اعتراض 36۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں۔ مثلاً اے بدذات فرقہ مولویاں (انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱)
الجواب:۔ حضرت مرزا صاحب نے ہرگز ہرگز شریف اور مہذب مولویوں یا دوسرے مسلمانوں کو گالی نہیں دی۔ یہ محض احراریوں کی شر انگیزی ہے کہ وہ عوام الناس اور شریف علماء کو ہمارے خلاف اشتعال دلانے کی غرض سے اصل عبارات کو ان کے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اور کانٹ چھانٹ کر پیش کر کے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی۔ پادری یا پنڈت تھے جو حضرت صاحب کو نہایت فحش اور ننگی گالیاں دیتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب اور حضور کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹون بھی بنا کر شائع کئے ان کی گالیوں کی کسی قدر تفصیل حضرت صاحب کی کتاب کتاب البریہ صفحہ ۱۲۳ تا صفحہ ۱۳۳ اور کشف الغطاء صفحہ ۱۵ تا صفحہ ۳۱ میں موجود ہے۔
کتاب البریہ لنک
کشف الغطاء لنک
ان لوگوں میں محمد بخش جعفر زٹلی، شیخ محمد حسین، سعد اﷲ لدھیانوی اور عبد الحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے۔ سعد اﷲ لدھیانوی کی صرف ایک نظم بعنوان ’’نظم حقانی مسمٰی بہ سرائرِ کادیانی‘‘ میں حضرت صاحب کی نسبت ’’روسیاہ بے شرم، احمق، بھانڈ، یاوہ گو، غبی، بدمعاش، لالچی، جھوٹا، کافر، دجال، حمار وغیرہ الفاظ موجود ہیں۔ اسی طرح رسالہ اعلان الحق و اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ ۳۰ پر آپ کی نسبت ’’حرامزدہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پس حضرت مرزا صاحب کے سخت الفاظ اس قسم کے بد زبان لوگوں کی نسبت بطور جواب کے ہیں لیکن تعجب ہے کہ وہ معدودے چند مخصوص لوگ جو ان تحریرات کے اصل مخاطب تھے۔ عرصہ ہوا فوت بھی ہو چکے اور آج ان کا نام لیوا بھی کوئی باقی نہیں، لیکن احراری آج سے ۶۰،۷۰ برس پہلے کی شائع شدہ تحریریں پیش کر کے موجودہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ تحریرات تمہارے متعلق ہیں۔ حالانکہ بسااوقات بے خود احراری اور ان کے سامعین وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان تحریروں کی اشاعت کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
۲۔ پھر یہ بات تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ اس قسم کی گندی اور فحش گالیاں جیسی حضرت صاحب کے مخالفین نے آپ کو دیں سن کر کوئی شریف یا نیک فطرت انسان ان گالیاں دینے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ پس اگر ایسے لوگوں کی نسبت حضرت صاحب نے جوابی طور پر بظاہر سخت الفاظ استعمال فرمائے ہوں تو بموجب ارشاد خداوندی ’’‘‘(النساء :۱۴۹) حضرت صاحب کی کسی تحریر کو بھی سخت یا نا مناسب نہیں کہا جا سکتا۔
۳۔ پھر حضرت صاحب نے ان گالیاں دینے والے گندے دشمنوں کو بھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ آپ نے ان کی نسبت جو کچھ فرمایا۔ دراصل وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کا بڑا نرم ترجمہ کیا ہے۔ حدیث میں ہے۔ ’’عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَّنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ‘ ‘ (مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث) کہ وہ علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ گویا اگر آسمان کے نیچے بد ذات بھی رہتے ہیں تو فرمایا ’’شَرُّھُمْ‘‘ یعنی ان سے بھی وہ بد تر ہوں گے۔ پس حضرت نے تو نرم الفاظ استعمال فرمائے ہیں ورنہ آنحضرت صلعم نے تو تفضیل کل کا صیغہ بولا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دیا ہے۔ (ا) ’’لَیْسَ کَلَامُنَا ھٰذَا فِیْ اَخْیَارِھِمْ بَلْ فِیْ اَشْرَارِھِمْ۔ ‘‘ (الہدٰی روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۱۴ حاشیہ) کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے ورنہ غیر احمدیوں میں سے جو علماء شریر نہیں۔ ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا۔ فرماتے ہیں:۔
(۴) ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ہَتْکِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِیْنَ، وَقَدْحِ الشُّرَفَاءِ الْمُہَذَّبِیْنَ، سَوَاءً کَانُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ أَوِ الْمَسِیْحِیِیْنَ أَوِ الآرِیَۃِ ، (لجۃ النور روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۴۰۹) ہم نیک علماء کی ہتک اور شرفاء کی توہین سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ خواہ ایسے لوگ مسلمان ہوں یا عیسائی یا آریہ۔
(۵) ’’صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حدِّ اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں مُنہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں۔ سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بدزبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے۔ ‘‘
(اشتہار مشمولہ ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ۲۲۸ اردو ٹائیٹل و تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۷۷)
علماء کی حالت اور غیر احمدی گواہیاں
۱۔ نواب نور الحسن خاں صاحب آف بھوپال لکھتے ہیں۔ ’’اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے …… علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے زمین کے ہیں۔ انہیں سے فتنے نکلتے ہیں۔ انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں۔ــ ‘‘ (اقتراب الساعۃ ۱۲)ـ
۲۔ ’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالبِ دنیا باشند۔‘‘
(الفوز الکبیر صفحہ ۱۰ مصنفہ شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی مطبع مجتبائی دہلی)
۳۔ آج کل تھرڈ کلاس مولوی جو ذرہ ذرہ بات پر عدم جواز اقتداء کا فتویٰ دے دیا کرتے ہیں۔ سو ان کی بابت بہت عرصہ ہوا فیصلہ ہو چکا ہے
ھَلْ اَفْسَدَ النَّاسَ اِلَّا الْمُلُوْکُ وَعُلَمَاءُ سُوْءٍ وَ رُھْبَانُھَا
(اہلحدیث ۷؍ جون ۱۹۱۲ء)
شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا بادشاہوں۔ علماء سوء اور رہبان کے سوا کسی اور چیز نے لوگوں کو خراب کیا ہے؟
۴۔افسوس ہے ان مولویوں پر جن کو ہم ہادی رہبر ورثۃ الانبیاء سمجھتے ہیں۔ ان میں یہ نفسانیت یہ شیطنت بھری ہوتی ہے۔ تو پھر شیطان کو کس لئے برا بھلا کہنا چاہیے۔ (اہلحدیث ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۱ء)
۵۔ ’’مولوی اب طالبِ جیفۂ دنیا ہو گئے۔ وارثِ علم پیمبر کا پتہ لگتا نہیں۔‘‘
(اہلحدیث ۳؍ مئی ۱۹۱۲ء)
۶۔ ’’بعینہٖ وہی عقائد باطلہ جن کی تکذیب کے لئے خدا نے ہزارہا پیغمبر بھیجے تھے۔ ان نام کے مسلمانوں نے اختیار کر لئے ہیں۔‘‘
(تفسیر ثنائی از مولوی ثناء اﷲ امرتسری سورۃ البقرۃزیر آیت واتبعوا ما تتلوا الشیاطین……)
