اعتراض 26۔ حضرت مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے اقوال میں تناقض ہے؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 26۔ حضرت مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے اقوال میں تناقض ہے؟

جواب:۔ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے اقوال میں کوئی تناقض نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نبی پہلے ایک بات اپنی طرف سے کہے۔ مگر اس کے بعد خدا تعالیٰ اس کو بتا دے کہ یہ بات غلط ہے اور درست اس طرح ہے۔ تو دوسرا قول نبی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گا۔ لہٰذا تناقض نہ ہوا۔ تناقض کے لئے ضروری ہے کہ ایک ہی شخص کے اپنے دو اقوال میں تضاد ہو۔

۲۔ قرآن مجید میں ہے:۔

’’‘‘ (النساء:۸۳)

کہ اگر یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا۔ بلکہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا۔ تو اس میں اختلا ف ہوتا۔ پس ثابت ہوا کہ کلام اﷲ کے سوا باقی سب کے کلام میں اختلاف ہونا چاہیے۔

نبی بھی انسان ہے اور وہ بھی (طٰہ :۱۱۵) کی دعا کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی کہ اے اﷲ! میرا علم بڑھا۔ پس جو کلام نبی خدا کے بتائے ہوئے علم سے پہلے کرے گا وہ ہو سکتا ہے کہ اس کلام کے مخالف ہو جو اﷲ تعالی کی طرف سے اسے دیا جائے۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہــ:۔

(ھود :۴۶) کہ یقینا میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔

مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا:۔

(سورۃ ہود:۴۷) کہ وہ یقینا آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔

اب اس وحی الٰہی کے بعد اگر حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اہل میں شمار نہ کریں (جیسا کہ واقعہ ہے) تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پہلا قول حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا خیا ل تھا۔ مگر دوسرا قول خدا کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر ہے ہاں الہام الٰہی میں اختلاف نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ علیم کل ہستی کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:۔

(النساء:۱۱۴) کہ اﷲ تعالی نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو پہلے آپ کو نہ تھا۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کے زمانہ قبل از علم کے کلام اور زمانہ بعد از علم کے کلام میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ امر آپ کی نبوت کے منافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دلیلِ صداقت ہے کیونکہ یہ عدم تصنع پر دلالت کرتا ہے۔

اسی قسم کا اختلاف وفات مسیحؑ کے مسئلہ کے متعلق ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے پہلے اپنا خیال براہین احمدیہ ہر چہارم حصص صفحہ ۳۶۱ حاشیہ صفحہ ۵۲۰ در حاشیہ طبع اول میں لکھ دیا۔ لیکن بعد میں جو اﷲ تعالیٰ نے آپ پر منکشف فرمایا۔ وہ بھی کچھ براہین احمدیہ اور کچھ بعد کی تحریرات میں درج فرما دیا۔ اب ظاہر ہے کہ وہ پہلا قول جس میں حضرت مسیح ناصریؑ کو زندہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے۔ مگر جس میں ان کو وفات یافتہ قرار دیا گیا ہے (کشتی نوح صفحہ ۹۱ طبع اول) وہ اﷲ تعالیٰ کا ہے۔ پس ان میں تناقض نہ ہوا۔


۳۔ مندرجہ بالا قسم کی مثالیں حدیث میں بھی ہیں ـ:۔

۱۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:۔ لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی (بخاری فی الخصومات باب ما ذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھودی) کہ مجھ کو موسی ؑ سے اچھا نہ کہو۔

پھر فرماتے ہیں:۔

’’مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذِبَ ‘‘ (بخاری کتاب التفسیر باب …… یونس الخ سورۃ النساء) کہ جو یہ کہے کہ میں یونسؑ بن متی سے افضل ہوں وہ جھوٹا ہے۔

مسلم شریف کی حدیث میں آتا ہے:۔ ’’جَآءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ ‘‘(مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ) کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ اور حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کر کے کہا۔ اے تمام انسانوں سے افضل! اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔‘‘ یعنی ابراہیم علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں نہ کہ میں۔ ‘‘

