اعتراض 29۔ نبی جہا ں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔ حدیث میں ہےما قبض نبی الا دفن حیث یقبض

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 29۔ نبی جہا ں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔ حدیث میں ہےما قبض نبی الا دفن حیث یقبض ۔ مگر مرزا صاحب فوت لاہور میں ہوئے اور دفن قادیان میں۔


’مَا قُبِضَ نَبِیٌّ اِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ

جواب(الف):۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کا راو ی الحسین بن عبداﷲ جس کے متعلق لکھا ہے۔ ’’تَرَکَہٗ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلِ وَ عَلِیُّ ابْنُ الْمَدْیِنِیْ وَالنَّسائِیْ وَ قَالَ الْبُخَارِیُّ یُقَالُ: اَنَّہُ کَانَ یَتَّھَّمُ بِالزَّنْدِقَۃِ ‘‘ (حاشیہ علامہ سندی برابن ماجہ الجزء الاوّل صفحہ ۲۵۶ مصری)

یعنی امام احمد بن حنبل ؒ اور علی ابن المدینی ؒ اور نسائی ؒنے اس راوی کو ترک کیا ہے اور امام بخاری نے کہا ہے کہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زندیق ہے۔

ب۔یہ حدیث کنز العما ل میں بھی ہے۔ وہاں لکھا ہے۔ ’’لَمْ یُقْبَرْ نَبِیٌّ اِلَّا حَیْثُ یَمُوْتُ ‘‘(جم عن ابی بکرؓ)وَ فِیْہِ اِنْقِطَاعٌ(کنزالعمال حرف الشین کتاب الشمائل باب شمائل الاخلاقحدیث نمبر۱۰۵۲) کہ نبی جہاں مرتاہے وہیں قبر میں رکھا جاتاہے اس حدیث میں انقطاع ہے گویا ناقابل قبو ل ہے۔

ج۔ ’’وَ قَدْ رُوِیَ اَنَّ الْاَنْبِیَآءَ یُدْفَنُوْنَ حَیْثُ یُقْبَضُوْنَ کَمَا رَوٰی ذَالِکَ ابْنُ مَاجَۃَ بِاَسْنَادٍ فِیْہِ حُسَیْنُ ابْنُ عَبْدِاللّٰہِ الْھَاشَمِیُّ وَ ھُوَ اَضْعَفُ ۔‘‘ (نیل الاوطار جلد۲ صفحہ ۲۵۹)

کہ مروی ہے کہ انبیاء جہاں فوت ہوں وہاں مدفون بھی ہوتے ہیں۔ جیساکہ ابن ماجہ نے اس کو روایت کیا ہے۔ اس سند سے جس میں حسین بن عبداﷲ ہاشمی ہے جو کہ اوّل درجہ کا ضعیف راوی ہے۔

د۔ ملّا علی قا ریؒ فرماتے ہیں:۔

’’رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَ قَالَ غَرِیْبٌ وَ فِیْ اَسْنَادِہٖ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍ الْمُلَیْکِیُّ یُضَعَّفُ۔ ‘‘ (مرقاۃ جلد۱۰ صفحہ ۳۰۷ شرح مشکوٰۃ کتاب الفضائل مکتبہ حقانیہ پشاور)

کہ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ حدیث غریب ہے اور اس سند میں عبدالرحمن بن ملیکی ہے جو ضعیف ہے۔

نوٹ:۔۱۔ یہ روایت ترمذی ابواب الجنائز صفحہ ۱۷۰ میں ہے اور اس کے آگے ہی لکھا ہے کہ اس حدیث کاراوی عبدالرحمن بن ابی بکر ملیکی ضعیف ہے۔ نیز عبدالرحمن بن ابی بکر المیکی کے بارے میں تہذیب التہذیب باب العین زیرلفظ عبدالرحمن پر لکھا ہے کہ وہ’’ضعیف‘‘ ’’مَتْرُوْکَ الْحَدِیْثِ‘‘ ’’لَیْسَ بِشَیْءٍ۔‘‘ ’’لَا یُتَابِعُ فِیْ حَدِیْثِہٖ۔‘‘ ’’لَیْسَ بِقَوِیٍّ‘‘ علاوہ ازیں اس روایت کا ایک اور راوی ابو معاویہ ( محمد بن خازم الضریرالکوفی) ہے۔ اس کی نسبت لکھا ہے کہ اَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ فِیْ غَیْرِ حَدِیْثِ الْاَغْمَشِ مُضْطَرِبٌ لَا یَحْفَظُھَا حِفْظًا جَیِّدًا۔ (تہذیب التہذیب باب المیم زیرلفظ محمد)

