اعتراض ۔ محمدی بیگم، مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض ۔ محمدی بیگم، مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی

غیر احمدی اعتراضات
پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات

۱۔ پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ وغیرہ

خدا تعالیٰ کی سنتِ قدیمہ:۔ جب کوئی قوم اپنی بد اعمالیوں کی و جہ سے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس قوم کو عذاب نازل کرنے سے قبل آخری اتمام حجت کے طور پر ایک حکم دیا کرتا ہے کبھی وہ حکم اپنی ذات میں نہایت معمولی ہوتا ہے مگر اس کی خلاف ورزی ’’اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا‘‘ ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اسی قانون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے (بنی اسرائیل:۱۷)

کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو ایک حکم دیتے ہیں جس کی وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ پس ان پر فردِ جرم لگ جاتا ہے اور ہم ان کو بالکل تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔

چنانچہ اسی قسم کی اتمامِ حجت کی ایک مثال سورۃ الشمس میں بیان فرمائی ہے۔ (الشمس:۱۴،۱۵) پس قوم ہود سے اﷲ تعالیٰ کے نبی (صالحؑ) نے فرمایا کہ خدا کی اس اونٹنی کا خیال رکھو، اور اس کا پانی بند نہ کرو۔ پس انہوں نے اس کا انکار کیا اور انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیئے۔ پس ان کو خداتعالیٰ نے ان کے گناہ اور نافرمانی کے باعث ہلاک کر دیا۔

پس یہی سنت الٰہیہ تھی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ معاملہ کیا۔ وہ لوگ (جیسا کہ تفصیل آگے آئیگی) خدا تعالیٰ کے منکر، آنحضرتؐ اور قرآن کے دشمن تھے، ہندو تہذیب اور ہندؤانہ رسوم کا ان پرگہرا اثر تھا، جس طرح ہندوؤں کے ہاں اپنی گوت اور خاندان میں نکاح ناجائز سمجھا جاتا ہے اسی طرح وہ لوگ (مرزا احمد بیگ وغیرہ) بھی یہ خیال کرتے تھے کہ اسلام نے جو چچا، ماموں اور خالہ کی لڑکی کے سا تھ نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ نہایت قابل اعتراض ہے وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ مندرجہ بالا رشتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرنا حقیقی ہمشیرہ کے ساتھ نکاح کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے آنحضرتؐ نے جو اپنی پھوپھی کی لڑکی (حضرت ز ینبؓ) سے نکاح کیا وہ بھی ناجائز تھا۔ سو خدا تعالیٰ نے ان کی بد کرداریوں اور نافرمانیوں کے باعث (جن کی تفصیل آگے آئے گی) ان کو قوم صالحؑ کی طرح ایک آخری حکم دیا کہ وہ (احمد بیگ) اپنی لڑکی کا نکاح حضرت مسیح موعود ؑ سے کر دیں گے تو یہ نکاح قرآن مجید کی آیت (التوبۃ:۱۱۹) کے مطابق (کہ صادقین کے ساتھ تعلق پیدا کرو) موجب رحمت اور برکت ہو گا۔

۲۔ چونکہ حضرت اقدس کا رشتہ ان لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا تھا جس میں ہندوؤانہ رسوم کے ماتحت باہمی نکاح کو وہ برا سمجھتے تھے، اس لئے خدا تعالیٰ نے خصو صیت سے اسی امر کو چنا۔ جس طرح آنحضرتؐ کے ز ینبؓ (مطلقۂ زیدؓ) کے ساتھ نکاح کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (الاحزاب:۳۸) کہ ہم نے یہ نکاح کیا تا کہ مومن اپنے متبنّوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کو برا نہ سمجھیں۔

گویا اس بد رسم کو مٹانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کا حضرت ز ینبؓ سے نکاح کیا۔ بعینہٖ اس جگہ بھی اسی امر کو چنا، تا ان کی اصلاح ہو اور یہ خیالات فاسدہ ان کے دماغ سے نکل جائیں۔

۲۔ تیسری حکمت اس میں یہ تھی کہ چونکہ اﷲ تعالیٰ کو ان کی اصلاح مقصود تھی اور تاریخ اسلامی سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کے ساتھ جسمانی رشتہ لڑکی کے خاندان کی اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے جیسا کہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان اور سودہؓ بنت زمعہؓ کے آنحضرتؐ کے نکاح میں آ جانے کی وجہ سے ان کے خاندان حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے یہی آخری حکم مرزا احمد بیگ وغیرہ کو دیا۔

مخالفین ا نبیاء کا شیوہ تکذیب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام شروط کے ساتھ لفظًا لفظًا پوری ہو گئی، جیسا کہ خو د حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرما تے ہیں۔

’’ہم نے سلطان محمد کے بارے میں اس کی موت کی وجہ تاخیر علیحدہ اشتہار میں ایسے طور سے ثابت کر دی ہے جس کے قبول کرنے سے کسی ایماندار کو عذر نہیں ہوگا۔ اور بے ایمان جو ؔچاہے سو کہے یاد رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ پوری ہوئی جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا۔ ‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۱)

نوٹ:۔ بعض ان لوگوں کو جن کو حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابو ں کا علم نہیں خاکسار پر طعن کیا ہے کہ گویا یہ دعویٰ کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی خاکسار کی ایجاد ہے جیسا کہ مولوی ثناء اﷲ جس نے اس پاکٹ بک کی نقل کر کے ایک اشتہاری پاکٹ بک ’’ثنائی پاکٹ بک‘‘ کے نام سے شائع کی ہے اس کے صفحہ۶۷ پر یہی اعتراض لکھا ہے حالانکہ یہ محض اس کی لاعملی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے۔ (خادم)

اہل بصیرت نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت و حقانیت کی ایک دلیل سمجھا۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں آدمی حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے مگر ’’عُلَمَآءُ ھُمْ‘‘ اپنے شیوہ استہزاء و تمسخر سے با ز نہ آئے۔ ‘‘

خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرتؐ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ (الاحزاب:۳۸) کہ جب زید ؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی تو ہم نے آپ کے ساتھ آسمان پر نکاح پڑھ دیا۔

یہی الفاظ کا حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ نے محمدی بیگم کے متعلق فرمایا۔ وہاں شرائط کے تحقق کے باعث حضرت ز ینبؓ کا نکاح ہو گیا مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں شرائط کے عدم تحقق کے باعث محمدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو اس پر بھی مخالفین اعتراضات کرنے میں پیش پیش ہیں۔ غرضیکہ نکاح کا ہونا یا نہ ہونا باعث اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث در حقیقت وہ فطری بغض ہے جو روزِ ازل سے معاندین و مکذبین کے شامل رہا ہے۔

چنانچہ ہم محمدی بیگم کے ساتھ متعلقہ پیشگوئی کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ درج ذیل کر کے اہل بصیرت حضرات سے اپیل کرتے ہیں، اگر وہ خدا کے لئے انصاف و خدا ترسی کے ساتھ اس پیشگوئی پر نظر ڈالیں گے تو ان پر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ اس پیشگوئی پر مخالفین کی طرف سے جس قدر اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں بلکہ یہ بھی کہ یہ پیشگوئی بعینہٖ اسی طرح جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو بیان فرمایا تھا، پوری ہوئی۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔

مخالف علماء کی غلط بیانیاں

مخالف علماء اس پیشگوئی پر اعتراض کرنے کے لئے ہمیشہ صداقت و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ محمدی بیگم کے ساتھ میرا نکاح ہو جائیگا، اگر میرا نکاح محمدی بیگم سے نہ ہوا تو میں جھوٹا ہو جاؤں گا اور ’’بد سے بدتر ٹھہروں گا۔‘‘ چونکہ مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے نہیں ہوا لہٰذا مرزا صاحب جھوٹے ہیں۔ (نعوذ باﷲ)

یہ وہ طریق ہے کہ جس سے وہ اس پیشگوئی کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ حالانکہ خدا شاہد ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ افتراء اور دھوکا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود ؑ نے اسی طرح پیشگوئی فرمائی ہوتی تو غیر احمدی علماء کا اعتراض درست ہوتا مگر واقعہ یہ ہے کہ مخالف علماء ہمیشہ اصل واقعات کو حذف کر کے بے حد تحریف کے ساتھ پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔

پیشگوئی کی غرض و غایت

اس پیشگوئی کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی اصل غرض و غایت کو بیان کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اِنَّ اللّٰہَ رَأَی ابْنَاءَ عَمِّیْ، وَ غَیْرَھُمْ مِنْ شُعُوْبِ أَبِیْ وَ أُمِّی الْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ، وَالْمُسْتَغْرِقِیْنَ فِی السِّیِّئَاتِ مِنَ الرُّسُوْمِ الْقَبِیْحَۃِ وَالْعَقَائِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ الْبِدْعَاتِ۔ وَ رَآھُمْ مِنْقَادِیْنَ لِجَذَبَاتِ النَّفْسِ وَاِسْتِیْفَاءِ الشَّھَوَاتِ، وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۶)

کہ خدا تعالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں …… (احمد بیگ وغیرہ) کو مہلک خیالات و اعمال میں مبتلاء اور رسوم قبیحہ، عقایدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا، اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے لحاظ سے پیروانِ جذبات و شہوات نفسانیہ ہیں۔ اور نیز یہ کہ وہ وجود خداوندی کے منکر اور فسادی ہیں۔‘‘

اس کے آگے یہاں تک فرمایا۔ وَ کَانُوْا أَشَدُّ کُفْرًا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَالْمُنْکِرِیْنَ لِقَضَاءِ اللّٰہِ وَ قَدْرِہٖ وَ مِنَ الدَّھْرِیِّیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۷) کہ وہ لوگ خدا اور رسولؐ کے پکے منکر اور قضا و قدر کے نہ ماننے والے بلکہ دہریہ تھے۔

ان کی بے دینی اور دہریت کا پوری طرح علم مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعودؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرمایا ہے:۔

’’فَاتَّفَقَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ اِنِّیْ کُنْتُ جَالِسًا فِیْ بَیْتِیْ اِذْ جَاءَ نِیْ رَجُلٌ بَاکِیًا فَفَزِعْتُ مِنْ بُکَائِہٖ فَقُلْتُ اَجَاءَ کَ نَعْیُ مَوْتٍ؟ قَالَ بَلْ أَعْظَمُ مِنْہُ۔ اِنِّیْ کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ھٰؤُلَاءِ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ فَسَبَّ اَحَدُھُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبًّا شَدِیْدًا غَلِیْظًا مَا سَمِعْتُ قَبْلَہٗ مِنْ فَمِ کَافِرٍ، وَ رَأَیْتُھُمْ أَنَّھُمْ یَجْعَلُوْنَ الْقُرْآنَ تَحْتَ أَقْدَامِھِمْ وَ یَتَکَلَّمُوْنَ بِکَلِمَاتٍ یَرْتَعِدُّ اللِّسَانُ مِنْ نَقْلِھَا، وَ یَقُوْلُوْنَ اَنَّ وُجُوْدَ الْبَارِیْ لَیْسَ بِشَیْءٍ وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ فِی الْعَالَمِ، إِنْ ھُوَ اِلَّا کِذْبُ الْمُفْتَرِیْنَ۔ قُلْتُ اَوَلَمْ حَذَّرْتُکَ مِنْ مَجَالِسَتِھِمْ فَاتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تَقْعَدْ مَعَھُمْ وَ کُنْ مِنَ التَّائِبِیْنَ۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸)

