اعتراض 43 حصہ دوم ۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کہا کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔ انگریز حکومت ہندوستان

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 43 حصہ دوم ۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کہا کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔

آخری عبارت جو احراریوں کی طرف سے اس الزام کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اشتہار ۲۴فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ہفتمصفحہ۱۹ کی ہے۔ یہ اشتہار تبلیغ رسالت صفحہ۷ سے شروع ہو کر صفحہ ۲۸ پر ختم ہوتا ہے۔ اس اشتہار کے صفحہ ۱۹ کے حوالہ سے احراری ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ کا لفظ اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں۔ اس الزام کا مفصل جواب تو آگے آتا ہے لیکن اس جگہ یہ بتانا مقصود ہے کہ معترضین اس عبارت کو بھی پیش کرتے وقت دیانت سے کام نہیں لیتے اور اپنی پیش کردہ عبارت سے اوپر کی مندرجہ ذیل عبارت حذف کر جاتے ہیں۔

’’مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بو جہ اختلاف عقیدہ یا کسی اورو جہ سے مجھ سے بغض او ر عداوت رکھتے ہیں……میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امورگورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں ا س لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بد گمانی پیدا ہو‘‘……’’اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹)

علاوہ ازیں اس اشتہار کے شروع ہی میں اس اشتہار کی اشاعت کی غرض ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’بسا اوقات ایسے نئے فرقہ (جماعت احمدیہ ) کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے۔ گورنمنٹ میں خلاف واقع خبریں پہنچاتے ہیں۔ اور مفتریانہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں۔ پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے ا س لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی پید اکرے یا بدظنی کی طرف مائل ہوجائے۔لہٰذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد۷ صفحہ ۸سطر۱)

غرضیکہ ا س اشتہار کی اشاعت کے لئے بھی یہی ضرورت پیش آئی تھی کہ مخالفین نے گورنمنٹ کو بانی ٔسلسلہ احمدیہ اور حضور کی جماعت کے خلاف یہ کہہ کر بد ظن کرنا چاہا تھا کہ یہ لوگ گورنمنٹ کے باغی ہیں۔

احراریوں کی پیش کردہ تمام عبارتوں کو ان کے محولہ اصل مقام سے نکال کر دیکھ لو۔ ہر جگہ یہی ذکر ہو گا کہ چونکہ مخالفوں نے مجھ پر حکومت سے بغاوت کا جھوٹا الزام لگایا ہے ا س لئے میں ان کی تردید میں یہ لکھتا ہوں کہ یہ الزام محض جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور میں در حقیقت گورنمنٹ کاخیرخواہ ہوں۔

پس حضرت مرزا صاحب نے جس جس جگہ انگریزی حکومت کی تعریف کی ہے وہ تعریف بطور ’’مدح‘‘ نہیں بلکہ بطور ’’ذبّ‘‘ کے ہے۔ یعنی رفعِ التباس کے لئے ہے جس طرح قرآن مجید میں حضرت مریم کی عصمت و پاکیزگی کا بالخصوص ذکر بطور مدح نہیں بلکہ بطور ’’ذبّ‘‘ کے ہے۔

ہجرت حبشہ کی مثال :۔

اس کی ایک اور واضح مثال تاریخ اسلام میں ہجرت حبشہ کی صورت میں موجود ہے۔حبشہ میں عیسائی حکومت تھی۔ مکہ میں مشرکوں کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مشرکوں کے استبداد پر عیسائی حکومت کو ترجیح دیتے ہوئے صحابہؓ کو اپنی بعثت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی۔سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔

’’جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شدتِ بلا کو ملاحظہ فرمایا جو ان کے اصحاب پر کفاروں کی طرف سے نازل ہوئی تھی اگرچہ خود حضور بباعث حفاظت الٰہی اور آپ کے چچا ابو طالب کے سبب سے مشرکوں کی ایذاء رسانی سے محفوظ تھے۔مگر ممکن نہ تھا کہ اپنے اصحاب کو بھی محفوظ رکھ سکتے۔ اس واسطے آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ملک حبشمیں چلے جاؤ تو بہتر ہے۔کیونکہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق اور راستی سرزمین ہے۔

( سیرت ابن ہشام مترجم اردو مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۰۶ )

پس حضور کے حکم کے مطابق مسلمان ایک مشرک نظام سے نکل کر ایک عیسائی حکومت کے سایہ میں جا کر آباد ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ وہاں حاکم ہو کر نہیں بلکہ محکوم ہو کر رہنے کے لئے گئے تھے اور فی الواقعہ محکوم ہو کر ہی رہے۔

ان مہاجرین میں علاوہ بہت سے دیگر صحابہ اور صحابیات کے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اور حضرت جعفر ؓ (جو حضرت علی ؓ کے بھائی تھے)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا، حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا رزجہ حضرت جعفر ؓ ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ، حضرت ابو حذیفہؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ، حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ ،حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح اور حضرت امّ المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا جیسے جلیل القدر صحابہ اور صحابیات شامل تھیں۔

