اعتراض۔ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی موت کی پیشگوئی کی اور جھوٹے کے لیے بددعاکی لیکن پہلے خود ہی فوت ہو گئے ؟

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
۳۔مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کی موت کی پیشگوئی کی اور جھوٹے کے لیے بددعاکی لیکن پہلے خود ہی فوت ہو گئے
سوال:۔ مرزا صاحب نے مولوی ثناء اﷲ کی موت کی پیشگوئی کی؟

جواب:۔ یہ افتراء ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز ثناء اﷲ کی موت کی پیشگوئی نہیں کی۔ چنانچہ آپ اشتہار ’’آخری فیصلہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۷۹ اشتہار مورخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ ؁ء) کوئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضور نے ثناء اﷲ کے متعلق حضور کی زندگی میں مرنے کی پیشگوئی کی تھی۔ ہاں اس کو دعوت مباہلہ دی تھی جس کی تفصیل درج ذیل ہے :۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں تمام علماء گدی نشینوں اور پیروں کو ’’آخری فیصلہ‘‘ (مباہلہ) کی دعوت دی۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔ وَآخِرُ الْعَلَاجِ خُرُوْجُکُمْ إِلٰی بَرَازِ الْمُبَاہَلَۃِ ………… ہٰذَا آخِرُ حِیَلٍ أَرَدْنَاہُ فِیْ ہٰذَا الْبَابِ(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۶۵) کہ آخری علاج تمہارے لئے میدان مباہلہ میں نکلنا ہے …… اور یہی آخری طریق فیصلہ ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے۔

اس دعوت مباہلہ میں آپ نے فرمایا کہ ’’فریقین ایک دوسرے کے حق میں بددعا کریں کہ ’’فریقین میں سے جو فریق جھوٹا ہے، اے خدا تو اس کو ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر۔ کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔‘‘

(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۶)

اور اس کے بعد لکھا:۔

’’گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ توہین و تکفیر کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو۔ ‘‘ (انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۷)

اس رسالہ کے مخاطبین میں سے مولوی ثناء اﷲ کا نمبر ۱۱ تھا۔ مولوی صاحب نے اس چیلنج کا کچھ جواب نہ دیا، اور اپنی مہر خاموشی سے اس جری اﷲ فی حلل الانبیاء کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی، لیکن جب ہر طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس بدقسمت جانور کی طرح جو شیر کو دیکھ کر انتہائی بدحواسی سے خود ہی اس پر حملہ کر بیٹھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کی۔ جس کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے لکھا۔

حضرت مسیح موعودؑ کا جواب

’’مولوی ثناء اﷲ امرتسری کی دستخطی تحریر مَیں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ مَیں اِس طور کے فیصلہ کے لئے بہ دل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی مَیں اور وہ یہ دُعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی مَر جائے ‘‘(اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۱)

’’اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۱)

ؓثنائی حیلہ جوئی

’’چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اﷲ یا الہامی ہے، اس لئے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا …… میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرأت نہیں۔‘‘

(الہامات مرزا صفحہ ۸۵ طبع دوم و صفحہ ۱ ۱ طبع ششم)

لیکن جب پھر ہر طرف سے لعن طعن ہوئی تو لکھا:۔

ثناء اﷲ کی دوبارہ آمادگی

’’البتہ آیت ثانیہ …… …… (آل عمران: ۶۲) پر عمل کرنے کے لئے ہم تیار ہیں۔ میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے جسے مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے۔‘‘ (اہل حدیث ۲۲ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۴)

’’مرزائیو! سچے ہو تو آؤ اور اپنے گورو کو ساتھ لاؤ۔ وہی میدان عیدگاہ امرتسر تیار ہے جہاں تم پہلے صوفی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کر کے آسمانی ذلت اٹھا چکے ہو (جھوٹ ہے وہاں ہرگز کوئی ایسا مباہلہ نہیں ہوا۔ جس میں فریقین نے ایک دوسرے کے حق میں بددعا کی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی بددعا نہیں کی تھی، خادم) اورا نہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں رسالہ انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے دعوت دی ہے کیونکہ جب تک پیغمبر جی سے فیصلہ نہ ہو، سب امت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (اہل حدیث ۲۹؍ مارچ صفحہ ۱۰۔ ۱۹۰۷ء)

مولوی ثناء اﷲ صاحب کی یہ تحریر ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء کی ہے مگر اس سے کچھ دن قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃالوحی میں (جو اس وقت زیر تصنیف تھی) یہ تحریر فرما چکے تھے کہ ’’میں بخوشی قبول کروں گا اگر وہ (ثناء اﷲ) مجھ سے درخواست مباہلہ کریں۔ ( حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۱)

’’مباہلہ کی درخواست کرے۔‘‘ (ایضا صفحہ ۳۳) و (ایضا ۴۶۵)

حضرت اقدسؑ کی یہ تحریر ۲۵؍ فروری ۱۹۰۷ء کی ہے جیسا کہ تتمہ حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۳۶ سطر ۱۰ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس تحریر سے ظاہر ہے کہ حضرت کا ارادہ یہ تھا کہ اب اگر مولوی ثناء اﷲ مباہلہ پر آمادگی ظاہر کرے تو اسے بھاگنے نہ دیا جائے۔ چنانچہ جب اس نے ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ کو دعوت مباہلہ دی (جو اوپر درج ہو چکی ہے) تو حضرت کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب بدر ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ میں دیا گیا، لیکن مولوی ثناء اﷲ پھر فرار کی راہ اختیار کرنے لگا، جیسا کہ اس کے جواب میں مندرجہ اہل حدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ سے ظاہر ہے۔ تو اس کے جواب کے اشاعت سے قبل ہی اﷲ تعالی نے حضرت اقدسؑ کو اس کے ارادہ سے مطلع فرما دیا اور حضور نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کا اشتہار آخری فیصلہ شائع فرما دیا تا کہ ثناء اﷲ کے لئے گول مول کر کے ٹالنے کی گنجائش ہی نہ رہے اور وہ مجبور ہو کر تصرف الہٰی کے ماتحت موت کو اپنے سر پر سوار دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھ دے کہ ’’تمہاری یہ تحریر مجھے منظور نہیں، اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے۔‘‘ (اخبا ر اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ ء) چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے:۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جواب

