mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 43 ۔ انگریز کا خود کاشتہ پودا یا انگریز کی تعریف کیوں کی ؟

مجلس احرار کی طرف سے باربار الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے انگریز کی خوشامد کی اور اس غرض سے تریاق القلوب۔ کتاب البریہ۔ نورالحق اور تبلیغ رسالت کے حوالجات پیش کئے جاتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان کے اس الزام کا کسی قدر تفصیل سے جواب عرض کیا گیا ہے۔

خوشامد کی تعریف :۔

افسوس ہے کہ معترضین حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر خوشامد کا الزام لگاتے وقت ایک ذرہ بھی خدا کا خوف نہیں کرتے کیونکہ اوّل تو آپ کی تحریرات کے اس حصہ پر جس میں انگریزی حکومت کے ماتحت مذہبی آزادی حکومت کی مذہبی امور میں غیر جانبدار ی اور قیام امن و انصاف کے لئے عادلانہ قوانین کے نفاذ کی تعریف کی گئی ہے۔ لفظ ’’خوشامد‘‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ بر محل سچی تعریف کو ’’خوشامد‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ ’’خوشامد‘‘ جھوٹی تعریف کو کہتے ہیں جو کسی نفع کے حصول کی غرض سے کی جائے۔ پس حضرت مرزا صاحب پر انگریز کی خوشامد کا الزام لگانے والوں پر لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ آپ نے انگریز ی حکومت کے بارے میں جو تعریفی الفاظ استعمال فرمائے وہ حقیقت پر مبنی نہ تھے بلکہ خلاف واقعات تھے اوریہ کہ آپ نے انگریز سے فلاں نفع حاصل کیا ، لیکن ہم یہ بات پورے وثوق اور کامل تحدی سے کہہ سکتے ہیں اور مخالف سے مخالف بھی ضرور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے دور میں مذہبی آزادی ، تبلیغ کی آزادی اور قیام امن و انصاف کی جو تعریف فرمائی وہ بالکل درست تھی۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو مذہبی آزادی انگریزی نظام کے ماتحت رعایا کو حاصل تھی۔ اس کی مثال موجودہ زمانہ میں کسی او ر حکومت میں پائی نہیں جاتی۔

حضرت سیّد احمد بریلوی کے ارشادات

چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی مجد د صدی سیز دہم رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی انگریزی حکومت کے اس قابل تعریف پہلو کی بے حد تعریف فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں :۔

الف۔’’سرکار انگریزی کہ ُاو مسلمانان رعایائے خود را برائے ادائے فرائضِ مذہبی شان آزادی بخشیدہ است۔‘‘ (سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صفحہ۱۱۵مطبع سٹیم پریس لاہور)

ب۔’’سرکار انگریزی…… مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے۔ ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہیں۔‘‘

(سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ۷۱مطبع سٹیم پریس لاہور)

ج۔’’سید صاحب (حضرت سید احمد بریلوی)رحمۃ اﷲ علیہ کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے۔‘‘ (ایضاً صفحہ۱۳۹)

د۔حضرت مولانا سید اسمٰعیل صاحب شہید رحمۃ اﷲ علیہ انگریزی حکومت کے متعلق فرماتے ہیں :۔

’’ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں۔‘‘

(سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ۵۷مطبع سٹیم پرس لاہور)

غرضیکہ ان ہر دو قابل فخر مجاہد ہستیوں نے بھی انگریزی حکومت کی بعینہٖ وہی تعریف کی جو حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے کی۔ بلکہ حضرت سید احمد بریلوی ؒ تو حکومت انگریزی کو ’’اپنی ہی عملداری‘‘ سمجھتے تھے۔ کیا احراری شعبدہ باز جوشِ خطابت میں ان بزرگان اسلام پر بھی ’’انگریزی حکومت کی خوشامد‘‘ کا الزام لگائیں گے؟

پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کے حق میں جو کچھ لکھا وہ بطور خوشامد نہیں بلکہ مبنی بر صداقت تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔

۱۔ ’’ بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا۔کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اِس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو! اے نادانوں مَیں اِس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے۔‘‘

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۷۵حاشیہ)