مشکوٰۃ صفحہ ۴۱۷ باب المفاخرۃ والعصبیۃ فصل الاول مطبع اصح المطابع پر اس حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں:۔ ’’قَوْلُہٗ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ قِیْلَ ذَاکَ تَوَاضَعٌ مِنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقِیْلَ کَانَ قَبْلَ عِلْمِہٖ بِاَنَّہٗ سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ۔ ‘‘ (مرقا ۃ بر حاشیہ مشکوٰۃ اصح المطابع صفحہ ۴۱۷ حاشیہ نمبر ۸) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ ’’وہ ابراہیم ہے۔‘‘ کہا گیا ہے کہ حضور ؐکا یہ فرمانا ازراہ انکسار تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابھی یہ اطلاع نہ ملی تھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سب انسانوں سے افضل ہیں۔ بعد میں خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ (ترمذی ابواب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل ابواب المناقب) (کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ فخر نہیں ہے) اَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (مسلم بحوالہ مشکوۃ اصح المطابع صفحہ ۵۱۱ باب فضائل سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم) میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ پھر فرمایا:۔ اَنَا اِمَامُ النَّبِیِّیْنَ‘‘ ’’اَنَا سَیِّدُ النَّبِیِّیْنَ‘‘ (فردوس الاخباردیلمی صفحہ ۳۳۱ جلد ۳ نیا ایڈیشن) میں تمام نبیوں کا امام ہوں۔ میں تمام نبیوں کا سردار ہوں۔

۴۔ اس ضمن میں حجۃ اﷲ البالغۃ (حضرت سید شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی) کا مندرجہ ذیل حوالہ فیصلہ کن ہے:۔

’’اِعْلَمْ اَنَّ النَّسْخَ قِسْمَانِ اَحَدُھُمَا اَنْ یَّنْظُرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِرْتِفَاقَاتِ اَوْ وُجُوْہِ الطَّاعَاتِ فَیَضْبِطَھَا بِوُجُوْہِ الضَّبْطِ عَلٰی قَوَانِیْنِ التَّشْرِیْعِ وَھُوَ اِجْتِھَادُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَا یُقَرِّرُہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ بَلْ یَکْشِفُ عَلَیْہِ مَا قَضَی اللّٰہُ فِی الْمَسْئَلَۃِ مِنَ الْحُکْمِ اَمَّا بِنُزُوْلِ الْقُرْآنِ حَسَبَ ذَالِکَ اَوْ تَغْیِیْرِ اجْتِھَادِہٖ اِلٰی ذَالِکَ وَتَقْرِیْرِہٖ عَلَیْہِ مِثَالُ الْاَوَّلِ مَا أَمْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْاِسْتِقْبَالِ قِبَلَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْاٰنُ بِنَسْخِہٖ وَ مِثَالُ الثَّانِیْ اَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھٰی عَنِ الْاِنْتِبَاذِ اِلَّا فِی السِّقَآءِ ثُمَّ اَبَاحَ لَھُمْ الاِنْتِبَاذَ فِیْ کُلِّ اٰنِیَّۃٍ …… وَعَلٰی ھٰذَا التَّخْرِیْجِ ھٰذَا مِثَالُ لِاِخْتِلَافِ الْحُکْمِ حَسَبُ اِخْتِلَافِ الْمُظَنَّاتِ وَفِیْ ھٰذَا الْقِسْمِ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اللّٰہِ وَ کَلَامُ اللّٰہِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ۔ ‘‘

(حجۃ اﷲ البالغۃ مترجم جلد ۱ صفحہ ۲۳۷ و صفحہ ۲۳۸ باب اسباب النسخ)

اس عربی عبارت کا ترجمہ بھی اسی کتاب سے نقل کیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔

’’جاننا چاہیے کہ نسخ کی دو قسمیں ہیں (۱) یہ کہ پیغمبرؐ امور نافع اور عبادات کے طریقوں میں خوض کر کے شریعت کے قوانین کے ڈھنگ پر ان کو کردیتے ہیں۔ ایسا آنحضرتؐکے اجتہاد سے ہوا کرتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ اس حکم و اجتہاد کو باقی نہیں رکھتا بلکہ اس حکم کو آنحضرتؐ پر ظاہر کر دیتا ہے جوخدا نے اس مسئلہ کے متعلق قرار دیا ہے اس حکم کا اظہار یا یوں ہوتا ہے کہ قرآ ن میں وہ وارد کیا جائے یا اس طرح پر کہ آنحضرتؐکے اجتہاد ہی میں تبدیلی ہو جائے اور دوسرا اجتہاد آپ کے ذہن میں قرار پا جائے۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرتؐنے نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تھا پھر قرآ ن میں اس حکم کی منسوخیت نازل ہوئی اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے بجز چھاگل کے ہر برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کر دی تھی۔ پھر ہر ایک برتن میں نبیذ بنانا لوگوں کے لیے جائز کر دیا۔…… اس توجیہہ کے لحاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ موقعوں کے بدلنے سے حکم بدل جایا کرتا ہے۔ اسی قسم کے متعلق آ پ نے فرمایا کہ میرا کلام، کلامِ الٰہی کو نسخ نہیں کر سکتا اور کلام الٰہی میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے۔‘‘

(کتاب حجۃاﷲ البالغہ مع اردو ترجمہ المسمی بہ شموس اﷲ البازغۃ مطبوعۃ مطبع حمایت اسلام پریس لاہور جلد ۱ صفحہ ۲۳۷ و صفحہ۲۳۸ باب ۷۴)

اس عبارت میں جو دوسری قسم نسخ کی بیان ہوئی ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری نہیں کہ وحی کے ذریعہ نبی کے پہلے حکم کو منسوخ کیا جائے۔ بلکہ خود اﷲ تعالی کا تصرف قلب ملہم پر ہی ایسا ہو سکتا ہے۔ کہ وہ اپنے پہلے اجتہاد کو منسوخ کر دے۔ مگر یہ پھر بھی تناقض نہ ہو گا کیونکہ پہلا خیال ملہم کا اپنا تھا۔ مگر دوسرا خیا ل خدا تعالی کی طرف سے ہے۔

۵۔ حدیث شریف میں ہے:۔ ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْسَخُ حَدِیْثُہٗ بَعْضُہٗ بَعْضًا ‘‘ (مسلم کتاب الطہارۃباب الحیض) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک قول سے اپنے ایک گذشتہ قول کو منسوخ کر دیتے تھے۔

۶۔ بعض اوقات نبی اپنے اجتہاد اور خیال سے اپنی وحی یا الہام کے ایک معنے بیان کرتا ہے مگر بعد میں واقعات سے اس کے دوسرے معنے ظاہر ہوجا تے ہیں۔ جو وحی الٰہی کے تو مطابق ہوتے ہیں مگر نبی کے اپنے خیال یا اجتہاد کے مطابق نہیں ہوتے۔ مثلاً حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ آپ کی ہجرت ایسے شہر کی طرف ہو گی۔ جہاں بہت کھجوریں ہیں۔ آپ صلعم نے سمجھا کہ اس سے مراد یمامہ یا ہجر ہیں۔ لیکن وہ در حقیقت مدینہ شریف تھا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا۔ (بخاری کتاب التعبیر باب اذا رأی بقرْا تُنْحَرُ)

۷۔ بعض دفعہ تحقیقات کے بعد نبی کی رائے بدل جاتی ہے۔ مثلاً بخاری شریف میں حدیث ہے:۔ ’’اَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَنِیْ حَارِثَۃَ فَقَالَ اَرٰکُمْ یَا بَنِیْ حَارِثَۃَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ بَلْ اَنْتُمْ فِیْہِ ‘‘

(بخاری کتاب الحج باب حرم مدینہ ۔ وتجرید بخاری مترجم اردو مع متن حصہ اول صفحہ ۳۵۶)