۲۔ تم لوگ ایک حدیث پیش کیا کرتے ہو کہ ’’یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِیْ ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزال عیسیٰ علیہ السلام فصل نمبر۳) پس اگر یہ درست ہے کہ نبی جہا ں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے تو بتاؤ کیا عیسیٰ ؑ بوقت وفات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضہ مبارک میں داخل ہوکرآنحضرتؐ کی قبر پر لیٹ جائیں گے۔


۳۔ ایک حدیث بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ ملّا علی قاری ؒ فرماتے ہیں:۔

’’وَ قَدْ جَآءَ اَنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بَعْدَ لَبْثِہٖ فِی الْاَرْضِ یَحُجَّ وَ یَعُوْدُ فَیَمُوْتُ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃَ فَیُحْمَلُ اِلٰی الْمَدِیْنَۃَ فَیُدْفَنُ فِی الْحُجْرَۃِ الشَّرِیْفَۃِ۔ ‘‘ (مرقاۃ برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی کتاب الفضائل الفصل الثالث) کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسیٰ ؑ زمین میں اپنی عمر کا زمانہ گزار کر حج کرنے جائیں گے اور پھر واپس آئیں گے اور مکہ اور مدینہ کے درمیان فوت ہوں گے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ان کو اٹھا کر لے جایا جائے گا اور پھر آنحضرت صلعم کے حجرہ میں دفن کیاجائے گا۔

۴۔ یہ روایت واقعات کے بھی خلاف ہے۔

’’رُوِیَ اَنَّ یَعْقُوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَاتَ بِمِصْرَ فَحُمِلَ اِلٰی اَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ وَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ حَمِلَ تَابُوْتَ یُوْسُفَ بَعْدَ مَا اٰتٰی عَلَیْہِ زَمَانٌ اِلٰی اَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ۔ ‘‘

(بحر الرائق شرح کنزالدقائق از شیخ اسمٰعیل حقی البر و سوی متوفی ۱۱۳۷ھ جلد۲ صفحہ ۲۱۰۔ نیز روح البیان زیرآیت البقرۃ:۱۳۴)

کہ روایت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں فوت ہوئے۔ پس وہ مصر سے ارض شام کی طرف اٹھا کر لائے گئے اور موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کا تابوت بہت مدت گزرنے کے بعد شام میں لائے۔ (نیز شمائل ترمذی حاشیہ نمبر۱۰ صفحہ ۳۳ باب فی وفاۃ رسول اللّٰہ ؐ)

۵۔تفسیر حسینی میں لکھا ہے۔

ــــ ’’یوسف صدیق علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ بنی اسرائیل جب تک ان ( حضرت یوسف علیہ السلام۔ خادمؔ)کا تابوت اپنے ساتھ نہ لے چلیں گے مصر کے باہر نہ جا سکیں گے۔ اور ان لوگوں میں سے کسی کو یہ خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف کہاں دفن ہیں؟پس خود حضرت موسیٰ علیہ السلام ندا کرتے تھے کہ جو کوئی مجھے حضرت یوسف کے صندوق کا پتہ دے وہ جو مراد ہے چاہے لے۔ قوم بھر میں سے ایک بڑھیا بڑی عمر کی بولی۔ کہ اس شرط سے میں بتاتی ہوں کہ بہشت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بی بی ہوں۔ اور اسی شرط پر اس نے پتہ بتایا کہ وہ صندوق دریائے نیل کے گڑھے میں ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے نکالنے میں مشغول ہوئے۔جب چاند آدھے آسمان پر پہنچا تو اپنا کام کر کے راہ لی۔

(تفسیر حسینی مترجم اردو زیر آیت ۔الشعراء:۵۳)
 
Top Bottom