۲۔ ’’یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اورہریک ظالم کے حملہ سے ان کو بچاتی ہے…… مَیں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہوکر کیا ہے بلکہ یہ کام محض ﷲ اورنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کیا ہے ۔‘‘

(نورالحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۴۰،۴۱)

۳۔بے شک میں جیساکہ میرے خدا نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں لیکن اسلام کی سچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو درحقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور آبرو کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے۔ میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا۔ میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہوجائے۔‘‘

(اشتہار۲۱اکتوبر۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۴صفحہ۴۶)

۴۔’’میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ انمتواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں۔ کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ۷صفحہ۱۰)

۵۔’’میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں۔ بلکہ میں انصاف اور ایمان کے رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گزاری کروں۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد۱۰صفحہ۱۲۳)

آپ یا آپ کی اولاد نے حکومت سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا !

ان تحریرات سے واضح ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزکے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ کسی لالچ یا طمع یا خوف کے زیر اثر نہیں تھا اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کو واقعات کی تائید بھی حاصل ہے۔ کیونکہ یہ امر واقعہ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ نہیں کہہ سکتا حضرت مرزا صاحب یا حضور کے خلفاء میں سے کسی نے گورنمنٹ سے کوئی مربعہ یا جاگیر حاصل کی یا کوئی خطاب حاصل کیا۔ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف عیسائی پادریوں نے اور بعض اوقات حکومت کے بعض کارندوں نے بھی آپ اورآپ کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پس جب یہ ثابت ہے کہ حضور نے کوئی مادی فائدہ گورنمنٹ انگریزی سے حاصل نہیں کیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کی غیرجانبداری اور امن پسندی اور مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ مبنی بر حقیقت تھا۔ تو پھر آ پ پر ’’خوشامد‘‘کا الزام لگانامحض تعصب اور تحکم نہیں تو اور کیا ہے؟

زور دار الفاظ میں تعریف کی وجہ:۔

اس جگہ ایک سوال ہوسکتا ہے کہ گو یہ درست ہے کہ جو کچھ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے حق میں لکھا وہ خلاف واقعہ نہ تھا لیکن پھر بھی حضرت مرزا صاحب کو اس قدر زور سے بار بار انگریز کی تعریف کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟آ پ خاموش بھی رہ سکتے تھے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وسوسہ صرف ان ہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جن کو اس پس منظر کا علم نہیں جس میں وہ تحریرات لکھی گئیں۔

پس منظر:۔

اس ضمن میں سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے حالات اور تفصیلات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے وہ زمانہ کس قدر ابتلاء اور مصائب کا زمانہ تھا۔ وہ تحریک ہندوؤں کی اٹھائی ہوئی تھی، لیکن اس کو جنگِ آزادی کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان بھی من حیث القوم پس پردہ شامل ہیں۔سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ اس لئے نئی حکومت کے دل میں متقدم حکومت کے ہم قوم لوگوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا اس پر۱۸۵۷ء کا حادثہ مستزاد تھا۔ دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت، صنعت و حرفت، سیاست و اقتصاد۔ غرضیکہ ہر شعبۂ زندگی میں مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں کا انہوں نے معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے۔ یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک تریں دور تھا۔ پنجاب میں انگریزی تسلط سے پہلے سکھ دور کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے۔ مسلمانوں کو اس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑا۔ انہیں جبراً ہندو یا سکھ بنایا گیا۔ اذانیں حکمًاممنوع قرار دی گئیں۔ مسلمان عورتوں کی عصمت دری مسلمانوں کا قتل اور ان کے سازوسامان کی لوٹ مار سکھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا۔ سکھوں کے انہی بے پناہ مظالم کے باعث مجدد صدی سیزدہم (تیرھویں) حضرت سیداحمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کو ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنا پڑا تھا۔

پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، مسلمانوں پر ان کا علمی سیاسی اور اقتصادی تفوّق اور ان کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے اور اس کے ساتھ ساتھ سکھوں کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات تھے ان حالات میں انگریزی دورِ حکومت شروع ہوا۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت ہوگی بلکہ دوسری قوموں کی طرف سے بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایسے قانون بنادیئے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل وانصاف سے ہونے لگا۔ ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہوگئی اور سکھوں کے جبر واستبداد سے بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو اس طرح نجات مل گئی گویا کہ وہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے۔