یعنی ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا، میں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ! میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین خداوندی سے مرتد ہو چکے، پس ان میں سے ایک نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہایت گندی گالی دی، ایسی گالی کہ اس سے پہلے میں نے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآن مجید کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہیں اور ایسے کلمات بولتے ہیں کہ زبان بھی ان کو نقل کرنے سے گندی ہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا کا وجود کوئی چیز نہیں اور یہ کہ دنیا میں کوئی معبود نہیں، یہ صرف ایک جھوٹ ہے جو مفتریوں نے بولا۔ میں نے اسے کہا کہ کیا میں نے تمہیں ان کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ پس خدا سے ڈرو اور آئندہ ان کے پاس کبھی نہ بیٹھا کرو اور توبہ کرو۔

’’وَ کَانُوْا یَسْتَھْزِءُ وْنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ) اَنَّ الْقُرْآنَ مِنْ مُفْتَرِیَاتِ مُحَمَّدٍ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) وَ کَانُوْا مِنَ الْمُرْتَدِّیْنَ۔‘‘ (آئینہ کمالا ت اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸) کہ وہ خدا اور رسولؐ پر تمسخر کرتے اور کہتے تھے کہ قرآن نعوذ باﷲ آنحضرتؐ کا افتراء ہے اور وہ مرتد تھے۔

غرضیکہ ان لوگوں کی یہ کیفیت تھی جب کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور من اﷲ ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ ایسے لوگوں کے لئے جو خدا کی ہستی ہی کے سرے سے منکر تھے۔ ایسا دعویٰ اور زیادہ استہزاء اور تمسخر کا محرک ہوا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہایت بے باکی اور شرارت کے ساتھ سلوک کرنا شروع کیا اور کہا۔ فَلْیَاْتِنَا بِآیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸) کہ اگر (مرزا صاحبؑ) سچا ہے تو کوئی نشان ہمیں دکھائے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’فَکَتَبُوْا کِتَابًا کَانَ فِیْہِ سَبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ سَبُّ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ إِنْکَارُ وُجُوْدِ الْبَارِی عَزَّ اِسْمُہٗ، وَ مَعَ ذٰلِکَ طَلَبُوْا فِیْہِ آیَاتِ صِدْقِیْ مِنِّیْ وَ آیَاتِ وُجُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ أَرْسَلُوْا کِتَابَھُمْ فِی الْآفَاقِ وَالْأَقْطَارِ وَ أَعَانُوْا بِھَا کَفَرَۃِ الْھِنْدِ وَ عَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۸)

انہوں نے ایک خط لکھا جس میں آنحضرتؐ اور قرآن مجید کو گالیاں دی ہوئی تھیں اور خدا تعالیٰ کی ہستی کے لئے نشان طلب کیا ہوا تھا اور انہوں نے اپنا یہ خط آفاق و اقطار میں شائع کیا اور ہندوستان کے دوسرے غیر مسلموں (عیسائیوں) نے اس میں ان کی بہت مدد کی اور انہوں نے انتہائی سرکشی کی۔

یہ خط اخبار چشمۂ نور اگست ۱۸۸۵؁ء میں شائع ہوا تھا۔

ان کی اس انتہائی شوخی اور مطالبہ نشان پر حضرت مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ سے دعا فرمائی، جس کا ذکر حضور نے آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۹ پر بدیں الفاظ شروع فرمایا:۔

وَ قُلْتُ یَا رَبِّ یَا رَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَ اخْذُلْ اَعْدَاءَ کَ۔الخ کہ میں نے کہا اے میرے خدا! اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر۔

اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضور ؑ کو الہامًا وہ نشان دیا گیا جس کے لئے وہ لوگ اس قدر بے تاب ہو رہے تھے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا:۔

’’اِنِّیْ رَأَیْتُ عِصْیَانَھُمْ وَطُغْیَانَھُمْ فَسَوْفَ أَضْرِبُھُمْ بِأَنْوَاعِ الْآفَاتِ أُبِیْدُھُمْ مِنْ تَحْتِ السَّمَاوَاتِ وَ سَتَنْظُرْ مَا أَفْعَلُ بِھِمْ وَ کُنَّا عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَادِرِیْنَ۔ إِنِّیْ أَجْعَلُ نِسَاءَ ھُمْ أَرَامِلَ وَ أَبْنَاءَ ھُمْ یَتَامٰی وَ بُیُوْتَھُمْ خَرِبَۃً لِیَذُوْقُوْا طَعْمَ مَا قَالُوْا وَ مَا کَسَبُوْا وَلٰکِنْ لَّا اُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَاحِدَۃً بَلْ قِلِیْـلًا قَلِیْـلًا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ وَ یَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ إِنَّ لَعْنَتِیْ نَازِلَۃً عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی جُدْرَانِ بُیُوْتِھِمْ وَ عَلٰی صَغِیْرِھِمْ وَکَبِیْرِھِمْ وَنِسَائِھِمْ وَ رِجَالِھِمْ وَ نَزِیْلِھِمُ الَّذِیْ دَخَلَ أَبْوَابَھُمْ۔ وَ کُلُّھُمْ کَانُوْا مَلْعُوْنِیْنَ۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۹)

کہ میں نے ان کی بد کرداری اور سر کشی دیکھی پس میں عنقریب ان کو مختلف قسم کی آفات سے ماروں گا اور ان کو زیر آسمان ہلاک کروں گا۔ اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ اور ہم ہر ایک چیز پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتو ں کو بیوائیں، انکے بچوں کو یتیم اور ان کے گھروں کو ویران کر دونگا تا کہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں ان کو یکدم ہلاک نہیں کرونگا بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چار دیواری پر اور ان کے بڑوں اور ان کے چھوٹوں پر اور ان کی عورتوں اور ان کے مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہوں گے۔

پیشگوئی کی مزید تفصیل

مندرجہ بالاعبارت میں صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ خدا ان کی عورتوں کو بیوائیں اور ان کے بچوں کو یتیم کر دے گا مگر اس کے ساتھ ہی توبہ اور رجوع کی شرط بھی مذکور ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو یکدم ہلاک نہیں کرے گا تاکہ اگر وہ توبہ کر لیں توبچ جائیں۔

ان عورتوں کو بیوائیں اور بچوں کے یتیم بننے کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ اگر مرزا احمد بیگ اپنی دختر کلاں (محمدی بیگم) کا رشتہ حضرت مسیح موعود سے کر دے تو وہ اور اس کا خاندان اسی طرح روحانی برکات سے حصہ پائے گا جس طرح امِ حبیبہؓ بنت ابو سفیان اور سودہؓ بنت زمعہؓ نے خدا کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر اپنے قبیلہ اور خاندان کو پہنچایا۔ (کہ ان کے خاندان اور قبیلے ان کے نکاحوں کے باعث اسلام میں داخل ہو گئے۔)

الہام الٰہی نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ وہ اپنی اندرونی حالت (جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے) کے باعث ہر گز یہ رشتہ نہیں کرے گا اور اس صورت میں جس دن وہ کسی اور شخص سے اس کا نکاح کر دے گا اس کے بعد تین سال کے عرصہ میں اور جس شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہو گا وہ اڑھائی (2 ½) سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا اور لڑکی بیوہ ہونے کے بعد نکاح میں آئے گی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے الفاظ حسب ذیل ہیں:۔

’’اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کیلئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۸؁ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۶)

الہام الٰہی نے ساتھ ہی ایک اور بات بتا دی کہ اوّل مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح ضرور کسی دوسری جگہ کر دے گا۔ چنانچہ اس کے لئے الہامات یہ ہیں:۔

کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا وَ کَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِءُ ْونَ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّ ھَا اِلَیْکَ۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۶)

یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ تمسخر واستہزاء کیا۔ خدا تعالیٰ انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائیگا۔

یہ دونوں الہامات بتار ہے ہیں کہ لڑکی کا رشتہ ضرور کسی دوسری جگہ ہو جائیگا۔ وہ لوگ اس منشاء الٰہی کی تکذیب کرینگے اور لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کر دیں گے۔ دوسرا الہام تو صریح طور پر بتا رہا ہے کہ نکاح ضرور دوسری جگہ ہو گا۔ ’’واپس لانا‘‘ یَرُدُّھَا کا لفظ اس پر صریح نص ہے۔ اس کے ساتھ دوسری بات یہ بھی بتا دی گئی کہ احمد بیگ اور اس کے داماد وغیرہ کی ہلاکت توبہ اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں ہو گی۔

لاَ أُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَاحِدَۃً بَلْ قَلِیْـلًا قَلِیْـلًا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ وَ یَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۹) کہ میں ان کو یکدم ہلاک نہ کروں گا، بلکہ آہستہ آہستہ تا کہ وہ رجوع کر لیں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔

۲۔ ’’اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۸)

دونوں عبارتیں بالکل واضح ہیں اور کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ صاف طور پر ان میں توبہ کی شرط مذکور ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں پر (جن کی ہلاکت کی پیشگوئی تھی) اگر وہ توبہ نہ کریں اور رجوع نہ لائیں گے تو عذاب نازل ہو گا، لیکن اگر وہ رجو ع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ ان پر رجوع کرے گا۔

۳۔ تیسرا ثبوت اس امر کا کہ پیشگوئی میں توبہ کی شرط مذکور تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ ذیل الہامات ہیں جو حضور نے اس پیشگوئی کے متعلق شائع فرمائے۔

رَاَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْءَ ۃَوَاَثْرُالْبُکَاءِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْءَ ُۃ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کَلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۰ حاشیہ اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء) کہ میں نے اس عورت (محمدی بیگم کی نانی) کو (کشفی حالت میں) دیکھا اور رونے کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت توبہ کر! توبہ کر! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے ایک مرد مر جائے گا اوراس کی طرف کتے باقی رہ جائیں گے۔

ان الہامات میں تُوْبِیْ تُوْبِیْ کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ وہ مصیبت جو اس خاندان پر آنے والی تھی وہ توبہ سے ٹل سکتی تھی اور تُوْبِیْ تُوْبِیْ میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کرنے سے خدا تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ اس انذاری پیشگوئی میں ’’توبہ‘‘ کا دروازہ بہت وسیع ہے۔ کبیرہ گناہوں کو چھوڑ کر جو دوسرے صغیرہ گناہ ہوتے ہیں، ان کیلئے ایک آدمی کی دعا سے دوسرے کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ التحیات میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش۔

اسی طرح سے اپنی ذریت کے لئے بھی دعا سکھلائی گئی۔ کہ اے اﷲ! مجھے اور میری ذریت (اولاد) کو بھی نماز کا قائم کرنیوالا بنا۔