حضرت امّ المومنین امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ’’جب ہم حبشہ میں تھے۔ نجاشی بادشاہ حبش کے پاس تو ہم بہت امن سے تھے۔ کوئی برائی کی بات ہمارے سننے میں نہ آئی تھی اور ہم اپنے دین کے کام بخوبی انجام دیتے تھے پس قریش نے اپنے میں سے دو بہادر شخصوں کو جو عبداﷲ بن ربیعہ اور عمرو بن عاص ہیں نجاشی کے پاس مکہ کی عمدہ عمدہ چیزیں تحفہ کے واسطے دے کر روانہ کیا۔ پس یہ دونوں شخص نجاشی کے پاس آئے اور پہلے اس کے ارکان سلطنت سے مل کر ان کو تحفے اور ہدئیے دئے اور ان سے کہا کہ ہمارے شہر سے چند جاہل نوعمر لوگ اپنا قدیمی دین و مذہب ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں اور ایک ایسا نیا مذہب اختیار کیا ہے کہ جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ تم جانتے ہو اب ہم بادشاہ کے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ان لوگوں کو بادشاہ ہمارے ساتھ روانہ کر دے……پھر ان دونوں نے وہ ہدیے جو بادشاہ کے واسطے لائے تھے اس کے حضور پیش کیے۔ اس نے قبول کئے پھر ان سے گفتگو کی۔ انہوں نے عرض کیا اے بادشاہ ! ہماری قوم میں سے چند نو عمر جہلا اپنے قومی مذہب کو ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور آپ کا مذہب بھی اختیار نہیں کیا ہے ایک ایسے نئے مذہب کے پیرو ہوئے ہیں جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ جانتے ہیں…… آپ ان کو ہمارے ساتھ روانہ کر دیں۔ نجاشی کے افسرانِ سلطنت اور علماء مذہب نے بھی ان دونوں کے قول کی تائید کی…… نجاشی بادشاہ حبش…… نے کہا میں ان سے ان دونوں شخصوں کے قول کی نسبت دریافت کرتا ہوں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اگر واقعی یہی بات ہے تو جو یہ دونوں کہتے ہیں تو میں ان کو ان کے حوالے کر دوں گا اور ان کی قوم کے پاس بھیج دوں گا۔ اور اگر کوئی اور بات ہے تو نہ بھیجوں گا۔ حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ پھر نجاشی نے اصحاب رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کو بلوایا…… جب یہ لوگ (صحابہؓ) پہنچے۔ نجاشی نے ان سے کہا وہ کونسا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے اور اپنی قوم کا مذہب چھوڑ دیا ہے اور کسی اور مذہب میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ امّ سلمہؓ فرماتی ہیں صحابہؓ میں سے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے گفتگو کی اور عرض کیا کہ اے بادشاہ ! ہم لوگ اہلِ جاہلیت تھے۔ بتوں کی پرستش ہمارا مذہب تھا۔ مردار خواری ہم کرتے تھے۔ فواحش اور گناہ کا ارتکاب ہمارا وطیرہ تھا۔ قطع رحم اور پڑوس کی حق تلفی اور ظلم و ستم کو ہم نے جائز رکھا تھا۔ جو زبردست ہوتا وہ کمزور کو کھا جاتا تھا۔پس ہم ایسی ہی ذلیل حالت میں تھے جو اﷲ نے ہم پر کرم کیا اور اپنا رسول ہم میں ارسال فرمایا…… ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیار کرنے پر ہم کو تکلیفیں دیں اور ہم کو ستایا تا کہ ہم اس دین کو ترک کردیں اور بتوں کی پرستش اختیار کریں اور جس طرح افعال خبیثہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں ہم بھی حلال سمجھیں۔ پس جب ان کا ظلم حد سے زیادہ ہوا اور انہوں نے ہمارا وہاں رہنا دشوار کر دیا ہم وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ اور آپ کے ملک کو ہم نے پسند کیا اور آپ کے پڑوس کی ہم نے رغبت کی اور اے بادشاہ ہم کو امید ہوئی کہ یہاں ہم ظلم سے محفوظ رہیں گے۔ نجاشی نے جعفر ؓ سے پوچھا کہ جوکچھ تمہارے نبی پر نازل ہوتا ہے اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟ یعنی تم کویاد ہے؟ جعفرؓ نے کہا ہاں یاد ہے۔ نجاشی نے کہا پڑھو۔ پس جعفرؓ نے سورۃ مریم شروع کی۔‘‘

(سیرۃ ابن ہشام مترجم اردو صفحہ۱۱۱وصفحہ۱۱۲ جلد ۲)

حضرت جعفر رضی اﷲ عنہ نے نجاشی کے دربار میں سورۃ مریم بھی صرف آیت (مریم:۳۵) تک پڑھی تھی(دیکھو تفسیر مدارک التنزیل مصنفہ امام نسفی جلد ۱ صفحہ۲۳۱ مطبع السَّعادۃ مصر زیر آیت الخ سورۃ المائدۃ :۸۳ ع۱۱ پ ۶ رکوع آخری)