’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے۔ وہ بیشک (آپ) قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص (حضرت مسیح موعودؑ) اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور بیشک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹاہوں تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ……۔ مباہلہ کی بنیاد جس آیت قرآنی پر ہے اس میں تو صرف آیا ہے۔‘‘ (اخبار بدر ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۴)

ثنا ئی فرار

’’میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا، میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں۔ حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں۔ میں نے حلف اٹھانا کہا ہے۔ مباہلہ نہیں کہا۔ قسم اور ہے مباہلہ اور ہے۔‘‘ (اہل حدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)

ابھی یہ ثنائی فرار معرضِ ظہور میں نہیں آیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے جو علیم و خبیر ہے اپنے مسیح موعودؑ کو اس کی اطلاع دے کر اپنے شکار کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کے لئے ایک طریق کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ اس کے مطابق حضور نے آخری اتمامِ حجت کے طور پر ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو اپنی طرف سے ’’دعاء مباہلہ‘‘ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کے ساتھ ’’آخری فیصلہ‘‘ کے عنوان سے شائع فرما دی۔ جس میں اپنی طرف سے دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ سچے کی زندگی میں جھوـٹے کو ہلاک کر دے اور بالآخر لکھا کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب اس اشتہار کو اہل حدیث میں شائع فرما کر ’’جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں، اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

مولوی ثناء اﷲ نے اس اشتہار کو اہلحدیث ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۷ء میں شائع کیا اور اس کے نیچے یہ لکھا:۔

’’اول۔ اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی، ا ور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔‘‘

(اخبار اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء)

’’تمہاری یہ تحریر کسی صورت میں بھی فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ایضاً)

’’میرا مقابلہ تو آپ سے ہے۔ اگر میں مر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے۔‘‘

’’خدا کے رسول چونکہ رحیم کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت میں نہ پڑے مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

’’خداتعالی جھوٹے، دغا باز، مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کر لیں۔‘‘

نوٹ:۔ یہ آخری عبارت نائب ایڈیٹر کی طرف سے لکھی گئی ہے مگر مولوی ثناء اﷲ نے اس کی تصدیق کی اور لکھا کہ ’’میں اس کو صحیح جانتا ہوں۔‘‘ (اہل حدیث ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۷ء)

’’مختصر یہ کہ …… یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔‘‘

(اقتباسات از اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵،۶)

مولوی ثناء اﷲ پھر لکھتا ہے:۔

’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال فرما گئے، اور مسیلمہ باوجود کاذب ہونے کے صادق سے پیچھے مرا۔‘‘ (مرقع قادیانی اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۹)

’’کوئی ایسی نشانی دکھاؤ جو ہم بھی دیکھ کر عبرت حاصل کریں، مر گئے تو کیا دیکھیں گے اور کیا ہدایت پائیں گے۔‘‘ (اخبار وطن امرتسر ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱)

پس چونلہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے اپنی پرانی عادت کے مطابق نجران کے عیسائیوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مباہلہ سے فرار اختیار کیا، اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور ثناء اﷲ کو خداتعالیٰ نے اس کے تسلیم کردہ اصول کے رو سے ’’جھوٹے، دغا باز، مفسد اور نافرمان‘‘ لوگوں کی طرح لمبی عمر دی اور اسے حضرت مسیح موعودؑ کے پیچھے زندہ رکھ کر ’’مسیلمہ کذاب‘‘ ثابت کر دیا۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار ’’مسودہ مباہلہ‘‘ ہے جس طرح قرآن مجید کی آیت مباہلہ میں (سورۃ اٰل عمران:۶۲) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ’’مسودہ مباہلہ‘‘ تھی۔ وہاں چونکہ عیسائی بھاگ گئے تھے اس لئے مباہلہ نہ ہوا اور وہ نہ مرے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی کُلِّھِمْ حَتّٰی یَھْلِکُوْا (تفسیر کبیر لفخر الرازی جلد ۸ صفحہ ۸۵ مصری مطبوعہ ۱۹۳۸ء پہلا ایڈیشن زیر آیت ۔آل عمران:۶۲) اگر عیسائی مباہلہ کر لیتے اور آنحضرتؐ کی طرح کہہ دیتے تو ان میں سے ہر ایک ایک سال کے اندر ہلاک ہو جاتا۔ اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر مولوی ثناء اﷲ بھی حضرت مسیح موعودؑ کے مقابلہ میں میدانِ مباہلہ سے بھاگ نہ جاتا۔ اور حضرت کی خواہش کے مطابق وہی بددعا کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود تحریر فرمایا ہے کہ:۔

’’اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے۔‘‘ (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۱)

پس جس طرح وہاں پر نجران کے عیسائیوں کا فرار ’’خدائی فیصلہ بروئے مباہلہ‘‘ کے رستہ میں روک ثابت ہوا۔ یہاں بھی ثناء اﷲ کا مندرجہ بالا فرار اس کو ہلاکت سے بچا گیا۔ نہ حضرت مسیح موعودؑ آنحضرتؐ سے بڑے ہیں اور نہ مولوی ثناء اﷲ نجرا ن کے عیسائیوں سے بڑا ہے۔

اشتہار آخری فیصلہ ’’مسودہ مُباہلہ‘‘ تھا

۱۔ خود مولوی ثناء اﷲ لکھتا ہے:۔ ’’کرشن قادیانی نے ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا۔‘‘ (مرقع قادیان جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۸)

۲۔ ’’آج تک مرزا صاحب نے کسی مخالف سے ایسا کھلا مباہلہ نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ گول مول رکھا کرتے تھے۔‘‘ (اشتہار مرزا قادیانی کا انتقال اور اس کا نتیجہ شائع کردہ ثناء اﷲ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اشتہار کا عنوان ہے۔ مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۵۷۹ اشتہار مرقومہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء) اور مولوی ثناء اﷲ کے نزدیک ’’آخری فیصلہ‘‘ مباہلہ ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:۔