قرآن مجید کی واضح ہدایت:۔

ایک طرف دو مشرک قومیں( ہندو اورسکھ) مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھیں تو دوسری طرف ایک عیسائی حکومت تھی جس کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کا مسلمانوں کو فیصلہ کرنا تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی اس تعلیم پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ’’ ‘‘(المائدۃ:۸۳)ترجمہـ :۔یقینا یقیناتو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودی اور مشرک ہیں اور یقینا یقینا تو دیکھے گا کہ دوستی اور محبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسلمانوں کے قریب عیسائی کہلانے والے ہیں۔

اس واضح حکم میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ یہود یا ہنود اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف عیسائی ہوں تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستی اور مودّۃ کا ہاتھ عیسائیوں کی طرف بڑھائیں۔ چنانچہ عملاً یہی مسلمانوں نے کیا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ قرآنی تعلیم مشعل راہ نہ بھی ہوتی تو پھر بھی مسلمانوں کا مفاد اسی میں تھا۔ اور یہی حالات کا اقتضائتھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلہ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرتے اور انگریزوں کی مذہبی رواداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ رہ کر اپنی پر امن تبلیغی مساعی کے ذریعہ سے اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرتے۔ بعد کے حالات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریزی عملداری کے ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد برعظیم ہندو پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تھی، لیکن انگریزوں کے انخلاء (۱۹۴۷ء)کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی۔ گویا کہ تین صدیوں کی اسلامی حکومت کے دوران میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد تھی صرف ایک صدی سے بھی کم زمانے میں اس سے دس گنا بڑھ گئی۔ چنانچہ سر سید احمد خاں صاحب علی گڑھی، مولانا شبلی نعمانی، نواب محسن الملک بہادر ،نواب صدیق حسن خاں صاحب اور دوسری عظیم الشان شخصیات نے دور اوّل میں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے دورآخر میں ہندو کی غلامی پر انگریز کے سا تھ تعاون کو ترجیح دی۔ اور مندرجہ بالا قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کی طرف دست تعاون بڑھایا۔ سر سید مرحوم نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے متعدد کتب ورسائل تصنیف کئے۔ مسلمانوں کی مغربی علوم میں ترقی کے لئے شبانہ روز کوششیں کیں جن کا نمونہ علیگڑھ یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے۔ چنانچہ احمدیت کے ذلیل ترین معاند اخبار’’زمیندار‘‘لاہور کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ’’ان دنوں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ انگریز کی حمایت کی جاتی۔‘‘

(زمیندار ۲۷/۱۱/۵۲ صفحہ۳ کالم نمبر۵)

مہدی سوڈانی

پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک ۱۸۷۹ء اور اس کے برطانوی حکومت کے ساتھ تصادم کے باعث انگریزی قوم کے دل و دماغ پر یہ چیز گہرے طور پر نقش ہوچکی تھی کہ ہر مہدویت کے علمبردار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیغ و سناں کو ہاتھ میں لے کر غیر مسلموں کو قتل کرے۔

حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مہدویت

یہی وہ دور تھا جس میں حضرت مرز صاحب نے اﷲ تعالیٰ کی وحی سے مامور ہو کر مسیح اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی تعلیم کے پیشِ نظر آپ اگرچہ حکومت انگریزی کے ساتھ تعاون اور وفاداری کو ضروری سمجھتے تھے، لیکن بد قسمتی سے دور انحطاط کے مسلمان علماء نے مہدیٔ موعود کا یہ غلط تصور دنیا کے سامنے پیش کر رکھا تھا کہ وہ آتے ہی جنگ و پیکار کا علم بلند کر دے گا اور ہاتھ میں تلوار لے کر غیرمسلموں کو قتل کرے گا اور بزور شمشیر اسلامی حکومت قائم کردے گا۔ اس لئے اور مہدی سوڈانی کا تازہ واقعہ اس کا ایک بین ثبوت تھا۔ اس لئے جب آپ نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو ضروری تھا کہ انگریزی حکومت آپ اورآپ کی تحریک کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتی۔ لیکن اس پر مستزاد یہ ہوا کہ مخالف علماء نے جہاں ایک طرف اولیاء امت کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ( کہ امام مہدی پر علمائے وقت کفر کا فتویٰ دیں گے) آپ پر کفر کا فتویٰ لگا کر مسلمانوں میں آپ کے خلاف اشتعال پھیلایا تو دوسری طرف حکومت انگریزی کو بھی یہ کہہ کر اکسایا کہ یہ شخص امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے در پردہ حکومت کا دشمن ہے اور اندر ہی اندر ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو طاقت پکڑتے ہی انگریزی حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دے گی۔ پھر نہ صرف یہ کہ یہ جھوٹا پراپیگنڈہ مخالف علماء کی طرف سے کیا گیا بلکہ عیسائی پادریوں کی طرف سے بھی حکومت کے سامنے اور پریس میں بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ یہ شخص مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا اراداہ یہ ہے کہ خفیہ طور پر ایک فوج تیار کر کے گورنمنٹ انگریزی کے خلاف مناسب موقع پر اعلان جنگ کر دے۔ دراصل یہ شخص اور اس کی جماعت حکومت انگریزی کے ’’غدار‘‘ ہیں اور ان کا وجود انگریزی حکومت کے لئے سخت خطرناک ہے۔ چونکہ یہ الزامات محض بے بنیاد اور بے حقیقت تھے اس لئے حضرت مرزا صاحب کے لئے ضروری تھا کہ ان کی پر زور الفاظ میں تردید فرما کر حقیقت حال کو آشکار ا کرتے۔

تعریفی عبارتیں بطور’’ذبّ‘‘ تھیں نہ بطور’’مدح‘‘

پس تعریفی الفاظ بطور مدح نہ تھے بلکہ بطور ’’ذبّ‘‘ یعنی بغرض رفعِ التباس تھے۔

۱۔اس کی مثال قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ قرآن مجید میں حضرت مریم ؓ کی عفت اور عصمت کی بار بار اور زور دار الفاظ میں تعریف بیان کی گئی ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ اور حضور کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کی عفت اورعصمت کا قرآن مجید میں خصوصیت سے ذکر نہیں کیا گیا۔ حالانکہ وہ اپنی عفت اور عصمت کے لحاظ سے حضرت مریم ؑ سے کسی رنگ میں بھی کم نہیں ہیں۔بلکہ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ اپنے مدارجِ عظمت کے لحاظ سے حضرت مریم ؑ سے افضل ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد’’فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَآءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔‘‘

(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب مناقب قرابۃ رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم و منقبۃ فاطمۃ علیھا السلام بنت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

۲۔لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مریم ؑ صدیقہ کی پاکیزگی اور عفت و عصمت کا قرآن مجید میں بار بار زور دار الفاظ میں ذکر ہونا اور ان کے مقابل پر حضرت فاطمۃ الزہرا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ کا قرآن مجید میں ذکر نہ ہونا ہر گز ہرگز اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت مریمؑ کو ان پر کوئی فضیلت حاصل تھی کیونکہ حضرت مریم ؑ پر زنا اوربدکاری کی تہمت لگی اس لئے ان کی بریت اور رفع التباس کے لئے بطور ’’ذبّ‘‘ ان کی تعریف کی ضرورت تھی۔ مگر چونکہ حضرت فاطمۃ الزہرا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ پر ایسا کوئی الزام نہ تھا اس لئے باوجود ان کی عظمت شان کے ان کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہ تھی۔ بعینہٖ اسی طرح چونکہ حضرت مرزا صاحب پر آپ کے مخالفین کی طرف سے آ پ کے دعویٰ مہدویت کے باعث حکومت سے غداری اور اس کے خلاف تلوار کی لڑائی کی خفیہ تیاریوں کا الزام تھا اس لئے ضروری تھا کہ اظہارِ حقیقت کے لئے زور دار الفاظ میں ان الزامات کی تردید کی جاتی۔
احراریوں کی پیش کردہ عبارتوں پر تفصیلی بحث