غرضیکہ تُوْبِیْ تُوْبِیْ میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کر کے بتایا گیا ہے کہ اس پیشگوئی میں جو توبہ کی شرط لگائی گئی ہے تو اس کے لئے دروازہ بہت کھلا ہے یہانتک کہ ’’نانی‘‘ کی دعا اور استغفار سے نواسی کی مصیبت ٹل سکتی ہے چہ جائیکہ وہ خود توبہ اور استغفار کریں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اصل پیشگوئی یہ نہ تھی کہ ’’محمدی بیگم میرے نکاح میں آ جائیگی‘‘ بلکہ پیشگوئی یہ تھی کہ احمد بیگ اور سلطان محمد اگر توبہ نہ کرینگے۔ (دیکھو مندجہ بالا اقتباس نمبر ۲ از اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ) تو تین اور اڑھائی سال کے عرصہ میں ہلاک ہوجائیں گے اور انکی ہلاکت کے بعد محمدی بیگم ’’بیوہ ہو کر‘‘ حضرتؑ کے نکاح میں آئے گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے خود اسی اشتہار 20 فروری1886ء میں صاف طور پر تحریر فرما دیا ہے:۔

’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائیگا اور وہ جو اس سے نکاح کرے گا روزِ نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہو جائے گا اور آخر وہ عورت میرے نکاح میں آئے گی۔ ‘‘

۲۔ اس سے بھی واضح حوالہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمدی بیگم کا حضرتؑ کے نکاح میں آنا، احمد بیگ اور سلطان محمد دونوں کی موت پر موقوف تھا، یہ ہے:۔

یَمُوْتُ بَعْلُھَا وَاَبُوْھَا اِلٰی ثَلَاثِ سَنَۃٍ مِنْ یَوْمِ النِّکَاحِ ثُمَّ نَرُدُّھَا اِلَیْکَ بَعْدَ مَوْتِھِمَا(کرامات الصادقین آخری ٹائٹل پیج) کہ اس کا خاوند اور باپ یومِ نکاح سے تین سال کے عرصہ میں مرجائیں گے اور ان دونوں کی موت کے بعد ہم اس عورت کو تیری طرف واپس لائیں گے۔

۳۔ اس سے بھی واضح حوالہ جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نکاح کی پیشگوئی اصل پیشگوئی نہ تھی، بلکہ اصل پیشگوئی احمد بیگ اور سلطان محمد کی ہلاکت تھی، یہ ہے:۔

کَانَ أَصْلُ الْمَقْصُوْدِ الْإِہْلَاکِ، وَتَعْلَمُ أَنَّہٗ ہُوَ الْمِلَاکُ، وَأَمَّا تَزَوِّیْجُہَا إِیَّّایَ بَعْدَ إِہْلَاکِ الْہَالِکِیْنَ وَالْہَالِکَاتِ،فَہُوَ لِإِعْظَامِ الْآیَۃِ فِیْ عَیْنِ الْمَخْلُوْقَاتِ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۷-۲۱۶) کہ میری پیشگوئی کا اصل مقصد تو (ان دونوں) کا ہلاک کرنا تھا اور اس عورت کا میرے نکاح میں آنا ان کی موت کے بعد ہے، اور وہ بھی محض نشان کی عظمت کو لوگوں کی نظر میں بڑھانے کے لئے نہ کہ اصل مقصود۔

غرضیکہ یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ مرزا سلطان محمد اور احمد بیگ ’’اگر تو بہ نہ کریں گے‘‘ تو تین سال کے عرصہ میں فوت ہوجائیں گے اور ’’ان کی وفات کے بعد‘‘ محمدی بیگم حضرت کے نکاح میں آئے گی۔

یہاں پر طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ بتایا کہ احمد بیگ اور سلطان محمد اگر توبہ نہ کریں گے تو تین برس کے عرصہ میں ہلاک ہوں گے، جب خدا نے توبہ کی شرط لگا دی ہے تو ا ب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس شرط سے فائدہ اٹھائیں گے یا نہیں؟ اور اگر اٹھائیں گے تو کس حد تک؟ کیونکہ خد تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اس کو تو معلوم تھا کہ احمد بیگ اور سلطان محمد توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھائیں گے یا نہیں؟

تو اس سوال کا جواب تُوْبِیْ تُوْبِیْ والے الہام کے ساتھ ہی اگلے الفاظ میں دیا ہے۔ فرمایا:۔

’’تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکَ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کَلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۲۰ حاشیہ۔ اشتہار ۱۵؍جولائی ۱۸۸۸ء)

یعنی اے عورت! توبہ کر، توبہ کر، تجھ پر اور تیری لڑکی کی لڑکی پر عذاب نازل ہونے والا ہے (ان دونوں مردوں میں سے احمد بیگ اور سلطان محمد میں سے) ایک مرد ہی مرے گا۔ (یعنی وہ توبہ نہیں کرے گا لیکن دوسرا توبہ کر کے شرط سے فائدہ اٹھا لے گا اور نہیں مرے گا اور اس طرح سے عورت بیوہ نہ ہو گی نہ ہی نکاح ہو گا) اور کتے بھونکتے رہ جائیں گے ‘‘کہ کیوں نکاح نہیں ہوا۔ یعنی بے وجہ اعتراض کرتے رہیں گے۔

اس الہام میں صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ احمد بیگ اور سلطان محمد میں سے ایک شخص توبہ کی شرط سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور اس کی موت ہو گی اور دوسرا شخص اس شرط سے فائدہ اٹھا کر بچ جائے گا۔

’’یَمُوْتُ‘‘ واحد مضارع مذکر کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ایک مرد مرے گا۔‘‘ خادمؔ

اب ہم مندرجہ بالا بحث میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ درحقیقت حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی یہ تھی۔

۱۔ احمد بیگ ضرور اپنی لڑکی کا نکاح کسی دوسرے شخص سے کر دے گا۔ (یَرُدُّھَا اِلَیْکَ)

۲۔ نکاح کرنے کے بعد ’’اگر توبہ نہ کریں گے‘‘ تو تین سال کے عرصہ میں احمد بیگ اور اس کا داماد مرجائیں گے اور اندریں صورت لڑکی بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی۔‘‘ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و ضمیمہ ریاض ہند امرتسر مارچ ۱۸۸۶ء)

۳۔ توبہ کی شرط سے دونوں میں سے ایک فائدہ نہیں اٹھائے گا اور مر جائے گا۔ (یَمُوْتُ)

۴۔ دوسرا شخص اس شرط سے فائدہ اٹھائے گا اور توبہ کر کے بچ جائے گا۔ (یَمُوْتُ) کیونکہ دونوں میں سے ایک نے مرنا ہے۔

۵۔ لڑکی بیوہ نہ ہو گی۔ (نتیجہ شق چہارم)

۶۔ اس وجہ سے نکاح نہ ہو گاکیونکہ نکاح بیوہ ہونے کے بعد ہی ہونا تھا۔

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۶)

۷۔ اور وہ لوگ جو ہر حالت میں زبان نکالنے کے عادی ہیں (جن کو قرآن کریم نے اعراف ع ۲۲ میں کے لفظ سے یاد کیا ہے) وہ اس پر اعتراض کرتے رہیں گے۔ (یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ)

پیشگوئی پوری ہوگئی

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مندرجہ بالا امور پر مشتمل تھی۔ آؤ اب ذرا واقعات پر نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا خدا کے مسیح موعودؑ کی بیان فرمودہ باتیں پوری ہوئیں یا نہ؟ واقعات نے بتا دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جس طرح پیشگوئی کی تھی، حرف بحرف اسی طرح پوری ہوئی:۔

۱۔ احمد بیگ نے محمدی بیگم کا نکاح ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزا سلطان محمد سے کر دیا۔

۲۔ احمد بیگ نے توبہ کی شرط سے فائدہ نہ اٹھایا اور روز نکاح سے پانچ مہینے اور ۲۴ دن بعد یعنی ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہو گیا۔ اور یَمُوْتُ والے الہام کا ایک پہلو پور ا ہو گیا۔

۳۔ سلطان محمد نے ’’توبہ‘‘ کی شرط سے پیشگوئی کے مطابق فائدہ اٹھایا اور توبہ کر کے بچ گیا (یَمُوْتُ دوسرا پہلو بھی پورا ہو گیا۔)

۴۔ چونکہ سلطان محمد توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھا کر بچ گیا اس لئے محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی۔

۵۔ چونکہ بیوہ نہ ہوئی اس لئے نکاح بھی نہ ہوا (کیونکہ نکاح بیوہ ہونے کے بعد ہونا تھا)

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۶)

۶۔ معترضین آج تک اعتراض کرتے اور اپنی مخصوص ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے اور خود بخود یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ والے الہام کو پورا کرتے ہیں۔

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طریق سے پیشگوئی فرمائی تھی، بعینہٖ اسی طرح پوری ہوئی ہم بیان کر چکے ہیں کہ پیشگوئی میں ’’توبہ‘‘ کی شرط تھی۔ محمدی بیگم کا حضرت کے نکاح میں آنا تین سال میں سلطان محمد اور احمد بیگ کی موت پر موقوف تھا اور ان دونوں کا تین سال میں مرنا ان کے توبہ نہ کرنے پر موقوف تھا۔ سلطان محمد نے ’’توبہ‘‘ کی، وہ تین سال میں نہ مرا۔ محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی۔ لہٰذا نکاح نہ ہوا۔ اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ۔

ہمارے تمام بیان کا انحصار صرف دو باتوں پر ہے۔

۱۔ پیشگوئی میں توبہ کی شرط موجود تھی۔

۲۔ سلطان محمد نے ’’توبہ‘‘ کی شرط سے فائدہ اٹھایا۔

اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہوں تو پھر کسی منصف مزاج اور حق پسند انسان کو اس پیشگوئی پر کوئی معمولی سے معمولی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود ؑ سے صرف اس صورت میں ہونا تھا کہ سلطان محمد توبہ نہ کرے اور تین سال میں مر جائے اور پھر یہ بھی ثابت کر دیا جائے کہ سلطان محمد نے فی الواقعہ توبہ کی اور اس وجہ سے تین سال میں مرنے سے بچ گیا تو بات بالکل صاف ہوتی ہے۔ سو اس بات کا ثبوت کہ اصل پیشگوئی میں توبہ کی شرط موجود تھی ہم پچھلے صفحات میں تفصیلاً آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۶۹ و اشتہار ۲۰؍ فروری۱۸۸۶ء و الہام تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ درج کر کے دے آئے ہیں۔ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ کی دو اور تحریریں درج کرتے ہیں:۔

۱۔ ما کان إلہام فی ہذہِ المقدمۃ إلَّا کان معہ شرط (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۲۲۔۲۲۳) کہ اس پیشگوئی کے متعلق مجھے ایک بھی ایسا الہام نہیں ہوا کہ جس میں شرط مذکور نہ ہو۔

۲۔’’اور بعض نادان کہتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور وہ نہیں سمجھتے کہ یہ پیشگوئی بھی عبداﷲ آتھم کے متعلق کی پیشگوئی کی طرح شرطی تھی اور اس میں خدا تعالیٰ کی وحی اُس کی منکوحہ کی نانی کو مخاطب کر کے یہ تھی توبی توبی فانّ البلاء علٰی عقبک یعنی اے عورت توبہ توبہ کر کہ تیری لڑکی کی لڑکی پر بلا آنے والی ہے۔ ‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۹)

