کفارہ پر ایمان لانے سے خرابیاں
(۱) دعا کا مسئلہ فضول جاتا ہے
(۲) گناہ پر دلیری۔عیسائی گناہ کرے یسوع بخشوا دے گا۔ (یوحنا ۲/۱ )
(۳) نبی کو *** ماننا پڑتا ہے
(۴) توریت کا انکار کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ اس میں کفارہ کا ذکر نہیں
(۵) خدا غیر عادل ٹھہرتا ہے کہ نا حق اپنے بیٹے کو سولی دی۔
۳۵۔ (یسعیاہ ۵۵/۷)۔’’وہ جو شریر ہے اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو۔اور خداوند کی طرف پھرے کہ وہ اس پر رحم کرے گا۔ اور ہمارے خدا کی طرف کہ وہ کثرت سے معاف کرے گا۔‘‘ اس میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ ترکِ گناہ بتایا ہے نہ کہ کفارہ۔
۳۶۔ اگر کفارہ سچ ہے تو خدا رحیم نہیں۔کیونکہ اس نے بہر حال سزا دے لی۔پھر وہ رحم کہاں برتتا ہے؟عیسائیوں کے مزعومہ عدل کو پورا کر لیا۔
۳۷۔ سزا کی غرض بندہ کی اصلاح ہے۔ بیٹے کو سزا دے کر بندے کی کیا اصلاح ہوئی۔اس سے خدا تو خوش نہیں ہوتا ۔نہ نیکی سے اسے فائدہ ہے اور نہ بدی سے کوئی نقصان۔پس اصل غرض سزا کی اصلاح نفس ہے۔جب وہ نہ ہوئی تو کفارہ بے فائدہ۔نیز کفارہ ساز گناہ کی سزا کی غرض سے ناواقف معلوم ہوتا ہے۔
۳۸۔ یسوعی کہتے ہیں کہ کفارہ ہو سکتا ہے۔جیسے ایک بادشاہ کا قرض دار جب اپنا قرض ادا نہ کر سکے تو بادشاہ کا بیٹا اگر اس قرض کو ادا کردے تو وہ چھوٹ جاتا ہے ۔اسی طرح جب لوگوں کے گناہ بیٹے نے اٹھا لیے تو وہ سزا سے بری ہو گئے۔مگر اتنا نہیں سوچا کہ جب بیٹا اتنا اختیار رکھتا ہے کہ اپنے خزانے سے دے دے اور رحم کرتا ہے تو کیا بادشاہ رحم نہیں کرسکتا؟
۳۹۔ گناہوں کی معافی کے ذرائع۔ (۲تواریخ ۱۲تا۷/۱۴) اپنے تئیں عاجز کرنا، دعا مانگنا، خدا کا مونہہ ڈھونڈنا، برے راہوں سے پھرنا۔اگر یہ ذرائع انسان اختیار کرے تو بغیر کفارہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔
۴۰۔ (متی ۱۲/۳۱)۔روح کے خلاف کا کفر معاف نہ ہوگا۔اس سے معلوم ہوا کہ یسوع کے نزدیک گناہ دو قسم کے ہیں۔صغائراورکبائر۔کبائر بغیر سزا کے معاف نہیں ہو سکتے۔ پس کفارہ باطل۔کیونکہ کفارہ سب گناہوں کو یکساں معاف کرتا ہے۔
۴۱۔ (متی ۷/۱۳)۔ نجات کی راہ مشکل اور تنگ بتایا ہے۔جو بہت محنت اور جانفشانی کا کام ہے حا لانکہ کفارے کی راہ تو تنگ نہیں جو مرضی آئے کرے پس کفارہ نجات کے لیے نہیں۔
۴۲۔ خدا قربانی پسند نہیں کرتابلکہ رحم پسند کرتا ہے۔(متی ۱۲/۷) لہٰذا کفارہ باطل ہے۔
۴۳۔ کفارہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ’’اعمال‘‘ کی قطعاً ضرورت نہیں۔مجرد’’ایمان‘‘ہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفارہ کے بانی (پولوس)نے شریعت کو ’’***‘‘ قرار دیا ہے۔جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے:۔
الف۔ ’’مسیح جو ہمارے لیے *** بنا۔اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا۔کیونکہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ *** ہے۔‘‘ (گلیتوں ۳/۱۳)
ب۔ ’’اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں۔ تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے ……مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی۔جس کی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔اس لیے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔مگر اس کے فضل کے سبب اس مخلصی کے وسیلے سے جو یسوع مسیح میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔اسے خدا نے اس کے خون کے باعث ایک کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو……کونسی شریعت کے سبب سے؟کیا اعمال کی شریعت سے؟نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے۔چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔‘‘ (رومیوں ۱۹ تا ۳/۲۹)
