الجواب:۔یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے قادیان میں طاعون کا آنا ممنوع قرار دیا ہے۔ بلکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ قادیان میں طاعون آئے گی توسہی مگر طاعون جارف یعنی جھاڑو دینے والی طاعون نہیں آئے گی۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام دافع البلاء میں فرماتے ہیں:۔
۱۔’’ہم دعوے سے لکھتے ہیں کہ قادیاں میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے ۔‘‘ (دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۲۵ حاشیہ)
۲۔پھر فرماتے ہیں:۔
’’ میں قادیاں کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا خصوصًا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے۔‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۳۷)
۳۔’’ کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں بھی کوئی واردات شاذو نادر طور پر ہو جائے جو بربادی بخش نہ ہو اور موجب فرار و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذو نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے۔‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۲۵ حاشیہ)
۴۔’’ انّہٗ اوی القریۃ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ یہ معنی نہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی۔ اٰویٰ کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۴۳)
’’اٰویٰ کالفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا ابتلاکے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے۔ اور کثرت مصائب اور تلف ہونے سے بچایا جائے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (الضحیٰ:۷)اسی طرح تمام قرآن شریف میں ’’اٰویٰ‘‘ کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا کسی قوم کو کسی قدر تکلیف کے بعد پھر آرام دیا گیا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۹)
پس ان پیشگوئیوں کے مطابق قادیان کو ایک دفعہ ’’کسی قدر‘‘ عذاب کے بعد اپنی امان میں لے لیا گیااو ر اسی کو حضرت اقدس علیہ السلام نے صرف قادیان ہی کی نسبت سے ’’طاعون زور پر تھا۔‘‘ قرار دیا ہے (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۷ حاشیہ)چنانچہ خود دوسری جگہ حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۴۴ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی۔‘‘
ع وَ بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآءُ
پس قادیان میں کبھی بھی طاعونِ جارف نہیں آئی جو بربادی افگن ہوتیہے۔ ہاں حضرت اقدس علیہ السلام نے اعلان فرمایا تھا ’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ……اُحَافِظُکَ خَاصَّۃ۔ً‘‘(تذکرہ صفحہ ۳۵۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)کہ تیرے گھر کی چار دیواری میں رہنے والے طاعون سے محفوظ رہیں گے اور تیری تو خاص حفاظت کی جائے گی (خواہ چار دیواری کے اندر ہوں یا باہر)چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ببانگ دہل اعلان فرمایا:۔
’’میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں۔ اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی۔‘‘
(دافع البلاء۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۳۸)
چنانچہ چراغ دین جمونی ہلاک ہوا، تفصیل دیکھو ’’حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۸۶‘‘میں۔ پھر اس چیلنج کو کوئی اور منظور نہ کرسکا۔ لہٰذا حضرت ؑکی صداقت ثابت ہوئی۔‘‘
۱۔’’ہم دعوے سے لکھتے ہیں کہ قادیاں میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے ۔‘‘ (دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۲۵ حاشیہ)
۲۔پھر فرماتے ہیں:۔
’’ میں قادیاں کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا خصوصًا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے۔‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۳۷)
۳۔’’ کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیان میں بھی کوئی واردات شاذو نادر طور پر ہو جائے جو بربادی بخش نہ ہو اور موجب فرار و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذو نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے۔‘‘
(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۲۵ حاشیہ)
۴۔’’ انّہٗ اوی القریۃ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ یہ معنی نہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی۔ اٰویٰ کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۴۳)
’’اٰویٰ کالفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا ابتلاکے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے۔ اور کثرت مصائب اور تلف ہونے سے بچایا جائے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (الضحیٰ:۷)اسی طرح تمام قرآن شریف میں ’’اٰویٰ‘‘ کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا کسی قوم کو کسی قدر تکلیف کے بعد پھر آرام دیا گیا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۹)
پس ان پیشگوئیوں کے مطابق قادیان کو ایک دفعہ ’’کسی قدر‘‘ عذاب کے بعد اپنی امان میں لے لیا گیااو ر اسی کو حضرت اقدس علیہ السلام نے صرف قادیان ہی کی نسبت سے ’’طاعون زور پر تھا۔‘‘ قرار دیا ہے (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۷ حاشیہ)چنانچہ خود دوسری جگہ حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۴۴ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی۔‘‘
ع وَ بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآءُ
پس قادیان میں کبھی بھی طاعونِ جارف نہیں آئی جو بربادی افگن ہوتیہے۔ ہاں حضرت اقدس علیہ السلام نے اعلان فرمایا تھا ’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ……اُحَافِظُکَ خَاصَّۃ۔ً‘‘(تذکرہ صفحہ ۳۵۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)کہ تیرے گھر کی چار دیواری میں رہنے والے طاعون سے محفوظ رہیں گے اور تیری تو خاص حفاظت کی جائے گی (خواہ چار دیواری کے اندر ہوں یا باہر)چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ببانگ دہل اعلان فرمایا:۔
’’میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں۔ اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی۔‘‘
(دافع البلاء۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۳۸)
چنانچہ چراغ دین جمونی ہلاک ہوا، تفصیل دیکھو ’’حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۸۶‘‘میں۔ پھر اس چیلنج کو کوئی اور منظور نہ کرسکا۔ لہٰذا حضرت ؑکی صداقت ثابت ہوئی۔‘‘