یعنی ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک قبیلہ بنو حارث کے ہاں گئے اور فرمایا کہ بنی حارثہ! میرا خیال ہے کہ ’’تم لوگ حرم سے باہر نکل گئے ہو۔‘‘ پھر حضور (صلعم) نے ادھر ادھر دیکھا اور فرمایا۔ ’’نہیں تم حرم کے اندر ہی ہو۔‘‘

اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلے خیال کہ قَدْخَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ اور دوسرے خیال کہ ’’بَلْ اَنْتُمْ فِیْہِ‘‘ میں تناقض ہے یا نہیں؟یہ اسی طرح کا تناقض ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ایک انگریز مؤرخ کی تحقیق کے پیش نظر مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر شام میں لکھی، لیکن بعد میں تحقیقات اور الہام الٰہی سے معلوم ہوا کہ قبر مسیحؑ کشمیر میں ہے۔ تب آپ نے پہلے خیال کی تردید کر دی۔

نوٹ:۔ مندرجہ بالا حدیث کے جواب میں یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے جو بنو حارثہ کو حرم سے باہر قرار دیا تو یہ ’’ظن اور گمان کے تحت فرمایا۔‘‘ (محمدیہ ؐ پاکٹ بک صفحہ ۱۷۲) محض دفع الوقتی ہے۔ کیونکہ ہمارا مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ بعض اوقات نبی ایک خیال کا اظہار کرتا ہے مگر بعد میں تحقیق سے وہ خیال غلط ثابت ہونے پر نبی اس کی تردید کر دیتا ہے اور یہ امر خلاف نبوت نہیں۔

۸۔ حدیث میں ہے کہ:۔

’’کَانَ…… یُحِبُّ مَوَافَقَۃَ اَہْلِ الْکِتَابِ فِیْمَا لَمْ یُؤْمَرْ بِہٖ ‘‘

(مسلم کتاب الفضائل باب صفۃ شعرہؐ وصفاتہ وحلیتہ)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان تمام امور میں یہود اور نصاریٰ کی موافقت کرتے تھے جن کے متعلق حضور صلعم کو کوئی حکم نہ ملا تھا۔

۹۔ قرآن مجید کی آیات کے متعلق بھی مخالفینِ اسلام نے اعتراض کیا ہے کہ ان میں اختلاف ہے۔ جماعت احمدیہ تو خدا کے فضل سے نہ قرآن مجید میں تناقض اور اختلاف کی قائل ہے۔ نہ ناسخ منسوخ فی القرآن کو ہم مانتے ہیں۔ لیکن ان اعتراضات کے وزنی ہونے کایہ ثبوت ہے کہ تم لوگوں نے تنگ آ کر اور لا جواب ہو کر یہ تسلیم کر لیا کہ قرآ ن مجید کی بعض آیات بعض کی ناسخ ہیں۔ گویا جن آیات کے مضمون میں اختلاف نظر آیا اور جن میں باہم تطبیق نہ ہو سکی۔ ان میں سے جو پہلے نازل ہوئی وہ منسوخ اور جو بعد میں نازل ہوئی وہ اس کی ناسخ قرار دی۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:۔

’’عَلٰی مَا حَرَّرْتُ لَا تَتَعَیَّنُ النَّسْخُ اِلَّا فِیْ خَمْسِ مَوَاضِعٍ ‘‘ (الفوز الکبیر صفحہ ۱۸،۲۱ مطبع مجتبائی دہلی مطبوعہ ۱۹۲۲ء) کہ میری تحریر کی رو سے قرآنِ مجید کی صرف پانچ آیات منسوخ ثابت ہوتی ہیں۔

قرآن مجید کی منسوخ قرار دی جانے والی آیات میں سے چند درج ذیل ہیں ـ:۔

(۱)’’‘‘ (الانفال:۱۶)

(تفسیر قادری مترجم جلد ۱ صفحہ ۳۶۰ مطبع نولکشور لکھنؤ)

(۲)۔’’ ‘‘ (الانفال :۶۶)

(تفسیر قادری جلد ۱ صفحہ ۳۰۴ مطبع نولکشور لکھنؤ)