ایک قابل غور سوال

اب یہاں ایک قابلِ غور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نجاشی نے قرآن مجید سننے کی فرمائش کی تو حضرت جعفرؓ نے سارے قرآن مجید میں سے سورۃ مریم کو کیوں منتخب کیا؟ ظاہر ہے کہ سورۃ مریم قرآن مجید کی پہلی سورۃنہیں تھی۔ حضرت جعفرؓ سورۃ فاتحہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف بھی پڑھ کر سنا سکتے تھے جو ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوچکی تھیں اور ان تینوں سورتوں میں عیسائیت کا بالخصوص ذکر ہے۔ سورۃ فاتحہ کی آخری آیت ’’‘‘ میں یہود اور نصاریٰ کی دینی اتباع سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور سورۃ بنی اسرائیل اور کہف میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت کرنے کے علاوہ عیسائی قوم کی تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے۔ پس اگر محض قرآن شریف کے سنانے کا سوال تھا تو پھر اوّل تو حضرت جعفر ؓ کو سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے تھی کیونکہ وہ امّ القرآن ہے اور سارے قرآن کا خلاصہ۔ لیکن سورۃ مریم قرآن مجید کا خلاصہ نہیں۔ پھر اگر عیسائیت کے متعلق اسلامی نظریہ کا بیان مقصود تھا تو سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف سے بڑھ کر اور کوئی بہتر انتخاب نہ ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں پڑھنے کے لئے سورۃ مریم کو منتخب فرمایا اور اس میں سے بھی دو رکوع بھی پورے نہیں بلکہ قریباً رکوع کی تلاوت کی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے اور جس حصہمیں عیسائیت کے بارے میں کوئی اختلافی عقیدہ بیان نہیں کیا گیا۔ پھر حضرت جعفر ؓ خاص طور پر آیت (مریم:۳۵) پر آکر رک جاتے ہیں جس سے اگلی آیت یہ ہے (مریم:۳۶)کہ اﷲ تعالیٰ کے شانِ شایان نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے وہ اس سے پاک ہے۔ اس آیت میں ابنیت مسیح کی نفی کی گئی ہے اور عیسائیت کے ساتھ سب سے بڑا اختلافی مسئلہ بیان کر کے اگلی آیات میں عیسائیوں کی تباہی اور اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ لیکن حضرت جعفرؓ مصلحتاً پچھلی آیت پر آکر رک جاتے ہیں اور صرف اسی حصہ پر اکتفا کرتے ہیں جس کے سننے سے ہر ایک عیسائی کا دل خوش ہوتا ہے۔

پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وفد قریش کا اعتراض تو یہ تھا کہ یہ لوگ ایک نئے دین کے متبع ہیں جو عیسائیت سے مختلف ہے اور نجاشی نے بھی یہی اعلان کیا تھاکہ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا تو میں مسلمانوں کو قریش کے حوالے کردوں گا اور اسی دعویٰ کی تائید یا تردید حضرت جعفر ؓ سے مطلوب تھی لیکن انہوں نے جو آیات تلاوت فرمائیں ان سے کسی رنگ میں بھی وفد قریش کے دعویٰ کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت جعفر ؓ نے اس موقعہ پر بجائے یہ کہنے کے کہ ہاں یہ درست ہے کہ ہم ایک نئے دین کے علمبردار ہیں اور ایک نئی شریعت کے حامل ہیں جس نے توراۃ اور انجیل کو منسوخ کر دیا ہے ہم حضرت مسیح کے ابن اﷲ ہونے کے عقیدہ کو ایک جھوٹا اور مشرکانہ عقیدہ سمجھتے اور عیسائی مذہب کو ایک محرف ومبدل اور غلط مذہب سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہمارا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ بلکہ تمام انبیاء گذشتہ سے ہر لحاظ سے افضل ہے۔ آپ نے سورۃ مریم کی صرف وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں حضرت مسیح ؑ اور حضرت مریم ؑ کا تقدس اورپاکیزگی بیان کی گئی ہے لیکن ان سب سوالوں کا جواب یہی ہے کہ چونکہ وفد قریش کا مقصد تحقیق حق نہیں تھا بلکہ احراریوں کی طرح محض اشتعال انگیزی تھا اور وہ اختلافی امور میں بحث الجھا کر نجاشی، اس کے درباریوں اور عیسائی درباریوں اور عیسائی پادریوں کو (جو اس وقت دربار میں حاضر تھے) مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہتے تھے۔ اس لئے حضرت جعفر ؓ نے ان کی اس شر انگیز اور مفسدانہ سکیم کو ناکام بنانے کے لئے بجائے اختلافی امور میں الجھنے کے قرآن مجید کی اس تعلیم پر زور دیا جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اسی طرح انہوں نے نجاشی کی حکومت کی (جو ایک غیر مسلم نصرانی حکومت تھی) جو تعریف کی وہ سراسر درست اور حق تھی اور بطور ’’ذبّ‘‘یعنی بغرضِرفعِ التباس تھی۔ اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ اس کو ’’خوشامد‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ نیز نجاشی کی حکومت کی تعریف اس وجہ سے بھی ’’خوشامد‘‘ نہیں کہلاسکتی کہ قریش مکہ کے جبرو استبداد اور ظلم وتعدی اور احیاء فی الدین کے مقابلہ میں حبشہ کی عیسائی حکومت کے اندر مذہبی آزادی اور عدل و انصاف کا دور تھا۔ پس اس تقابل کے نتیجہ میں حضرت جعفرؓ اور دیگر مہاجر صحابہ کے دل میں جنہوں نے قریش مکہ کے بھڑکائے ہوئے جلتے تنور سے نکل کر حبشہ کی عیسائی حکومت کے ماتحت امن وامان اور سکون و آرام پایاتھا نجاشی کے لئے جذباتِ تشکر و امتنان کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔ اور پھر نجاشی کے سامنے ان جذبات کا اظہار بموجبِ حکم ’’مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ۔ ‘‘ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی شکر المعروف ترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک) ضروری تھا۔