’’ ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانیں، کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض ’’بدرا بدر بائید رسانید‘‘ کہہ دے کہ آ ؤ ایک آخری فیصلہ بھی سنو، ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے، اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں، اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بند نزدیکی بلائیں۔ پھر عاجزی سے جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔ خدا خود فیصلہ دنیا میں ہی کر دے گا۔ ‘‘ (تفسیر ثنائی زیر آیت آل عمران:۶۱)

۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی یہ دعائے مباہلہ ہی تھی جیسا کہ حضور فرماتے ہیں:۔

’’مباہلہ ایک آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی نصاریٰ کو مباہلہ کے واسطے طلب کیا تھا مگر ان میں سے کسی کو جرأت نہ ہوئی‘‘ (بدر ۱۷؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۳)

۵۔ حضرت اقدسؑ نے بعینہٖ ’’آخری فیصلہ‘‘ والی دعا کے مطابق ایک اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے متعلق شائع فرمایا تھا۔ اس کے متعلق حضور فرماتے ہیں:۔

’’۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کا ہمارا اشتہار جو مباہلہ کے رنگ میں شیخ محمد حسین اور اس کے دو ہم راز رفیقوں کے مقابل پر نکلا ہے وہ صرف ایک دعاہے۔‘‘ (رازِ حقیقت صفحہ ب اشتہار ۳۰؍ نومبر۸ ۱۸۹ء)

’’اب یہ اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء ایک آخری فیصلہ ہے چاہیے کہ ہر ایک طالب صادق صبر سے انتظار کرے۔‘‘ (راز حقیقت صفحہ ۱۴)

گویا حضرتؑ نے اشتہار کو جو ’’مباہلہ‘‘ کے رنگ میں ایک ’’دعا‘‘ پر مشتمل تھا ’’آخری فیصلہ‘‘ قرار دے کر بتا دیا ہے کہ حضور کے نزدیک آخری فیصلہ سے مراد مباہلہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۸)

حضور تحریر فرماتے ہیں۔ کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۵۲ نیز مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۸ اشتہار مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۸۹۸ء)

۶۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک صرف اور صرف مُباہلہ کی صورت میں جھوٹا سچے کی زندگی میں مرتا ہے، جیسا کہ حضور تحریر فرماتے ہیں۔ ’’یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے۔ ہم نے تواپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا،…… ہم نے تو یہ لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ کیا آنحضرتؐ کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہی ہلاک ہو گئے تھے بلکہ ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے۔ ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے۔…… ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہو تے ہیں۔ دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں۔ کیا یہ کسی نبی، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ہوا کہ اس کے سب اعداء مر گئے ہوں، بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے، ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں،…… ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ جگہ تو نکالو جہاں یہ لکھا ہے۔‘‘

(الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۹)

۷۔ ثناء اﷲ اگر اس کو اشتہار مباہلہ نہ سمجھتا تھا تو اس کے جواب میں یہ کیوں لکھا تھا کہ ’’اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی، اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔‘‘ (اخبار اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء) کیونکہ ظاہر ہے کہ یکطرفہ بددعا کے لئے دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ منظوری یا عدم منظوری کا سوال صرف اور صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ دعائے مباہلہ ہو۔

۸۔ عنوان اشتہار ہے ’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۵۷۸اشتہار مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء) ’’ساتھ‘‘ کا لفظ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ یکطرفہ دعا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی رضامندی کا سوال ہے۔ اگر یک طرفہ دعا ہوتی تو ’’مولو ی ثناء اﷲ صاحب کے متعلق آخری فیصلہ‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ مجسٹریٹ جب فیصلہ کر تا ہے تو ’’زید یا بکر کے متعلق‘‘ فیصلہ کرتا ہے، لیکن جب یہ کہا جائے کہ ’’زید نے بکر کے ساتھ فیصلہ کیا‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زید اور بکر دونوں کی رضامندی سے یہ فیصلہ ہوا۔ اگر ایک فریق بھی نا رضا مند ہو تو اندریں صورت وہ فیصلہ قائم نہ رہے گا۔ پس چونکہ مولوی ثناء اﷲ اس فیصلہ پر رضامند نہ ہوا اور لکھا کہ

’’یہ تحریر مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔‘‘ (اخبار اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء) تو وہ دعا ’’فیصلہ‘‘ نہ رہی۔ اسی وجہ سے ثناء اﷲ نے بھی لکھا تھا کہ:۔

’’یہ دعا فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

۹۔ حضرت اقدس کا لکھنا کہ ’’جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔‘‘ (مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹، اشتہار مرقومہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘) صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت اس مسودہ مباہلہ کو مکمل اسی صورت میں سمجھتے تھے جب ثناء اﷲ بھی اس کے نیچے اپنی منظوری لکھدے۔ ورنہ اگر یکطرفہ دعا ہوتی تو اس کے نیچے ثناء اﷲ کے لکھنے یا نہ لکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔

۱۰۔ حضرت اقدس ؑ کا لکھنا کہ ’’اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۵۷۹ مرقومہ ۱۵ ؍اپریل ۱۹۰۷ء) صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ حضرت کا منشاء یہی تھا کہ ثناء اﷲ کے ہاتھ سے حضور کی دعا اور اپنی تصدیق دونوں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں۔ تا مسودہ مباہلہ مکمل ہو کر ثناء اﷲ کا خاتمہ کر دے۔

۱۱۔ مولوی ثنا ء اﷲ خود لکھتا ہے:۔

’’مرز اجی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا۔‘‘ (مرقع قادیانی دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)

۱۲۔ ’’وہ (حضرت مسیح موعودؑ) اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء میں چیخ اٹھا تھا کہ اہلحدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے۔‘‘ (اہلحدیث ۱۹؍ جون ۱۹۰۸ء)

۱۳۔ حضور ؑ لکھتے ہیں:۔

’’میں جانتا ہوں کہ مفسداور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اورآخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہو جاتا ہے۔‘‘

