اعتراض:۔کیا ’’ٹیچی ٹیچی ‘‘بھی فرشتہ ہوتا ہے؟
جواب:۔اوّل تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے حضرت اقدسؑ نے کہیں بھی تحریر نہیں فرمایاکہ وہ ’’فرشتہ‘‘ تھا ۔بلکہ اسے فرشتہ نما انسان قرار دیا ہے، لیکن تم ذرا یہ بتاؤ کہ کیا فرشتے کانے بھی ہوا کرتے ہیں؟ بخاری میں ہے:۔’’عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ اُرْسِلَ مَلَکُ الْمَوْتِ اِلٰی مُوْسٰی عَلَیْھِمَا السَّلَامَ فَلَمَّا جَاءَ ہٗ صَکَّہٗ فَرَجَعَ اِلٰی رَبِّہٖ فَقَالَ اَرْسَلْتَنِیْ اِلٰی عَبْدٍ لَا یُرِیْدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْہِ عَیْنَہٗ وَقَالَ اِرْجِعْ فَقُلْ لَہٗ یَضَعْ یَدَہٗ عَلٰی مَتَنِ ثَوْرٍ فَلَہٗ بِکُلِّ مَاغَطَّتْ بِہٖ یَدُہٗ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ سَنَۃٌ قَالَ اَیْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ الْمَوْتُ۔‘‘
(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مَنْ اَحَبَّ الدَّفْنَ فِی الْاَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ نیز مشکوٰۃ کتاب احوال القیامۃ و بدء الخلق باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء )
اس کا ترجمہ تجرید بخا ری اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور سے نقل کیا جاتا ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت حضرت موسٰی ؑ کے پاس بھیجا گیا جب وہ آیا تو موسیٰ ؑ نے اسے ایک طمانچہ مارا ۔جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی ۔پس وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔اﷲ نے اس کی آنکھ دوبارہ عنایت کی اور ارشاد ہوا پھر جا کر ان سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں ۔پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ۔ہر بال کے عوض میں انہیں ایک ایک سال زندگی دی جائے گی۔ حضرت موسٰی ؑ بولے اے پروردگار ! پھر کیا ہوگا اﷲ نے فرمایا پھر موت آئے گی۔جس پر موسٰی ؑ نے کہا تو پھر ابھی سہی۔‘‘ (تجرید البخاری اردو جلد اول صفحہ ۱۵۰)
بھلا ’’ٹیچی ‘‘تو محض نام ہے ۔ تم تو عملاً عزرائیل کو بھی کانا مانتے ہو۔
۲۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا بلکہ فرمایا ہے کہ ’’ فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔‘‘ (مکاشفات صفحہ ۳۸ ) نیز خواب میں جو اس فرشتہ نما انسان نے جو اپنا نام بتایا ہے وہ صرف ’’ٹیچی‘‘ ہے۔ مگر تم محض شرارت سے ’’ٹیچی ٹیچی ‘‘ کہتے ہو جو یہود کی مثل کا مصداق بننا ہے۔
(عزرائیل کو طمانچہ مار کر کانا کرنے کی حدیث بخاری کتاب بدء الخلق باب وفات موسٰی وذکرہ بعدہ۔نیز مسلم کتاب الفضائل باب فضائل موسٰی۔ نیز مشکوٰۃ کتاب باب بدء الخلق باب ذکر الانبیاء فصل الاوّل میں بھی موجود ہے۔
۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ بتایا ہے:۔
’’ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۴۶)