سلطان محمد کی توبہ کا ثبوت

اب صرف اس امر کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ باقی رہا کہ مرزا سلطان محمدؐ نے توبہ کی اور فی الواقعہ پیشگوئی کی اس شرط سے فائدہ اٹھایا؟ سو یاد رہے کہ اس کی توبہ کے پانچ ثبوت ہیں:۔

۱۔ سب سے پہلا ثبوت اس امر کا کہ سلطان محمد نے توبہ کی فطرتِ انسانی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ جب دو انسانوں کے متعلق ایک ہی حالت میں سے گزرنے کی پیشگوئی ہو اور ان دونوں میں سے ایک پر بعینہٖ پیشگوئی کے مطابق حالت طاری ہو جائے تو دوسرے کو بھی یقین ہو جائے گا کہ میری بھی یہی کیفیت ہونے والی ہے۔ زید اگر عمر اور بکر سے یہ کہے کہ تم دونوں دو گھنٹہ کے اندر کوئیں میں گر کر مر جاؤ گے۔ اب اگر ایک ہی گھنٹہ بعد عمر واقعی کوئیں میں گر کر مر جائے تو طبعاً وفطرتاً بکر کو اپنی موت کا یقین ہو جائے گا۔

پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ اور سلطان محمد دونوں کی موت کی پیشگوئی کی تھی، اور احمد بیگ عین میعاد مقررہ کے اندر حسب پیشگوئی مر گیا تو سلطان محمد پر خوف طاری ہونا اور اس کا توبہ واستغفار کی طرف رجوع کرنا یقینی اور لازمی امر تھا۔ چنانچہ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

(الف) ’’سو ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ احمد بیگ کے مرنے کے بعد جس کی موت پیشگوئی کی ایک جزو تھی دوسری جزو والے کا کیا حال ہوا ہو گا؟ گویا وہ جیتا ہی مر گیا ہوگا۔ چنانچہ اس کے بزرگوں کی طرف سے دو خط ہمیں بھی پہنچے جو ایک حکیم صاحب باشندہ لاہو رکے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے، جن میں انہوں نے اپنی توبہ اور استغفار کا حال لکھا ہے سو ان تمام قرائن کو دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ تاریخ وفات سلطان محمد قائم نہیں رہ سکتی۔‘‘ (اشتہار ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۴۲)

(ب) ’’اور جب احمد بیگ فوت ہوگیا تو اس کی بیوہ عورت اور دیگر پس ماندوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ وہ دعا اور تضرع کی طرف بہ دل متوجہ ہوگئے۔ جیسا کہ سنا گیا ہے کہ اب تک احمد بیگ کے داماد کی والدہ کا کلیجہ اپنے حال پر نہیں آیا۔ سو خدا دیکھتا ہے کہ وہ شوخیوں میں کب آگے قدم رکھتے ہیں۔ پس اس وقت وعدہ اس کا پورا ہوگا۔‘‘ (حجۃ اﷲ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۹)

۲۔ سلطان محمد کی توبہ کا دوسرا ثبوت اس کا مندرجہ ذیل تحریری اور دستخطی بیان ہے۔

انبالہ چھاؤنی۔ ۱۳؍۳۔۲

برادرم سلمہٗ!

نوازشنامہ آپ کا پہنچا۔ یاد آوری کا مشکور ہوں میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک بزرگ، اسلام کا خدمت گذار، شریف النفس خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کررہا ہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔

نیاز مند سلطان محمد از انبالہ

رسالہ نمبر ۹‘‘

(ان کا اصل خط عکسی اگلے صفحہ پر دیکھیں)

مندرجہ بالا الفاظ اگر کسی عام آدمی نے لکھے ہوں، تو کوئی اہم بات نہ ہو مگر سلطان محمد جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ نے موت اور اس کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب واشتہارات میں اس کا ذکر بھی فرمایا تھا، اس کو تو حضرت مسیح موعود ؑ سے طبعا ً انتہائی دشمنی اور عناد ہونا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں حضرت اقدس ؑ بار بار تحریر فرما رہے تھے کہ سلطان محمد نے توبہ کی ہے اور وہ خود تو اس امر کو جانتا تھا کہ اس نے توبہ کی ہے یا نہیں؟ اگر فی الواقعہ اس نے توبہ نہ کی تھی تو وہ جانتا تھا کہ حضر ت صاحب نعوذ باﷲ سچ نہیں فرما رہے تو ایسے شخص کے قلم سے یہ نکلنا کہ ’’میں جناب مرزا جی مرحوم کو نیک بزرگ‘‘ وغیرہ سمجھتا ہوں، اگر معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟

۳۔تیسرا ثبوت سلطان محمد کی توبہ کرنے کا اس کا اپنا بیان ہے۔

’’میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقع میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئیہیں مگر خدا تعالیٰ غفورٌ رَّحیم بھی ہے، اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے …… میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک وشبہ کا باعث نہیں ہوئی……۔ باقی رہی بیعت کی بات، میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزاصاحبؑ پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کرچکے ہیں اتنا نہیں ہو گا …… باقی میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحبؑ پر نالش کروں۔ اگر وہ روپیہ میں لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا مگر وہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔‘‘ (الفضل 9/13جون 1921ء)

۴۔چوتھا ثبوت سلطان محمد صاحب کی توبہ کا وہ تحریری بیان ہے جو ان کے صاحبزادہ برادرم محمد اسحٰق بیگ صاحب نے اخبار الفضل میں شائع کرایا:۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!

پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤکے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؐ اپنے ہر دعویٰ میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں۔ اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی تمام یپشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔ یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔ حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔

اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی اصلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے، جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسیٰؑ کی قوم کے حالات سے ظاہر ہے۔ اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؐ کی قوم او ررشتہ داروں نے گستاخی کی، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے، اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفور الرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا۔

میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔

میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہی درست فرمایا ہے۔ ؂

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا

پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار

خاکسار مرزا محمد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور۔ حال وارد چک نمبر ۱۶۵۔ ۲ بی ‘‘

(منقول از الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۹)

۵۔ پانچواں ثبوت مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کا وہ چیلنج ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معترض علماء کو دیا۔ فرمایا:۔

’’فیصلہ تو آسان ہے سو اگر جلدی کرنا ہے تو احمد بیگ کے داماد سلطان محمد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے۔پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘

اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک وہ گھڑی نہ آجائے کہ اس کو بے باک کردے۔سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اور اس کو بے باک اور مکذب بناؤاوراس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو۔‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲ حاشیہ)

اس اعلان کو شائع ہوئے پچاس سال گزر گئے اور حضرت مسیح موعود ؑ اس اعلان کے بعد بارہ سال تک زندہ رہے۔ مگر کوئی مخالف مولوی مرزا سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہار نہ دلا سکا۔

پس مندرجہ بالا پانچ دلائل سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ مرزا سلطان محمد نے پیشگوئی کے مطابق توبہ کی اور اس وجہ سے تین سالہ میعاد کے اندر فوت نہ ہوئے، محمدی بیگم بیوہ نہ ہوئی اورا س لئے نکاح نہ ہوا۔‘‘ (اذا فات الشرط فات المشروط )

اور ان سب امور کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’کلاب متعددہ‘‘ نے مختلف مواقع پر اپنی بدگوئی کی عادت کے مطابق حضرت اقدس ؑ کی اس پیشگوئی پر تمسخر اور استہزاء کیا اور حضورؐ کی یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بے شک ازالہ اوہام اور اپنی دوسری کتابوں میں زور دیا ہے کہ میرا نکاح محمدی بیگم سے ہو جائے گا اور بڑی متحدیانہ عبارتیں تحریر فرمائی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ نکاح کب ہو گا؟ظاہر ہے کہ جب سلطان محمد کی موت پر وہ بیوہ ہو جائے گی۔ سلطان محمد کی توبہ کب ہو گی؟ اگر وہ توبہ کرے گا۔‘‘

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہرعبارت جو مخالف مولوی پیش کرتے ہیں درست ہے اور ہمیں مسلم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پیشگوئی کے بعد اگر سلطان محمد توبہ نہ کرتا اور پھر بھی زندہ رہتا اور نکاح نہ ہوتا، تو حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی پر اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر یہاں تو نکاح سلطان محمد کی عدم توبہ کے ساتھ مشروط تھا۔ اس لئے جس قدر عبارات نکاح کے متعلق ہیں وہ بھی سلطان محمد کے توبہ نہ کرنے کے ساتھ مشروط ہیں۔

بیعت کیوں نہ کی ؟

بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ سلطان محمد نے توبہ کر لی تو کیا ہوا۔ بات تو جب تھی کہ وہ بیعت کر لیتا۔ سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء سے لیکر ۱۸۸۸ء تک مکمل ہوئی اور توبہ کی شرط بھی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء اور ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا دعویٰ نہ تو نبی ہونے کا تھا، نہ مسیح موعود اور مہدی ہونے کا، نہ ہی آپ اس وقت بیعت لیتے تھے بلکہ جو شخص بیعت کرنے آتا حضور ’’لَسْتُ بِمَأْمُوْرٍ‘‘ (کہ میں مامور نہیں ہوں) کہہ کر انکار کر دیتے تھے (بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی) نہ اس زمانہ میں احمدی غیر احمدی کا سوال تھا۔ کیونکہ حضور ؑ نے اپنی جماعت کا نام ’’مسلمان فرقہ احمدیہ ۱۹۰۰ء میں رکھا۔ پس توبہ کی شرط سے مراد ہرگز ہرگز ’’بیعت‘‘ یا نبوت، مسیحیت و مہدویت کا اقرار یا احمدی ہونا نہ تھا۔ اس زمانے میں حضرت کا دعویٰ صرف اس قدر تھا کہ میں اسلام کا خدمت گذار ہوں ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۷) اور اسی بات کا احمد بیگ و سلطان محمد کو انکار تھا۔ اب سلطان محمد کے خط کو دیکھ لو، اس میں اس نے حضرت کو ’’اسلام کا خدمت گذار‘‘ تسلیم کیا ہے۔ نیز ’’خدا یاد‘‘ کہہ کر خدا کی ہستی کا بھی اقرار کر لیا ہے اور ’’شریف النفس‘‘ کہہ کر تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ پیشگوئی ہرگز ہرگز نفسانیت کے جوش کے ماتحت نہ تھی بلکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان تھا جس کی تکمیل میں حضرت نے اس کو شائع کیا۔ پس اگر سلطان محمد کو اس پیشگوئی کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود ؑ کو ’’اسلام کا خدمت گذار‘‘ اور ’’شریف النفس‘‘ اور خدا یاد نہ کہتا۔ پس جس جس چیز کا پیشگوئی کی اشاعت کے وقت ان لوگوں کو انکار تھا، بعینہٖ انہی امور کا اقرار اس خط میں موجود ہے۔ پس سلطان محمد نے مکمل توبہ کی ہے۔ بیعت وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تقدیر مبرم

حضرت مسیح موعودؑ نے انجام آتھم میں نکاح کو ’’تقدیر مبرم‘‘ قرار دیا ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقدیر بعض حالات اور شرائط کے ساتھ مشروط ہونے کی صورت میں تقدیر مبرم بنتی ہے اور جب تک وہ شرط یا شرائط پوری نہ ہوں اس وقت تک اس تقدیر کے ’’قطعی مبرم‘‘ ہونے کا تحقّق نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ آتھم کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔

۱۔’’اب آتھم صاحب قسم کھالیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے ‘‘ (ضیا ء الحق، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۶)

گویا آتھم کی موت تقدیر مبرم اس صورت میں ہو گی جبکہ وہ قسم کھالے گا۔ قسم نہ کھانے کی صورت میں تقدیر مبرم نہ ہو گی پس جس طرح اس ’’تقدیر مبرم‘‘ کے ساتھ ’’قسم کھانے‘‘ کی شرط ہے اسی طرح محمدی بیگم کے نکاح میں سلطان محمد کی عدم توبہ کی شرط ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات سے اوپر ثابت کیا جا چکا ہے۔

۲۔ تقدیر مبرم کا دعا اور صدقہ سے ٹل جانا احادیث نبویہؐ سے بھی ثابت ہے چنانچہ حدیث میں ہے اَکْثَرُ مِنَ الدُّعَآءِ فَاِنَّ الدُّعَآءَ یَرُدُّ الْقَضَاءَ الْمُبْرَمَ (کنز العمال کتاب الذکار من قسم الاقوال الباب الثامن فی الدعا۔ الفضل الاول نیز دیکھو جامع الصغیر للسیوطی مصری جلد۱ صفحہ ۵۴ باب الالف) کہ کثرت سے دعا کرو، کیونکہ دعا تقدیر مبرم کو بھی ٹال دیتی ہے۔

۳۔ رُوِیَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ الصَّدْقَۃَ لَتُدْفَعُ الْبَلَاءَ الْمُبْرَمَ النَّازِلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ (روض الریاحین۔ برحاشیہ قصص الانبیاء صفحہ ۳۶۴)

کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ صدقہ بلاء مبرم کو بھی جو آسمان سے نازل ہونے والی ہو روک دیتا ہے۔

۴۔ اَلدُّعَاءُ جُنْدٌ مِنْ اَجْنَادِ اللّٰہِ مُجَنَّدَۃٌ یَرُدُّ الْقَضَآءَ بَعْدَ اَنْ یَبْرُمَ۔

(فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۰۷ آخری سطر، و جامع الصغیر للسیوطی جلد ۲ صفحہ ۱۷ باب الاوّل)

دعا خدا تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر جرار ہے جو قضاء کو اس کے مبرم ہونے کے بعد بھی ٹلا دیتی ہے۔

۵۔ روح البیان جلد ۱ صفحہ ۲۵۷ مطبوعہ مصر پر بھی قضاء مبرم کے ٹلنے کا ذکر ہے۔

۶۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہی مذہب تھا کہ قضاء مبرم دعا اور صدقہ سے ٹل سکتی ہے اور جہاں حضورؑ نے یہ لکھا ہے کہ ’’یہ تقدیر مبرم جو ٹل نہیں سکتی‘‘ تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ توبہ اور دعا کے بغیر ٹل نہیں سکتی۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔

(النساء:۴۹)

کہ اﷲ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا اس گناہ کو کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس گناہ کے سوا باقی جس کو چاہے بخشدے۔

مگر دوسری جگہ فرمایا۔ (الزمر:۵۴) کہدے اے میرے بندو! جنہوں نے گناہ کیا، تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو، اﷲ تعالیٰ سب گناہوں کو بخش دے گا، او ر وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت میں جملہ گناہوں کے معاف کرنے کا ذکر ہے۔ پس تطبیق کی صورت یہی ہے کہ شرک کے گناہ کی معافی کو توبہ کی شرط سے مشروط کیا جائے۔ یعنی سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت کا یہ مطلب لیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ شرک کو بغیر توبہ کے نہیں بخشے گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے جہاں تقدیر مبرم کے نہ ٹلنے کا ذکر فرمایا ہے وہاں بھی مراد بصورت عدم دعا اور توبہ ہی ہے نہ کہ مطلقاً۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹ پر تحریر فرمایا ہے کہ:۔

جب میں نے عبد الرحیم خلف حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی صحت یابی کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔ مگر جب زیادہ تضرع اور ابتہال سے دعا کی تو اﷲ تعالیٰ نے اس تقدیر کو ٹلا دیا اور عبد الرحیم اچھا ہو گا۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک مبرم قسم کی تقدیر بھی دعا اور توجہ سے ٹل سکتی ہے۔

ثناء اﷲ (امرتسری) کا خط

مولوی ثناء اﷲ امرتسری نے ہزاروں جتن کر کے اہل حدیث مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۲۴ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے سولہ سال بعد ایک غیر مصدقہ تحریر مرزا سلطان محمد کی طرف منسوب کر کے شائع کی۔ ہماری طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ یا تو اصل تحریر ہمیں دکھائی جائے یا اس کا عکس شائع کیا جائے (جس طرح ہم نے کیا ہے) تا کہ پبلک پر اصل حقیقت واضح ہو، مگر اپنی موت تک مولوی صاحب ہمارے اس مطالبہ سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے۔ نیز اگر ایسی کوئی تحریر ہو بھی تو وہ قابل اعتناء نہیں اور ’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید‘‘ کی مصداق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے چیلنج کے الفاظ یہ ہیں۔’’پھر اس کے بعد جو میعاد خدائے تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘

(انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲ حاشیہ)

پس اس عبارت کے پیش نظر سلطان محمد کی کسی ایسی تحریر کا حضرت اقدسؑ کی زندگی میں شائع ہونا ضروری تھا۔

مقدمہ ’’دیوار‘‘ میں حضرت کا بیان

بعض غیر احمدی مولوی، حضرت مسیح موعودؑ کے بیان مقدمہ گورداسپور متعلقہ دیوار سے یہ الفاظ پیش کر کے عوام کو مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا۔ ’’میرے ساتھ اس کا نکاح ہو گا‘‘ امید کیا مجھے یقین ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ یہود یا نہ تحریف سے حضرتؑ کے درمیانی الفاظ حذف کر دیا کرتے ہیں۔ اصل الفاظ یہ ہیں:۔

’’میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہو گا جیسا کہ پیشگوئی میں درج ہے وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی جیسا کہ پیشگوئی میں تھا …… ایک وقت آتا ہے کہ عجیب اثر پڑے گا…… پیشگوئی کے الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے اور یہی پیشگوئی تھی کہ وہ دوسرے کے ساتھ بیاہی جاوے گی اس لڑکی کے باپ کے مرنے اور خاوند کے مرنے کی پیشگوئی شرطی تھی اور شرط توبہ اور رجوع الی اﷲ کی تھی۔ لڑکی کے باپ نے توبہ نہ کی، اس لئے وہ بیاہ کے بعد چند مہینوں کے اندر مر گیا اور پیشگوئی کی دوسری جز پوری ہو گئی، اس کا خوف اس کے خاندان پر پڑا خصوصاً شوہر پر پڑااور جو پیشگوئی کا ایک جز تھا۔ انہوں نے توبہ کی۔ چنانچہ اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے خط بھی آئے اس لیے خداتعالیٰ نے اس کو مہلت دی۔ عورت اب تک زندہ ہے۔‘‘

(الحکم ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ و ۱۵ )


نکاح فسخ یا تاخیر میں؟

حضرت مسیح موعود ؑ نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۰)

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلطان محمد اپنی توبہ پر قائم رہے اور بیباکی کر کے تکذیب کا اشتہار نہ دے تو اس صورت میں وہ حضرت کی زندگی میں نہیں مرے گا اور محمدی بیگم کا نکاح حضرت سے نہیں ہو گا (فسخ ہو گیا) لیکن اگر انجام آتھم والے چیلنج کے جواب میں اس نے حضرت کی زندگی میں تکذیب کا اشتہار دے دیا تو پھر خدا کی مقرر کردہ میعاد کے اندر اندر مر جائے گا اور محمدی بیگم حضرت کے نکاح میں آ جائے گا۔ اندریں صورت نکاح ’’تاخیر‘‘ میں پڑا متصور ہو گا۔ یہی معنی ہیں حضرت مسیح موعود ؑ کی عبارت بَلِ الْاَمْرُ قَائِمٌ عَلٰی حَالِہٖ کے کہ سلطان محمد کی توبہ سے کلی طور پر معاملہ ختم نہیں ہو گیا اور وعیدی موت اس سے ہمیشہ کے لئے نہیں ٹل گئی بلکہ اب بھی اس کے سر پر ’’تھمی‘‘ ہوئی کھڑی ہے جس وقت وہ تکذیب کرے گا اسی وقت خدا تعالیٰ کی مقررہ میعاد کے اندر پکڑا جائے گا۔ غرضیکہ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات اس پیشگوئی کے متعلق بالکل صاف اور واضح ہیں۔

زَوَّجْنٰکَھَا

یہ الہام درحقیقت قرآن مجید کی ایک آیت ہے (الاحزاب:۳۸) کہ ہم نے آنحضرت ؐ کا نکاح زینبؓ کے ساتھ اس کے مطلقہ ہونے کے بعد کر دیا۔

حضرت کو یہی الہام محمدی بیگم کے متعلق ہوا۔ پس اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سلطان محمد کی بیوہ ہونے کے بعد ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا۔ چنانچہ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اس الہام کو انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۰ پر درج کر کے اس کے مندرجہ ذیل ترجمہ فرمایا ہے:۔

’’بعد واپسی کے ہم نے نکاح کردیا۔ ‘‘

یعنی سلطان محمدؐ کی موت پر یَرُدُّھَا اِلَیْکَ کا دوسرا مفہوم جب پورا ہو گا، تو اس وقت خدا تعالیٰ نے نکاح پڑھ دیا ہے۔

۲۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو اور واضح فرمایا ہے:۔

’’اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اُسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ اَیَّتُھَاالْمَرْأَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۷۰) اس فسخ یا تاخیر کی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔


۳۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا:۔

اَخْرَجَ الطَّبْرَانِیُّ وَابْنُ عَسَاکِرٍ عَنْ اَبِیْ اَمَامَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِخَدِیْجَۃَ اَمَا شَعُرْتِ اَنَّ اللّٰہَ زَوَّجَنِیْ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ وَکُلْثُوْمَ اُخْتَ مُوْسٰی وَامْرَءَ ۃَ فِرْعَوْنَ قَالَتْ ھَنِیْئًا لَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (فتح البیان زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷ و فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۳۵۱) کہ طبرانی اور ابن عساکرؓ نے ابوامامہؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا کہ اے خدیجہؓ!کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا نے میرا نکاح پڑھ دیا ہے عیسیٰؑ کی ماں مریمؑ، موسیٰؑ کی بہن کلثوم ؓ اور فرعون کی بیوی آسیہؓ کے ساتھ! حضرت خدیجہؓ نے فرمایا! یا رسول اﷲ آپ کو مبارک ہو!۔

اس حدیث کے الفاظ میں بھی زَوَّجَنِیْ اسی طرح ماضی ہے جس طرح میں ہے۔ غیر احمدی علماء کے نزدیک آنحضرت ؐ کو یہ الہام ہونے کے بعد بھی کہ حضرت زینب ؓ آپ کی بیوی ہیں پھر بھی آپ حضرت زیدؓسے فرماتے رہے کہ زینبؓ کو بیوی بنا کر رکھو اور اسے طلاق نہ دو۔ جلالین میں آتا ہے:۔

اَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَرَادَ اَنْ یُّزَوِّجَھَا زَیْدًا فَکَرِھَتْ ذٰلِکَ ثُمَّ اِنَّھَا رَضِیَتْ بِہٖ فَتَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ ثُمَّ اَعْلَمَ اللّٰہُ نَبِیَّہٗ بَعْدُ اَنَّھَا مِنْ اَزْوَاجِہٖ فَکَانَ یَسْتَحْیْ اَنْ یَّاْمُرَہٗ بِطَلَاقِھَا وَ کَانَ لَا یَزَالُ بَیْنَ زَیْدٍ وَ زَیْنَبَ مَا یَکُوْنُ بَیْنَ النَّاسِ فَاَمَرَہٗ اَنْ یُمْسِکَ عَلَیْہِ زَوْجَتَہٗ وَ کَانَ یَخْشَی النَّاسَ اَنْ یَعِیْبُوْا عَلَیْہِ۔

(جلالین مع کمالین زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷ )

یعنی آنحضرت ؐ نے ارادہ فرمایا کہ زینبؓ کا نکاح زیدؓ کے ساتھ کر دیں، لیکن پہلے حضرت زینبؓ نے کراہت کی، پھر بعد میں راضی ہو گئیں۔ پس ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ؐ کو بتا دیا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں سے ہے۔ پس آنحضرت ؐ شرماتے تھے اس بات سے کہ زیدؓ کو حکم دیں کہ وہ زینبؓ کو طلاق دے دے اور اس عرصہ میں زینبؓ اور زیدؓ میں میاں بیوی کے تعلقات قائم رہے پس آنحضرتؐ نے زیدؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے اور آپؐ ڈرتے تھے کہ لوگ آپ پر الزام نہ لگائیں۔

اس حوالہ سے تمسخر اور استہزاء کا بھی جو بعض بد زبان مخالف کیا کرتے ہیں جواب ہو گیا کہ خدا کی طرف سے آنحضرت ؐ کو علم ہو چکنے کے باوجود کہ زینب ؓ آپؐ کی بیوی ہے پھر بھی وہ ایک عرصہ تک زیدؓ کے پاس رہیں۔

پیشگوئی کے نتائج

اس پیشگوئی کے بعد مندرجہ ذیل اصحاب اسی خاندان میں سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے:۔

۱۔ اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب (والدہ محمدی بیگم) یہ موصیہ تھیں۔

۲۔ ہمشیرہ محمدی بیگم۔

۳۔ مرزا محمد احسن بیگ جومرزا احمد بیگ کے داماد ہیں، اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے ہیں۔

۴۔ عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم۔

۵۔ مرزا محمد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب

۶۔ مرزا محمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب

۷۔ دختر مرزا نظام دین اور ان کے گھر کے سب افراد احمدی ہیں۔

۸۔ مرزا گل محمد پسر مرزا نظام دین صاحب

۹۔ اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب (موصیہ تھیں)

۱۰۔ محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم

۱۱۔ مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمد صاحب پٹی

یہ وہ افراد ہیں جو خاص طور پر اس خاندان کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں اور یہ سب کے سب اس نکاح والی پیشگوئی کے بعد ہی داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے ہیں۔ پیشگوئی میں اگر کوئی امر قابل اعتراض ہوتا تو پہلے ان لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ مگر وہ لوگ جو اس کے متعلق سب سے بڑھ کر مقام غیرت پر ہو سکتے تھے ایمان لاتے ہیں اور خود مرزا سلطان محمد صاحب کہتے ہیں کہ ’’میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے شک و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔‘‘

ان حالات میں ان مخالف مولویوں کا اس پر اعتراض کرنا صاف طور پر یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ کے الہام کو پورا کرنا ہے اور اس کے سوا ان لوگوں کا اور کوئی مقصد نہیں۔

پیشگوئی کی غرض

باقی رہا استہزاء اور مذاق، اور یہ کہنا کہ نعوذ باﷲ یہ پیشگوئی کسی نفسانی خواہش کے ماتحت کی گئی تھی۔ ایسے امورہیں کہ جن کا جواب کوئی مہذب انسان دینے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔

پیشگوئی کی غرض و غایت ہم ابتداء میں نہایت واضح طور پر بیان کر آئے ہیں کہ ان لوگوں کی مذہبی اور عملی حالت اس نشان کا باعث بنی۔ چنانچہ مولوی محمد یعقوب مصنف عشرہ کاملہ جیسا دشمن اپنی کتاب تحقیق لاثانی میں لکھتا ہے۔

(۱) مرزا صاحبؑ کی اس پیشگوئی کی بنیاد بھی تکذیب ہی ہے۔ جیسا کہ نکاح آسمانی کے متعلق ان کا پہلا الہام ہے کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِءُ وُنَ (تحقیق لاثانی صفحہ ۱۱۱)

لیکن اگر مولوی لوگ ان روشن واقعات کے باوجود بھی یہی کہتے جائیں کہ یہ پیشگوئی نفسانی تھی تو ان پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ لوگ خدا کے اس برگزیدہ نبی پر جس کو یہ نہیں مانتے اس قسم کے حملے کریں تو معذور ہیں، خصوصاً جبکہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے وہ مقدس انبیاء علیہم السلام بھی جن کو یہ لوگ بھی نبی مانتے ہیں اور ان کی عزت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، نہیں بچ سکے۔ اور تو اور خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی امت میں سے ہونے اور جن کا کلمہ پڑھنے کے یہ لوگ مدعی ہیں، ان کے متعلق علماء نے یہ لکھا ہے:۔

اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ زَیْنَبَ وَذٰلِکَ اَنَّہٗ رَاٰھَا بَعْدَ مَا اَنْکَحَھَا زَیْدًا فَوَقَعَ فِیْ نَفْسِہٖ وَقَالَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ۔ (بیضاوی زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷ اور کمالین برحاشیہ جلالین زیر آیت …… الخ احزاب:۳۷) کہ نعوذ باﷲ آنحضرت ؐ نے زینبؓ کو دیکھا اس وقت کہ اس کا زیدؓ کے ساتھ نکاح ہو چکا تھا۔ پس آپ کے دل میں ان کی محبت پیدا ہو گئی اور فرمایا۔ پاک ہے وہ اﷲ جو دلوں کو پھیر دیتا ہے۔

(۲) حضرت یوسف جن کی بریت کے لئے ایک سورۃ قرآن مجید میں نازل ہوئی ان کے متعلق لکھتے ہیں:۔

وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ قَصَدَتْ مُخَالِطَتَہٗ وَھَمَّ مَخَالِطَتَھَا لِمَیْلِ الشَّھَوٰتِ الْغَیْرِ الْاِخْتِیَارِی۔ (جامع البیان صفحہ ۲۰۳ نیز جلالین مجتبائی صفحہ ۱۹۰)

کہ نعوذ باﷲ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی زلیخا سے زنا کا ارادہ کیا۔

(۳) حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ان مفسرین نے لکھا ہے۔

طَلَبَ امْرَءَ ۃَ شَخْصٍ لَیْسَ لَہٗ غَیْرُھَا وَتَزَوَّجَھَا وَدَخَلَ بِھَا (جلالین مجتبائی صفحہ ۳۷۸ حاشیہ) کہ حضرت داؤدؑ نے ایک شخص (اوریاہ نامی) کی بیوی لے لی۔ اور اپنی سو بیویاں کیں۔ (نعوذ باﷲ من شرورھم)

(۴) اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق اسی جلالین کے صفحہ ۳۸۰ پر لکھا ہے کہ آپ ایک عورت پر عاشق ہو گئے اور پھر اس سے نکا ح کر لیا (معاذ اﷲ)

غرضیکہ پہلے انبیاء کے متعلق بھی یہی بے ہودہ گوئی رہی ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق معاندین وہی شیوہ اختیار کریں تو انہیں معذور سمجھنا چاہیے۔

بہو کو طلاق دلوانا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشک احمد بیگ وغیرہ کو لکھا تھا کہ اگر تم یہ رشتہ نہ دو گے تو میں اپنے بیٹے فضل احمد سے کہہ کر تمہاری لڑکی کو طلاق دلوا دوں گا، مگر اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کیونکہ شریعتِ اسلامی کے متعلق خسر کو حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بیٹے کو حکم دیکر طلاق دلوا سکتا ہے، خواہ بیٹا رضا مند ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے:۔

(ا) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَتْ تَحْتِیْ اِمْرَأَۃٌ اُحِبُّھَا وَکَانَ اَبِیْ یَکْرَھُھَا فَاَمَرَنِیْ اَنْ اُطَلِّقَھَا فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ عُمَرَ طَلِّقْ اِمْرَأَتَکَ (ترمذی کتاب الطلاق باب ما جاء فی الرجل یسالہ ابوہ ان یطلق امراتہو مشکوۃ مجتبائی صفحہ ۴۲۱ باب الشفعۃ) حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی جس سے مجھے محبت تھی۔ لیکن میرے باپ (حضرت عمرؓ) اس سے نفرت کرتے تھے، پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں۔ مگر میں نے انکار کیا۔ پھر میں نے آنحضرت ؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا۔ اے عبد اﷲ بن عمرؓ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔

(ب) اَلطَّلَاقُ لِرَضَاءِ الْوَالِدَیْنِ فَھُوَ جَائِزٌ۔ (مشکوٰۃ صفحہ ۴۲۱ مطبع حیدری)

کہ اپنے والدین کی خواہش کی تعمیل میں طلاق دینا جائز ہے۔

(ج) بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ میں حضرت اسمٰعیلؑ کو چھوڑ آئے اور ان کے وہاں پر جوان ہوجانے کے بعد مکہ گئے تو حضرت اسمٰعیلؑ گھر پر نہ تھے، ان کی بیوی گھر پر تھی۔ آپ اس سے باتیں کرتے رہے اور جاتی دفعہ ان کی بیوی سے کہہ گئے کہ جب اسمٰعیل گھر آئیں تو انہیں میرا السلام علیکم کہہ دینا اور کہنا کہ غَیِّرْعُتْبَۃَ بَابِکَ کہ اپنے دروازے کی دہلیز کو بدل دو۔ جب حضرت اسمٰعیلؑ گھر آئے تو ان کی بیوی نے حضرت ابراہیم ؑ کا پیغام دیا تو حضرت اسمٰعیلؑ نے فرمایا ذَاکَ اَبِیْ وَقَدْ اَمَرَنِیْ اَنْ اُفَارِقَکِ اَلْحِقِیْ بِاَھْلِکِ فَطَلَّقَھَا وَتَزَوَّجَ مِنْھُمْ اُخْرٰی (بخاری کتاب بدء الخلق باب یزفون النساء فی الشیء، تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ فیروز اینڈ سننر مطبوعہ ۱۲۴۱ھ لاہور جلد ۲ صفحہ ۱۳۷ و ۱۳۸) کہ وہ میرے والد (ابراہیمؑ) تھے اور وہ مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تجھے طلاق دے دوں۔ پس تو اپنے والدین کے پاس چلی جا۔ پس آپ نے اسے طلاق دے دی اور بنوجرہم کی اور ایک عورت سے شادی کر لی۔