اور ہم ابھی حضرت ؑ کے مفلوظات (از الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء) سے دکھا چکے ہیں کہ یہ اصل صرف اور صرف مباہلہ ہی کی صور ت میں ہوتا ہے۔

۱۴۔ حضرت اقدس ؑ نے اپنے اس اشتہامیں جو انجام جھوٹے کا تحریر فرمایا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو انجام آتھم میں حضرتؑ نے جھوٹا مباہلہ کرنیوالے کا تحریر فرمایا ہے۔ دیکھیں انجام آتھم صفحہ ۶۵ تا صفحہ ۷۲ نیز دیکھیں صفحہ ۱۶۵۔

۱۵۔ مولوی ثناء اﷲ لکھتا ہے۔ ’’مرزائیو! کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے فیصلہ کے لئے بلایا ہے؟ بتلاؤ تو انعام لو۔‘‘ (اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء)

اگر حضور ؑ کا اشتہار ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء (مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹) محض یک طرفہ بددعا تھی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے انبیاء میں نہ ملتی ہو اور جس کا ثناء اﷲ کو انکار ہو جیسا کہ وہ لکھتا ہے:۔

’’اس قسم کے واقعات بیشمار ملتے ہیں جن میں حضرا ت انبیاء علیہم السلام نے مخالفوں پر بددعائیں کیں۔‘‘ (رؤداد مباحثہ لدھیانہ صفحہ ۶۷)

پس مولوی ثناء اﷲ کے مطالبہ کا مطلب صرف یہی ہے کہ انبیاء ؑجب مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں تو پہلے اپنے مخالفوں کی منظور ی لے لیتے ہیں۔ یہاں پر حضرت نے ثناء اﷲ کی بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔ پس ثناء اﷲ اس طریق کار کی مثال مانگتاتھا نہ کہ محض بددعا کی۔ کیونکہ اس کے لئے منظوری کی ضرورت نہیں۔

ثنائی عذرات

ثناء اﷲ کوعذر ہے کہ مباہلہ کے لئے شرط یہ تھی کہ حقیقۃ الوحی شائع ہونے اور ثناء اﷲ کو بذریعہ رجسٹری بھیجنے کے بعد مباہلہ ہو گا۔ اب حضرت اقدس ؑ نے حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہی اس کو کیوں شائع کرد یا؟

سو اس کا جواب یہ ہے کہ ثناء اﷲ نے اپنے اخبار اہلحدیث ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء میں جب چیلنج مباہلہ دیا تو حضرتؑ نے اس کو مہلت دینا ہی پسند فرمایا کہ ’’باوجود اس قدر شوخیوں اور دلآزاریوں کے جو ثناء اﷲ سے ہمیشہ ظہور میں آتی ہیں حضرت اقدس نے پھر بھی رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جب کہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے۔ (بد ر ۴ ؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲) لیکن چونکہ ثناء اﷲ نے ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کے اہلحدیث میں پھر فرار اختیار کر لینا تھا (جس کا حوالہ اوپر ذکر ہو چکا ہے صفحہ ۴۸۲) اور خدا تعالیٰ کو اس کا علم تھا اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۵؍ اپریل ہی کو اس کے فرار کے شائع ہونے سے پہلے ہی دعا مباہلہ لکھنے کی ہدایت فرما دی، چنانچہ حضرت فرماتے ہیں:۔

’’ ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘ (بدر ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲)

حضرت اقدس ؑ کا ثناء اﷲ سے کوئی ’’معاہدہ‘‘ نہ تھا کہ حقیقۃ الوحی چھپنے تک مباہلہ نہ ہو گا۔ یہ صرف حضورؑ کا اپنا ارادہ تھا بوجہ رحم کے۔ ثنا ء اﷲ نے اس تجویز کی منظوری کا اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ ’’معاہدہ‘‘ کی صورت اختیار کر لیتا۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت کے ارادہ کو (بو جہ اس فرار کے جو ثناء اﷲ کرینوالا تھا) بد ل دیا۔ اس با ت کا ثناء اﷲ کے لئے کوئی فرق نہ تھا کہ مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ کیونکہ وہ تو ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰ کے اہل حدیث میں مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر چکا تھا۔ اب مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہو یا بعد میں یہ حضرتؑ کی مرضی پر موقوف تھا۔ حضورؑ کا ارادہ کتاب کے چھپنے کے بعد مباہلہ کرنے کا تھا، تا ثناء اﷲ کو ایک اور موقعہ دیا جائے۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے ثناء اﷲ کی بدنیتی کو دیکھ کر فورًا حضرتؑ کے ارادہ کو بدل دیا پس ثناء اﷲ کا اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر

باقی رہا مولوی ثناء اﷲ کا یہ کہنا کہ بدر ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱ میں ایڈیٹر صاحب بدر نے لکھا ہے کہ مباہلہ قرار نہیں پایا، تو اس کا جواب یہ ہے۔ (ا) مولوی ثنا ء اﷲ خود مانتا ہے کہ یہ تحریر ایڈیٹر صاحب بدر کی اپنی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے۔ ’’بے نور بد رکے ایڈیٹر نے کمال ایمانداری سے اپنا جواب تو شائع کر دیا۔‘‘ (مرقع قادیانی نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۲۲) ۔ (ب)۔ خود ایڈیٹر صاحب مفتی محمد صادق صاحب اخبار بدر کا بیان ہے کہ یہ تحریر ان کی اپنی طرف سے تھی، حضور (مسیح موعودؑ) کے حکم یا علم سے نہیں لکھی گئی، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:۔

’’اخبار بدر مورخہ ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبراوّل میں جو نوٹ بعنوان نقل ’’خط بنام مولوی ثناء اﷲ صاحب‘‘ شائع ہو اہے، یہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے مطالبہ حقیقۃ الوحی کا جواب ہے جو میں نے خود لکھا تھا اور یہ میرے ہی الفاظ ہیں۔ کیونکہ حضرت اقدس ؑ نے اس کے متعلق کوئی ہدایت نہ دی تھی، میں نے اپنی طر ف سے جواب لکھ دیا تھا۔ اس بیان کی اشاعت مناسب ہے تا کہ کوئی شخص اس نوٹ کو حضرتؑ کی طرف منسوب کر کے مغالطہ نہ دے سکے۔‘‘ (تجلیات رحمانیہ صفحہ ۱۷۴ بار اول ازقلم ابو العطاء اﷲ دتہ جالندھری مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۱ء)

جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں حضرت مسیح موعودؑ اس اشتہار کو دعائے مباہلہ سمجھتے ہیں اور خود مولوی ثناء اﷲ بھی اس کو دعائے مباہلہ ہی قرار دیتا تھا تو اس کے بالمقابل ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی، جیسا کہ خود اہلحدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی بلکہ حضرت علی ؓ کی تفسیر تک کو نہیں مانتے۔

(اہلحدیث ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۱ زیر عنوان ’’اقتداء اہلحدیث‘‘)

۶۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک صرف اور صرف مُباہلہ کی صورت میں جھوٹا سچے کی زندگی میں مرتا ہے، جیسا کہ حضور تحریر فرماتے ہیں۔ ’’یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے۔ ہم نے تواپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا،…… ہم نے تو یہ لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ کیا آنحضرتؐ کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہی ہلاک ہو گئے تھے بلکہ ہزاروں اعداء آپ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے۔ ہاں جھوٹا مباہلہ کرنے والا سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوا کرتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے۔…… ہم تو ایسی باتیں سن کر حیران ہو تے ہیں۔ دیکھو ہماری باتوں کو کیسے الٹ پلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں۔ کیا یہ کسی نبی، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ہوا کہ اس کے سب اعداء مر گئے ہوں، بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے، ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ سچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں،…… ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ جگہ تو نکالو جہاں یہ لکھا ہے۔‘‘

(الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۹)

۷۔ ثناء اﷲ اگر اس کو اشتہار مباہلہ نہ سمجھتا تھا تو اس کے جواب میں یہ کیوں لکھا تھا کہ ’’اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی، اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔‘‘ (اخبار اہل حدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء) کیونکہ ظاہر ہے کہ یکطرفہ بددعا کے لئے دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ منظوری یا عدم منظوری کا سوال صرف اور صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ دعائے مباہلہ ہو۔

۸۔ عنوان اشتہار ہے ’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۵۷۸اشتہار مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء) ’’ساتھ‘‘ کا لفظ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہ یکطرفہ دعا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی رضامندی کا سوال ہے۔ اگر یک طرفہ دعا ہوتی تو ’’مولو ی ثناء اﷲ صاحب کے متعلق آخری فیصلہ‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ مجسٹریٹ جب فیصلہ کر تا ہے تو ’’زید یا بکر کے متعلق‘‘ فیصلہ کرتا ہے، لیکن جب یہ کہا جائے کہ ’’زید نے بکر کے ساتھ فیصلہ کیا‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زید اور بکر دونوں کی رضامندی سے یہ فیصلہ ہوا۔ اگر ایک فریق بھی نا رضا مند ہو تو اندریں صورت وہ فیصلہ قائم نہ رہے گا۔ پس چونکہ مولوی ثناء اﷲ اس فیصلہ پر رضامند نہ ہوا اور لکھا کہ

’’یہ تحریر مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔‘‘ (اخبار اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء) تو وہ دعا ’’فیصلہ‘‘ نہ رہی۔ اسی وجہ سے ثناء اﷲ نے بھی لکھا تھا کہ:۔

’’یہ دعا فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

۹۔ حضرت اقدس کا لکھنا کہ ’’جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔‘‘ (مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹، اشتہار مرقومہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘) صاف طور پر بتاتا ہے کہ حضرت اس مسودہ مباہلہ کو مکمل اسی صورت میں سمجھتے تھے جب ثناء اﷲ بھی اس کے نیچے اپنی منظوری لکھدے۔ ورنہ اگر یکطرفہ دعا ہوتی تو اس کے نیچے ثناء اﷲ کے لکھنے یا نہ لکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔

۱۰۔ حضرت اقدس ؑ کا لکھنا کہ ’’اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۵۷۹ مرقومہ ۱۵ ؍اپریل ۱۹۰۷ء) صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ حضرت کا منشاء یہی تھا کہ ثناء اﷲ کے ہاتھ سے حضور کی دعا اور اپنی تصدیق دونوں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں۔ تا مسودہ مباہلہ مکمل ہو کر ثناء اﷲ کا خاتمہ کر دے۔

۱۱۔ مولوی ثنا ء اﷲ خود لکھتا ہے:۔

’’مرز اجی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا۔‘‘ (مرقع قادیانی دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)

۱۲۔ ’’وہ (حضرت مسیح موعودؑ) اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء میں چیخ اٹھا تھا کہ اہلحدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے۔‘‘ (اہلحدیث ۱۹؍ جون ۱۹۰۸ء)

۱۳۔ حضور ؑ لکھتے ہیں:۔

’’میں جانتا ہوں کہ مفسداور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اورآخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہو جاتا ہے۔‘‘

اور ہم ابھی حضرت ؑ کے مفلوظات (از الحکم ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء) سے دکھا چکے ہیں کہ یہ اصل صرف اور صرف مباہلہ ہی کی صور ت میں ہوتا ہے۔

۱۴۔ حضرت اقدس ؑ نے اپنے اس اشتہامیں جو انجام جھوٹے کا تحریر فرمایا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو انجام آتھم میں حضرتؑ نے جھوٹا مباہلہ کرنیوالے کا تحریر فرمایا ہے۔ دیکھیں انجام آتھم صفحہ ۶۵ تا صفحہ ۷۲ نیز دیکھیں صفحہ ۱۶۵۔

۱۵۔ مولوی ثناء اﷲ لکھتا ہے۔ ’’مرزائیو! کسی نبی نے بھی اس طرح اپنے مخالفوں کو اس طریق سے فیصلہ کے لئے بلایا ہے؟ بتلاؤ تو انعام لو۔‘‘ (اہلحدیث ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء)