ج۔ جھوٹ جائز:۔یہی وجہ ہے کہ پولوس کہتا ہے:’’اگر میرے جھوٹ کے سبب سے خدا کی سچائی ۔اسکے جلال کے لیے ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گنہگار کی طرح مجھ پر حکم لگایا جاتا ہے۔‘‘ (رومیوں ۳/۷)
گویا اگر جھوٹ بول کر عیسا ئیت کی تبلیغ کی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
د۔ کفارہ کی آزادانہ تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ یسوع کے معاً بعد ہی عیسائیوں میں خطرناک طور پر بدکاری شروع ہوگئی تھی۔چنانچہ پولوس رسول عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے:۔
’’یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرامکاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرامکاری جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی۔چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے اور تم افسوس تو کرتے نہیں تاکہ جس نے یہ کام کیا تم میں سے نکالا جائے بلکہ شیخیاں مارتے ہو۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۲،۵/۱)
پس عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ کفارہ گناہ کو جڑ سے کاٹتا ہے باطل ہے۔
عیسائی:۔قرآن میں بھی کفارہ ہے جیسا کہ لکھا ہے:۔ (المائدۃ: ۹۰)
احمدی :۔ قرآن مجید میں لفظ کفارہ سزا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قسم توڑے اس کو سزا یہ ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔یا ان کو کپڑے پہنائے۔یا ایک غلام آزاد کرے۔مگر کفارہ کی سزا تو بے گناہ مسیح کو دی جاتی ہے اور گناہ کرنے والا آرام اور مزے سے پھرتا ہے۔
نوٹ:۔ بعض عیسائی’’حج بدل‘‘کو بھی پیش کر دیا کرتے ہیں۔سو یاد رکھنا چاہیے کہ حج بدل میں روپیہ اسی شخص کا ہوتا ہے جس کو حج بدل کا ثواب ملتا ہے لیکن یسوعی کفارہ میں خون تو مسیح کا بہایا گیا اور گناہ عیسائیوں کے معاف ہوئے۔پس فرق ظاہر ہے۔ ( خادمؔ)
(۱) دعا کا مسئلہ فضول جاتا ہے
(۲) گناہ پر دلیری۔عیسائی گناہ کرے یسوع بخشوا دے گا۔ (یوحنا ۲/۱ )
(۳) نبی کو *** ماننا پڑتا ہے
(۴) توریت کا انکار کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ اس میں کفارہ کا ذکر نہیں
(۵) خدا غیر عادل ٹھہرتا ہے کہ نا حق اپنے بیٹے کو سولی دی۔
۳۵۔ (یسعیاہ ۵۵/۷)۔’’وہ جو شریر ہے اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو۔اور خداوند کی طرف پھرے کہ وہ اس پر رحم کرے گا۔ اور ہمارے خدا کی طرف کہ وہ کثرت سے معاف کرے گا۔‘‘ اس میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ ترکِ گناہ بتایا ہے نہ کہ کفارہ۔
۳۶۔ اگر کفارہ سچ ہے تو خدا رحیم نہیں۔کیونکہ اس نے بہر حال سزا دے لی۔پھر وہ رحم کہاں برتتا ہے؟عیسائیوں کے مزعومہ عدل کو پورا کر لیا۔
۳۷۔ سزا کی غرض بندہ کی اصلاح ہے۔ بیٹے کو سزا دے کر بندے کی کیا اصلاح ہوئی۔اس سے خدا تو خوش نہیں ہوتا ۔نہ نیکی سے اسے فائدہ ہے اور نہ بدی سے کوئی نقصان۔پس اصل غرض سزا کی اصلاح نفس ہے۔جب وہ نہ ہوئی تو کفارہ بے فائدہ۔نیز کفارہ ساز گناہ کی سزا کی غرض سے ناواقف معلوم ہوتا ہے۔
۳۸۔ یسوعی کہتے ہیں کہ کفارہ ہو سکتا ہے۔جیسے ایک بادشاہ کا قرض دار جب اپنا قرض ادا نہ کر سکے تو بادشاہ کا بیٹا اگر اس قرض کو ادا کردے تو وہ چھوٹ جاتا ہے ۔اسی طرح جب لوگوں کے گناہ بیٹے نے اٹھا لیے تو وہ سزا سے بری ہو گئے۔مگر اتنا نہیں سوچا کہ جب بیٹا اتنا اختیار رکھتا ہے کہ اپنے خزانے سے دے دے اور رحم کرتا ہے تو کیا بادشاہ رحم نہیں کرسکتا؟
۳۹۔ گناہوں کی معافی کے ذرائع۔ (۲تواریخ ۱۲تا۷/۱۴) اپنے تئیں عاجز کرنا، دعا مانگنا، خدا کا مونہہ ڈھونڈنا، برے راہوں سے پھرنا۔اگر یہ ذرائع انسان اختیار کرے تو بغیر کفارہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔
۴۰۔ (متی ۱۲/۳۱)۔روح کے خلاف کا کفر معاف نہ ہوگا۔اس سے معلوم ہوا کہ یسوع کے نزدیک گناہ دو قسم کے ہیں۔صغائراورکبائر۔کبائر بغیر سزا کے معاف نہیں ہو سکتے۔ پس کفارہ باطل۔کیونکہ کفارہ سب گناہوں کو یکساں معاف کرتا ہے۔
۴۱۔ (متی ۷/۱۳)۔ نجات کی راہ مشکل اور تنگ بتایا ہے۔جو بہت محنت اور جانفشانی کا کام ہے حا لانکہ کفارے کی راہ تو تنگ نہیں جو مرضی آئے کرے پس کفارہ نجات کے لیے نہیں۔
۴۲۔ خدا قربانی پسند نہیں کرتابلکہ رحم پسند کرتا ہے۔(متی ۱۲/۷) لہٰذا کفارہ باطل ہے۔
۴۳۔ کفارہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ’’اعمال‘‘ کی قطعاً ضرورت نہیں۔مجرد’’ایمان‘‘ہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفارہ کے بانی (پولوس)نے شریعت کو ’’***‘‘ قرار دیا ہے۔جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے:۔
الف۔ ’’مسیح جو ہمارے لیے *** بنا۔اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا۔کیونکہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ *** ہے۔‘‘ (گلیتوں ۳/۱۳)
ب۔ ’’اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں۔ تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے ……مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی۔جس کی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔اس لیے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔مگر اس کے فضل کے سبب اس مخلصی کے وسیلے سے جو یسوع مسیح میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔اسے خدا نے اس کے خون کے باعث ایک کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو……کونسی شریعت کے سبب سے؟کیا اعمال کی شریعت سے؟نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے۔چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔‘‘ (رومیوں ۱۹ تا ۳/۲۹)
ج۔ جھوٹ جائز:۔یہی وجہ ہے کہ پولوس کہتا ہے:’’اگر میرے جھوٹ کے سبب سے خدا کی سچائی ۔اسکے جلال کے لیے ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گنہگار کی طرح مجھ پر حکم لگایا جاتا ہے۔‘‘ (رومیوں ۳/۷)
گویا اگر جھوٹ بول کر عیسا ئیت کی تبلیغ کی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
د۔ کفارہ کی آزادانہ تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ یسوع کے معاً بعد ہی عیسائیوں میں خطرناک طور پر بدکاری شروع ہوگئی تھی۔چنانچہ پولوس رسول عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے:۔
’’یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرامکاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرامکاری جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی۔چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے اور تم افسوس تو کرتے نہیں تاکہ جس نے یہ کام کیا تم میں سے نکالا جائے بلکہ شیخیاں مارتے ہو۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۲،۵/۱)
پس عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ کفارہ گناہ کو جڑ سے کاٹتا ہے باطل ہے۔
عیسائی:۔قرآن میں بھی کفارہ ہے جیسا کہ لکھا ہے:۔ (المائدۃ: ۹۰)
احمدی :۔ قرآن مجید میں لفظ کفارہ سزا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قسم توڑے اس کو سزا یہ ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔یا ان کو کپڑے پہنائے۔یا ایک غلام آزاد کرے۔مگر کفارہ کی سزا تو بے گناہ مسیح کو دی جاتی ہے اور گناہ کرنے والا آرام اور مزے سے پھرتا ہے۔
نوٹ:۔ بعض عیسائی’’حج بدل‘‘کو بھی پیش کر دیا کرتے ہیں۔سو یاد رکھنا چاہیے کہ حج بدل میں روپیہ اسی شخص کا ہوتا ہے جس کو حج بدل کا ثواب ملتا ہے لیکن یسوعی کفارہ میں خون تو مسیح کا بہایا گیا اور گناہ عیسائیوں کے معاف ہوئے۔پس فرق ظاہر ہے۔ ( خادمؔ)