۲۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے (ھود:۱۱۴) کہ ظالم لوگوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھو ورنہ تم کو بھی عذاب پہنچ جائے گا۔

پس حضرت مسیح موعود ؑ نے اگر اپنے بیٹے کو انبیاء گزشتہ کی سنت پر عمل کرکے ان لوگوں سے قطع تعلق کرنے کی ہدایت کی جو خدا اور اس کے رسولؐ کے دشمن اور دہریہ تھے تو اپنے فرض کو ادا کیا۔

۳۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو خصوصاً اس معاملہ میں یہ الہام ہوا تھا کہ ’’اِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ قَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِنْھُمْ وَ بَعُدُوْا مِنْ مَجَالِسِھِمْ فَاُولٰئِکَ مِنَ الْمَرْحُوْمِیْنَ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۷۰-۵۶۹) کہ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے اور ان سے قطع تعلق کیا اور ان کی مجالس سے دور رہے۔ پس ان پر رحم کیا جائے گا (باقی ان سب پر عذاب نازل ہو گا۔)پس حضرت مسیح موعود ؑ کو وَقَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِنْھُمْ پر عمل کرنا چاہتے تھے۔

کوشش کیوں کی گئی ؟

باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ اگر وعدہ خدا کی طرف سے تھا تو پھر اس کو پورا کرنے کیلئے کوشش کیوں کی گئی اور دوسرے فریق کے بعض لوگوں کو خطوط کیوں لکھے گئے؟

جواب:۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ جن لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے ان کی مدد اسی صورت میں فرمایا کرتا ہے۔ جب وہ خود بھی جہاں تک ممکن ہو سکے اس وعدۂ الٰہی کے پورا کرنے میں کوشش کریں مثلاً آنحضرت ؐ کے ساتھ فتح کا وعدہ تھا، مگر کیا حضور ؐ نے جنگ کے لئے تیاری نہیں فرمائی، کیا لشکر تیار نہیں کیا؟ حضرت یوسف ؑ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ان کو کامیاب و کامران کرے گا۔ لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا۔ پھر بھی حضرت یوسف ؑ نے جیل خانہ میں سے ایک مشرک شخص سے سفارش کروائی اور اسے کہا کہ (یوسف:۴۳) کہ بادشاہ کے سامنے میرا ذکر کرنا۔

آنحضرت ؐ سے وعدہ تھا کہ تمام عرب مسلمان ہو گا پھر کیا حضور ؐ نے تبلیغ کا کام بند کر دیا تھا؟

پس رعایت اسباب ضروری ہے، نیز اتمام حجت کی غرض سے بھی حضرت مسیح موعود ؑ کا ان لوگوں کو خطوط لکھنا ضروری تھا۔ کیونکہ اگر بصورت عدم توبہ ان پر عذاب آتا، تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں ا س پیشگوئی کا علم ہی نہ تھا، اس لئے ہم بے قصور ہیں خود حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے طرح طرح کی امید دینے سے کیوں کوشش کی گئی۔نہیں سمجھتے کہ وہ کوشش اِسی غرض سے تھی کہ وہ تقدیر اس طور سے ملتوی ہو جائے اور وہ عذاب ٹل جائے۔یہی کوشش عبداﷲ آتھم اور لیکھرام سے بھی کی گئی تھی۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کسی پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کوئی جائز کوشش کرنا حرام ہے۔ ذرہ غور سے اور حیا سے سوچو کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو قرآن شریف میں یہ وعدہ نہیں دیا گیا تھا کہ عرب کی بُت پرستی نابود ہو گی اور بجائے بُت پرستی کے اسلام قائم ہو گا۔ اور وہ دن آئے گا کہ خانہ کعبہ کی کنجیاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوں گی۔ جس کو چاہیں گے دیں گے۔ اور خدا یہ سب کچھ آپ کرے گا مگر پھربھی اسلام کی اشاعت کے لئے ایسی کوشش ہوئی جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۷۰)

’’بستر عیش ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام ہرگز محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے:۔

۱۔ یہ الہام حضرت مسیح موعود ؑ ہی کے متعلق نہیں بلکہ آپ کی مقدس جماعت بھی اس الہام میں مخاطب ہے:۔

۲۔ یہ الہام اس دنیوی زندگی کے متعلق نہیں بلکہ آخرت کے متعلق ہے۔ چنانچہ یہ الہام مکمل طور پر یوں ہے۔

’’۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء۔ بَلَاءٌ وَاَنْوَارٌ۔ بستر عیش۔ خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود۔ فَبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (پس مومنوں کے لیے بشارت ہے)‘‘ (البدر جلد ۳ صفحہ ۶ کالم ۳ والبشریٰ جلد ۲ صفحہ ۸۸)

فارسی الہام صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ ’’عاقبت‘‘ کے متعلق ہے۔ عربی الہام بتا رہا ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ بھی مخاطب ہے۔

۳۔ لفظ ’’عیش‘‘ بھی ہمارا مؤید ہے۔ جیسا کہ حدیث لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ کہ حقیقی زندگی (عیش) آخرت ہی کی ہے۔

۴۔ قرآن مجید میں اہل جنت کے متعلق ہے (الرحمن:۵۵) کہ تکیہ لگائے ہوں گے بستروں پر جن کے استر گاڑھے ریشم کے ہوں گے۔

۵۔ اَلْفَرَاشُ مَا یُفْرَشُ وَیُنَامُ عَلَیْہِ (المنجد زیر لفظ فرش) وہ جو بچھایا جائے اور اس پر سویا جائے گویا جنت کی عیش (زندگی) میں ہر مومن کا ’’بستر‘‘ ہو گا۔ پس الہام ’’بستر عیش‘‘ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

بِکْرٌ وَثَیِّبٌ

(یعنی کنواری اور بیوہ)

جواب:۔ یہ الہام جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے تحریر فرمایا ہے حضرت ام المومنین ؓ کے نکاح کے متعلق تھا (دیکھو نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ حاشیہ صفحہ ۱۴۶) جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ حضرت ؑ کے گھر میں کنواری ہوں گی جب آئیں گی۔ مگر بیوہ رہ جائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (بتایا یہ گیا تھا کہ حضرت کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں گی اور حضور ؑ کی زندگی میں فوت نہ ہوں گی) محمد ی بیگم کی یہ پیشگوئی چونکہ عدم توبہ اور اس کے نتیجہ میں ہلاکت سلطان محمد سے مشروط تھی، اس لئے اس کے عدم تحقق کے باعث یہ الہام بجائے اس رنگ میں پورا ہونے کے دوسرے رنگ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا پورا ہو گیا۔

وعید کا ٹلنا

ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی میں توبہ کی شرط تھی، اور سلطان محمد نے اس شرط سے فائدہ اٹھایا، لیکن اگر پیشگوئی میں توبہ کی شرط نہ بھی ہوتی تو بھی یہ وعیدی پیشگوئی تھی اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق سلطان محمد کا توبہ و استغفار سے تین سال کے عرصہ میں بچ جانا کوئی غیر ممکن امر نہ تھا۔ چنانچہ:۔

۱۔ خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔(الانفال:۳۴) کہ خدا تعالیٰ استغفار کرنے والوں پر عذاب نازل نہیں کرتا۔

۲۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا اِنَّ اَجَلَکُمْ اَرْبَعُوْنَ لَیْلَۃً کہ تمہاری زندگی بس ۴۰ راتیں ہیں۔ اس میں کوئی شرط توبہ وغیرہ کی مذکور نہیں تھی۔ مگر وہ لوگ بہت ڈرے۔ توبہ و استغفار کی فَتَضَرَّعُوْا اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی فَرَحِمَھُمْ وَکَشَفَ عَنْھُمْ (تفسیر کبیر از امام رازی زیر آیت َ۔الانفال:۳۳ و فتح البیان زیر آیت ۔ الانفال:۳۳ و تفسیر ابن جریر زیر آیت ۔ الانفال:۳۳) کہ وہ لوگ خدا کے سامنے گڑگڑائے۔ پس خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور ان پر سے عذاب کو ٹلا دیا۔

۳۔ روح المعانی میں خلفِ وعید کے متعلق لکھا ہے:۔

اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ یَجُوْزُ اَنْ یُّخْلِفَ الْوَعِیْدَ وَاَنِ امْتَنَعَ اَنْ یُّخْلِفَ الْوَعْدَ وَبِھٰذَا وَرَدَتِ السُّنَّۃُ۔ فَفِیْ حَدِیْثِ اَنْسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ وَعَدَہُ اللّٰہُ عَلٰی عَمَلِہٖ ثَوَابًا فَھُوَ مُنْجِزٌ لَہٗ وَمَنْ اَوْعَدَہٗ عَلٰی عَمَلِہٖ عَقَابًا فَھُوَ بِالْخَیَارِ وَمِنْ اَدْعِیَۃِ الْاَئِمَّۃِ الصَّادِقِیْنَ یَا مَنْ اِذَا وَعَدَ وَفٰی وَ اِذَ تَوَعَّدَ عَفٰی۔

(روح المعانی از علامہ ابن حجر الہیثمی زیر آیت ۔ الانفال:۳۳)

کہ خدا تعالیٰ کے لئے جائز ہے کہ وہ وعید (عذاب کی پیشگوئی میں ) تخلف کرے، اگرچہ وعدہ میں تخلف ممتنع ہے اور احادیث سے بھی یہ ثابت ہے، جیسا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ کسی سے انعام (ثواب) کا وعدہ کرے تو اسے ضرور پورا کرتا ہے۔ ہاں عذاب (وعید) کی صورت میں وہ مختار ہے، کبھی سزا دیتا ہے کبھی نہیں۔ اور ائمہ صادقین کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے کہ ’’اے وہ اﷲ جب تو وعدہ کرے تو پورا کرے اور جب ڈرائے (وعید کرے) تو معاف فرمائے۔

۴۔ اَنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ الْمَشْھُوْرَ فِی الْجَوَابِ اَنَّ اٰیَاتِ الْوَعْدِ مُطْلَقَۃٌ وَ اٰیَاتِ الْوَعِیْدِ وَاِنْ وَرَدَتْ مُطْلَقَۃً حُذِفَ قَیْدُھَا لِیَزِیْدَ التَّخْوِیْفَ(روح المعانی از علامہ ابن حجر الہیثمی زیر آیت ۔ الانفال:۳۳) کہ وعدہ ہمیشہ مطلق (اور غیر مشروط) ہوتا ہے اور (وعید) خواہ وہ بظاہر غیر مشروط ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس میں کوئی نہ کوئی شرط حذف کر دی گئی ہوتی ہے تا کہ خوف زیادہ بڑھ جائے۔

۵۔ حضرت علامہ فخر الدین رازی ؒ فرماتے ہیں۔ وَعِنْدِیْ جَمِیْعُ الْوَعِیْدَاتِ مَشْرُوْطَۃٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ فَلَا یَلْزِمُ مِنْ تَرْکِہٖ دَخُوْلُ الْکِذْبِ فِیْ کَلَامِ اللّٰہِ (تفسیر کبیر رازی زیر آیت ۔الانفال:۳۳) کہ میرے نزدیک تما م وعید ی پیشگوئیوں میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تب پوری ہو گی۔ پس اگر وعید نہ ہو تو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

