اعتراض 25۔ مرزا صاحب نے مبالغے کئے ہیں۔ لکھا ہے کہ میرے شائع کردہ اشتہارات ساٹھ ہزار کے قریب ہیں۔ اور میری کتابیں پچاس الماریوں میں سما سکتی ہیں؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 25۔ مرزا صاحب نے مبالغے کئے ہیں۔ لکھا ہے کہ میرے شائع کردہ اشتہارات ساٹھ ہزار کے قریب ہیں۔ (اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۱۸) اور میری کتابیں پچاس الماریوں میں سما سکتی ہیں؟ ( تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵ )

جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۱۸ کی محولہ عبارت میں یہ نہیں لکھا کہ میں نے ساٹھ ہزار اشتہار تحریر یا تصنیف کیا ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ ’’شائع‘‘ کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں۔ کہ اربعین کی تحریر (۱۹۰۰ء) تک جس قدر اشتہارات حضور علیہ السلام نے شائع فرمائے تھے ان کی ’’مجموعی تعداد اشاعت‘‘ ساٹھ ہزار کے قریب تھی۔ جو درست ہے۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کل اشتہارات جو میر قاسم علی صاحب کو دستیاب ہو سکے وہ ۲۶۱ ہیں۔ میر صاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تبلیغ رسالت میں مطبوعہ اشتہارات کے سوا اور کوئی اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شائع کردہ نہیں۔ ان مطبوعہ اشتہارات میں سے اکثر اشتہارات کی ’’تعداد اشاعت‘‘ سات سات سو ہے۔ جیسا کہ ان میں سے بعض اشتہارات کے آخر میں درج ہے۔

(تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۵۰ ،صفحہ ۷۰ و جلد ۸ صفحہ ۳۸، صفحہ ۴۶ جلد ۱۰ صفحہ ۸)

بعض اشتہارات کی تعداد اشاعت چھ ہزار بھی ہے (تبلیغ رسا لت جلد ۱۰ صفحہ ۸۲) اور بعض کی تین ہزار (جلد ۸ صفحہ۸۸) اور بعض کی دو ہزار (جلد۷ صفحہ ۴۸) اور بعض کی چودہ صد (جلد ۷ صفحہ ۵۵) اور بعض کی ایک ہزار بھی ہے (جلد ۷ صفحہ ۸۸و جلد۸ صفحہ ۸۲)

غرضیکہ ’’تعداد اشاعت‘‘ اشتہارات کی مختلف ہے۔ اگر فی اشتہار تین صد اوسط سمجھ لی جائے اور اس حساب سے تبلیغ رسالت میں مجموعہ ۲۶۱ اشتہارات کی تعداد اشاعت ۷۸۳۰۰ بنتی ہے اور اربعین ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء تک ۲۲۶ اشتہارات کی تعداد اشاعت ۶۷۸۰۰ بنتی ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’ساٹھ ہزار‘‘ کے قریب قرار دیا ہے۔

اسی طرح اپنی کتب کی تصنیف کے لحاظ سے تعداد حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمہاری محولہ تریا ق القلوب صفحہ ۱۵ کی عبارت میں نہیں بتائی۔ بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنے رسائل اور کتب کی اشاعت کے لحاظ سے تعداد مد نظر رکھ کر تحریر فرمایا ہے کہ

’’اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں۔ ‘‘

(تریا ق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۵۵)

اور یہ درست ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد خود مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے بھی اَسّی تسلیم کی ہے۔ جن میں سے براہین احمدیہ۔ تحفہ گولڑویہ۔ ازالہ اوہام۔ آئینہ کمالات اسلام۔ حقیقۃ الوحی۔ چشمۂ معرفت جیسی ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔ جن کی تعداد اشاعت ۲۹۰۰ (نزول المسیح) تذکرۃ الشہادتین ۸۰۰۔ تریا ق القلوب ۷۰۰۔ ایام الصلح ۷۰۰۔ اربعین ۷۰۰۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۱۶۰۰ وغیرہ ہیں۔ پس ان کتب کے جملہ نسخوں کو اگر الماریوں میں رکھا جائے تو پچاس سے زائد الماریاں بھر سکتی ہیں۔ لہٰذا کوئی مبالغہ نہیں۔

اسی طرح اپنے نشانات کی تعداد کے بارے میں جو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات ہیں۔ ان میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اپنے نشانات کی تعداد دس لاکھ قرار دی ہے اس کی تشریح بھی خود ہی فرمائی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزارہا نشانوں کا جامع ہے۔ مثلاً یہ پیشگوئی کہ یَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اور خطوط بھی آئیں گے۔ اب اس صورت میں ہر ایک جگہ سے جواب تک کوئی روپیہ آتا ہے یا پارچات اوردوسرے ہدیے آتے ہیں یہ سب بجائے خود ایک ایک نشان ہیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں ان باتوں کی خبر دی گئی تھی جبکہ انسانی عقل اس کثرتِ مدد کو دُور از قیاس و محال سمجھتی تھی۔