انگریزی حکومت کی تعریف سکھوں کے ظلم و ستم سے تقابل کے باعث تھی

بعینہٖ اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں بھی جب بعض مخالف علماء اور پادریوں نے حکومت وقت کو آپ اور آپ کی جماعت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی اور ’’آپ‘‘ پر باغی ہونے کا جھوٹا الزام لگایا تو ضروری تھا کہ حضرت مرزا صاحب اس الزام کی تردید پر زور الفاظ میں کرتے اور حکومت کو اپنے ان جذبات امتنان سے اطلاع دیتے جو سکھوں کے وحشیانہ مظالم سے نجات حاصل ہونے کے بعد انگریزی حکومت کے پر امن دور میں آجانے کے باعث آپ کے دل میں موجود تھے۔

حضرت مرزا صاحب کی تحریرات

چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی ان تحریرات میں جن میں آپ نے انگریزی حکومت کی امن پسندانہ پالیسی کی تعریف فرمائی ہے بار بار اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے۔

فرماتے ہیں:۔

الف۔’’مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دست تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیا ہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بدتر تھی۔ دینی فرائض کا ادا کرنا تو در کنار بعض اذانِ نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے۔ ایسی حالت زار میں اﷲ تعالیٰ نے دور سے اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابرِ رحمت کی طرح بھیج دیا۔ جس نے آن کر نہ صرف ان ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کرکے ہر قسم کے سامان آسائش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دینِ متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں۔‘‘

(اشتہار ۱۰ جولائی ۱۹۰۰ء تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحہ ۱،۲)

ب۔’’رہی یہ بات کہ اس (شیخ محمد حسین بٹالوی) نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا۔ سو خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں……اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی مخافظ نہیں تو پھر کیونکر شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں۔ کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سننے سے ہی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے۔ کسی مسلمان مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کرسکے۔‘‘

(اشتہار ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالت جلد۷ صفحہ ۶۸)

پھر فرماتے ہیں:۔

ج۔’’ان احسانات کا شکر کرنا ہم پر واجب ہے جو سکھوں کے زوال کے بعد ہی خدا تعالیٰ کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمارے نصیب کئے……اگرچہ گورنمنٹ کی عنایات سے ہر یک کو اشاعت مذہب کے لیے آزادی ملی ہے۔ لیکن اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اس آزادی کا پورا پورا فائدہ محض مسلمان اٹھا سکتے ہیں۔ اور اگر عمداً فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کی بدقسمتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے……کسی کو اپنے اصولوں کی اشاعت سے نہیں روکا، لیکن جن مذہبوں میں سچائی قوت اور طاقت نہیں…… کیونکر ان مذہبوں کے واعظ اپنی ایسی باتوں کو وعظ کے وقت دلوں میں جما سکتے ہیں؟……اس لیے مسلمانوں کو نہایت ہی گورنمنٹ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ گورنمنٹ کے اس قانون کا وہی اکیلے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘

(اشتہار ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد۴ صفحہ ۲۰تا۲۳) (نیز ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلد۳ صفحہ ۴۹۱)

تنور سے نکل کر دھوپ میں

پس مطابق مقولہ ع

وَ بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآءٗ

انگریزی نظام حکومت قابلِ تعریف تھا لیکن اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ذات میں آئیڈئیل نظام تھا بلکہ اس لئے کہ اپنے پیشرو سکھ نظام کے مسلمانوں پر ننگِ انسانیت مظالم اور جبر و استبداد کے مقابلہ میں اس نظام کی مذہبی رواداری اور شہری حقوق میں عدل و انصاف کا قیام عمدہ اور لائق شکریہ تھا۔ مسلمانان ہند کی مثال اس شخص کی سی تھی جو بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پڑا جل رہا ہے اور اس کو کوئی ہاتھ اس آگ میں سے نکال کر دھوپ میں ڈال دے۔ اب اگرچہ وہ شخص دھوپ میں ہے لیکن آگ کے شعلوں کی تپش کے تصور سے وہ اس ہاتھ کو رحمت خداوندی جان کر اس کا شکریہ ادا کرے گا اور اگر ایسا نہ کرے تو کافر نعمت ہوگا۔ پھر یہ جذبات تشکر اسی طرح کے تھے جس طرح مہاجرین حبشہ نے قریش مکہ کے جبر و استبداد کے مقابلہ میں حبشہ کے عیسائی نظام کو ایک فضل خداوندی اور نعمت غیر مترقبہ سمجھا۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے مقابلہ میں نجاشی کی کامیابی اور کامرانی کے لئے صحابہ رو رو کر دعائیں بھی کرتے رہے۔ چنانچہ حضرت امّ المؤمنین امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:۔