سول اینڈ ملٹری گزٹ (جو انگریزی حکومت کا ایک مشہور آرگن تھا ) کی اشاعت ستمبر، اکتوبر۱۸۹۴ء میں ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں لکھا گیا کہ ’’یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بد خواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اس مضمون کا ذکر اپنے اشتہار ۱۰دسمبر۱۸۹۴ء مطبوعہ تبلیغ رسالت جلد۳صفحہ۱۹۲،صفحہ۱۹۳میں کر کے اس کی تردید فرمائی ہے۔ یہی وہ اشتہار ہے جس کی جوابی عبارتوں کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں لیکن بددیانتی سے اس اشتہارکی مندرجہ ذیل ابتدائی سطور کو حذف کر دیتے ہیں۔

’’سول ملٹری گزٹ کے پرچہ ستمبر یا اکتوبر۱۸۹۴ء میں میری نسبت ایک غلط اور خلاف واقعہ رائے شائع کی گئی جس کی غلطی گورنمنٹ پر کھولنا ضروری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحب راقم نے اپنی غلط فہمی یا کسی اہل غرض کے دھوکہ دینے سے ایسا اپنے دل میں میری نسبت سمجھ لیاہے کہ گورنمنٹ انگریزی کا بد خواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں…… رکھتا ہوں۔ لیکن یہ خیال ان کا سراسر باطل اور دور از انصاف ہے ۔‘‘……

’’سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں۔……ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہد دولت نے ایک دم میں ہمیں چھوڑ ا دیا…… (اور ہم نے اگر کسی کتاب میں پادریوں کا نام دجّال رکھا ہے یا اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے تو اس کے وہ معنی مراد نہیں جو بعض ہمارے مخالف مسلمان سمجھتے ہیں۔ ہم کسی ایسے دجّال کے قائل نہیں جو اپنا کفر بڑھانے کے لئے خونریزیاں کرے اور نہ کسی ایسے مسیح اور مہدی کے قائل ہیں جو تلوار کے ذریعہ سے دین کی ترقی کرے۔ یہ اس زمانہ کے بعض کوتہ اندیش مسلمانوں کی غلطیاں ہیں جو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کے منتظر ہیں اورچاہیے کہ گورنمنٹ ہماری کتابوں کو دیکھے کہ کس قدر ہم اس اعتقاد کے دشمن ہیں۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے کہ سول ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر کو ان واقعات کی کچھ بھی اطلاع ہوتی تو وہ ایسی تحریر جو انصاف اور سچائی کے برخلاف ہے ہر گز شائع نہ کرتا۔‘‘(تبلیغ رسالت جلد۳ صفحہ۱۹۲ تا صفحہ ۱۹۹)

علاوہ ازیں شیخ محمد حسین بٹالوی نے کئی رسائل شائع کئے جن میں یہ لکھا ہے کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا ’’باغی‘‘ ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر حضرت مرزا صاحب نے مختلف کتب اور اشتہارات میں کیا ہے۔ چند عبارتیں ملاحظہ ہوں۔

الف۔’’چونکہ شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے خود غرض مخالف واقعات صحیحہ کو چھپا کر عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسے ہی دھوکوں سے متاثر ہوکر بعض انگریزی اخبارات جن کو واقعات صحیحہ نہیں مل سکے ہماری نسبت اور ہماری جماعت کی نسبت بے بنیاد باتیں شائع کرتے ہیں۔ سو ہم اسی اشتہار کے ذریعہ سے اپنی محسن گورنمنٹ اور پبلک پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ہنگامہ اور فتنہ کے طریقوں سے بالکل متنفر ہیں۔‘‘ (اشتہار ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد۴ صفحہ۱)

پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں :۔

’’آپ نے جو میرے حق میں گورنمنٹ کے باغی ہونے کا لفظ استعمال کیا ہے یہ شاید اس لئے کیا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ نالش اور استغاثہ کرنے کی میری عادت نہیں ورنہ آپ ایسے صریح جھوٹ سے ضرور بچتے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ۴ صفحہ ۴۵ نیز دیکھو تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۹۲)

