اعتراض۔ دنیا کی عمر 6000 سال اور مسیح و مہدی علیہ السلام کا چھٹے ہزار سال میں مبعوث ہونا ثابت نہیں۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
عمرِ دنیا اور حضر ت مسیح موعودؑ کی بعثت

اعتراض۔ دنیا کی عمر 6000 سال اور مسیح و مہدی علیہ السلام کا چھٹے ہزار سال میں مبعوث ہونا ثابت نہیں۔

مرزا صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب ہزار ہفتم سے گیارہ سال قبل پیدا ہوئے اور گیا رہ برس کے اندر ہی آپ فوت ہوئے کیونکہ آپ کی وفات کے قریب کی کتابوں میں یہی لکھاہے کہ ابھی ہزار ششم ختم نہیں ہوا۔ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲حاشیہ)

الجواب:اس کے جواب کے لئے مندرجہ ذیل حوالہ جات یاد رکھنے چاہئیں۔

۱۔حضرت مسیح موعود ؑ نے تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۴۷بقیہ حاشیہ پر یہ لکھا ہے:۔

’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کے رُو سے ۴۷۳۹ برس بعد میں مبعوث ہوئے۔…………آدم صفی اﷲ کی پیدائش کو آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کے وقت تک یہی مدت گذری تھی یعنی ۴۷۳۹ برس بحساب قمری۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۴۷بقیہ حاشیہ)

ان دونوں حوالوں میں ’’بعثت‘‘۔’’ وقت‘‘ اور’’ زمانہ‘‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیدائش یا چالیس برس کی عمر نہیں، بلکہ ’’وفات نبویؐ ‘‘ہے۔ جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام محولہ بالا عبارتوں کے آگے چل کر فرماتے ہیں:۔

’’حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے……۴۷۳۹ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہیں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۱،۲۵۲)

’’اس حساب کے رُو سے میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے ۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲حاشیہ)

۲۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تحریر فرمایا ہے کہ مسیح موعود ؑ کی ’’بعثت‘‘ ہزار ششم کے آخر میں ہوئی۔ (تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۸۶)

اس عبارت میں مسیح موعود کی ’’بعثت‘‘ سے مراد ماموریت نہیں بلکہ ’’پیدائش‘‘ ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔

’’پیدائش مسیح موعود ہزار ششم کے آخر میں ہے۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۸۶)

(نیز دیکھو لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۷ ایڈیشن اوّل نومبر۱۹۰۲ء، حقیقۃا لوحی صفحہ۲۱۰ سطر۳و ازالہ اوہام صفحہ ۶۸۱ایڈیشن اوّل)

۳۔تحفہ گولڑویہ سے ہی ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہزار ششم ختم ہوگیا۔ بلکہ ہفتم میں سے بھی نصف صدی سے زائد آپ کی زندگی میں گزر چکی تھی۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔

’’مدت ہوئی کہ ہزار ششم گذر گیا اوراب قریباً پچاسواں سال اس پر زیادہ جا رہا ہے۔ اور اب دنیا ہزار ہفتم کو بسر کر رہی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۲ حاشیہ)

۴۔چشمہ مسیحی۔روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۳۶ میں جو حضور ؑ نے چھٹے ہزار کو جاری ماناہے تو اس کا باعث یہ ہے کہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲ پر جو حضرت مسیح موعود ؑ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات تک ۴۷۳۹ برس تحریر فرمائے ہیں تو یہ قرآنی حساب یعنی سورۃ والعصر کے حروف ابجد کی بناء پر ہے۔ورنہ عام مروجہ اور مشہور تاریخیں جو عیسائیوں کے حساب کے مطابق ہیں۔ ان کی رو سے آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات تک ۴۶۳۶ برس بنتے ہیں۔

تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۲۵۲ ’’عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائیبل کا رکھا گیا ہے ۴۶۳۶ برس ہیں۔ یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک ۴۶۳۶ برس‘‘ اس حساب سے ۱۹۰۶ء (۱۳۲۴ھ)میں ۹۶۰ برس بنتے ہیں۔ یعنی ابھی چھٹا ہزار ہی جاری ثابت ہوتا ہے۔ پس چشمۂ مسیحی میں حضرت اقدس ؑ نے عیسائیوں کا یہی مروجہ حساب مراد لیا ہے۔ سورۃ العصر کے حروف ابجد والا حساب مراد نہیں۔(نیز دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰۱ایڈیشن اوّل)

اسی طرح حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ چونکہ عرب کی عادت میں یہ داخل ہے کہ وہ کسور کو حساب سے ساقط رکھتے ہیں اور مخل مطلب نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ سات ہزار سے اس قدر زیادہ بھی ہو جائے جو آٹھ ہزار تک نہ پہنچے۔ مثلاً دو تین سو برس اور زیادہ ہو جائیں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۱ بقیہ حاشیہ)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہل عرب کے جس قاعدہ کا ذکر کیا ہے اس کا ثبوت یہ ہے:۔

وَ جَآءَ فِیْ رَوَایَۃٍ اِنَّہٗ یَمْکُثُ خَمْسًا وَّ اَرْبَعِیْنَ……فَلَا یُنَا فِیْہِ حَدِیْثُ اَرْبَعِیْنَ لِاَنَّ النَّیْفَ کَثِیْرًا مَا یُحْذَفُ عَنِ الْعَشْرَاتِ۔

(نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی از علامہ محمد عبد العزیز الفرھاروی صفحہ ۵۸۷)

کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ مسیح موعود دنیا میں ۴۵ سال رہے گا (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عیسٰیؑ فصل نمبر۳)……پس یہ روایت اس حدیث کے مخالف نہیں ہے جس میں آتا ہے کہ وہ چالیس سال تک رہے گا۔ (درّ منثور زیر آیت۔ ان من اھل الکتاب نمبر۱۶۰ سورۃ النساء )

کیونکہ عام طور پر کسردہا کوں سے حذف کردی جاتی ہے۔

پس اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عبارت پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔
 
Top Bottom