا اب بھی وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہی ’’غالب‘‘ ہیں یعنی سچے نبی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی جماعت تدریجًا بڑھتی ہے اور اس کے مقابل اس کے مخالفین کی جماعت بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ مدعیٔ نبوت کی تدریجی ترقی اور اس کے بالمقابل اس کے مخالفین کا تدریجی تنزل اس مدعی کے صادق اور منجانب اﷲ ہونے پر قطعی اور یقینی دلیل ہے۔
۴۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ (المومن:۵۲) کہ ہم اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی اسی دنیا میں مدد کرتے ہیں اور پھر قیامت کے دن بھی ہم ہی ان کے مددگار ہوں گے۔ گویا خدا تعالیٰ کا یہ ازلی اور ابدی قانون ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی دشمنوں کے مقابلہ میں مدد اور نصرت فرماتا ہے اور ان کے مخالفین کی معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کو (جو انبیاء کی تباہی اور بربادی کے لئے کی جاتی ہیں) کبھی کامیاب ہونے نہیں دیتا۔
۵۔ چنانچہ ایک اور جگہ کھلے الفاظ میں اپنے اس اٹل قانون کا ذکر فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:۲۲) کہ خدا نے روزِ ازل سے یہ لکھ چھوڑا اور مقرر کر دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہی ہمیشہ ’’غالب‘‘ رہیں گے۔ گویا ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت ہو اور پھر اس کی جماعت دن بدن بڑھتی چلی جائے۔ یہ خدا تعالیٰ کا غیر متغیر اور غیر متزلزل قانون ہے جو جھوٹے اور سچے مدعیان نبوت کے درمیان ایک واضح اور روشن فیصلہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اوراق اس اصول کی صداقت پر معتبر گواہ ہیں۔ آج دنیا میں موسیٰؑ اور ابراہیمؑ اور محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام لیوا تو موجود ہیں مگر فرعون، نمرود، مسیلمہ کذاب وغیرھم کی طرف منسوب ہونے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔
۶۔ خدا تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے۔ (النحل:۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جھوٹے مدعیان وحی و الہام کی ناکامی کا باعث یہ ہے کہ ایسے جھوٹے مدعیوں کے دعویٰ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اور نصرت نہیں ہوتی جو خدا کے سچے نبیوں اور رسولوں کے شامل حال ہوتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو دوسرے مقام پر بیان فرمایا ہے۔
۷۔ (اٰل عمران:۶۲) (ھود:۱۹) کہ کذابوں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنانے والے ظالموں پر خدا کی *** ہوتی ہے۔
۸۔ خدا کی *** کا خوفناک نتیجہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ (النساء:۵۳) کہ جس پر خدا *** کرے اس کا کوئی مددگار اور ممد و معاون نہیں رہتا۔
پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ وہ لوگ جو جھوٹے طور پر نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خدا کی *** کے نیچے ہوتے ہیں اور آخر کار وہ بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا۔ اور جلد سے جلد خدا تعالیٰ ان کو جڑھ سے اکھاڑ دیتا ہے۔
۹۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ (طٰہٰ:۶۲) کہ وہ شخص جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ ناکام و نامراد رہتا ہے۔
۱۰۔ اسی طرح سورۃ اعراف:۱۵۳ میں بھی خدا تعالیٰ پر افتریٰ کرنے والوں کے متعلق اپنا قانون بیان فرمایا دیا ہے کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور وہ اسی دنیا میں ذلیل و رسوا اور خائب و خاسر رہتے ہیں۔ ()
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ
نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مندرجہ بالا دس آیات میں اﷲ تعالیٰ نے جس معیار کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صادق مدعی نبوت تدریجًا آہستہ آہستہ ترقی پاتا چلا جاتا ہے۔ اس کی ترقی یکدم اور فوری نہیں ہوتی۔ تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وہ اتفاقی طور پر کامیاب ہو گیا۔ اور یہ کہ ہمیں اس کے استیصال اور مقابلہ کے لئے پورا موقع نہیں ملا۔ ورنہ ہم اگر ذرا زیادہ زور لگاتے تو اس کو مٹا سکتے تھے اور اس طرح سے یہ امر دنیا پر مشتبہ ہو جاتا کہ مدعی کی ترقی اتفاقی تھی یا خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت اس کے شامل حال تھی۔ پس خدا تعالیٰ ان کے مخالفین کو کھلا کھلا موقع دیتا ہے تا وہ انفرادی طور پر بھی اس کو مٹانے کے منصوبے کر لیں اور پھر اپنی تمام طاقتیں مجتمع کر کے بھی زور لگالیں۔ ایک بار کوشش کر لیں۔ پھر کر لیں۔ پھر کر لیں۔ تا کسی کو اس میں شبہ نہ رہ جائے کہ مخالفین کی ناکامی اور مدعی کی کامیابی میں خدا کا زبردست ہاتھ کام کر رہا تھا۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب کے گو دو سال کے عرصہ میں دو لاکھ کے قریب پیرو ہو گئے مگر اسی عرصہ میں وہ انتہائی بے بسی کے ساتھ قتل ہوا۔ جس سرعت اور تیزی کے ساتھ وہ اٹھا تھا اسی کے ساتھ وہ گرا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے کھڑے ہوئے اور خدا نے آپ کو بتایا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍکہ تیرے پاس اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ سٹرک میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ ’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مسیلمہ کذاب کی جماعت ایک دو سال کے عرصہ میں یکدم کچھ بڑھ گئی مگر وہ اور اس کی جماعت فورًا تباہ کر دیئے گئے۔ سچ کی نشانی یہی ہے کہ اس کی ترقی تدریجًا ہوتی ہے۔ جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہوئی اور ہو رہی ہے اور آئندہ ہو گی انشاء اﷲ تعالیٰ۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ۔