اعتراض 37۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو ذریۃ البغایہ یعنی کنجریوں کی اولاد کہا ہے ۔(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً غیر احمدیوں کو ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا نہیں کہا۔ بوجوہات ذیل:۔
جواب:۔ آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت تک تو حضرت غیر احمدیوں کو کافر بھی نہیں کہتے تھے۔ چہ جائیکہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کہتے۔ آپ کی طرف سے جوابی فتویٰ حقیقۃ الوحی ۱۵؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲۰،۱۲۱ طبع اول میں شائع ہوا ہے۔
۲۔ اس عبارت میں حضور نے اپنی خدمات اسلامی کاذکر کیا ہے اور فرمایا ہے۔ قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھَمَۃَ وَالْقِسِّیْسِیْنَ۔ ’’ کہ جب میں بیس سال کا ہوا تبھی سے میری یہ خواہش رہی کہ میں آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں چنانچہ میں نے براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ اور آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کتابیں لکھیں جو اسلام کی تائید میں ہیں۔ کُلُّ مُسْلِمٍ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۴۷) (یعنی ہر مسلمان) ان کتابوں کو بنظر استحسان دیکھتا۔ اور ان کے معارف سے مستفید ہوتا اور میری دعوت اسلام کی تائید کرتا ہے مگر یہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا جن کے دلوں پر خدا نے مہر کردی ہے وہ ان کے مخالف ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ اور سرمہ چشمہ آریہ کے جواب میں لیکھرام آریہ نے ’’خبطِ احمدیہ اور تکذیب براہین احمدیہ‘‘ شائع کیں مگر مسلمان حضرت ؑ کی تائید میں تھے۔ چنانچہ محمد حسین بٹالوی نے براہین پر ریویو (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد ۷ صفحہ ۱۶۹) لکھا۔ مسلم بک ڈپو لاہور نے سرمہ چشمہ آریہ (پر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ اشاعۃ السنۃ جلد ۹ صفحہ ۱۴۹ تا ۱۵۸ شائع ہوا) کو اپنے خرچ پر شائع کیا۔
۳۔ اس امر کا ثبوت کہ آئینہ کمالاتِ اسلام کی محولہ بالا عبارت میں غیر احمدی مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا گیا یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اسی آئینہ کمالات اسلام میں جس کے صفحہ ۵۴۰ کا تم نے حوالہ دیا ہے صفحہ ۵۳۵ پر ملکہ وکٹوریا آنجہانی قیصرۂ ہند کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ ’’وَ فِیْ آخِرِ کَلَامِیْ اَنْصَحُ لَکِ یَا قَیْصَرَۃُ خَالِصًًا لِلّٰہِ وَ ھُوَ اَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ عَضُدُکِ الْخَاصُ وَ لَھُمْ فِیْ مُلْکِکِ خَصُوْصِیَّۃٌ تَفْھِمِیْنَھَا فَانْظُرِیْ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ بِنَظْرٍ خَاصٍ وَ أَقَرِّیْ اَعْیُنَہُمْ وَ أَلَّفِیْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْعَلِیْ اَکْثَرَھُمْ مِنَ الَّذِیْنَ یُقَرِّبُوْنَ التَّفْضِیْلَ التَّفْضِیْلَ۔ التَّخْصِیْصَ التَّخْصِیْصَ۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۳۵)
یعنی اے ملکہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ مسلمان تیرا بازو ہیں۔ پس تو ان کی طرف نظر خاص سے دیکھ اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا اور ان کی تالیف قلوب کر اور ان کو اپنا مقرب بنا۔ اور بڑے سے بڑے خاص عہدے مسلمانوں کو دے۔