’’ہم نے وہاں (حبشہ میں) نہایت اطمینان سے زندگانی بسر کی۔ پھر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ نجاشی کی سلطنت میں کوئی دعویدار پیدا ہوا اور اس نے نجاشی پر لشکر کشی کی۔ فرماتی ہیں اس خبر کو سن کر ہم لوگ بہت رنجیدہ ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اگر خدانخواستہ وہ مدعی غالب ہوا تو نامعلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے۔فرماتی ہیں۔نجاشی بھی اپنا لشکر لے کر اس کے مقابلہ کو گیا اور دریائے نیل کے اس پار جنگ واقع ہوئی۔ فرماتی ہیں صحابہ نے آپس میں کہا کوئی ایسا شخص ہو جو دریا کے پار جاکر جنگ کی خبر لائے……زبیر بن عوامؓ نے کہا میں جاتا ہوں۔ صحابہ نے ایک مشک میں ہوا بھر کر ان کے حوالے کی اور وہ اس کو سینے کے تلے دبا کر تیرتے ہوئے دریا کے پار گئے اور وہاں سے سب حال تحقیق کر کے واپس آئے۔ فرماتی ہیں ہم یہاں نجاشی کی فتح کے واسطے نہایت تضرع و زاری کے ساتھ خدا سے دعا مانگ رہے تھے کہ اتنے میں زبیر بن عوامؓ واپس آئے اور کہا کہ اے صحابہ! تم کو خوشخبری ہو کہ نجاشی کی فتح ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو ہلاک کیا۔ فرماتی ہیں پھر تو نجاشی کی سلطنت خوب مستحکم ہو گئی اور جب تک ہم وہاں رہے نہایت چین اور آرام سے رہے۔ یہاں تک کہ پھر حضورؐ کی خدمت میں مکہ میں حاضر ہو ئے۔ ‘‘ (سیرت ابن ہشام مترجم اردو صفحہ ۱۱۳ جلد ۲)

پس اگر کوئی انصاف پسند اور غیر متعصب انسان سکھ نظام کے صبر آزما دور ۱۸۵۷ء کے سانحہ اور اس کے بعد کے تاریخی حالات کو مد نظر رکھ کر ان عبارات کو پڑھے اور اس امر کو بھی پیش نظر رکھے کہ وہ تحریرات مخالفین کی طرف سے انگریزی گورنمنٹ کا باغی ہو نے کے جھوٹے الزام کی تردید میں ضرورتاً لکھی گئی تھیں۔ تو وہ کبھی ان کو محل اعتراض قرار نہیں دے سکتا۔

تصویر کا دوسرا رخ

پھر یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریز کی جتنی تعریف کی ہے وہ صرف مادی اور دنیوی امور میں اس کی قابل تعریف خوبیوں کی ہے ، لیکن جہاں تک دینی اور روحانی پہلو کا تعلق ہے آپ نے انتہائی صفائی کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر بے خوف ہو کر اس کی انتہائی مذمت کی ہے اور آپ نے کبھی اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ انگریز آپ کی ان تحریرات سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں ؟

آپ نے انگریز کو دجّال قرار دیا

چنانچہ آپ وہ پہلے انسان ہیں جس نے انگریزی قوم کو ’’دجّال موعود‘‘ قرار دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اس امر میں ا ختلاف نہیں کر سکتا کہ عربی زبان میں دجّال سے زیا دہ ذلیل نام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ آپ نے دعویٰ مسیحیت کے بعد جو سب پہلی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ لکھی اسی میں آپ نے بدلائل بیّنہ یہ ثابت کیا کہ احادیثِ نبویؐ میں جس دجّال کے آخری زمانہ میں ظہور کی خبر دی گئی تھی وہ یہی انگریز قوم ہے۔ آپ نے ریل گاڑی کو ’’خر دجّال‘‘ قرا ر دیا۔ کیونکہ احادیثِ نبویؐ اور روایات میں جو علامات ’’دجّال‘‘ اور اس کے گدھے کی بتائی گئی تھیں وہ انگریز اور ان کی ایجاد کردہ ریل گاڑی میں پائی جاتی تھیں۔

دجّال کے کانا ہونے کی تشریح

احادیثِ نبوی میں یہ بتایا گیا تھا کہ ’’دجّال‘‘ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، لیکن اس کی بائیں آنکھ کی نظر غیر معمولی طور پر تیز ہو گی۔ اور اس کی تشریح علماء گزشتہ نے یہ کی تھی کہ دائیں آنکھ سے دین اور بائیں آنکھ سے دنیا مراد ہے۔ دائیں آنکھ سے دجّال کانا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین اور روحانیت سے یکسر بے بہرہ ہوگا، لیکن اس کی بائیں آنکھ کے اچھا اور عمدہ ہونے بلکہ بموجب حدیث مسنداحمد (باب خروج دجّال) بروایت ابن عباس کَاَنَّہٗ کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ‘‘(چمکتے ستارے کی طرح ) ہونے سے مراد یہ تھی کہ وہ دنیوی اور مادی امور میں ترقی کرے گا اور دنیوی نقطہ نگاہ سے اس کے کام قابل تعریف ہوں گے۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ اپنی تحریرات میں انگریزوں کے ان دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھا۔ یعنی ان کے دنیوی نظام کے قابل تعریف حصہ کو سراہا، لیکن دینی اور روحانی امور میں ان کی ضلالت وگمراہی کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کی۔