اگر حضور ؑ کا اشتہار ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء (مجمو عہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹) محض یک طرفہ بددعا تھی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلے انبیاء میں نہ ملتی ہو اور جس کا ثناء اﷲ کو انکار ہو جیسا کہ وہ لکھتا ہے:۔

’’اس قسم کے واقعات بیشمار ملتے ہیں جن میں حضرا ت انبیاء علیہم السلام نے مخالفوں پر بددعائیں کیں۔‘‘ (رؤداد مباحثہ لدھیانہ صفحہ ۶۷)

پس مولوی ثناء اﷲ کے مطالبہ کا مطلب صرف یہی ہے کہ انبیاء ؑجب مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں تو پہلے اپنے مخالفوں کی منظور ی لے لیتے ہیں۔ یہاں پر حضرت نے ثناء اﷲ کی بغیر منظوری کے اس کو شائع کر دیا۔ پس ثناء اﷲ اس طریق کار کی مثال مانگتاتھا نہ کہ محض بددعا کی۔ کیونکہ اس کے لئے منظوری کی ضرورت نہیں۔

ثنائی عذرات

ثناء اﷲ کوعذر ہے کہ مباہلہ کے لئے شرط یہ تھی کہ حقیقۃ الوحی شائع ہونے اور ثناء اﷲ کو بذریعہ رجسٹری بھیجنے کے بعد مباہلہ ہو گا۔ اب حضرت اقدس ؑ نے حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہی اس کو کیوں شائع کرد یا؟

سو اس کا جواب یہ ہے کہ ثناء اﷲ نے اپنے اخبار اہلحدیث ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء میں جب چیلنج مباہلہ دیا تو حضرتؑ نے اس کو مہلت دینا ہی پسند فرمایا کہ ’’باوجود اس قدر شوخیوں اور دلآزاریوں کے جو ثناء اﷲ سے ہمیشہ ظہور میں آتی ہیں حضرت اقدس نے پھر بھی رحم کر کے فرمایا ہے کہ یہ مباہلہ چند روز کے بعد ہو جب کہ ہماری کتاب حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہو جائے۔ (بد ر ۴ ؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲) لیکن چونکہ ثناء اﷲ نے ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کے اہلحدیث میں پھر فرار اختیار کر لینا تھا (جس کا حوالہ اوپر ذکر ہو چکا ہے صفحہ ۴۸۲) اور خدا تعالیٰ کو اس کا علم تھا اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۵؍ اپریل ہی کو اس کے فرار کے شائع ہونے سے پہلے ہی دعا مباہلہ لکھنے کی ہدایت فرما دی، چنانچہ حضرت فرماتے ہیں:۔

’’ ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘ (بدر ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲)

حضرت اقدس ؑ کا ثناء اﷲ سے کوئی ’’معاہدہ‘‘ نہ تھا کہ حقیقۃ الوحی چھپنے تک مباہلہ نہ ہو گا۔ یہ صرف حضورؑ کا اپنا ارادہ تھا بوجہ رحم کے۔ ثنا ء اﷲ نے اس تجویز کی منظوری کا اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ ’’معاہدہ‘‘ کی صورت اختیار کر لیتا۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت کے ارادہ کو (بو جہ اس فرار کے جو ثناء اﷲ کرینوالا تھا) بد ل دیا۔ اس با ت کا ثناء اﷲ کے لئے کوئی فرق نہ تھا کہ مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ کیونکہ وہ تو ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰ کے اہل حدیث میں مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر چکا تھا۔ اب مباہلہ حقیقۃ الوحی کے چھپنے سے قبل ہو یا بعد میں یہ حضرتؑ کی مرضی پر موقوف تھا۔ حضورؑ کا ارادہ کتاب کے چھپنے کے بعد مباہلہ کرنے کا تھا، تا ثناء اﷲ کو ایک اور موقعہ دیا جائے۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے ثناء اﷲ کی بدنیتی کو دیکھ کر فورًا حضرتؑ کے ارادہ کو بدل دیا پس ثناء اﷲ کا اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر

باقی رہا مولوی ثناء اﷲ کا یہ کہنا کہ بدر ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱ میں ایڈیٹر صاحب بدر نے لکھا ہے کہ مباہلہ قرار نہیں پایا، تو اس کا جواب یہ ہے۔ (ا) مولوی ثنا ء اﷲ خود مانتا ہے کہ یہ تحریر ایڈیٹر صاحب بدر کی اپنی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے۔ ’’بے نور بد رکے ایڈیٹر نے کمال ایمانداری سے اپنا جواب تو شائع کر دیا۔‘‘ (مرقع قادیانی نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۲۲) ۔ (ب)۔ خود ایڈیٹر صاحب مفتی محمد صادق صاحب اخبار بدر کا بیان ہے کہ یہ تحریر ان کی اپنی طرف سے تھی، حضور (مسیح موعودؑ) کے حکم یا علم سے نہیں لکھی گئی، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:۔

’’اخبار بدر مورخہ ۱۳؍ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم نمبراوّل میں جو نوٹ بعنوان نقل ’’خط بنام مولوی ثناء اﷲ صاحب‘‘ شائع ہو اہے، یہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری کے مطالبہ حقیقۃ الوحی کا جواب ہے جو میں نے خود لکھا تھا اور یہ میرے ہی الفاظ ہیں۔ کیونکہ حضرت اقدس ؑ نے اس کے متعلق کوئی ہدایت نہ دی تھی، میں نے اپنی طر ف سے جواب لکھ دیا تھا۔ اس بیان کی اشاعت مناسب ہے تا کہ کوئی شخص اس نوٹ کو حضرتؑ کی طرف منسوب کر کے مغالطہ نہ دے سکے۔‘‘ (تجلیات رحمانیہ صفحہ ۱۷۴ بار اول ازقلم ابو العطاء اﷲ دتہ جالندھری مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۱ء)

جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں حضرت مسیح موعودؑ اس اشتہار کو دعائے مباہلہ سمجھتے ہیں اور خود مولوی ثناء اﷲ بھی اس کو دعائے مباہلہ ہی قرار دیتا تھا تو اس کے بالمقابل ایڈیٹر صاحب بد ر کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی، جیسا کہ خود اہلحدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی بلکہ حضرت علی ؓ کی تفسیر تک کو نہیں مانتے۔