غرضیکہ اسی آئینہ کمالات اسلام میں مخالفین کی پیش کردہ عبارت سے پہلے تو یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اور ان کی تالیف قلوب لازمی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسی جگہ ان کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں جو ان کی دل شکنی کا باعث ہوں۔
۴۔ علاوہ ازیں ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا والی عبارت میں الفاظ یعنی یَقْبُلُنِیْ وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۷۔۵۴۸) کے مجھے قبول کرتا اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے تو اس جگہ دعوت سے مراد دعوت الی الاسلام اور اسی کا قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۸۹)
فرماتے ہیں:۔
’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنِّیْ عَاشِقُ الْاِسْلَامِ وَ فَدَاءُ حَضْرَۃِ خَیْرِ الْاَنَامِ وَ غُلَامُ اَحْمَدِنِ الْمُصْطَفٰی حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ صَبُوْتُ اِلَی الشَّبَابِ …… اَنْ اَدْعُوَالْمُخَالِفِیْنَ اِلٰی دَیْنِ اللّٰہِ الْاَجْلٰی۔ فَارْسَلْتُ اِلٰی کُلِّ مُخَالَفٍ کِتَابًا۔ وَ دَعَوْتُ اِلَی الْاِسْلَامِ شَیْخًا وَ شَابًا۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۸۸،۳۸۹)
اس عبارت کا فارسی ترجمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳ و ۳۹۴ حاشیہ میں حسب ذیل درج ہے۔
’’خدا تعالیٰ خوب میداند کہ من عاشق اسلام و فدائے حضرت سیّد انام و غلام احمد مصطفی (صلی اﷲ علیہ وسلم) میباشم۔ از عنفوان وقتے کہ بالغ بسنّ شباب و موفّق بتالیف کتاب شدہ ام دوستدار آن بودہ ام کہ مخالفین را بسوئے دین روشن خدا دعوت کنم۔ بنا برآن بسوئے ہر مخالفے مکتوبے فرستادم و جوان و پیر را ندائے قبول اسلام در دادم۔ ‘‘
’’یعنی خدا کی قسم! میں عاشق اسلام اور فدائے حضرت خیر الانام ہوں اور حضرت احمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا غلام ہوں۔ اور جب سے میں جوان ہوا اور مجھے کتاب لکھنے کی توفیق ملی میری یہی دلی خواہش رہی کہ میں اﷲ تعالیٰ کے روشن دین کی طرف مخالفین کو دعوت دوں چنانچہ میں نے ہر ایک مخالف کی طرف مکتوب روانہ کیا اور چھوٹے بڑے کو اسلام کی طرف دعوت دی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴)
یہ عبارت آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴کی ہے اور مخالفین کی پیش کردہ ’’ ذریۃ البغایا‘‘ والی عبارت صفحہ ۵۴۷،۵۴۸ پر ہے جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:۔’’وَ قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ۔ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھِمَۃَ وَ الْقِسِّیْسِیْنَ۔ وَقَدْ اَلَّفْتُ فِیْ ھَذِہِ الْمُنَاظَرَاتِ مُصَنَّفَاتٍ عَدِیْدَۃً۔ ‘‘ (جس کا ترجمہ پچھلے صفحہ پر دیا جا چکا ہے) اب ان دونوں عبارتوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو بالکل ایک ہی مضمون ہے۔ پس ثابت ہوا کہ صفحہ ۵۴۸ پر لفظ ’’دعوتی‘‘ میں جس ’’دعوت‘‘ کا ذکر ہے وہ صفحہ ۳۸۹ پر مذکور ’’دعوتِ اسلام‘‘ ہی ہے نیز دیکھو ازالہ اوہام حصہ اوّل خورد صفحہ ۱۱۲ حاشیہ۔
۵۔ تاج العروس زیر مادہ بغی میں ہے اَلْبَغْیُ اَلْاَمَۃُ فَاجِرَۃً کَانَتْ اَوْ غَیْرَ فَاجِرَۃٍ کہ ’’بغی‘‘کے معنی لونڈی کے ہیں۔ خواہ وہ بدکار نہ ہو۔ تب بھی یہ لفظ اس پر بولا جاتا ہے۔ اَلْبَغِیَّۃُ فِی الْوَلَدِ نَقِیْضُ الرُّشْدِ وَیُقَالُ ھُوَ ابْنُ بَغِیَّۃٍ (تاج العروس زیر مادہ بغی) کہ کسی کو یہ کہنا کہ وہ ابن بغیّہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت سے دور ہے کیونکہ لفظ ’’بغیّہ ‘‘ ’’رُشد‘‘ یعنی صلاحیت کا مخالف ہے۔ گویا ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کا ترجمہ ہو گا ’’ہدایت سے دور‘‘۔