۷۔ ’’نام کے بنی اسرائیل تو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور صفحۂ دنیا سے نام غلط کی طرح مٹ گئے مگر آہ! کام کے بنی اسرا ئیل اب بھی موجود و ترقی پزیر ہیں۔ ہم نے سجادہ نشینی کا فخر حاصل کیا اور عنانی اسرائیلی ہاتھ میں لے لی اور اپنا گھوڑا گھوڑ دوڑ میں بنی اسرائیل سے بھی آگے بڑھا دیا۔ صادق و مصدوق فداہ ابی و امی رسول کریم علیہ التحیۃو التسلیم نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس قبل ہماری اس شہ سواری اور گوئے سبقت کی پیش بری کی ان الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی۔ کہ یقینا میری امت کے بھی لوگ ہو بہو بنی اسرائیل کی طرح افعال بد میں منہمک ہوں گے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ماں سے زنا کرنے والے افراد موجود ہوں گے واقعہ یہ ہے کہ آج ہم مدعی اہلحدیث بھی حذو النعل با لنعل بنی اسرائیل کی طرح ہر معاملہ میں مصلحت دور اندیشی ضرورت وقت و پالیسی، زرپرستی، کاسہ لیسی، خوشامد و چاپلوسی کو معبودِ حق سمجھ کر اسی کی پوجا کرنے لگے۔‘‘
(اہلحدیث ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱)
۸۔ مشکوٰۃ صفحہ ۳۰ میں حضرت علی ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول صلعم نے فرمایا کہ لوگوں پرعنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا۔ اور قرآن کا رسم خط۔ اس وقت مولوی آسمان کے تلے بد ترین مخلوق ہوں گے (اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۲) سارا فتنۂ و فساد انہی کی طرف سے ہو گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل وہی زمانہ آگیا ہے۔ (اہلحدیث ۲۵؍ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۵)
۹۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔
’’قرآن مجید میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے کہ کچھ حصہ کتاب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے افسوس ہے کہ آج ہم اہلحدیثوں میں بالخصوص یہ عیب پایا جاتا ہے۔‘‘ (اہلحدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۹)
گالی اور سخت کلامی میں فرق
۱۔ گالی اور ہے اور اظہار واقعہ اور چیز۔ اگر کوئی شخص جو خود اندھا ہو اور دوسرے کو کانا کہے۔ تو دوسرے آدمی کا حق ہے کہ اسے کہے کہ میں تو کانا نہیں۔ چونکہ تم اندھے ہو۔ اس لئے تمہیں میری آنکھ نظر نہیں آتی اب یہ اظہار واقعہ ہے مگر گالی نہیں۔ خود قرآن مجید نے اپنے منکروں کو (البینۃ: ۷) (بد ترین مخلوق)۔ (الاعراف:۱۸۰) (چوپائیوں کی طرح) قرار دیا ہے بلکہ (القلم:۱۴) (حرامزادہ) بھی قرار دیا ہے۔
نوٹ:۔ ا۔ زَنِیْمٌکے معنی ہیں حرامزادہ دیکھو تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت (القلم:۱۱) فَالْحَاصِلُ اَنَّ الزَّنِیْمَ ھُوَ وَلَدُ الزِّنَا۔ ‘‘یعنی نتیجہ یہ نکلا کہ ’’‘‘ ولد الزنا کو کہتے ہیں۔
ب۔ تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۵۶۴ پر سورۃ ن و سورۃ القلم:۱۴۔ میں ’’‘‘ کا ترجمہ یہ لکھا ہے۔
’’‘‘ حرامزادہ نطفۂ نا تحقیق کہ ُاس کا باپ معلوم نہیں۔
ج۔ ــــ’’‘‘ کے معنی عربی لغات فیروزی صفحہ ۱۴۰ پر ’’حرامزادہ‘‘ درج ہیں۔
د۔ اَلْمُنْجِدُ (لغت کی کتاب) میں زنیم کے معنے لکھے ہیں ’’اَللَّئِیْمُ‘‘ زیر مادہ زنماور ’’اَللَّئِیْمُ‘‘ کے معنی اس لغت میں زیر مادہ لأم پر ’’ اَلدَّنِیُ الْاَصْلُ ‘‘یعنی ’’ بد اصل‘‘ لکھے ہیں۔
ر۔ الفرائد الدریۃ عربی انگریزی ڈکشنری FALLONS انگریزی و اردو ڈکشنری زیر مادہ زنم میں بھی زنیم کے معنی ’’IGNOBLE‘‘ درج ہیں جس کے معنی ولد الحرام یا بد اصل کے ہیں۔