خرِ دجّال کی علامات

پھر خر دجّال کی علاما ت میں سے ایک علامت یہ بھی تھی کہ وہ ایک ایسی سواری ہوگی جو آگ اور پانی کے یکجا بند کرنے سے (بھاپ سے چلے گی) تَخْرُجُ نَارٌ مِّنْ حَبْسِ سَیْلٍ تَسِیْرُ مَطِیْئَۃَ الْاِبِلِ تَسِیْرُ بِالنَّھَارِ وَ تُقِیْمُ بِاللَّیْلِ تَغْدُوْا وَ تَرُوْحُ مَنْ اَدْرَکَتْہُ اَکَلَتْہُ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَقْوِیُّ وَالْبَاوَرْدِیُّ وَابْنُ قَانِعٍ وَابْنُ حَبَّانَ وَالطَّبْرَانِیُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ نُعَیْمٍ وَالْبَیْھَقِیُّ۔

(کنز العمال با ب منتخب علامات کبریٰ قیامت و مسک العارف صفحہ۵۰مطبع ضیاء الاسلام پریس قادیان مؤلّف سید محمد احسن)

ترجمہ:۔’’ وہ سواری پانی اور آگ کے بند کر نے سے اونٹوں کی طرح چلے گی۔ کبھی دن کو چلے گی اور رات کو ٹھہرے گی۔ اور کبھی دن کو بھی رات کوبھی چلے گی۔ جو اس کے پاس جائے گا اسے اپنے اندر نگل جائے گی۔‘‘

پھر لکھا تھا :۔

’’رَکَبٌ ذَوَاتِ الْفُرُوْجِ وَالسُّرُوْجِ ۔ ‘‘

(بحاراالانواراز علامہ باقر مجلسی جزء ۵۲ صفحہ ۱۹۲ تاریخ الامام الثانی عشر مطبع دار احیاء التراث بیروت)

کہ وہ ایسی ہوگی جس میں بہت سے چراغ روشن ہوں گے۔ اور اس کے اند ر بہت سے دروازے اور کھڑکیاں ہوں گی۔

حدیث میں اسے گدھا قرار دیا گیا ہے۔ لَہٗ حَمَارٌ مَا بَیْنَ عَرْضِ اُذُنَیْہِ اَرْبَعِیْنَ بَاعًا رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ (کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۰۰ حدیث نمبر۲۱۱۰ واقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب صفحہ ۱۲۴)

کہ دجّال کے ساتھ گدھا ہو گا جس کے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ چالیس باع ہوگا۔ پس ایسا گدھا جس کے دو کانوں کے درمیان ستر اسی گز کا فاصلہ ہو گا آگ اور پانی کے بند کرنے سے چلے اور جس کے اندر بہت سے چراغ روشن ہوں۔ کھڑکیاں اور دروازے ہوں اور لوگوں اور سامان کو اپنے پیٹ کے اندر ڈال دے گدھی کا بچہ تو ہو نہیں سکتا وہ یقینا ریل گاڑی ہی ہے۔


انگریز کو ماجوج کو قرار دیا

پھر حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف یہ کہ انگریز ی قوم کو ’’دجّال‘‘ قرار دیا۔ بلکہ ان کو ’’ماجوج‘‘ بھی ثابت کیا اور فرمایا کہ آخری زمانہ میں جو یاجوج اور ماجوج نامی دو خطرناک قوموں کے خروج کی پیش گوئی قرآن شریف اور حدیث میں کی گئی ہے وہ روسؔ اور انگریزؔ یعنی یاجوج سے مراد روسی قوم اور ماجوج سے مراد انگریز قوم ہے۔ (دیکھو ازالہ اوہام مطبوعہ۱۸۹۱ء ۱۳۰۸ھ صفحہ ۵۰۲ طبع اوّل)

پس حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں کو ’’دجّال‘‘ اور ’’ماجوج‘‘ قرار دے کر ان کی روحانی اور دینی لحاظ سے مکروہ شکل کو اس کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

دو نہریں:۔

انگریز کے پاس دینی اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے دو نہریں تھیں۔ وہ ہندو ستان میں سیاسی تفوق کے باعث دنیوی حکومت کرنا چاہتا تھا اور دینی نقطۂ نگاہ سے وہ اہل ہند کو نوکِ شمشیر سے نہیں بلکہ تبلیغ ترغیب و تحریص وغیرہ ذرائع سے عیسائی بنانا چاہتا تھا۔ ہندوستانی عوام اور مسلمان انگریز وں کی تبلیغی مساعی کی طرف تو کوئی توجہ ہی نہ کرتے تھے اور نہ اس کے خطرہ کو محسوس کرتے تھے ECCLESLASTICAL DEPARTMENTکو جو انگریزی حکومت کا ایک شعبہ تھا اور جس کی سر پرستی میں تمام مشنری نظام چل رہا تھا مسلمانوں نے کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا اور نہ اس کے خلاف کبھی آواز اٹھائی۔ انہوں نے اگر کبھی کوئی آواز اٹھائی تو وہ انگریزوں کے سیاسی تفوق اور اقتدار کے خلاف تھی۔ گویا انگریز کی پیش کردہ دو نہروں (دینی اور دنیوی سرگرمیوں) میں سے اکثر مسلمانوں نے دینی نہر کو کبھی محلِ اعتراض نہ ٹھہرایا ،لیکن دنیوی نہر کو اپنے لئے ناقابل برداشت قرا ر دیتے ہوئے انگریز کے سیاسی و دنیوی اقتدار کو قبول کرنا اپنے لئے موت سمجھا۔ حالانکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں یہ ہدایت فرمائی تھی:۔

