اعتراض 32۔ ایک نبی کی امت کے 72 فرقے ہوسکتے ہیں۔ لیکن جس طرح ایک بیوی کے دو خاوند نہیں ہوسکتے، اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 32۔ ایک نبی کی امت کے 72 فرقے ہوسکتے ہیں۔ لیکن جس طرح ایک بیوی کے دو خاوند نہیں ہوسکتے، اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے۔

(تقریر شجاع آبادی احراری مندرجہ اخبار ’’تعمیر نو‘‘ گجرات تبلیغ نمبر ۵ دسمبر ۱۹۴۹ء۔ صفحہ۷ کالم نمبر۱)

احراری مقررین کے اس قسم کے لغو اعتراضات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ خدایا! کیا یہ لوگ فی الحقیقت اپنی ان باتوں کو درست بھی سمجھتے ہیں؟ یا کیا ان لوگوں کا مبلغ علم اسی حد تک محدود ہے کہ ’’جس طرح ایک بیوی کے دوخاوند نہیں ہوسکتے اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے۔‘‘ کیا ان لوگوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ بنی اسرائیل میں بیک وقت حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارونؑ دو نبی تھے؟ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ ؑبیک وقت نبی تھے۔ حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ بیک وقت نبی تھے۔ حضرت ابراہیمؑ۔ حضرت اسمٰعیل ؑ اور حضرت اسحٰق علیہ السلام بیک وقت نبی تھے۔ پھر یہ لوگ کس بنا پر یہ کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ کسی قوم میں بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے؟ اور کس عقل کی بنا پر یہ لوگ ’’ایک بیوی کے دو خاوند‘‘ یا ’’ایک بیٹے کے دو باپ‘‘ کی بے معنے مثال پیش کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون ؑکے بیک وقت ایک ہی قوم میں نبی ہونے سے کوئی حرج واقعہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگرچہ وہ دونوں براہ راست نبی تھے، لیکن چونکہ شریعت موسیٰ علیہ السلام کی تھی اور حضرت ہارون ؑ ان کے تابع تھے۔ اس لیے نہ باپوں والی مثال ان پر صادق آتی ہے نہ دو خاوندوں والی!

لیکن حضرت بانی ٔ سلسہ احمدیہ پر تو یہ مثال کسی طور پر بھی صادق نہیں آسکتی کیونکہ حضرت مرزا صاحب۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح براہ راست نبی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’امتی‘‘ اور غلام ہیں۔ کلمہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہی ہے۔ شریعت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی ہے اور مسیح موعودؑ کا مقام صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام اور نائب کا ہے۔ باپ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں اور مسیح موعودؑ آپ کا روحانی فرزند ہے۔ یاد رہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی شرائط بیعت میں آپ کے ساتھ جس تعلق کے قیام کا عہد لیا جاتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’اس عاجز سے تعلق اخوت رکھے گا۔‘‘ گویا جماعت احمدیہ کے افراد کا تعلق بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت سے ’’اخوت‘‘ کا ہے کیونکہ ان کا روحانی باپ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں۔ پس اندھا ہے وہ دشمن جو یہ اعتراض کرتا ہے کہ احمدیوں کے عقائد کے رو سے دو باپ ماننے پڑتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں:۔

مے خانہ وہی ساقی بھی وہی پھر اس میں کہاں غیرت کا محل

ہے دشمن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر خمخانے دو

(کلام محمود صفحہ ۱۵۴نظم نمبر۹۴)

پھر فرماتے ہیں:۔

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمدؑ کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے

(کلام محمود صفحہ ۱۸۴نظم نمبر۱۲۳)

ہمارا یمان ہے کہ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اس وجہ سے آپ ’’ابوالانبیاء‘‘ یعنی تمام اگلے اور پچھلے نبیوں کے باپ ہیں قیامت تک حضور ہی کی ابوتچلے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام محض حضورؐ کے نائب اور روحانی فرزند کا ہے۔ اے کاش احراری معترضین کے دل میں خدا کا خوف ہو اور موت کادن ان کو یاد ہو جب اس احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہوکر اپنے تمام اقوال و اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہوگا۔ اس وقت یہ ’’جوش خطابت‘‘ یہ زبان کی چالاکیاں اور یہ اشتعال انگیز نعرے کام نہیں آئے گی۔
 
Top Bottom