اعتراض۔ حجر اسود منم ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ خواب میں کسی شخص نے میرے پاؤں کو بوسہ دیا۔میں نے کہا کہ حجرِ اسود میں ہوں۔
جواب:۔۱۔خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کی تشریح فرما دی ہے۔’’وَاِنِّیْ اَنَا الْحَجْرُالْاَسْوْدُ الَّذِیْ وُضِعَ لَہُ الْقُبُوْلُ فِی الْاَرْضِ وَالنَّاسُ یَمَسُّہُ یَتَبَرَّکُوْنَ ‘‘۔ اس پر حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’قَالَ الْمُعَبِّرُوْنَ اِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْحَجْرِ الْاَسْوَدِ فِیْ عِلْمِ الرُّوْیَااَلْمَرْءُ الْعَالِمُ الْفَقِیْہُ الْحَکِیْمُ‘‘ (الاستفتاء عربی صفحہ ۴۱)کہ میں وہ حجراسود ہوں جس کو خدا نے دنیا میں مقبولیت دی ہے اور جس کو لوگ برکت حاصل کرنے کے لئے چھوتے ہیں۔
حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔ کہ استادانِ فن تعبیر نے لکھا ہے کہ علم الرؤیا میں حجراسود سے مراد عالم، فقیہ اور حکمت والا انسان ہوتا ہے۔
گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس رؤیا کی تعبیر بھی فرمادی ہے۔
۲۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت علی ؓ کو فرماتے ہیں:۔’’یَا عَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَۃِ الْکَعْبَۃِ۔‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۳۱۴ باب الیاء)یعنی اے علی ؓ ! تو بمنزلہ کعبہ کے ہے۔
۳۔ حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:ـ۔
’’ حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن اب طالب کرم اﷲ وجہ…… خطبہ لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ میں اسم اﷲ سے لفظ دیا گیا ہوں ۔اور میں ہی اس اﷲ کا جَنْب (پہلو) ہوں جس میں تم نے افراط و تفریط کی ہے اور میں ہی قلم ہوں۔اور میں ہی لوح محفوظ ہوں اور میں ہی عرش ہوں اور میں ہی کرسی ہوں اور میں ہی ساتوں آسمان ہوں اور میں ہی ساتوں زمین ہوں۔‘‘
(مقدمۂ فصوص الحکم فصل ہشتم مترجم اردو صفح ۶۰ و۶۱)
۴۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
’’میں مدت تک کعبہ کا طواف کرتا رہا ،لیکن خدا جب خدا تک پہنچ گیا تو خانہ کعبہ میرا طواف کرنے لگا۔‘‘ (تذکرۃالاولیاء باب ۷۸ صفحہ ۲۹۷)
حضر ت با یزید بسطامیؒ کی عظمت شان
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرے کہ بایزید بسطامیؒ کا قول حجت نہیں لیکن یاد رکھنا چاہییکہ حضرت بو یزید رحمۃ اﷲ علیہ کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اس کاا قرار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت داتا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیفور بن بن علی بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا اور اس کی شان بہت بڑی ہے اس حد تک کہ جنید رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ:۔اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ یعنی ابو یزید ہمارے درمیان ایسا ہے جیسا کہ جبرائیل فرشتوں میں……اور تصوّف کے دس اماموں میں سے ایک یہ ہوئے ہیں اور اس سے پہلے علم تصوف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ تھا۔‘‘
(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۲۲ ذکر امام مشائخ تبع تابعین)
۵۔ حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں حضرت رابعہ بصریؒکی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک دوسری مرتبہ آپ ( حضرت رابعہ بصریؒ) حج کو جارہی تھیں ۔جنگل میں کیا دیکھتی ہیں کہ کعبہ مکرمہ آپ کے استقبال کو آرہا ہے ۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے کہا ۔’’مجھ کو مکان کی ضرورت نہیں صاحب مکان درکار ہے ۔کعبہ کے جمال کو دیکھ کر کیا کروں گی۔‘‘
(تذکرۃالاولیاء اردو نوا ں باب صفحہ ۵۴ مطبوعہ علمی پریس)
۶۔حضرت عطار رحمۃ اﷲ حضرت شبلی ؒکی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک دفعہ آگ لے کر کعبہ کی طرف چلے اور کہنے لگے ۔میں جاکر خانہ کعبہ کو جلاتا ہو تاکہ لوگ خداوندِکعبہ کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘ (تذکرۃالاولیاء چودھواں باب صفحہ ۱۲۲)
۷۔حضرت ابوالقاسم نصیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت لکھا ہے:۔
’’ایک دفعہ مکّہ میں لوگ طواف کر رہے تھے اور آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے۔آپ اسی وقت باہر جاکر لکڑیاں اور آگ لے آئے۔لوگوں نے پوچھا ۔یہ کیا حرکت ہے ؟ آگ اور لکڑیوں کا یہاں کیا کام؟ فرمایا کہ کعبہ کو جلا دوں گا تاکہ سب غافل لوگ خدا کی طرف رجوع کرلیں۔‘‘