(دیگر آیات کے لیے دیکھو تفسیر حسینی جلد ۱ صفحہ ۳۹۰ و صفحہ ۴۵۳ مطبع نولکشور لکھنؤ)

پس تم لوگوں کے منہ سے (جو قرآن مجید میں بھی اختلاف اور تناقض کے قائل ہیں) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے اقوال میں تناقض کا الزام کچھ بھلا معلوم نہیں دیتا۔

۱۰۔ مولوی ثناء ﷲ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔

’’آپ (آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) نے لوگوں کی مشرکانہ عادت دیکھ کر قبرستان کی زیارت سے منع فرمایا تھا اور بعد اصلاح اجازت دے دی اور ان کے بخل کو مٹانے کی غرض سے قربانیوں کے گوشت تین دن زائد رکھنے سے منع کر دیا تھا جس کی بعد میں اجازت دے دی۔ ایسا ہی شراب کے برتنوں میں کھانا پینا منع کیا تھا مگر بعد میں ان کے استعمال کی اجازت بخشی‘‘

(تفسیر ثنائی مؤلفہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری جلد ۱ صفحہ ۱۰۶ سورۃ البقرۃ)

۱۱۔ ہم ضمن نمبر ۹ میں اشارہ کر آئے ہیں کہ قرآ ن مجید کی آیات کے متعلق بھی منکرین اسلام نے تمہاری طرح یہ کہہ کر کہ ان میں اختلاف ہے اپنی بد باطنی کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ پنڈت دیانند بانی آریہ سماج اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتا ہے:۔

’’کہیں خدا کو محیطِ کل لکھا ہے اور کہیں محدود المکان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک شخص کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ بہت لوگوں کا بنا یا ہوا ہے۔‘‘ (ستیا رتھ باب ۱۴ دفعہ ۶۲ صفحہ ۷۳۰ )

’’کہیں قرآن میں لکھا ہے کہ اونچی آواز سے اپنے پروردگار کو پکارو اور کہیں لکھا ہے کہ دھیمی آواز سے خدا کو یاد کرو۔ اب کہئے کون سی بات سچی اور کونسی جھوٹی ہے۔ ایک دوسرے کے متضاد باتیں پاگلوں کی بکواس کی مانند ہوتی ہیں۔‘‘ (ستیا رتھ پرکاش باب ۱۴ دفعہ ۷۵ )

چنانچہ چند آیات قرآنی بطور نمونہ لکھی جاتی ہیں۔ جن میں تمہارے جیسے بد باطن دشمنوں کو اپنی کوتاہ فہمی سے تناقض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے۔

(۱) ‘‘ (التوبۃ :۷۳) یعنی اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر۔ اور ان پر سختی کر۔

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے:۔ ’’ ‘‘ (البقرۃ :۲۵۷) کہ دین میں جبر جائز نہیں۔

(۲) ’’‘‘ (الضحٰی :۸) کہ اے نبی! ہم نے آپ کو ’’ضال‘‘ پایا اور ہدایت دی۔ مگر دوسری جگہ فرمایا:۔ ’’‘‘ (النجم :۳) کہ آنحضرت صلعم ضال نہیں ہوئے۔

نوٹ:۔ محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ پہلی آیت میں ضال بمعنی گمراہ نہیں۔ بلکہ ’’طالب خیر‘‘ اور متلاشی کے معنوں میں ہے۔ مگر دوسری آیت میں بمعنی ’’گمراہ‘‘ ہے۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ بعض دفعہ دو عبارتوں میں ایک ہی لفظ کا استعمال ایک جگہ بصورت ایجاب مگر دوسری جگہ بصورت سلب ہوتا ہے۔ مگر اس لفظ کے مختلف معانی ہونے کے باعث دونوں جگہ اس کے دو الگ الگ مفہوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں تنا قض قرار دینا تمہارے جیسے ’’سیاہ باطن‘‘ انسانوں ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ بعینہٖ اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات میں مسیحؑ یا انجیل یا نبوت کے الفاظ دو مختلف مفہوموں کے لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں۔ کسی جگہ مسیح سے مراد انجیلی یسوع ہے اور کسی جگہ قرآنی مسیح علیہ السلام۔ اسی طرح کسی جگہ انجیل سے مراد محرف ومبدل انجیل ہے اور کسی جگہ اصل انجیل جو مسیح علیہ لسلام پر نازل ہوئی تھی۔ کسی جگہ نبوت سے مراد تشریعی براہ راست نبوت ہے (اور اس کی اپنے متعلق نفی فرمائی ہے) مگر دوسری جگہ نبوت سے مراد بالواسطہ غیر تشریعی نبوت ہے (اور اس کو اپنے وجود میں تسلیم فرمایا ہے) پس ایسی تحریرات کو متناقض اور متخالف قرار دینا بھی انتہائی سیہ باطنی ہے۔ (خادم)