(اہلحدیث ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۱ زیر عنوان ’’اقتداء اہلحدیث‘‘)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کی تحریر

مولوی ثناء اﷲ یہ کہا کرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے موقعہ پر جو مضمون ’’محمود اور خدائی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ‘‘ بعنوان ’’صادقوں کی روشنی‘‘ شائع کیا اس میں لکھا ہے کہ ’’یہ دعا دعائے مباہلہ نہیں تھی۔ اب تم کیوں اس کو مباہلہ کی دعا قرار دیتے ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صریحًا دھوکہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ اشتہار ’’آخری فیصلہ‘‘ دعائے مباہلہ نہ تھا۔ کیونکہ مباہلہ تو اس صور ت میں ہوتا کہ ثناء اﷲ بھی بالمقابل قسم کھاتا یا دعا کرتا۔ مگر چونکہ اس نے بالمقابل دعا نہیں کی اس لئے مبا ہلہ نہیں ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اسی مضمون میں صفائی اور صراحت کے ساتھ اس مجوزہ طریق کار کو ’’مباہلہ‘‘ قرار دیا ہے اور پھر ثناء اﷲ کے انکار کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ مباہلہ نہیں ہوا۔ چنانچہ چند اقتباسات اس مضمون سے یہاں درج کئے جاتے ہیں۔

(۱)۔ ’’یہ ایک فیصلہ کا طریق تھاجس سے جھوٹے اور سچے میں فرق ہو جائے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ حق اور باطل میں کچھ ایسا امتیاز پیدا ہو جائے کہ ایک گروہ بنی نوع انسان کا اصل واقعات کی تہ تک پہنچ جائے اور شرافت اور نیکی کا مقتضا یہ تھا کہ مولوی ثناء اﷲ اس دعا کو پڑھ کر اپنے اخبار میں شائع کر دیتا کہ ہاں مجھ کو یہ فیصلہ منظور ہے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اس کو سوائے ہوشیاری اور چالاکی کے اور کسی بات سے تعلق ہی نہیں۔ اور اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اﷲ اپنی تمام گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ ایک ذات پاک ایسی بھی ہے جو جھوٹوں اور سچوں میں فرق کر دکھلا تی ہے اور وہ جو بدی اور بدذاتی کرتا ہے اپنے کئے کی سزا کو پہنچتا ہے اور شریر اپنی شرارت کی و جہ سے پکڑ ا جاتا ہے۔ مگر جبکہ برخلاف اس کے اس نے اس فیصلہ سے بھی انکار کیا اور لکھ دیا کہ مجھ کو یہ فیصلہ منظور نہیں تو آج جبکہ حضرت صاحبؑ فوت ہو گئے ہیں اس کا یہ دعویٰ کرنا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرنے کی و جہ سے فوت ہوئے ہیں اور یہ میر ی سچائی کی دلیل ہے، کہاں تک انصاف پر مبنی ہے۔‘‘

(تشحیذ الاذہان صفحہ ۵۹ بابت ماہ جون، جولائی ۱۹۰۸ء )

(۲)۔ ’’یہ جان بوجھ کر حضرتؑ کی وفات کو اس دعا کی بناء پر قرار دیتا ہے کیونکہ باوجود اقرار کرنے کے کہ میں نے انکار کر دیا تھا پھر اپنی سچائی ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ اتنی بات سمجھنے سے بھی قاصرہے کہ اس مباہلہ یا دعا کی ضرورت تو سچے اور جھوٹے کے فیصلہ کے لئے تھی۔‘‘ (ایضا صفحہ ۶۳)

(۳)۔ ’’اس وقت تو سچائی کے رعب میں آکر اس نے حیلہ بازی سے اپنا سر عذابِ الٰہی کے نیچے سے نکا لنا چاہا مگر جب کہ اس کے انکارِ مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بد ل گیا تو اس نے اس منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دوہرانا شروع کر دیا۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۶۴)

مندرجہ بالا تینوں اقتباسات سے صاف طور پر عیاں ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اشتہار ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو مسودہ اور دعائے مباہلہ ہی قرار دیا ہے اور ثناء اﷲ کے انکار کو انکارِ مباہلہ کے لقب سے موسوم کیا ہے۔ پس ثناء اﷲ کا یہ کہنا کہ حضرت ؑ نے اس کو دعائے مباہلہ قرار نہیں دیا سر تا سر دھوکہ ہے۔

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حافظ محمد حسن مرحوم اہلحدیث لاہور کے مطالبہ کے جواب میں مندرجہ ذیل حلفی بیان دیا:۔

’’میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں کہ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقا بلہ پر اس اعلان کے مطابق آتے جو آپ نے مولوی ثناء اﷲ صاحب کے خلاف ۱۹۰۷ء میں کیا تھا تو وہ ضرور ہلاک ہوتے، اور مجھے یہ یقین ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات پر جو میں نے مضمون لکھا تھا اس میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کے متعلق جو کچھ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھا تھا وہ دعاء مباہلہ تھی۔ پس چونکہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے اس کے مقابل پر دعا نہیں کی بلکہ اس کے مطابق فیصلہ چاہنے سے انکار کر دیا وہ مباہلہ کی صورت میں تبدیل نہ ہوئی اور مولوی صاحب عذاب سے ایک مدت کے لئے بچ گئے۔ میری اس تحریر کے شاہد میری کتاب ’’صاقوں کی روشنی‘‘ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی (ایڈیشن اول ۲؍ جولائی ۱۹۰۸ء شائع شدہ) کے یہ فقرات ہیں:۔

’’مگر جب کہ اس کے انکار مباہلہ سے وہ عذاب اور طرح سے بدل گیا تو اس نے منسوخ شدہ فیصلہ کو پھر دہرانا شروع کر دیا‘‘۔ نیز ’’اگر وہ ایسا کرتا تو خداوند تعالیٰ اپنی قدرت دکھلاتا اور ثناء اﷲ اپنی گندہ دہانیوں کا مزہ چکھ لیتا۔‘‘ (صادقوں کی روشنی صفحہ ۳۰) غرض میرا یہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا دعاء مباہلہ تھی لیکن بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا وہ دعاء مباہلہ نہیں تھی اور اﷲ تعالیٰ نے عذاب کے طریق کو بدل دیا۔‘‘

