اعتراض۔ عبد اللہ آتھم کے بارے میں موت کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی ۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
یہ ثابت کرنے کے لیے کہ حقیقی اور سچا مذہب خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے او ریہ کہ موجودہ عیسائیت کسی صورت میں بھی اس مذہب کی قائمقام نہیں ہوسکتی جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاک ہاتھوں سے قائم ہوا تھا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو عیسائیت پر کھلا کھلا غلبہ عطا کیا۔

عیسائیوں نے اپنے نمائندہ ڈپٹی عبداﷲ آتھم کو جون ۱۸۹۳ء میں خدا کے مسیح موعودؑ کے بالمقابل کھڑا کیا۔ جب اس پر دلائل بیّنہ اور براہین قاطعہ کی رو سے کامل طور پر حجت ہوچکی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدائے بزرگ و برتر سے اطلاع پاکر اعلان فرمایا کہ ڈپٹی عبد اﷲ آتھم نے ہمارے آقا و سردار حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو نعوذ باﷲ ’’دجال‘‘ (اندرونۂ بائبل از پادری عبد اﷲ آتھم ڈپٹی۱۸۹۳ء)کہا ہے۔اس لئے اس جرم کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا ہے کہ ’’اگر وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ تو پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس یہ ثابت ہوگا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بے انتہا غیرت ہے او ر یہ کہ اس کے نزدیک سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ خدا کے پیارے مسیح موعود ؑ کی یہ ہیبت ناک پیشگوئی شائع کردی گئی اور اس میں آتھم کو ہلاکت سے بچنے کا طریق بھی بتلادیا گیا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع کرے گا تو اس ہلاکت سے بچ جائے گا۔

پیشگوئی کا شائع ہونا تھا کہ ڈپٹی آتھم کے لیے جس ہاویہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔ وہ توبہ اور استغفار، دعا اور رجوع میں لگ گیا۔ وہ اس گستاخی کے لیے جو اس نے پاکبازوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں کی تھی روتا اور گڑگڑاتا رہا۔ وہ برابر پندرہ ماہ تک انتہائی پریشانی سراسیمگی اور بد حواسی کے ساتھ دربدر پھرتا رہا۔ وہی عیسائیت جس کی اشاعت اور تبلیغ (اس پیشگوئی سے قبل) اس کی غذا تھی اب اس کو موت کا پیالہ نظر آتی تھی۔ وہی اسلام اور بانی ٔ اسلام جن کی تردید کرنا اور جن کو گالیاں دینا وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا تھا اب اس کی نظر میں اس قدر قابلِ اعتراض و تردید نظر نہ آتے تھے۔

وہی عبد اﷲ آتھم جس کے لیے ایک دن بھی عیسائیت کی تبلیغ او ر اسلام کی تردید کے بغیر گزارنا غیر ممکن تھا متواتر پندرہ مہینے ایک غیر منقطع سکوت اور لا متناہی خاموشی کے ساتھ شہر بہ شہر پھرتا رہا اور ایک حرف بھی اپنی زبان سے اسلام یا بانی ٔ اسلام کے خلاف نہیں نکالا۔

یہ معنی خیز خاموشی، حیرت انگیز سکوت او ر عبرت ناک سراسیمگی اسلام اور خدا کے مسیح موعود ؑ کی صداقت پر زبردست دلیل تھی اور اس طرح سے عبد اﷲ آتھم کا پندرہ ماہ کا عرصہ گزارنا سعید الفطرت انسانوں کے لیے یقینا یقینا خدا کے زبردست مگر رحمدل ہاتھ کی کرشمہ نمائی کا زبر دست ثبوت تھا۔ مگر نور کے دشمنوں نے اس سے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنی شرمندگی کو مٹانے کے لیے یہ مشہور کرنا شروع کردیا کہ عبداﷲ آتھم نے درحقیقت رجوع نہیں کیا تھا اور یہ کہ خدا کے مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی نعوذ باﷲ جھوٹی نکلی۔ خدا کا مسیح موعود ؑ ایک دفعہ پھر خدا کی طرف سے حجت باہرہ اور دلائل بینہ کی تلوار ہاتھ میں لے کر میدا ن میں نکلا اور عبد اﷲ آتھم ہی کے ذریعہ ایک دوسرے نشان سے صاف اور واضح طور پر اس بات پر مہر ثبت کردی کہ سچا اور حقیقی دین خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پے درپے اشتہارات شائع کئے کہ اگر تم لوگ اس دعویٰ میں سچے ہو کہ عبد اﷲ آتھم نے رجوع نہیں کیا تو تم اسے کہو کہ وہ حلف اٹھا کر کہہ دے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اگر اس حلف کے بعد وہ ایک سال تک زندہ رہ جائے تو میں جھوٹا ہوں۔ آپ نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ چارہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ عبد اﷲ آتھم ہرگز قسم نہیں کھائے گا۔ کیونکہ اس سے زیادہ اس بات کوکوئی نہیں جانتا کہ اس نے فی الحقیقت حق کی طرف رجوع کیا، لیکن اگر اب آتھم عیسائیوں کے اس قول کی تردید نہ کرے اور نہ قسم کھائے تو بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں۔

’’ اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور آگے کچھ نہیں۔‘‘

(انوار الاسلام۔روحانی خزائن جلد۹ صفحہ۱۶،۱۷)

’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا…… اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ ۱۰۶۔ اشتہار مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ء)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ساتویں اشتہار مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۵ء میں ’’مسٹر آتھم اور پادری فتح مسیح‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار دیا جس میں آتھم کے متعلق تحریر کیا کہ ’’اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان کو ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لیے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔‘‘ چنانچہ آتھم کے قسم نہ کھانے اور سات اشتہارات پر سات دفعہ انکار کرنے کے بعد آخر ساتویں اشتہار کو ابھی سات مہینے نہیں گزرے تھے کہ آتھم ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور راہی ملک عدم ہوا۔‘‘

خدا تعالیٰ نے آتھم کے ذریعہ سے اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت پر زندگی اور موت کے دو نشان ظاہر فرمائے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف رجوع کرنے سے آتھم نے پندرہ ماہ کے عرصہ میں ’’زندگی‘‘ پائی اور اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے نشان کو چھپانے کے نتیجہ میں اسے ’’موت‘‘ حاصل ہوئی۔ اور اس نشان میں اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعتِ حقیقی زندگی بخشتی ہے۔ او ر آپ کی مخالفت ایک موت کا پیالہ ہے جس کا پینے والا روحانی موت سے بچ نہیں سکتا۔
 
Top Bottom