۴۴۔ تریاق القلوب کی پچاس الماریوں والی عبارت

اسی طرح احراری معترضین تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵ کی عبارت بھی خوشامد کے الزام کی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس میں’’ پچاس الماریوں‘‘ کے الفاظ کو خاص زور سیپیش کرتے ہیں لیکن جو شخص اصل کتاب نکال کر اس میں سے یہ عبارتیں پڑھے گا اسے فی الفور معلوم ہوجائے گا کہ حضرت مرزا صاحب ؑ نے وہاں بھی انگریزی حکومت کی تائید میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ بطور ’ذبّ‘‘ کے ہے۔ یعنی مخالفین کے الزام ’’بغاوت‘‘ کی تردید میں لکھا ہے۔ چنانچہ تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۵ ۱۵کی وہ عبارت جسے احراری معترضین پیش کرتے ہیں اس سے پہلے یہ الفاظ ہیں:۔

’’ اور تم میں سے جو ملازمت پیشہ ہیں وہ اِس کوشش میں ہیں کہ مجھے اِس محسن سلطنت کا باغی ٹھہراویں۔میں سنتا ہوں کہ ہمیشہ خلافِ واقعہ خبریں میری نسبت پہنچانے کے لئے ہر طرف سے کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ میں باغیانہ طریق کا آدمی نہیں ہوں۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵)

اس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جس کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں۔

نور الحق حصہ اوّل کی عبارت

احراری معترضین نور الحق حصہ اوّل۔روحانی خزائن جلد۸ کے صفحہ۴۰ و صفحہ ۴۱کا حوالہ بھی اس الزام کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔لیکن جو شخص کتاب نور الحق حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد۸ کا صفحہ۳۳ و صفحہ۳۴ پڑھے گا اس کو علم ہوجائے گا کہ یہ عبارتیں بھی پادری عماد الدین کی طرف سے عائد شدہ الزام بغاوت کے جواب میں لکھی گئیں۔چنانچہ حضورؑ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔

’’ایک شخص نے ایسے لوگوں میں سے جو اسلام سے نکل کر عیسائی ہوگئے ہیں یعنی ایک عیسائی جو اپنے تئیں پادری عماد الدین کے نام سے موسوم کرتا ہے ایک کتاب ان دنوں میں عوام کو دکھوکہ دینے کے لئے تالیف کی ہے اور اس کا نام توزین الاقوال رکھا ہے اور اس میں ایک خالص افترا کے طور پر میرے بعض حالات لکھے ہیں اور بیان کیا ہے کہ یہ شخص ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دشمن ہے اور مجھے اس کے طریق چال چلن میں بغاوت کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے ایسے کام کرے گا اور وہ مخالفوں میں سے ہے۔……اب ہم گورنمنٹ عالیہ کو ان باتوں کی اصل حقیقت سے مطلع کرتے ہیں جو ہم پر اس نے افترا کیں اور گمان کیا کہ گویا ہم دولت برطانیہ کے بدخواہ ہیں۔‘‘

(نور الحق حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۳۳ و ۳۴)

اس کے آگے وہ عبارتیں شروع ہوتی ہیں جو احراری معترضین پیش کرتے ہیں۔ لیکن ص۳۰ طبع اول کی عبارت کو نقل کرنے میں یہ صریح تحریف اور بددیانتی کرتے ہیں کہ درمیان سے یہ عبارت حذف کر دیتے ہیں:۔

’’ اور مَیں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہوکر کیا ہے۔‘‘

(نور الحق حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۴۱)

پس ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ سب عبارتیں بھی دشمن کے جھوٹے الزام کی تردید میں ہیں نہ کہ بطور ’’خوشامد‘‘جیسا کہ احراری معترضین ظاہر کرتے ہیں۔

کتاب البریّہ کی عبارت

اب ہم کتاب البریہ۔روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۳ کی عبارت کو لیتے ہیں جو احراری معترضین کی طرف سے بار بار پیش کی جاتی ہے وہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:۔

’’یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارۃً اور کہیں صراحتًا میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میرا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے۔‘‘

(کتاب البریہ۔روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۳)

یاد رہے کہ پادری مارٹن کلارک ایک بہت بڑا عیسائی پادری تھا اور انگریز حکام اس کی عزت کرتے تھے اس نے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا استغاثہ دائر کیا تھا اس مقدمہ کے دوران میں اس نے بطور مستغیث عدالت میں جو بیان دیا اس میں یہ کہا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ انگریزوں کا باغی ہے اور اس کا وجود انگریزوں کے لئے خطرناک ہے۔
 
Top Bottom