۲۔ بخاری میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پرکفارِ مکہ کا سفیر عروہ بن مسعود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسے مخاطب کر کے کہا:۔
’’اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ ‘‘ ( بخاری کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ و تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور جلد ۲ صفحہ ۱۳)
ــ’’حضرت ابوبکر ؓ نے عروہ سے کہا کہ لات کی شرمگاہ چوس (یہ عرب میں نہایت سخت گالی سمجھی جاتی تھی) یاد رہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ الفاظ آنحضرت صلعم کی موجودگی میں فرمائے مگر حضور صلعم نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ خاموش رہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شخص حضرت ابوبکرؓ سے نہیں۔ بلکہ آنحضرتؐ سے باتیں کر رہا تھا اور اس نے آنحضرت صلعم کو گالی نہیں دی تھی۔ بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ اے محمدؐ! یہ مسلمان اگر ذرا سی بھی تیز لڑائی ہوئی تو آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ ا س پر حضرت ابوبکرؓ نے اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ کہا آنحضرت صلعم حضرت ابوبکرؓ کے فقرے کو بھی سن رہے تھے۔ مگر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو منع نہیں فرمایا۔
۳۔ گو مندرجہ بالا حدیث ’’حدیث تقریر‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ایک اور حدیث درج کی جاتی ہے۔ ’’عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ تَعَزَّا بِعَزَاءِ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَعِضُّوْہُ بِھَنِ اَبِیْہِ وَلَا تَکْنُوْا ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الآداب باب المفاخرۃ و العصبیہ الفصل الثانی) اس حدیث کا اردو ترجمہ اَلْمُلْتَقَطَاتُ شرح مشکوٰۃ سے درج کیا جاتا ہے۔ روایت ہے ابی بن کعبؓ سے کہ کہا۔ سنا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرماتے تھے کہ جو کوئی کہ نسبت کرے ساتھ نسبت جاہلیت کے۔ پس کٹواؤ اس کو سَتر باپ اس کے کا اور کنایہ نہ کرو یعنی یوں کہو کہ اپنے باپ کا ستر کاٹ کر اپنے منہ میں لے لے۔ اس حدیث میں نہایت تشدید ہے فخر بالاباء پر اور حقیقت میں اپنی قوم کی بڑائی کرنا عبث ہے۔ (المشکوٰۃ بالملتقطات کتاب الآداب باب المفاخرۃ والعصیۃ)
۴۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اَلْعَضُّ اَخْذُ الشَّیْءِ بِالْاَسْنَانِ بِھَنِ اَبِیْہِ بِفَتْحِ الْھَاءِ وَ تَخْفِیْفِ النُّوْنِ کِنَایَۃٌ عَنِ الْفَرْجِ اَیْ قُوْلُوْا لَہٗ۔ اُعْضُضْ بِذَکَرِ اَبِیْکَ وَ اَیْرِہٖ اَوْ فَرْجِہٖ وَلَا تَکْنُوْا بِذِکْرِ الْھَنِ مِنَ الْاَیْرِ بَلْ صَرِّحُوْا لَہٗ۔ (مرقاۃ بر حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ ۳۵۶ مطبع انصاری) کہ عَضُّ کے معنی ہیں کسی چیز کا دانتوں سے پکڑنا …… الخ۔ غیر احمدی علماء نے حضرت مسیح موعودؑ کو جو گالیا ں دیں۔ ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ عبد الحکیم نے اپنے رسالہ ’’اعلان الحق‘‘ صفحہ ۳۰ میں حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کی جماعت کو ’’حرامزادہ‘‘ لکھا ہے۔ (لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ قَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ خادم)نیز محمد علی بوپڑی نے اپنے رسالہ ’’ صوتِ ربانی بر سر دجال قادیانی‘‘ میں بھی یہی لفظ لکھا ہے۔