۶۔ حضرت مسیح موعودؑ نے خود ابن البغاء کا ترجمہ ’’سرکش انسان‘‘ کیا ہے۔ سعد اﷲ لدھیانوی کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ میں نے اپنے قصیدہ انجام آتھم میں اس کے متعلق لکھا تھا
آذَیْـتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ إِنْ لَمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَا ابْنَ بَغَاءِ
(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۸۲)
’’یعنی خباثت سے تو نے مجھے ایذاء دی ہے۔ پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعویٰ میں سچا نہ ٹھہروں گا اے سرکش انسان۔‘‘ (الحکم جلد۱۱نمبر۷ بابت ۲۴ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲)معلوم ہوا کہ ’’ابن البغاء‘‘ کا ترجمہ ’’سرکش انسان‘‘ ہے۔ نہ کہ کنجری کا بیٹا اور اس سے وہ اعتراض بھی دور ہوگیا جو بعض غیر احمدی انجام آتھم و روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۸۲ کے عربی قصیدہ کے فارسی ترجمہ سے ’’اے نسلِ بدکاراں‘‘ کے الفاظ پیش کرکے کرتے ہیں کیونکہ انجام آتھم کی عربی عبارت کے نیچے جو ترجمہ ہے وہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا ہے۔ مگر ہمارا پیش کردہ ترجمہ خود حضرت مسیح موعودؑ کا بیان فرمودہ ہے۔ جو بہرحال مقدم ہے۔
۷۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ :۔مَنْ شَہِدَ عَلَیْھَا بِالزِّنَا فَہُوَ وَلَدُ الزِّنَا (کتاب الوصیۃ صفحہ۳۹ مطبوعہ حیدر آباد )کہ جو حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ حرامزادہ ہے اس موقعہ پر جو حل طلب معمہ ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ پر تہمت زنا لگانے سے ایک انسان کی اپنی ولادت پر ( جو سالہا سال پہلے واقعہ ہو چکی ہو) کس طرح اثر پڑتا ہے؟ مَا ھُوَ جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔
۸۔شیعوں کی معتبر ترین کتاب کافی کلینی کے حصہ سوم موسومہ بہ فروع کافی مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ کے آخری حصہ یعنی کتاب الروضہ صفحہ ۱۳۵ میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ حَمْزَۃَ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ قُلْتُ لَہٗ اِنَّ بَعْضَ اَصْحَابِنَا یَفْتَرُوْنَ وَ یَقْذِفُوْنَ مَنْ خَالَفَھُمْ فَقَالَ الْکَسَّفُ عَنْھُمْ اَجْمَلُ ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ یَا اَبَا حَمْزَۃَ اِنَّ النَّاسَ کُلَّھُمْ اَوْلَادُ الْبَغَایَا مَاخَلَا شِیْعَتِنَا ۔ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر ؓ سے کہا کہ بعض لوگ اپنے مخالفین پر کئی کئی طرح کے بہتان لگاتے اور افتراء کرتے ہیں آپ نے فرمایا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا اچھا ہے پھر آپ نے فرمایا۔ اے ابو حمزہ خدا کی قسم! ہمارے شیعوں کے سوا باقی تمام لوگ اولاد بغایا ہیں۔
۹۔حضرت امام جعفر صادق ؓ کا مندرجہ ذیل قول بھی ملاحظہ ہو۔’’مَنْ اَحَبَّنَا کَانَ نُطْفَۃَ الْعَبْدِ وَمَنْ اَبْغَضَنَا کَانَ نُطْفَۃَ الشَّیْطَانِ۔ ‘‘(فروغ کافی جلد ۲ کتاب النکاح صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ) کہ جو شخص ہمارے ساتھ محبت کرتا ہے وہ تو اچھے آدمی کا نطفہ ہے مگر وہ جو ہم سے عداوت رکھتا ہے وہ نطفہ شیطان ہے۔‘‘
اب ایک طرف امام ابو حنیفہ ؓ کا فتویٰ پڑھو۔کہ حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگانے والے سب حرامزادے ہیں اور دوسری طرف حضرت امام باقر ؓ کا فتویٰ پڑھو کہ سوائے شیعوں کے باقی سب لوگ اولادِ بغایا ہیں اور ہم سے نفرت کرنے والے شیطان کا نطفہ ہیں۔پھر بتاؤ اگر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کیا جائے۔تو ان فقرات کے کوئی معنے بنتے ہیں؟ اور اس طرح روئے زمین کا کوئی انسان ولد الزنا ہونے سے بچ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔
۱۰۔چنانچہ احراریوں کا سرکاری آرگن اخبار ’’مجاہد‘‘ لاہور ۴مارچ۱۹۳۶ء مندرجہ بالا حوالجات از ’’ فروغِ کافی‘‘ کے جواب میں رقمطراز ہے:۔
ولد البغایا۔ابن الحرام اور ولد الحرام۔ابن الحلال۔بنت الحلال وغیرہ یہ سب عرب کا اورساری دنیا کا محاورہ ہے۔جو شخص نیکو کاری کو ترک کر کے بد کاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب ونسب درست ہو۔صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام۔ولد الحرام کہتے ہیں۔اس کے خلاف جو نیکو کارہوتے ہیں۔ان کو ابن الحلال کہتے ہیں۔اندریں حالات امام علیہ السلام کا اپنے مخالفین کو ’’اولادِبغایا‘‘ کہنا بجا اور درست ہے۔‘‘ ( اخبار مجاہد لاہور ۴ مارچ ۱۹۳۶ء)
پس آئینۂ کمالاتِ اسلام وغیرہ کی عبارات میں بھی مراد ہدایت سے دور یا سرکش یا بد فطرت انسان ہی ہیں نہ کہ ولد الزنا یا حرامزادے!
۱۱۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی نسبت لکھا ہے۔’’ ایک دفعہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے کہ اتفاقاًگیند اچھل کر مجلس میں آپڑا۔کسی کو جا کر لانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک لڑکا گستا خانہ اندر آیا اور گیند اٹھا کر لے گیا۔ آپ ( حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ)نے دیکھ کر فرمایا کہ شاید یہ لڑکا حلال زادہ نہیں ہے۔چنانچہ دریافت پر ایسا ہی معلوم ہوا۔لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوگیا ؟ فرمایا!اگر یہ حلال زادہ ہوتا تو اس میں شرم و حیا ہوتی۔‘‘
(تذکرہ اولیاء باب اٹھارھواں۔مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز بار سوم صفحہ۱۴۶)
ثابت ہوا کہ جس میں شرم و حیا نہ ہووہ ’’حلال زادہ‘‘ نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً غیر احمدیوں کو ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا نہیں کہا۔ بوجوہات ذیل:۔
جواب:۔ آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت تک تو حضرت غیر احمدیوں کو کافر بھی نہیں کہتے تھے۔ چہ جائیکہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کہتے۔ آپ کی طرف سے جوابی فتویٰ حقیقۃ الوحی ۱۵؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲۰،۱۲۱ طبع اول میں شائع ہوا ہے۔
۲۔ اس عبارت میں حضور نے اپنی خدمات اسلامی کاذکر کیا ہے اور فرمایا ہے۔ قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھَمَۃَ وَالْقِسِّیْسِیْنَ۔ ’’ کہ جب میں بیس سال کا ہوا تبھی سے میری یہ خواہش رہی کہ میں آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں چنانچہ میں نے براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ اور آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کتابیں لکھیں جو اسلام کی تائید میں ہیں۔ کُلُّ مُسْلِمٍ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۴۷) (یعنی ہر مسلمان) ان کتابوں کو بنظر استحسان دیکھتا۔ اور ان کے معارف سے مستفید ہوتا اور میری دعوت اسلام کی تائید کرتا ہے مگر یہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا جن کے دلوں پر خدا نے مہر کردی ہے وہ ان کے مخالف ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ اور سرمہ چشمہ آریہ کے جواب میں لیکھرام آریہ نے ’’خبطِ احمدیہ اور تکذیب براہین احمدیہ‘‘ شائع کیں مگر مسلمان حضرت ؑ کی تائید میں تھے۔ چنانچہ محمد حسین بٹالوی نے براہین پر ریویو (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد ۷ صفحہ ۱۶۹) لکھا۔ مسلم بک ڈپو لاہور نے سرمہ چشمہ آریہ (پر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ اشاعۃ السنۃ جلد ۹ صفحہ ۱۴۹ تا ۱۵۸ شائع ہوا) کو اپنے خرچ پر شائع کیا۔