۴۔ اگریہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تو اس پر کیا اعتراض ہے ۔یہ تو ایک صفاتی نام ہے۔نبی کی اپنی زبان (پنجابی) میں ۔گویا خداتعالیٰ نے الہام کیا ہے اور تم اس پر ہنستے ہو اور مذاق اڑاتے ہو۔ اگر نبی کی اپنی زبان میں الہام نہیں ہوتا تو اس پر اعتراض کرتے ہو ۔کہ غیر زبان میں الہام کیوں ہوا۔ خداتعالیٰ نے تم کو اسی کشف کے ذریعہ سے ملزم اور ماخوذکیا ہے کہ تمہاری پنجابی زبان تو ایسی زبان ہے کہ غالباً اس کے اکثر حصہپر مذاق ہی مذاق اڑایا جاسکتا ہے۔اسی لئے عام طور پر خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو افصح الالسنہ (عربی) میں الہام کیا ۔کیونکہ ضرورت زمانہ اور ملہم کی فطرتی پاکیزگی مقتضی تھی کہ فصاحت اور بلاغت کا معجزہ اسے دیا جاتا مگر پنجابی زبان اس کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے آپ کو الہامات کا اکثر حصّہ عربی زبان میں ہوا۔
۵۔ باقی رہا تمہارا کہنا کہ اس نے جھوٹ بولا اور پہلے کہا میرا کوئی نام نہیں اور بعد میں دوبارہ پوچھنے پر اپنا نام بتایا۔
تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ ’’ٹیچی ‘‘ جیسا کہ بیان ہوا اس کا ذاتی نام (عَلَم) نہیں،بلکہ صفاتی نام ہے۔ گویا نفی ذاتی نام کی ہے اور اثبات صفاتی کا ۔جب اس نے کہا کہ میرا کوئی نام نہیں تو اس نے اپنے ذاتی نام (یعنی عَلَم) کی نفی کی۔اور جب اس سے کہا گیا کہ’’کچھ ‘‘تو بتاؤ۔تو اس نے اپنی ڈیوٹی (یعنی وقت پر پہنچ کر مدد کرنا) کو مدنظر رکھ کر اپنا صفاتی نام بتادیا۔اب اس کو جھوٹ کہنا انہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو انبیاء کو بھی جھوٹ بولنے کا عادی قرار دیا کرتے ہیں۔ گویا ہر بات میں ان کو جھوٹ ہی نظر آیا کرتا ہے۔(اس کی تفصیل آگے آئے گی۔)
۶۔بخاری شریف کے پہلے باب کی دوسری حدیث میں ہے :۔’’فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَحْیَانًا یَاْتِیْنِیْ مِثْلَ صَلْصَلَۃِ الْجرْسِ۔‘‘ (بخاری ۔کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی……) کہ اکثر دفعہ فرشتہ وحی لے کر ٹن ٹن ٹلی کی آواز کی طرح آتا ہے۔
یہ اب ’’ٹلی ٹلی‘‘ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ اس کی آمد کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔اسی طرح یہاں بھی ’’ٹیچی ‘‘اس کی صفت ہے ۔
۷۔ہاں فرشتوں کے نام ’’صفاتی ‘‘بھی ہوتے ہیں جو ان کے ذاتی نام (عَلَم) کے سوا ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے :۔’’اِسْمُ جِبْرِیْلِ عَبْدُاللّٰہِ وَاِسْمُ مِیْکَائِیْلِ عَبَیْدُاللّٰہِ وَاِسْمُ اِسْرَافِیْلِ عَبْدُالرَّحْمٰنِ۔ ‘‘(دیلمی صفحہ ۵۵ باب الالف راوی ابو امامۃ ؓ )کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل کا نام عبداﷲ ہے اور حضرت میکائیل کا نام عبیداﷲ اور حضرت اسرافیل کا نام عبدالرحمن ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :۔
’’ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا۔ اس وقت مجھ کو معراج ہوئی…… جبرائیل جو میرے ساتھی تھے انہوں نے مجھ کو آسمان دنیا کے دروازہ پر چڑھایا جس کا نام باب الحفظ ہے اور اس کا دربان ایک فرشتہ اسمٰعیل نام ہے۔ اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فرشتے ہیں۔‘‘
(سیرت ابن حشام جلد اوّل باب الاسرا ء والمعراج مترجم اردو صفحہ ۱۴۰ )
اس سے ثابت ہوا کہ فرشتوں کے صفاتی نام بھی ہوتے جو ان کی ڈیوٹیوں کے اعتبار سے لگائے گئے ہیں۔ اب حضرت جبرائیل ؑ کا نام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے’’عبداﷲ ‘‘بتایا ہے۔ اگر کوئی ازراہِ تمسخر شرارت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق یہ کہے کہ ’’ میاں عبداﷲ‘‘۔’’میاں اسمٰعیل‘‘ یہ وحی لایا ہے ۔تو جو جواب تمہارا سو وہی ہمارا۔ سمجھ لو۔