الجواب:۔ حضرت مرزا صاحب نے ہرگز ہرگز شریف اور مہذب مولویوں یا دوسرے مسلمانوں کو گالی نہیں دی۔ یہ محض احراریوں کی شر انگیزی ہے کہ وہ عوام الناس اور شریف علماء کو ہمارے خلاف اشتعال دلانے کی غرض سے اصل عبارات کو ان کے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اور کانٹ چھانٹ کر پیش کر کے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی۔ پادری یا پنڈت تھے جو حضرت صاحب کو نہایت فحش اور ننگی گالیاں دیتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب اور حضور کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹون بھی بنا کر شائع کئے ان کی گالیوں کی کسی قدر تفصیل حضرت صاحب کی کتاب کتاب البریہ صفحہ ۱۲۳ تا صفحہ ۱۳۳ اور کشف الغطاء صفحہ ۱۵ تا صفحہ ۳۱ میں موجود ہے۔
کتاب البریہ لنک
کشف الغطاء لنک
ان لوگوں میں محمد بخش جعفر زٹلی، شیخ محمد حسین، سعد اﷲ لدھیانوی اور عبد الحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے۔ سعد اﷲ لدھیانوی کی صرف ایک نظم بعنوان ’’نظم حقانی مسمٰی بہ سرائرِ کادیانی‘‘ میں حضرت صاحب کی نسبت ’’روسیاہ بے شرم، احمق، بھانڈ، یاوہ گو، غبی، بدمعاش، لالچی، جھوٹا، کافر، دجال، حمار وغیرہ الفاظ موجود ہیں۔ اسی طرح رسالہ اعلان الحق و اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ ۳۰ پر آپ کی نسبت ’’حرامزدہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پس حضرت مرزا صاحب کے سخت الفاظ اس قسم کے بد زبان لوگوں کی نسبت بطور جواب کے ہیں لیکن تعجب ہے کہ وہ معدودے چند مخصوص لوگ جو ان تحریرات کے اصل مخاطب تھے۔ عرصہ ہوا فوت بھی ہو چکے اور آج ان کا نام لیوا بھی کوئی باقی نہیں، لیکن احراری آج سے ۶۰،۷۰ برس پہلے کی شائع شدہ تحریریں پیش کر کے موجودہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ تحریرات تمہارے متعلق ہیں۔ حالانکہ بسااوقات بے خود احراری اور ان کے سامعین وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان تحریروں کی اشاعت کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
۲۔ پھر یہ بات تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ اس قسم کی گندی اور فحش گالیاں جیسی حضرت صاحب کے مخالفین نے آپ کو دیں سن کر کوئی شریف یا نیک فطرت انسان ان گالیاں دینے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ پس اگر ایسے لوگوں کی نسبت حضرت صاحب نے جوابی طور پر بظاہر سخت الفاظ استعمال فرمائے ہوں تو بموجب ارشاد خداوندی ’’‘‘(النساء :۱۴۹) حضرت صاحب کی کسی تحریر کو بھی سخت یا نا مناسب نہیں کہا جا سکتا۔
۳۔ پھر حضرت صاحب نے ان گالیاں دینے والے گندے دشمنوں کو بھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ آپ نے ان کی نسبت جو کچھ فرمایا۔ دراصل وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کا بڑا نرم ترجمہ کیا ہے۔ حدیث میں ہے۔ ’’عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَّنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ‘ ‘ (مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث) کہ وہ علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ گویا اگر آسمان کے نیچے بد ذات بھی رہتے ہیں تو فرمایا ’’شَرُّھُمْ‘‘ یعنی ان سے بھی وہ بد تر ہوں گے۔ پس حضرت نے تو نرم الفاظ استعمال فرمائے ہیں ورنہ آنحضرت صلعم نے تو تفضیل کل کا صیغہ بولا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دیا ہے۔ (ا) ’’لَیْسَ کَلَامُنَا ھٰذَا فِیْ اَخْیَارِھِمْ بَلْ فِیْ اَشْرَارِھِمْ۔ ‘‘ (الہدٰی روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۱۴ حاشیہ) کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے ورنہ غیر احمدیوں میں سے جو علماء شریر نہیں۔ ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا۔ فرماتے ہیں:۔