’’مَعَہٗ نَھْرَانِ تَجْرِیَانِ اَحَدُھُمَا رَأْیَ الْعَیْنِ مَآءٌ اَبْیَضٌ وَالْاٰخَرُ رَأْیَ الْعَیْنِ نَارٌ تَأَجُّجٌ فَاَمَّا اَدْرَکَنَّ وَاحِدًا مِنْکُمْ فَلْیَاْتِ النَّھْرَ الَّذِیْ یَرَاہٗ نَارًا ثُمَّ لِیُغْمِضْ ثُمَّ لِیَطَأَطّٰی رَأْسَہٗ فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ فَاَنَّہٗ مَآءٌ بَارِدٌ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ وَ اَبُوْدَاؤٗدَ عَنْ حُذَیْفَۃَ وَاَبِیْ مَسْعُوْدٍ مَعًا۔ ‘‘

(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۹۵ حدیث نمبر ۲۰۶۲۔ ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجّال واقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب صفحہ۱۳۵)

کہ دجّال اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ دو جاری رہنے والی نہریں ہوں گی۔ ایک تو بظاہر سفید پانی کی نظر آنے والی ہوگی اور دوسری بظاہر شعلہ بار آگ نظر آئے گی پس جو تم میں سے دجال کا زمانہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس نہر پر جائے جو بظاہر آگ نظر آنے والی ہوگی۔ پھرکُلّی کرے پھر سر نیچا کر کے پانی سر پر ڈالے اور پی لے کیونکہ وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔

حدیث کی تشریح

اس حدیث میں بھی دراصل اس دوسری تمثیل ہی کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں یہ بتایاگیا تھا کہ دجّال کی دو آنکھوں میں سے ایک کی بصارت تیز تر ہوگی، لیکن دوسری آنکھ نابینا ہوگی۔ پس مندرجہ بالا حدیث میں بھی دو نہروں سے مراد دجّال کی دینی اور دنیوی تحریکیں ہی ہیں اور حضور کا منشا یہ ہے کہ جہاں تک اس کی دینی اور مذہبی کارروائیوں کا تعلق ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سے اغماض نہ برتیں بلکہ پورے زور سے ان کا مقابلہ کریں اور دین اسلام کا روحانی تفوق بدلائل قویہ دجّال کے مذہب پر ثابت کریں۔ لیکن جہاں تک اس کی دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے گو اس وجہ سے کہ اس نے نام کی مسلمان مغل حکومت سے ہندوستان کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ہوگی، مسلمان اس کے سیاسی اقتدار کے آگے جھکنے کو اپنے لئے آگ میں کودنا تصور کریں گے۔ پھر بھی اس نظام کے ساتھ تعاون کرنے ہی میں مسلمانوں کا فائدہ مضمر ہوگا۔ اسی لئے حضورؐ نے فرمایا کہ ’’دجّال کے اس پانی کو سر نیچا کرکے اپنے سر پر ڈال لینا، یعنی اس کی حکومت کو قبول کر لینا اور ’’فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اس کے ساتھ تعاون کرنا۔

جیسا کہ ابتدائی سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ ۱۸۵۷ ء کے سانحہ کے بعد کے حالات کا طبعی اقتضاء یہی تھا کہ مشرکین یعنی ہندو اور سکھوں کے مقابلہ میں مسلمانان ہند نصرانی حکومت کو ترجیح دیتے اور ہندوکی جاری کردہ تحریک عدمِ تعاون میں شامل نہ ہوتے ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کسی خوشامد کے خیال سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں جہاں تک انگریز کی دنیاوی سیاست کا تعلق تھا اس کی حکومت کو جو آپ کے مامور ہونے سے بیسیوں سال پہلے قائم اور استوار ہوچکی تھی اور جس نے سکھوں کے مظالم کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے لئے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور جس نے دنیاوی علم وفنون کا راستہ مسلمانوں کے لئے کھولا تھا اپنے تعاون کا یقین دلاتے۔ لیکن جہاں تک انگریز کی پیش کردہ دوسری نہر ( عیسائیت کی تبلیغ) کا تعلق ہے آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح اس سے اغماض نہیں کرتا بلکہ تن تنہا اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کی کہ انگریز آپ کی عیسائیت کے خلاف کوششوں سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں۔

آپ نے انگریز کے خداکو مردہ ثابت کیا

آپ نے عیسائیت کے مقابلہ میں جو سب سے زبردست اور فیصلہ کن حربہ استعمال فرمایا وہ انگریزوں کے ’’خدا‘‘ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ تھا۔ آپ نے بدلائل قویہ ثابت کیا کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں۔