۳۔ اس امر کا ثبوت کہ آئینہ کمالاتِ اسلام کی محولہ بالا عبارت میں غیر احمدی مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا گیا یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اسی آئینہ کمالات اسلام میں جس کے صفحہ ۵۴۰ کا تم نے حوالہ دیا ہے صفحہ ۵۳۵ پر ملکہ وکٹوریا آنجہانی قیصرۂ ہند کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ ’’وَ فِیْ آخِرِ کَلَامِیْ اَنْصَحُ لَکِ یَا قَیْصَرَۃُ خَالِصًًا لِلّٰہِ وَ ھُوَ اَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ عَضُدُکِ الْخَاصُ وَ لَھُمْ فِیْ مُلْکِکِ خَصُوْصِیَّۃٌ تَفْھِمِیْنَھَا فَانْظُرِیْ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ بِنَظْرٍ خَاصٍ وَ أَقَرِّیْ اَعْیُنَہُمْ وَ أَلَّفِیْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْعَلِیْ اَکْثَرَھُمْ مِنَ الَّذِیْنَ یُقَرِّبُوْنَ التَّفْضِیْلَ التَّفْضِیْلَ۔ التَّخْصِیْصَ التَّخْصِیْصَ۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۳۵)
یعنی اے ملکہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ مسلمان تیرا بازو ہیں۔ پس تو ان کی طرف نظر خاص سے دیکھ اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا اور ان کی تالیف قلوب کر اور ان کو اپنا مقرب بنا۔ اور بڑے سے بڑے خاص عہدے مسلمانوں کو دے۔
غرضیکہ اسی آئینہ کمالات اسلام میں مخالفین کی پیش کردہ عبارت سے پہلے تو یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اور ان کی تالیف قلوب لازمی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسی جگہ ان کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں جو ان کی دل شکنی کا باعث ہوں۔
۴۔ علاوہ ازیں ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا والی عبارت میں الفاظ یعنی یَقْبُلُنِیْ وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۷۔۵۴۸) کے مجھے قبول کرتا اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے تو اس جگہ دعوت سے مراد دعوت الی الاسلام اور اسی کا قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۸۹)
فرماتے ہیں:۔
’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنِّیْ عَاشِقُ الْاِسْلَامِ وَ فَدَاءُ حَضْرَۃِ خَیْرِ الْاَنَامِ وَ غُلَامُ اَحْمَدِنِ الْمُصْطَفٰی حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ صَبُوْتُ اِلَی الشَّبَابِ …… اَنْ اَدْعُوَالْمُخَالِفِیْنَ اِلٰی دَیْنِ اللّٰہِ الْاَجْلٰی۔ فَارْسَلْتُ اِلٰی کُلِّ مُخَالَفٍ کِتَابًا۔ وَ دَعَوْتُ اِلَی الْاِسْلَامِ شَیْخًا وَ شَابًا۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۸۸،۳۸۹)
اس عبارت کا فارسی ترجمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳ و ۳۹۴ حاشیہ میں حسب ذیل درج ہے۔
’’خدا تعالیٰ خوب میداند کہ من عاشق اسلام و فدائے حضرت سیّد انام و غلام احمد مصطفی (صلی اﷲ علیہ وسلم) میباشم۔ از عنفوان وقتے کہ بالغ بسنّ شباب و موفّق بتالیف کتاب شدہ ام دوستدار آن بودہ ام کہ مخالفین را بسوئے دین روشن خدا دعوت کنم۔ بنا برآن بسوئے ہر مخالفے مکتوبے فرستادم و جوان و پیر را ندائے قبول اسلام در دادم۔ ‘‘
’’یعنی خدا کی قسم! میں عاشق اسلام اور فدائے حضرت خیر الانام ہوں اور حضرت احمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا غلام ہوں۔ اور جب سے میں جوان ہوا اور مجھے کتاب لکھنے کی توفیق ملی میری یہی دلی خواہش رہی کہ میں اﷲ تعالیٰ کے روشن دین کی طرف مخالفین کو دعوت دوں چنانچہ میں نے ہر ایک مخالف کی طرف مکتوب روانہ کیا اور چھوٹے بڑے کو اسلام کی طرف دعوت دی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴)
یہ عبارت آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴کی ہے اور مخالفین کی پیش کردہ ’’ ذریۃ البغایا‘‘ والی عبارت صفحہ ۵۴۷،۵۴۸ پر ہے جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:۔’’وَ قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ۔ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھِمَۃَ وَ الْقِسِّیْسِیْنَ۔ وَقَدْ اَلَّفْتُ فِیْ ھَذِہِ الْمُنَاظَرَاتِ مُصَنَّفَاتٍ عَدِیْدَۃً۔ ‘‘ (جس کا ترجمہ پچھلے صفحہ پر دیا جا چکا ہے) اب ان دونوں عبارتوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو بالکل ایک ہی مضمون ہے۔ پس ثابت ہوا کہ صفحہ ۵۴۸ پر لفظ ’’دعوتی‘‘ میں جس ’’دعوت‘‘ کا ذکر ہے وہ صفحہ ۳۸۹ پر مذکور ’’دعوتِ اسلام‘‘ ہی ہے نیز دیکھو ازالہ اوہام حصہ اوّل خورد صفحہ ۱۱۲ حاشیہ۔
۵۔ تاج العروس زیر مادہ بغی میں ہے اَلْبَغْیُ اَلْاَمَۃُ فَاجِرَۃً کَانَتْ اَوْ غَیْرَ فَاجِرَۃٍ کہ ’’بغی‘‘کے معنی لونڈی کے ہیں۔ خواہ وہ بدکار نہ ہو۔ تب بھی یہ لفظ اس پر بولا جاتا ہے۔ اَلْبَغِیَّۃُ فِی الْوَلَدِ نَقِیْضُ الرُّشْدِ وَیُقَالُ ھُوَ ابْنُ بَغِیَّۃٍ (تاج العروس زیر مادہ بغی) کہ کسی کو یہ کہنا کہ وہ ابن بغیّہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت سے دور ہے کیونکہ لفظ ’’بغیّہ ‘‘ ’’رُشد‘‘ یعنی صلاحیت کا مخالف ہے۔ گویا ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کا ترجمہ ہو گا ’’ہدایت سے دور‘‘۔
۶۔ حضرت مسیح موعودؑ نے خود ابن البغاء کا ترجمہ ’’سرکش انسان‘‘ کیا ہے۔ سعد اﷲ لدھیانوی کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ میں نے اپنے قصیدہ انجام آتھم میں اس کے متعلق لکھا تھا
آذَیْـتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ إِنْ لَمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَا ابْنَ بَغَاءِ
(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۸۲)
’’یعنی خباثت سے تو نے مجھے ایذاء دی ہے۔ پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعویٰ میں سچا نہ ٹھہروں گا اے سرکش انسان۔‘‘ (الحکم جلد۱۱نمبر۷ بابت ۲۴ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲)معلوم ہوا کہ ’’ابن البغاء‘‘ کا ترجمہ ’’سرکش انسان‘‘ ہے۔ نہ کہ کنجری کا بیٹا اور اس سے وہ اعتراض بھی دور ہوگیا جو بعض غیر احمدی انجام آتھم و روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۸۲ کے عربی قصیدہ کے فارسی ترجمہ سے ’’اے نسلِ بدکاراں‘‘ کے الفاظ پیش کرکے کرتے ہیں کیونکہ انجام آتھم کی عربی عبارت کے نیچے جو ترجمہ ہے وہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا ہے۔ مگر ہمارا پیش کردہ ترجمہ خود حضرت مسیح موعودؑ کا بیان فرمودہ ہے۔ جو بہرحال مقدم ہے۔
۷۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ :۔مَنْ شَہِدَ عَلَیْھَا بِالزِّنَا فَہُوَ وَلَدُ الزِّنَا (کتاب الوصیۃ صفحہ۳۹ مطبوعہ حیدر آباد )کہ جو حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ حرامزادہ ہے اس موقعہ پر جو حل طلب معمہ ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ پر تہمت زنا لگانے سے ایک انسان کی اپنی ولادت پر ( جو سالہا سال پہلے واقعہ ہو چکی ہو) کس طرح اثر پڑتا ہے؟ مَا ھُوَ جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔
۸۔شیعوں کی معتبر ترین کتاب کافی کلینی کے حصہ سوم موسومہ بہ فروع کافی مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ کے آخری حصہ یعنی کتاب الروضہ صفحہ ۱۳۵ میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ حَمْزَۃَ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ قُلْتُ لَہٗ اِنَّ بَعْضَ اَصْحَابِنَا یَفْتَرُوْنَ وَ یَقْذِفُوْنَ مَنْ خَالَفَھُمْ فَقَالَ الْکَسَّفُ عَنْھُمْ اَجْمَلُ ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ یَا اَبَا حَمْزَۃَ اِنَّ النَّاسَ کُلَّھُمْ اَوْلَادُ الْبَغَایَا مَاخَلَا شِیْعَتِنَا ۔ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر ؓ سے کہا کہ بعض لوگ اپنے مخالفین پر کئی کئی طرح کے بہتان لگاتے اور افتراء کرتے ہیں آپ نے فرمایا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا اچھا ہے پھر آپ نے فرمایا۔ اے ابو حمزہ خدا کی قسم! ہمارے شیعوں کے سوا باقی تمام لوگ اولاد بغایا ہیں۔
۹۔حضرت امام جعفر صادق ؓ کا مندرجہ ذیل قول بھی ملاحظہ ہو۔’’مَنْ اَحَبَّنَا کَانَ نُطْفَۃَ الْعَبْدِ وَمَنْ اَبْغَضَنَا کَانَ نُطْفَۃَ الشَّیْطَانِ۔ ‘‘(فروغ کافی جلد ۲ کتاب النکاح صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ) کہ جو شخص ہمارے ساتھ محبت کرتا ہے وہ تو اچھے آدمی کا نطفہ ہے مگر وہ جو ہم سے عداوت رکھتا ہے وہ نطفہ شیطان ہے۔‘‘
اب ایک طرف امام ابو حنیفہ ؓ کا فتویٰ پڑھو۔کہ حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگانے والے سب حرامزادے ہیں اور دوسری طرف حضرت امام باقر ؓ کا فتویٰ پڑھو کہ سوائے شیعوں کے باقی سب لوگ اولادِ بغایا ہیں اور ہم سے نفرت کرنے والے شیطان کا نطفہ ہیں۔پھر بتاؤ اگر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کیا جائے۔تو ان فقرات کے کوئی معنے بنتے ہیں؟ اور اس طرح روئے زمین کا کوئی انسان ولد الزنا ہونے سے بچ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔
۱۰۔چنانچہ احراریوں کا سرکاری آرگن اخبار ’’مجاہد‘‘ لاہور ۴مارچ۱۹۳۶ء مندرجہ بالا حوالجات از ’’ فروغِ کافی‘‘ کے جواب میں رقمطراز ہے:۔
ولد البغایا۔ابن الحرام اور ولد الحرام۔ابن الحلال۔بنت الحلال وغیرہ یہ سب عرب کا اورساری دنیا کا محاورہ ہے۔جو شخص نیکو کاری کو ترک کر کے بد کاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب ونسب درست ہو۔صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام۔ولد الحرام کہتے ہیں۔اس کے خلاف جو نیکو کارہوتے ہیں۔ان کو ابن الحلال کہتے ہیں۔اندریں حالات امام علیہ السلام کا اپنے مخالفین کو ’’اولادِبغایا‘‘ کہنا بجا اور درست ہے۔‘‘ ( اخبار مجاہد لاہور ۴ مارچ ۱۹۳۶ء)
پس آئینۂ کمالاتِ اسلام وغیرہ کی عبارات میں بھی مراد ہدایت سے دور یا سرکش یا بد فطرت انسان ہی ہیں نہ کہ ولد الزنا یا حرامزادے!
۱۱۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی نسبت لکھا ہے۔’’ ایک دفعہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے کہ اتفاقاًگیند اچھل کر مجلس میں آپڑا۔کسی کو جا کر لانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک لڑکا گستا خانہ اندر آیا اور گیند اٹھا کر لے گیا۔ آپ ( حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ)نے دیکھ کر فرمایا کہ شاید یہ لڑکا حلال زادہ نہیں ہے۔چنانچہ دریافت پر ایسا ہی معلوم ہوا۔لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوگیا ؟ فرمایا!اگر یہ حلال زادہ ہوتا تو اس میں شرم و حیا ہوتی۔‘‘
(تذکرہ اولیاء باب اٹھارھواں۔مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز بار سوم صفحہ۱۴۶)
ثابت ہوا کہ جس میں شرم و حیا نہ ہووہ ’’حلال زادہ‘‘ نہیں ہوتا۔