(تذکرۃالاولیاء ترجمہ اردو باب ۹۴ صفحہ ۳۱۸)
جواب:۔۱۔خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کی تشریح فرما دی ہے۔’’وَاِنِّیْ اَنَا الْحَجْرُالْاَسْوْدُ الَّذِیْ وُضِعَ لَہُ الْقُبُوْلُ فِی الْاَرْضِ وَالنَّاسُ یَمَسُّہُ یَتَبَرَّکُوْنَ ‘‘۔ اس پر حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’قَالَ الْمُعَبِّرُوْنَ اِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْحَجْرِ الْاَسْوَدِ فِیْ عِلْمِ الرُّوْیَااَلْمَرْءُ الْعَالِمُ الْفَقِیْہُ الْحَکِیْمُ‘‘ (الاستفتاء عربی صفحہ ۴۱)کہ میں وہ حجراسود ہوں جس کو خدا نے دنیا میں مقبولیت دی ہے اور جس کو لوگ برکت حاصل کرنے کے لئے چھوتے ہیں۔
حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔ کہ استادانِ فن تعبیر نے لکھا ہے کہ علم الرؤیا میں حجراسود سے مراد عالم، فقیہ اور حکمت والا انسان ہوتا ہے۔
گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس رؤیا کی تعبیر بھی فرمادی ہے۔
۲۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت علی ؓ کو فرماتے ہیں:۔’’یَا عَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَۃِ الْکَعْبَۃِ۔‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۳۱۴ باب الیاء)یعنی اے علی ؓ ! تو بمنزلہ کعبہ کے ہے۔
۳۔ حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:ـ۔
’’ حضرت امیر المومنین امام المتقین علی ابن اب طالب کرم اﷲ وجہ…… خطبہ لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ میں اسم اﷲ سے لفظ دیا گیا ہوں ۔اور میں ہی اس اﷲ کا جَنْب (پہلو) ہوں جس میں تم نے افراط و تفریط کی ہے اور میں ہی قلم ہوں۔اور میں ہی لوح محفوظ ہوں اور میں ہی عرش ہوں اور میں ہی کرسی ہوں اور میں ہی ساتوں آسمان ہوں اور میں ہی ساتوں زمین ہوں۔‘‘
(مقدمۂ فصوص الحکم فصل ہشتم مترجم اردو صفح ۶۰ و۶۱)
۴۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
’’میں مدت تک کعبہ کا طواف کرتا رہا ،لیکن خدا جب خدا تک پہنچ گیا تو خانہ کعبہ میرا طواف کرنے لگا۔‘‘ (تذکرۃالاولیاء باب ۷۸ صفحہ ۲۹۷)
حضر ت با یزید بسطامیؒ کی عظمت شان
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرے کہ بایزید بسطامیؒ کا قول حجت نہیں لیکن یاد رکھنا چاہییکہ حضرت بو یزید رحمۃ اﷲ علیہ کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اس کاا قرار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت داتا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیفور بن بن علی بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا اور اس کی شان بہت بڑی ہے اس حد تک کہ جنید رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ:۔اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ یعنی ابو یزید ہمارے درمیان ایسا ہے جیسا کہ جبرائیل فرشتوں میں……اور تصوّف کے دس اماموں میں سے ایک یہ ہوئے ہیں اور اس سے پہلے علم تصوف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ تھا۔‘‘
(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۲۲ ذکر امام مشائخ تبع تابعین)
۵۔ حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں حضرت رابعہ بصریؒکی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک دوسری مرتبہ آپ ( حضرت رابعہ بصریؒ) حج کو جارہی تھیں ۔جنگل میں کیا دیکھتی ہیں کہ کعبہ مکرمہ آپ کے استقبال کو آرہا ہے ۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے کہا ۔’’مجھ کو مکان کی ضرورت نہیں صاحب مکان درکار ہے ۔کعبہ کے جمال کو دیکھ کر کیا کروں گی۔‘‘
(تذکرۃالاولیاء اردو نوا ں باب صفحہ ۵۴ مطبوعہ علمی پریس)
۶۔حضرت عطار رحمۃ اﷲ حضرت شبلی ؒکی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک دفعہ آگ لے کر کعبہ کی طرف چلے اور کہنے لگے ۔میں جاکر خانہ کعبہ کو جلاتا ہو تاکہ لوگ خداوندِکعبہ کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘ (تذکرۃالاولیاء چودھواں باب صفحہ ۱۲۲)
۷۔حضرت ابوالقاسم نصیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت لکھا ہے:۔
’’ایک دفعہ مکّہ میں لوگ طواف کر رہے تھے اور آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے۔آپ اسی وقت باہر جاکر لکڑیاں اور آگ لے آئے۔لوگوں نے پوچھا ۔یہ کیا حرکت ہے ؟ آگ اور لکڑیوں کا یہاں کیا کام؟ فرمایا کہ کعبہ کو جلا دوں گا تاکہ سب غافل لوگ خدا کی طرف رجوع کرلیں۔‘‘
(تذکرۃالاولیاء ترجمہ اردو باب ۹۴ صفحہ ۳۱۸)