(۴) ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ہَتْکِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِیْنَ، وَقَدْحِ الشُّرَفَاءِ الْمُہَذَّبِیْنَ، سَوَاءً کَانُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ أَوِ الْمَسِیْحِیِیْنَ أَوِ الآرِیَۃِ ، (لجۃ النور روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۴۰۹) ہم نیک علماء کی ہتک اور شرفاء کی توہین سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ خواہ ایسے لوگ مسلمان ہوں یا عیسائی یا آریہ۔
(۵) ’’صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حدِّ اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں مُنہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں۔ سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بدزبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے۔ ‘‘
(اشتہار مشمولہ ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ۲۲۸ اردو ٹائیٹل و تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۷۷)
علماء کی حالت اور غیر احمدی گواہیاں
۱۔ نواب نور الحسن خاں صاحب آف بھوپال لکھتے ہیں۔ ’’اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے …… علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے زمین کے ہیں۔ انہیں سے فتنے نکلتے ہیں۔ انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں۔ــ ‘‘ (اقتراب الساعۃ ۱۲)ـ
۲۔ ’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالبِ دنیا باشند۔‘‘
(الفوز الکبیر صفحہ ۱۰ مصنفہ شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی مطبع مجتبائی دہلی)
۳۔ آج کل تھرڈ کلاس مولوی جو ذرہ ذرہ بات پر عدم جواز اقتداء کا فتویٰ دے دیا کرتے ہیں۔ سو ان کی بابت بہت عرصہ ہوا فیصلہ ہو چکا ہے
ھَلْ اَفْسَدَ النَّاسَ اِلَّا الْمُلُوْکُ وَعُلَمَاءُ سُوْءٍ وَ رُھْبَانُھَا
(اہلحدیث ۷؍ جون ۱۹۱۲ء)
شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا بادشاہوں۔ علماء سوء اور رہبان کے سوا کسی اور چیز نے لوگوں کو خراب کیا ہے؟
۴۔افسوس ہے ان مولویوں پر جن کو ہم ہادی رہبر ورثۃ الانبیاء سمجھتے ہیں۔ ان میں یہ نفسانیت یہ شیطنت بھری ہوتی ہے۔ تو پھر شیطان کو کس لئے برا بھلا کہنا چاہیے۔ (اہلحدیث ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۱ء)
۵۔ ’’مولوی اب طالبِ جیفۂ دنیا ہو گئے۔ وارثِ علم پیمبر کا پتہ لگتا نہیں۔‘‘
(اہلحدیث ۳؍ مئی ۱۹۱۲ء)
۶۔ ’’بعینہٖ وہی عقائد باطلہ جن کی تکذیب کے لئے خدا نے ہزارہا پیغمبر بھیجے تھے۔ ان نام کے مسلمانوں نے اختیار کر لئے ہیں۔‘‘
(تفسیر ثنائی از مولوی ثناء اﷲ امرتسری سورۃ البقرۃزیر آیت واتبعوا ما تتلوا الشیاطین……)
