اعتراض۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توہین ہے ۔ ۳۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
جواب (۱)’’توحید‘‘ اور ’’تفرید‘‘ مصدر ہیں۔ جن کا ترجمہ ہوگا ’’واحد جاننا‘‘ اور ’’یکتا جاننا‘‘۔ پس الہام کا مطلب یہ ہے کہ تُو خدا کو واحد اور یکتا جاننے کے مقام پر ہے۔ یعنی اپنے زمانہ میں سب سے بڑا موحد ہے۔ فلااعتراض؟

(۲)حضرت مرزا صاحب نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں :۔

’’ تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفرید کو۔‘‘

(اربعین نمبر ۳۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۱۳)

(۳)حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے :۔

’’تاجِ کرامت میرے سر پر رکھ کر توحید کادروازہ مجھ پر کھول دیا۔ جب مجھ کو میری صفات کے اس کی صفات میں مل جانے کی اطلاع ہوئی تو اپنی خودی سے مشرف فرما کر اپنی بارگاہ سے میرا نام رکھا۔ دُوئی اٹھ گئی اور یکتائی ظاہر ہوگئی۔ پھر فرمایا کہ جو تیری رضا وہی میری رضا ہے ۔……حالت یہاں تک پہنچی کہ ظاہر وباطن سرائے بشریت کو خالی پایا۔ سینۂ ظلمانی میں ایک سوراخ کھول دیا ۔مجھ کو تجرید اور توحید کی زبان دی ۔تو اب ضرور میری زبان لُطفِ صمدی سے اور میرا دل نُورِ ربّانی سے اور آنکھ صنعت یزدانی سے ہے ۔اسی کی مدد سے کہتا ہوں اور اسی کی قوت سے پھرتا ہوں ۔جب اس کے ساتھ زندہ ہوں تو ہرگز نہ مروں گا ۔جب اس مقام پر پہنچ گیا ۔تو میرا اشارہ ازلی ہے اور عبادت ابدی۔ میری زبان، زبانِ توحیدہے اور روح، روحِ تجرید ۔اپنے آپ سے نہیں کہتا کہ بات کرنے والا ہوں اور نہ آپ کہتا ہوں کہ ذکر کرنے والا ہوں۔ زبان کو وہ حرکت دیتا ہے ۔میں درمیان میں ترجمان ہوں۔ حقیقت میں وہ ہے نہ میں۔‘‘

(ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء ۔چودھواں باب۔ ذکر معراج شیخ بایزید بسطامی ؒ مطبوعہ مطبع اسلامیہ لاہور ’’بارسوم‘‘ صفحہ ۱۶۵،۱۵۷۔وتذکر ۃ الاولیاء اردوشائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سننر مطبوعہ مطبع علمی لاہور صفحہ ۱۳۰)

نوٹ :حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کی عظیم شخصیت کے متعلق نوٹ دوسری جگہ زیرِعنوان ’’حجر اسود منم‘‘ صفحہ ۶۶۲و۶۴۶پر ملاحظہ فرمائیں ۔
 
Top Bottom