آپ نے کوئی کتاب بھی ایسی تصنیف نہیں فرمائی جس میں اس مسئلہ پر زور نہ دیا ہو۔ احراری معترضین ’’پچاس الماریوں‘‘ کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اُن کتابوں میں نصرانیت کے جھوٹا اورناقابل قبول مذہب ہونے کے بارے میں جو دلائل قویہ مذکور ہیں ان کا کیوں ذکر نہیں کرتے ؟ کیا یہ انگریز کی خوشامد کا نتیجہ تھا کہ:۔

۱۔ آپ نے انگریزکو دجّال قراردیا۔

۲۔آپ نے انگریزکو ماجوج ثابت کیا۔

۳۔ آپ نے انگریزکے خدا کی وفات بدلائل قویہ ثابت کر کیصلیب کو توڑ دیا۔

۴۔آپ نے امریکہ اور نگلستان میں تبلیغی لٹریچر شائع کیا اور کئی انگریزوں اور امریکنوں کو حلقہ عیسائیت سے نکال کر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زنجیر غلامی میں جکڑ دیا۔

ملکہ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دی

اس ضمن میں یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں اور تمام دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان موجود تھے۔ کئی اسلامی سلطنتیں موجود تھیں۔لاکھوں کی تعداد میں علماء بھی موجود تھے۔ مصر میں، دیوبند میں فرنگی محل میں، بریلی میں، سہارن پور میں، دہلی میں، لکھنؤوغیرہ میں ہزاروں اسلامی ادارے تھے۔ بڑے بڑے مسلمان نواب اور بادشاہ موجود تھے۔ لیکن کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ ان کروڑوں مسلمانوں میں سے سوائے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ملکۂ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دے سکے یا بیرونی عیسائی ممالک میں تبلیغِاسلام کا فریضہ ادا کرے؟

حضرت بانی ٔسلسلہ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اس (خدا) نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے……لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔‘‘

(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳)

’’میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں اطلاع دوں۔ میں حضرت یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے۔‘‘

(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۳،۲۷۴)

’’اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان باریک پہلوؤں کا لحاظ کیا ہے جو انجیل نے نہیں کیا……اسی طرح قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے۔ اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچّے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔دوبارہ قائم ہوگئی۔‘‘

(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۸۲)

پھر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:۔

’’اے قادر و توانا!…… قیصرۂ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰ ہِ‘‘ پر اس کا خاتمہ کر۔‘‘

(اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحہ۱۳۲)

غرضیکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاں انگریزی حکومت کے اس پہلو کی تعریف کی کہ وہ دین میں مداخلت نہیں کرتی اور رعایا کے مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ عناصر کے مابین عدل و انصاف کی پالیسی پر عمل کرتی ہے وہاں آپ نے اس کے دینی اور روحانی پہلو کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور اس شان سے کیا کہ اس میدان میں آپ کے سوا ساری دنیا کے مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی نظر نہیں آتا۔

پس جس طرح باوجود اس امر کے کہ شراب ’’امّ الخبائث‘‘ ہے یعنی بدترین چیز ہے قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے جہاں اس کی برائیوں کی مذمت فرمائی ہے، وہاں اس کی خوبیوں کا اعتراف بھی فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے انگریزوں کے اچھے اور قابل تعریف کاموں کو جہاں سراہا ہے وہاں ان کے بُرے قابلِ نفرت واصلاح کاموں کی پر زور مذمت بھی فرمائی ہے۔

خلاصہ کلام:۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں انگریزی دور کی تعریف میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے سکھوں کے جبر و استبداد اور ان کے وحشیانہ مظالم کی طویل داستان ۱۸۵۷ء کا سانحہ اور اس کے ماسبق و ما بعد کا تاریخی پس منظر، مسلمانوں کی مذہبی و روحانی، تعلیمی و اقتصادی حالت کا علم ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ سب تحریرات جو مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، مخالفین کی طرف سے عائد کردہ بغاوت کے جھوٹے الزام کے جواب میں بطور ’’ذبّ‘‘ ہیں۔ پھر یہ کہ حضور علیہ السلام یا حضورؑ کی جماعت یا اولاد نے انگریزی حکومت سے ایک کوڑی کا بھی نفع حاصل نہیں کیا۔ نہ کوئی جاگیر لی، نہ خطاب، نہ مربعے، بلکہ جو حق بات تھی اس کا ضرورتاً اظہار کیا گیا۔

پھر یہ ضروری پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کی دنیوی اور مادی ترقیات کے لئے ان کی تعریف کی ہے وہاں اُن کے روحانی اور مذہبی نقائص کی اس سے زیادہ زور کے ساتھ مذمت بھی فرمائی ہے۔( اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی نظم مندرجہ نور الحق حصہ اوّل۔روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۱۲۳ تا ۱۳۱ و درثمین عربی صفحہ ۱۰۹ یا صفحہ ۱۱۸ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں حضرت نے اﷲ تعالیٰ سے ہندوستان میں عیسائیوں کے غلبہ اور تسلط کے خلاف فریاد کرکے ان کی تباہی اور ہلاکت کے لیے بد دعا فرمائی ہے۔)
 
Top Bottom