ایسا ہی یہ دوسری پیشگوئی یعنی یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق …… اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی چنانچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں اور اگر خطوط بھی اس کے ساتھ شامل کئے جائیں …… تو شاید یہ اندازہ کروڑ تک پہنچ جائے گا مگر ہم صرف مالی مدد اور بیعت کنندوں کی آمد پرکفایت کرکے ان نشانوں کو تخمیناً دس لاکھ نشان قرار دیتے ہیں۔ بے حیا انسان کی زبان کو قابو میں لانا تو کسی نبی کیلئے ممکن نہیں ہوا ۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۷۵)

پس نشانات کی تعداد کے متعلق حضور علیہ السلام کی تحریر ات میں مختلف طریق سے اندازہ لگایا گیا ہے مبالغہ نہیں ہے۔

اسی طرح کشتی نوحؑ کی محولہ عبارت کہ

’’دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں ۔‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۱)

یہ محاورۂ زبان ہے جو کثرت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گنتی کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ تمہا رے جیسا عقلمند تو قرآن مجید کی آیت ’’‘‘پڑھ کر ان اندھوں کے لئے ’’سرمۂ تریاق چشم‘‘ تجویز کرنے بیٹھ جائے گا۔ یا کفار کے لیے ’’‘‘ (البینۃ:۷) کا لفظ دیکھ کر ان کے فی الواقعہ جانور ہونے کا تصور کر لے گا؟

یہ تو تھا حقیقی جواب۔ لیکن ذرا یہ تو بتاؤ کہ ’’لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْآخِرَۃِ ‘‘ (بخاری کتاب الرقاق باب الصحۃ والفراغ) کے کیا معنے ہیں؟ کیا تم اور تمہارے سب لواحقین مردہ ہو؟ کیا دنیا کے جملہ انسانوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں ہے؟لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تو فرماتے ہیں کہ یہ زندگی ہی نہیں ہے۔

پھر ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:۔ اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ (مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالک جلد۴ صفحہ ۲۹حدیث نمبر ۱۲۴۸۹ مطبع دارالاحیاء التراث بیروت لبنان) کہ امام اور امیر کے لئے قریشی النسل ہونا ضروری ہے۔ پھر فرمایا:۔

’’لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ ھٰذِ الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ۔ ‘‘ (بخاری کتاب الاحکام باب الامراء من قریش) یعنی امیر کا قریشی ہونا ضروری ہے۔

مگر دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔

’’اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبْشِیٌّ۔ ‘‘

(بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام)

سو ان ہر دو اقوال کو نقل کر کے ابن خلدون لکھتا ہے:۔

’’قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاِنْ وُلِیَّ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبْشِیٌّ ذُوْ زَبِیْبَۃٍ وَھٰذَا لَا تَقُوْمُ بِہٖ حُجَّۃٌ فِیْ ذَالِکَ فَاِنَّہٗ خَرَجَ مَخْرَجَ التَّمْثِیْلِ وَالْفَرْضِ لِلْمُبَالِغَۃِ فِیْ اِیْجَابِ السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ۔ ‘‘

(مقدمہ ابن خلدون مصری صفحہ ۱۶۲ فصل الخامس والعشرون فی معنی الخلافۃ والامامۃ)

یعنی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قول کہ اگر تم پر کوئی حبشی بھی حکمران بنایا جائے تو تم پر فرض ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو۔ اس امر کی حجت نہیں ہو سکتا کہ امیر کے لئے قریشی النسل ہونا ضروری نہیں۔ کیونکہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اطاعت اور فرما نبرداری پر زور دینے کے لئے تمثیل اور مبالغہ سے کام لیا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ کسی چیز پر زور دینے کے لئے مبالغہ سنت نبویؐ ہے۔ پس تمہارا اعتراض باطل ہو گیا۔

تمہارے جیسا معترض تو شاید قرآن مجید کی آیت ’’(الاعراف:۴۱) کو پڑھ کر ایسی سوئی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو کہ جس کے ناکے میں سے اونٹ گذر سکے اور نہ مل سکنے پر قرآن مجید پر مبالغہ آمیزی کا الزام لگانے لگ جائے۔

اسی طرح حدیث شریف ’’مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ‘‘(مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا) اور دوسری مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔
 
Top Bottom