(۳) اﷲ تعالی ایک جگہ فرماتا ہے:۔ ’’‘‘(الانفال :۳) کہ جب مومنوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل جوش مارنے لگ جاتے ہیں۔ مگر دوسری جگہ فرمایا:۔ (الرعد :۲۹) کہ اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔

(۴) ایک جگہ فرمایا:۔ ’’‘‘ (الضحٰی:۷) کہ اے نبی! ہم نے تجھے یتیم پایا اور تجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ مگر دوسری جگہ فرمایا:۔ ’’‘‘(سورۃ بنی اسرائیل:۲۴) کہ تو اپنے والدین کو اف تک نہ کہہ۔

(۵) ایک جگہ فرمایا:۔ ’’…… ‘‘(النساء :۴) کہ دو دو چار چار بیویاں کر لو۔ اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے۔ تو پھر ایک ہی کرو۔ مگر دوسری جگہ فرمایا :۔ (النساء :۱۳۰) کہ تم ہر گز اپنی بیویو ں میں انصاف نہیں کر سکو گے۔ خواہ تم کتنی خواہش کرو۔

غرضیکہ اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ گو بظاہر ان میں اختلاف اور تناقض معلوم ہوتا ہے۔ مگر درحقیقت تناقض نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ان میں تناقض کی وحدتیں پائی نہیں جاتیں۔ ہر ایک ان میں سے مختلف مواقع پر مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف مضامین کی حامل ہیں۔ لہٰذا بوجہ عدمِ تحقق وحدت ان میں تناقض نہیں بعینہٖ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں بھی درحقیقت کوئی تناقض یا اختلاف نہیں۔ مگر جس طرح دشمنانِ اسلام نے قرآن مجید پر تناقض اور اختلاف کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔ اسی طرح دشمنانِ احمدیت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال کے متعلق تناقض کا الزام لگایا ہے۔ پس ’’‘‘ (البقرۃ :۱۱۹) کے مطابق دونوں اعتراض کنند گان غلطی پر ہیں۔ نہ قرآن مجید میں اختلا ف اور نہ خادمِ قرآن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقوا ل میں حقیقی تناقض ہے۔

اب ہم ذیل میں ان مقامات کو لیتے ہیں جن کو پیش کر کے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کی ناکام کوشش کیا کرتے ہیں۔

تناقض کی تعریف

لیکن قبل اس کے کہ ہم مفصل بحث کریں۔ تناقض کی تعریف از روئے منطق درج کرتے ہیں۔ مشہور شعر ہیں ؂

در تناقض ہشت وحدت شرط واں

Gوحدتِ موضوع(۱) و محمول (۲)و مکاں(۳)

Cوحدتِ (۴)شرط واضافت(۵)۔ جزو کل(۶)

E قوت(۷) و فعل است در آخر زماں (۸)

éیعنی موضوع، محمول، مکان، شرط، اضافت، جزو کل اور بالقوۃ و با لفعل اور زمانہ کے لحاظ سے اگر دو قضیۓ متفق ہوں۔ مگر ان میں ایجاب و سلب کا اختلاف بلحاظِ حکم اور مؤجہ میں کیفیت اور محصورہ میں کمیت کا اختلا ف ہو تو وہ دونوں قضیۓ متناقض کہلائیں گے۔
 
Top Bottom