۷۔ ’’نام کے بنی اسرائیل تو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور صفحۂ دنیا سے نام غلط کی طرح مٹ گئے مگر آہ! کام کے بنی اسرا ئیل اب بھی موجود و ترقی پزیر ہیں۔ ہم نے سجادہ نشینی کا فخر حاصل کیا اور عنانی اسرائیلی ہاتھ میں لے لی اور اپنا گھوڑا گھوڑ دوڑ میں بنی اسرائیل سے بھی آگے بڑھا دیا۔ صادق و مصدوق فداہ ابی و امی رسول کریم علیہ التحیۃو التسلیم نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس قبل ہماری اس شہ سواری اور گوئے سبقت کی پیش بری کی ان الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی۔ کہ یقینا میری امت کے بھی لوگ ہو بہو بنی اسرائیل کی طرح افعال بد میں منہمک ہوں گے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ماں سے زنا کرنے والے افراد موجود ہوں گے واقعہ یہ ہے کہ آج ہم مدعی اہلحدیث بھی حذو النعل با لنعل بنی اسرائیل کی طرح ہر معاملہ میں مصلحت دور اندیشی ضرورت وقت و پالیسی، زرپرستی، کاسہ لیسی، خوشامد و چاپلوسی کو معبودِ حق سمجھ کر اسی کی پوجا کرنے لگے۔‘‘
(اہلحدیث ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱)
۸۔ مشکوٰۃ صفحہ ۳۰ میں حضرت علی ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول صلعم نے فرمایا کہ لوگوں پرعنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا۔ اور قرآن کا رسم خط۔ اس وقت مولوی آسمان کے تلے بد ترین مخلوق ہوں گے (اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۲) سارا فتنۂ و فساد انہی کی طرف سے ہو گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل وہی زمانہ آگیا ہے۔ (اہلحدیث ۲۵؍ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۵)
۹۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔
’’قرآن مجید میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے کہ کچھ حصہ کتاب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے افسوس ہے کہ آج ہم اہلحدیثوں میں بالخصوص یہ عیب پایا جاتا ہے۔‘‘ (اہلحدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۹)
گالی اور سخت کلامی میں فرق
۱۔ گالی اور ہے اور اظہار واقعہ اور چیز۔ اگر کوئی شخص جو خود اندھا ہو اور دوسرے کو کانا کہے۔ تو دوسرے آدمی کا حق ہے کہ اسے کہے کہ میں تو کانا نہیں۔ چونکہ تم اندھے ہو۔ اس لئے تمہیں میری آنکھ نظر نہیں آتی اب یہ اظہار واقعہ ہے مگر گالی نہیں۔ خود قرآن مجید نے اپنے منکروں کو (البینۃ: ۷) (بد ترین مخلوق)۔ (الاعراف:۱۸۰) (چوپائیوں کی طرح) قرار دیا ہے بلکہ (القلم:۱۴) (حرامزادہ) بھی قرار دیا ہے۔
نوٹ:۔ ا۔ زَنِیْمٌکے معنی ہیں حرامزادہ دیکھو تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت (القلم:۱۱) فَالْحَاصِلُ اَنَّ الزَّنِیْمَ ھُوَ وَلَدُ الزِّنَا۔ ‘‘یعنی نتیجہ یہ نکلا کہ ’’‘‘ ولد الزنا کو کہتے ہیں۔
ب۔ تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۵۶۴ پر سورۃ ن و سورۃ القلم:۱۴۔ میں ’’‘‘ کا ترجمہ یہ لکھا ہے۔
’’‘‘ حرامزادہ نطفۂ نا تحقیق کہ ُاس کا باپ معلوم نہیں۔
ج۔ ــــ’’‘‘ کے معنی عربی لغات فیروزی صفحہ ۱۴۰ پر ’’حرامزادہ‘‘ درج ہیں۔
د۔ اَلْمُنْجِدُ (لغت کی کتاب) میں زنیم کے معنے لکھے ہیں ’’اَللَّئِیْمُ‘‘ زیر مادہ زنماور ’’اَللَّئِیْمُ‘‘ کے معنی اس لغت میں زیر مادہ لأم پر ’’ اَلدَّنِیُ الْاَصْلُ ‘‘یعنی ’’ بد اصل‘‘ لکھے ہیں۔
ر۔ الفرائد الدریۃ عربی انگریزی ڈکشنری FALLONS انگریزی و اردو ڈکشنری زیر مادہ زنم میں بھی زنیم کے معنی ’’IGNOBLE‘‘ درج ہیں جس کے معنی ولد الحرام یا بد اصل کے ہیں۔