جواب:۔اوّل تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے حضرت اقدسؑ نے کہیں بھی تحریر نہیں فرمایاکہ وہ ’’فرشتہ‘‘ تھا ۔بلکہ اسے فرشتہ نما انسان قرار دیا ہے، لیکن تم ذرا یہ بتاؤ کہ کیا فرشتے کانے بھی ہوا کرتے ہیں؟ بخاری میں ہے:۔’’عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ اُرْسِلَ مَلَکُ الْمَوْتِ اِلٰی مُوْسٰی عَلَیْھِمَا السَّلَامَ فَلَمَّا جَاءَ ہٗ صَکَّہٗ فَرَجَعَ اِلٰی رَبِّہٖ فَقَالَ اَرْسَلْتَنِیْ اِلٰی عَبْدٍ لَا یُرِیْدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْہِ عَیْنَہٗ وَقَالَ اِرْجِعْ فَقُلْ لَہٗ یَضَعْ یَدَہٗ عَلٰی مَتَنِ ثَوْرٍ فَلَہٗ بِکُلِّ مَاغَطَّتْ بِہٖ یَدُہٗ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ سَنَۃٌ قَالَ اَیْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ الْمَوْتُ۔‘‘
(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مَنْ اَحَبَّ الدَّفْنَ فِی الْاَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ نیز مشکوٰۃ کتاب احوال القیامۃ و بدء الخلق باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء )
اس کا ترجمہ تجرید بخا ری اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور سے نقل کیا جاتا ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت حضرت موسٰی ؑ کے پاس بھیجا گیا جب وہ آیا تو موسیٰ ؑ نے اسے ایک طمانچہ مارا ۔جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی ۔پس وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔اﷲ نے اس کی آنکھ دوبارہ عنایت کی اور ارشاد ہوا پھر جا کر ان سے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں ۔پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ۔ہر بال کے عوض میں انہیں ایک ایک سال زندگی دی جائے گی۔ حضرت موسٰی ؑ بولے اے پروردگار ! پھر کیا ہوگا اﷲ نے فرمایا پھر موت آئے گی۔جس پر موسٰی ؑ نے کہا تو پھر ابھی سہی۔‘‘ (تجرید البخاری اردو جلد اول صفحہ ۱۵۰)
بھلا ’’ٹیچی ‘‘تو محض نام ہے ۔ تم تو عملاً عزرائیل کو بھی کانا مانتے ہو۔
۲۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فرشتہ تھا بلکہ فرمایا ہے کہ ’’ فرشتہ معلوم ہوتا تھا۔‘‘ (مکاشفات صفحہ ۳۸ ) نیز خواب میں جو اس فرشتہ نما انسان نے جو اپنا نام بتایا ہے وہ صرف ’’ٹیچی‘‘ ہے۔ مگر تم محض شرارت سے ’’ٹیچی ٹیچی ‘‘ کہتے ہو جو یہود کی مثل کا مصداق بننا ہے۔
(عزرائیل کو طمانچہ مار کر کانا کرنے کی حدیث بخاری کتاب بدء الخلق باب وفات موسٰی وذکرہ بعدہ۔نیز مسلم کتاب الفضائل باب فضائل موسٰی۔ نیز مشکوٰۃ کتاب باب بدء الخلق باب ذکر الانبیاء فصل الاوّل میں بھی موجود ہے۔
۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ بتایا ہے:۔
’’ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۴۶)