۶۔ تفسیر بیضاوی میں ہے بِاَنَّ وَعِیْدَ الْفُسَّاقِ مَشْرُوْطٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ (بیضاوی تفسیر آل عمران زیر آیت ) کہ خدا تعالیٰ کافروں کے متعلق عذاب کی پیشگوئی کرتا ہے۔ تو ہمیشہ اس میں مخفی طور پر یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کردیا تو عذاب آئے گا۔

۷۔ مسلم الثبوت صفحہ ۲۸۔ اِنَّ الْاِیْعَادَ فِیْ کَلَامِہٖ تَعَالٰی مُقَیَّدٌ بِعَدَمِ الْعَفْوِ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر وعید میں عدم عفو کی شرط ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی

بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ آنحضرت ؐ کی پیشگوئی یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ نکاح محمدی بیگم کے متعلق ہے۔ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ:۔

۱۔ نکاح محمدی بیگم حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مطابق سلطان محمد کی موت بصورت عدم توبہ کے ساتھ مشروط تھا، لہٰذا آنحضرت ؐ کی پیشگوئی کو بھی شرائط بالا کے ساتھ مشروط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پس بوجہ عدم تحقق شرائط آنحضرتؐ کی یہ پیشگوئی محمدی بیگم کے نکاح کے ساتھ پوری ہونے کے بجائے دوسرے رنگ میں پوری ہو گئی۔ یعنی وہ ’’موعود‘‘ اولاد حضرت اقدس ؑ کو اس دوسرے نکاح سے عطا کی گئی جو حضرت ام المؤمنینؓ کے ساتھ ہوا۔

۲۔ چنانچہ یہ ہمارا اپنا خیال نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’کئی برس پہلے خبر دی گئی تھی یعنی مجھے بشارت دی گئی تھی کہ تمہاری شادی خاندان سادات میں ہوگی اور اس میں سے اولاد ہوگی تا پیشگوئی حدیث یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ پوری ہو جائے۔ یہ حدیث اشارت کر رہی ہے کہ مسیح موعود کو خاندان سیادت سے تعلق دامادی ہوگا کیونکہ مسیح موعود کا تعلق جس سے وعدہ یُوْلَدُلَہٗ کے موافق صالح اور طیب اولاد پیدا ہو۔ اعلیٰ اور طیّب خاندان سے چاہئے۔ اور وہ خاندان سادات ہے۔‘‘

(اربعین نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۸۵ حاشیہ)

ایک سوال

ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ کی موت کی تین سال کی میعاد اور سلطا ن محمد کے لئے سال کی میعاد مقرر فرمائی تھی جس سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سلطان محمد کو مرنا چاہیے تھا۔

۱۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا سلطان محمد کے لئے اڑھائی سال اور مرزا احمد بیگ کے لئے تین سال کی میعا د مقرر فرمانا ہر اہل بصیرت انسان کے لئے حضر ت مسیح موعود ؑ کی صداقت اور راستبازی کی ایک دلیل ہے۔ کیونکہ احمد بیگ عمر کے لحاظ سے بڑا تھا اور اس کا داماد جوان۔ طبعی طور پر احمد بیگ کی موت کے متعلق یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ وہ سلطان محمد سے پہلے مرے گا۔ اور اگر حضرت مسیح موعود اپنی طرف سے اندازہ لگا کر پیشگوئی کرتے تو احمد بیگ کی وفات کے لئے سلطان محمد سے کم میعاد مقرر فرماتے۔ لیکن الہام میں ایسا نہیں۔ بلکہ احمد بیگ کے لئے تین سال اور سلطان محمد کے لئے اڑھائی سال کا وعدہ کیا گیا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی انسانی دماغ کا اختراع نہ تھا۔

دوسرا امر جو اس میعاد کے تعین سے معلو م ہوتا ہے، وہ یہ کہ یہ پیشگوئی جذباتِ انسانی کے نتیجہ میں نہیں کی گئی تھی کیونکہ زیادہ قصور احمد بیگ کا تھا اور وہ مستہزئین اور مکفرین کے گروہ میں شامل تھا۔ نیز رشتہ کے لئے اسی کے ساتھ سلسلہ جنبانی کیا گیا تھا، اور یہ سب کچھ اسی کے انکار کا نتیجہ تھا۔ اور اگر جذباتِ انسانیہ کا کوئی اثر ہو سکتا تھا تو یہی کہ حضرت مسیح موعود طبعاً احمد بیگ کی میعاد کم مقرر فرماتے مگر واقعہ اس کے خلاف ہوا جس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی جذبات کا نتیجہ نہ تھی بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو اطلاع دی اسی طرح سے شائع فرما دیا۔

۳۔ پیشگوئی میں زیادہ سے زیاد ہ مدت بتائی گئی تھی۔ پس اگر احمد بیگ اور سلطان محمد اپنی اسی حالت پر بدستور قائم رہتے۔ جس حالت میں کہ وہ پیشگوئی بیان کرنے کے وقت تھے تو ان کی موت کی میعاد علی الترتیب تین و اڑھائی سال ہوتی۔ مگر احمد بیگ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا اور لڑکی کا نکاح کر دینے کے بعد اور زیادہ شوخ ہو گیا، اس لئے وہ میعاد مقررہ کے اندر بہت ہی جلد پکڑا گیا۔ بخلاف سلطان محمد کے کہ اس نے اصلاح کی اور توبہ و استغفار کی طرف رجوع کیا۔ کَمَا مَرَّ۔

یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے احمد بیگ کی میعاد تین سال مقرر کر کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ مہلت ہے جو احمد بیگ کو دی جاتی ہے۔ اگر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا تو تین سال سے بہت پہلے جلد ہی مر جائے گا۔ چنانچہ حضر ت مسیح موعودؑ نے احمد بیگ کو جو خط ۱۳۰۴ھ میں لکھا تھا۔ اس میں حضور نے تحریر فرمایا تھا۔

’’وَ آخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُکَ فَتَمُوْتُ بَعْدَ النِّکَاحِ اِلٰی ثَلَاثِ سِنِیْنَ، بَلْ مَوْتُکَ قَرِیْبٌ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۷۳) کہ تیرے خاندان پر جو آخری مصیبت آئے گی وہ تیری موت ہو گی تو روز نکاح سے تین سال کے عرصہ میں مرجائے گا بلکہ تیری موت اس سے بھی قریب ہے۔

ب۔ حضرت مسیح موعود اپنے اشتہار ۲۰؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’خدا نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ ہے اگر وہ اپنی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا‘‘ (حاشیہ اشتہار ۲۰؍ اپریل ۱۸۸۶ء ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مارچ ۱۸۸۶ء مشمولہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۴۸)۔

مندرجہ بالا دونوں حوالہ جات میں حضرت اقدسؑ نے صراحت فرما دی ہے کہ احمد بیگ کو اگر وہ زیادہ شوخی نہ کرے تو زیادہ سے زیادہ تین سال مہلت مل سکتی ہے، لیکن وہ شوخی کر کے جلدی فوت ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

ایک قابل غور امر!

مندرجہ بالا عربی عبارت از آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۷۳میں سے فقرہ اٰخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُکَ (کہ تیرے خاندان پرجو آخری مصیبت آئے گی وہ تیری موت ہو گی) خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں بھی ایک زبردست پیشگوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمد بیگ کو بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یوں مقد ر فرمایا ہے کہ اس کی موت کو اس کے خاندان کے لئے ’’آخری مصیبت‘‘ بنائے، اور اس کے بعد پھر کوئی مصیبت اس خاندان پر اس پیشگوئی کے ماتحت نہ آئے۔ اس لئے احمد بیگ کی موت جب ۱۸۹۲ء میں ہو گئی، تو ’’اٰخِرُ الْمَصَائِبِ مَوْتُکَ‘‘ کے مطابق ضروری تھا کہ سلطان محمد اس کے بعد فوت نہ ہو۔

غرضیکہ احمد بیگ کی موت کا واقعہ ہو جانا اور پیشگوئی کے مطابق واقع ہو جانا اس پیشگوئی کے عظیم الشان نتائج کی خوشخبری دیتا تھا جو اس خاندان کے اکثر افراد کے حلقہ بگوشِ احمدیت ہونے کی صورت میں نمودار ہوئے۔ او ر اس طرح سے یہ پیشگوئی اس خاندان کے اس مطالبہ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ (اگر یہ سچا ہے تو نشان دکھائے) کے جواب میں ایک زبردست نشان ثابت ہوئی، جس نے ان لوگوں کی جو دہریت اور ارتداد کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، کایا پلٹ دی اور ان کو خدا کے پیارے مسیح موعود ؑ کی شناخت اور قبولیت کی روشنی سے منور کر دیا۔ دہریت کی جگہ اسلام نے اور ارتداد کی جگہ تعلق و محبت رسول ؐ نے لے لی۔ اور یہی وہ عظیم الشان تغیر ہے جسے دنیا میں پیدا کرنے کے لئے خداتعالیٰ کے تمام انبیاء تشریف لائے اور جس کی جھلک خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ داروں میں اس پیشگوئی کے ذریعہ دکھائی۔ حضور ؐ فرماتے ہیں:۔

۱۔’’کس قدر میرے دعویٰ کی تائید میں مجھ سے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور جو کچھ کہا جاتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ یہ محض افتراہے بلکہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور میری کسی پیشگوئی پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جو پہلے نبیوں کی پیشگوئیوں پر جاہل اور بے ایمان لوگ نہیں کر چکے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۹۶)

۲۔’’اے نادان! اوّل تعصّب کا پردہ اپنی آنکھ پر سے اُٹھا۔ تب تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ خدا تعالیٰ کی نصرت ایک تُند اور تیز دریا کی طرح مخالفوں پر حملہ کر رہی ہے پر افسوس کہ ان لوگوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ زمین نے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی۔ اور دوستوں میں بھی نشان ظاہر ہوئے ہیں اور دشمنوں میں بھی۔ مگر اندھے لوگوں کے نزدیک ابھی کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ لیکن خدا اس کام کو ناتمام نہیں چھوڑے گا جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۵)

۳۔ ’’ایک یہ بھی اُن کا اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔ اس اعتراض کے جواب میں تو صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ اگر وہ میری کتابوں کو غور سے دیکھتے یا میری جماعت کے اہلِ علم اور واقفیت سے دریافت کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ کئی ہزار پیشگوئی اب تک پوری ہو چکی ہے اور ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے صرف ایک دو گواہ نہیں بلکہ ہزار ہا انسان گواہ ہیں۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۹-۳۶۸)

۴۔ ’’ ایک دو اور پیشگوئیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مگریہ سراسر ان کا افترا ہے اور سچ اور واقعی یہی بات ہے کہ میری کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کہ جو پوری نہیں ہوگئی۔ اگرکسی کے دل میں شک ہوتوسیدھی نیت سے ہمارے پاس آجائے اور بالمواجہ کوئی اعتراض کرکے اگر شافی کافی جواب نہ سنے تو ہم ہر ایک تاوان کے سزا وار ٹھہر سکتے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ المہدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴۱-۴۴۰)
 
Top Bottom