خاکسار

مرزا محمود احمد

جملہ خبرِیّہ

مولوی ثناء اﷲ صاحب کہا کرتے ہیں کہ ’’آخری فیصلہ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۷۹ از الشرکۃ الاسلامیۃ) کے اشتہار میں سب جملے خبریہ ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اشتہار بطور پیشگوئی کے ہے۔ نیز حضرت کا الہام ہے اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (الہام مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء تذکرہ صفحہ ۶۴ مطبوعہ ۲۰۰۴ء، مطبوعہ بدر جلد ۶ نمبر ۱۶۔ ۱۸؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ والحکم ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲)

۱۔ اس کا جواب یہ ہے جب حضرتؑ نے اس میں صاف طور پر لکھدیا ہے کہ’ ’یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں محض دعا کے طور پر میں نے فیصلہ چاہا ہے۔‘‘ پھر اس کو کس طرح پیشگوئی قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور پھر ’’دعا‘‘ کو ’’جملہ خبریہ‘‘ قرار دینا بھی ثناء اﷲ جیسے ’’عالم‘‘ کے سوا اور کسی کا کام نہیں کیونکہ ’’دعا‘‘ کبھی جملہ خبریہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ہمیشہ ’’جملہ انشائیہ‘‘ ہوتا ہے۔

۲۔ حضرتؑ کا الہام اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ …… اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ اس دعا کے متعلق ہے تو پھر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ دعائے مباہلہ تھی جس کا نتیجہ اس صورت میں نکلنا تھا کہ فریقین اس پر متفق ہوجاتے اور اس کی منظوری کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ اگر فریق ثانی نے اس طریق فیصلہ کو منظور کر لیا تو یقینا یقینا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ جیسا کہ آنحضرتؐ نے نجران کے مفرور عیسائیوں کے متعلق فرمایا ہے کہ لَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی کُلِّھِمْ حَتّٰی یَھْلِکُوْا (تفسیر کبیررازی زیر آیت نمبر۶۲ سورۃ آل عمران ) گویا آنحضرتؐ کی طرف سے جو دعا (آل عمران:۶۲) قرآنِ مجید میں مذکور ہے اس کو اﷲ تعالی نے قبول فرما لیا۔ اور اگر عیسائی اس طریق فیصلہ کو منظور کرلیتے تو وہ یقینا یقینا ہلاک ہو جاتے۔

لطیفہ ثناء اﷲ:۔ آپ لوگ تو مجھ کو ابوجہل کہا کرتے ہیں۔ خدا نے مرزا صاحب کی دعا کے اثر کو ابوجہل کی خواہش کے مطابق کیوں بدل دیا؟ ابو جہل تو آنحضرتؐ سے پہلے مر گیا تھا۔

احمدی:۔ اگر محض یہ دعا ہوتی تو نہ ٹلتی۔ وہ دعائے مباہلہ تھی جس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سچے کے بالمقابل جھوٹے فریق کی منظوری بھی ضروری ہے (جس کی تفصیل اوپر مذکور ہے) لیکن ابو جہل اول نے تو بددعا کی تھی کہ اے اﷲ اگر آنحضرتؐ سچے ہیں تو مجھ کو ہلاک کر۔ اس سے وہ ہلاک ہوگیا تم بھی ذرا اسی قسم کی بددعا کرو، پھر اگر بچ جاؤ تو ہم تمہیں ’’ابوجہل‘‘ نہیں کہیں گے۔ تم ’’ابوجہل‘‘ کے لقب پر فخر کیا کرتے ہو، ذرا ابوجہل کی مماثلت کو پورا بھی کرو تو بات ہے۔ بددعا کر کے پھر بچ کر یہ ثابت کیوں نہیں کر دیتے کہ درحقیقت تم ابوجہل نہیں ہو؟

ایک اور ثبوت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک مولوی ثناء اﷲ اشتہاراآخری فیصلہ کو ’’دعائے مباہلہ‘‘ اور ’’مسودہ مباہلہ‘‘ ہی سمجھتا رہا۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ۱۵؍ اپریل۱۹۰۷ء (تاریخ دعا) سے ایک سال کا عرصہ گذر گیا تو حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے چند دن پہلے اپنے ایک مضمون میں جو مرقع قادیانی میں پہلی جون کو چھپا لکھتا ہے:۔

’’مرزائی جماعت کے جوشیلے ممبرو! اب کس وقت کے منتظر ہو۔ تمہارے پیر مغاں کی مقرر کردہ مباہلہ کی میعاد کا زمانہ تو گذر گیا۔‘‘

(مرقع قادیانی یکم جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۸)

گویا وہ اس اشتہار کو دعا مباہلہ ہی قرار دیتا ہے، مگر کہتا ہے کہ دیکھ لو میں ایک سال میں نہیں مرا اور نہ مرزا صاحب فوت ہوئے۔ لہٰذا وہ دعا بے اثر گئی لیکن جب بعد ازاں حضور ؑ فوت ہوگئے تو جھٹ کہنے لگ گیا کہ مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا صاحبؑ فوت ہوئے ہیں۔ اس پر جب اسے پکڑا گیا کہ مباہلہ تو اس صورت میں ہوتا کہ تم بھی اس کا اقرار کر کے بددعا کرتے، تو (اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے) جھٹ پینترا بدلا۔ اور اب یہ کہتا ہے کہ وہ مباہلہ کی دعا نہیں تھی، بلکہ یک طرفہ دعا تھی۔ سچ ہے جیسا کہ حضرت فرماتے ہیں۔

بدگمانی نے تمہیں مجنون واندھا کردیا

ورنہ تھے میری صداقت پر براہیں بیشمار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱۔و۔ درثمین اردو صفحہ ۱۲۰)

۴۔ اپنی عمر کے متعلق پیشگوئی
 
Top Bottom