۴۔ اگریہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وہ کوئی فرشتہ تھا تو اس پر کیا اعتراض ہے ۔یہ تو ایک صفاتی نام ہے۔نبی کی اپنی زبان (پنجابی) میں ۔گویا خداتعالیٰ نے الہام کیا ہے اور تم اس پر ہنستے ہو اور مذاق اڑاتے ہو۔ اگر نبی کی اپنی زبان میں الہام نہیں ہوتا تو اس پر اعتراض کرتے ہو ۔کہ غیر زبان میں الہام کیوں ہوا۔ خداتعالیٰ نے تم کو اسی کشف کے ذریعہ سے ملزم اور ماخوذکیا ہے کہ تمہاری پنجابی زبان تو ایسی زبان ہے کہ غالباً اس کے اکثر حصہپر مذاق ہی مذاق اڑایا جاسکتا ہے۔اسی لئے عام طور پر خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو افصح الالسنہ (عربی) میں الہام کیا ۔کیونکہ ضرورت زمانہ اور ملہم کی فطرتی پاکیزگی مقتضی تھی کہ فصاحت اور بلاغت کا معجزہ اسے دیا جاتا مگر پنجابی زبان اس کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے آپ کو الہامات کا اکثر حصّہ عربی زبان میں ہوا۔
۵۔ باقی رہا تمہارا کہنا کہ اس نے جھوٹ بولا اور پہلے کہا میرا کوئی نام نہیں اور بعد میں دوبارہ پوچھنے پر اپنا نام بتایا۔
تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ ’’ٹیچی ‘‘ جیسا کہ بیان ہوا اس کا ذاتی نام (عَلَم) نہیں،بلکہ صفاتی نام ہے۔ گویا نفی ذاتی نام کی ہے اور اثبات صفاتی کا ۔جب اس نے کہا کہ میرا کوئی نام نہیں تو اس نے اپنے ذاتی نام (یعنی عَلَم) کی نفی کی۔اور جب اس سے کہا گیا کہ’’کچھ ‘‘تو بتاؤ۔تو اس نے اپنی ڈیوٹی (یعنی وقت پر پہنچ کر مدد کرنا) کو مدنظر رکھ کر اپنا صفاتی نام بتادیا۔اب اس کو جھوٹ کہنا انہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو انبیاء کو بھی جھوٹ بولنے کا عادی قرار دیا کرتے ہیں۔ گویا ہر بات میں ان کو جھوٹ ہی نظر آیا کرتا ہے۔(اس کی تفصیل آگے آئے گی۔)
۶۔بخاری شریف کے پہلے باب کی دوسری حدیث میں ہے :۔’’فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَحْیَانًا یَاْتِیْنِیْ مِثْلَ صَلْصَلَۃِ الْجرْسِ۔‘‘ (بخاری ۔کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی……) کہ اکثر دفعہ فرشتہ وحی لے کر ٹن ٹن ٹلی کی آواز کی طرح آتا ہے۔
یہ اب ’’ٹلی ٹلی‘‘ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ اس کی آمد کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔اسی طرح یہاں بھی ’’ٹیچی ‘‘اس کی صفت ہے ۔
۷۔ہاں فرشتوں کے نام ’’صفاتی ‘‘بھی ہوتے ہیں جو ان کے ذاتی نام (عَلَم) کے سوا ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے :۔’’اِسْمُ جِبْرِیْلِ عَبْدُاللّٰہِ وَاِسْمُ مِیْکَائِیْلِ عَبَیْدُاللّٰہِ وَاِسْمُ اِسْرَافِیْلِ عَبْدُالرَّحْمٰنِ۔ ‘‘(دیلمی صفحہ ۵۵ باب الالف راوی ابو امامۃ ؓ )کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل کا نام عبداﷲ ہے اور حضرت میکائیل کا نام عبیداﷲ اور حضرت اسرافیل کا نام عبدالرحمن ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :۔
’’ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا۔ اس وقت مجھ کو معراج ہوئی…… جبرائیل جو میرے ساتھی تھے انہوں نے مجھ کو آسمان دنیا کے دروازہ پر چڑھایا جس کا نام باب الحفظ ہے اور اس کا دربان ایک فرشتہ اسمٰعیل نام ہے۔ اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ بارہ ہزار فرشتے ہیں۔‘‘
(سیرت ابن حشام جلد اوّل باب الاسرا ء والمعراج مترجم اردو صفحہ ۱۴۰ )
اس سے ثابت ہوا کہ فرشتوں کے صفاتی نام بھی ہوتے جو ان کی ڈیوٹیوں کے اعتبار سے لگائے گئے ہیں۔ اب حضرت جبرائیل ؑ کا نام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے’’عبداﷲ ‘‘بتایا ہے۔ اگر کوئی ازراہِ تمسخر شرارت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق یہ کہے کہ ’’ میاں عبداﷲ‘‘۔’’میاں اسمٰعیل‘‘ یہ وحی لایا ہے ۔تو جو جواب تمہارا سو وہی ہمارا۔ سمجھ لو۔