۲۔ بخاری میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پرکفارِ مکہ کا سفیر عروہ بن مسعود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسے مخاطب کر کے کہا:۔
’’اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ ‘‘ ( بخاری کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ و تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور جلد ۲ صفحہ ۱۳)
ــ’’حضرت ابوبکر ؓ نے عروہ سے کہا کہ لات کی شرمگاہ چوس (یہ عرب میں نہایت سخت گالی سمجھی جاتی تھی) یاد رہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ الفاظ آنحضرت صلعم کی موجودگی میں فرمائے مگر حضور صلعم نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ خاموش رہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شخص حضرت ابوبکرؓ سے نہیں۔ بلکہ آنحضرتؐ سے باتیں کر رہا تھا اور اس نے آنحضرت صلعم کو گالی نہیں دی تھی۔ بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ اے محمدؐ! یہ مسلمان اگر ذرا سی بھی تیز لڑائی ہوئی تو آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ ا س پر حضرت ابوبکرؓ نے اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ کہا آنحضرت صلعم حضرت ابوبکرؓ کے فقرے کو بھی سن رہے تھے۔ مگر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو منع نہیں فرمایا۔
۳۔ گو مندرجہ بالا حدیث ’’حدیث تقریر‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ایک اور حدیث درج کی جاتی ہے۔ ’’عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ تَعَزَّا بِعَزَاءِ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَعِضُّوْہُ بِھَنِ اَبِیْہِ وَلَا تَکْنُوْا ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الآداب باب المفاخرۃ و العصبیہ الفصل الثانی) اس حدیث کا اردو ترجمہ اَلْمُلْتَقَطَاتُ شرح مشکوٰۃ سے درج کیا جاتا ہے۔ روایت ہے ابی بن کعبؓ سے کہ کہا۔ سنا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرماتے تھے کہ جو کوئی کہ نسبت کرے ساتھ نسبت جاہلیت کے۔ پس کٹواؤ اس کو سَتر باپ اس کے کا اور کنایہ نہ کرو یعنی یوں کہو کہ اپنے باپ کا ستر کاٹ کر اپنے منہ میں لے لے۔ اس حدیث میں نہایت تشدید ہے فخر بالاباء پر اور حقیقت میں اپنی قوم کی بڑائی کرنا عبث ہے۔ (المشکوٰۃ بالملتقطات کتاب الآداب باب المفاخرۃ والعصیۃ)
۴۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اَلْعَضُّ اَخْذُ الشَّیْءِ بِالْاَسْنَانِ بِھَنِ اَبِیْہِ بِفَتْحِ الْھَاءِ وَ تَخْفِیْفِ النُّوْنِ کِنَایَۃٌ عَنِ الْفَرْجِ اَیْ قُوْلُوْا لَہٗ۔ اُعْضُضْ بِذَکَرِ اَبِیْکَ وَ اَیْرِہٖ اَوْ فَرْجِہٖ وَلَا تَکْنُوْا بِذِکْرِ الْھَنِ مِنَ الْاَیْرِ بَلْ صَرِّحُوْا لَہٗ۔ (مرقاۃ بر حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ ۳۵۶ مطبع انصاری) کہ عَضُّ کے معنی ہیں کسی چیز کا دانتوں سے پکڑنا …… الخ۔ غیر احمدی علماء نے حضرت مسیح موعودؑ کو جو گالیا ں دیں۔ ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ عبد الحکیم نے اپنے رسالہ ’’اعلان الحق‘‘ صفحہ ۳۰ میں حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کی جماعت کو ’’حرامزادہ‘‘ لکھا ہے۔ (لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ قَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ خادم)نیز محمد علی بوپڑی نے اپنے رسالہ ’’ صوتِ ربانی بر سر دجال قادیانی‘‘ میں بھی یہی لفظ لکھا ہے۔
Last edited: