از روئے قرآن کریم

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
دوسری دلیل:۔

(آل عمران:۵۶)

ترجمہ: جب فرمایا اﷲ تعالیٰ نے اے عیسیٰ ؑ میں ہی تجھے وفات دینے والا ہوں اور عزت دینے والا ہوں تجھ کو اور یہودِ نامسعود کے اعتراضات سے تجھے بری الذمہ کرنے والا ہوں اور تیرے ماننے والوں کو قیامت تک نہ ماننے والوں پر غالب کرنے والا ہوں۔

استدلال:۔ اﷲ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کو پہلے رکھا ہے، ہمارا کوئی حق نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی ترتیب کو بدلیں ورنہ اس کی حکمت پر الزام آئے گا کہ اس نے اس چیز کو جو پیچھے تھی بلاو جہ آگے کردیا (نعوذباﷲ)

دوم:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمسے پوچھا گیا کہ حضورؐ پہلے صفا کا طواف کریں گے یا مروہ کا۔ آپ نے فرمایا:۔ اَبْدَءُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اﷲ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔ پس ہمیں بھی وہی پہلے رکھنا چاہیے جس کو اﷲ تعالیٰ نے پہلے رکھا ہے۔ (نیز دیکھو محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۹۳ ناشر مطبع المکتبۃ السفلیۃ شیش محل روڈ لاہور۔ بحوالہ مسلم و جلالین)

سوم:۔ اگر مُتَوَفِّیْکَ کو پیچھے کیا جائے تو ساری ترکیب ہی درہم برہم ہوجائے گی اور صحیح طور پر مُتَوَفِّیْکَ کی کوئی جگہ نہ ہوگی۔ کیونکہ وعدہ نمبر۴ اب شروع ہے اور الی یوم القیامۃ رہے گا۔ تَوفِّیْ کے معنے اوپر گزر چکے ہیں اور رفع کے معنے (النساء:۱۵۹) کی بحث میں ملاحظہ کریں۔

غیر احمدی:۔ واؤ ترکیب کے لیے نہیں ہوتی جیسا کہ قرآن مجید کی آیت (النحل:۷۹) میں ہے۔

جواب:۔ آیت محولہ میں تو نہایت پرمعارف ترتیب ہے کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ہاں کان کھلے ہوتے ہیں، سن سکتا ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کے کان میں اذان دینے کا حکم ہے۔ پس اس و جہ سے قرآن مجید میں سَمْع(سننے کو)پہلے رکھا گیا ہے۔ دیکھنے کی وقت بعد میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے اَبْصَار کو بعد میں بیان کیا گیا ہے۔ اور چونکہ عقل اور سمجھ بہت بعد میں آتی ہے ا س لیے اﷲ تعالیٰ نے اَفْئِدَۃَ(دل)کو سب سے پیچھے رکھا ہے۔ ’’دل‘‘ عقل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔(الاعراف:۱۸۰) کہ ان کے دل ہیں مگر ان دلوں سے یہ سمجھتے نہیں۔ پس آیت قرآنی میں حد درجہ ایمان افروز ترتیب ہے اس طرح (البقرۃ:۵۹)میں بھی ہر دومقامات پر عدم ترتیب نہیں کیونکہ کہنا دروازے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی ہر دومقامات میں بیان ہوا ہے یعنی دروازے میں داخل ہونا اور کہنا قرآن مجید کی دونوں آیات اورمیں بیک وقت وقوع میں آنا بیان ہوا ہے۔ پس اس میں بھی تقدیم تاخیر کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پس حق اور سچ بات یہی ہے کہ انسان کے کلام میں توواؤ عالیہ اگر بغیر صحیح ترتیب کے مستعمل ہو تو ممکن ہے مگر اﷲ تعالیٰ کا کلام بغیر ترتیب کے نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ حیات مسیح کے باطل عقیدہ نے تم کو قرآن مجید کے مرتب اور مسلسل کتاب ہونے کا بھی منکر بنا دیا ہے۔ سچ ہے

؂خشت اوّل چوں نہد معمار کج تا ثریا مے رود دیوار کج

تیسری دلیل:۔

(المائدۃ:۷۶)

ترجمہ:۔ نہیں مسیح ابن مریم مگر ایک رسول البتہ آپ سے پہلے رسول سب فوت ہوچکے اور آپ کی والدہ راستباز تھی۔ وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے۔

استدلال:۔ اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ اور مریم کے ترک طعام کو ایک جگہ بیان فرماکر ظاہر کردیا کہ دونوں کے یکساں واقعات ہیں۔ اب مریم کے ترک طعام کی و جہ موت مسلّم ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیحؑ کے ترک طعام کی بھی یہی و جہ تھی کیونکہ ماضی استمراری ہے۔گویا اب نہیں کھاتے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الانبیاء:۹) یعنی ان (انبیاء)کو ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتا ہو یا ہمیشہ رہنے والا ہو۔ حدیث میں بھی آنحضرتؐ فرماتے ہیں وَلَا مُسْتَغْنِیْ عَنْہُ رَبَّنَا(بخاری کتاب الاطعمۃ باب ما یقول اذا فرغ من طعامہ) اے ہمارے رب ہمارے لئے اس سے استغناء نہیں ہوسکتا۔ پس بشر بصورت زندگی تو محتاج طعام ہے پس مسیح کا احتیاج سے سوائے موت کے بری ہونا کیونکر ممکن ہے؟

چوتھی دلیل:۔


(آل عمران:۱۴۵)

ترجمہ: آنحضرتؐ صرف ایک رسول ہیں آپ سے پہلے کے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ پس اگر یہ مرجائے یا قتل کیا جائے تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے۔

استدلال:۔ اس آیت میں آنحضرتؐ سے پہلے تمام رسولوں کی نسبت گزر جانے کی خبردی ہے اور گزر جانے کے طریق صرف دو قرار دیئے ہیں،موت اور قتل۔ یعنی بعض بذریعہ موت طبعی گزرے اور بعض بذریعہ قتل۔ اگر کوئی تیسری صورت گزر نے کی ہوتی تو اس کا بھی آیت میں ذکر ہوتا۔ مثلاً آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کی صورت جو مسیح کے متعلق خیال کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کی تائید تفسیروں کے ان حوالجات سے بھی ہوتی ہے جو زیر عنوان ’’خَلَا کے معنے تفسیر میں‘‘درج ہیں۔ (دیکھو صفحہ ۱۹۳)

اس آیت میں صاف لکھا ہے کہ آنحضرتؐ سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں یعنی فوت ہوچکے ہیں جن میں حضرت عیسیٰ ؑ بھی شامل ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چونکہ آیت (المائدۃ:۷۶) میں سے بظاہر مسیحؑ باہر رہ جاتے تھے، اﷲ تعالیٰ نے ان کی وفات کا بالتخصیص ذکر فرمانے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔


غیر احمدی عذرات کا جواب

مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے اس ضمن میں صفحہ ۵۷۶، ۵۷۷ پر جو ترجمہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۂ اولؓ کا جنگ مقدس، شہادۃ القرآن اور فصل الخطاب کے حوالہ سے دیا ہے کہ ’’کئی رسول‘‘ یا ’’بہت سے رسول‘‘۔ یہ غیر احمدیوں کے چنداں مفید طلب نہیں ہوسکتا کیونکہ اس ترجمہ سے باقی رسولوں کی نفی نہیں ہوتی۔ البتہ اگر چند رسول یا بعض رسول ہو تا تو کوئی بات بھی تھی ورنہ جس قدر رسول آنحضرتؐ سے قبل گزر چکے تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ ’’کئی‘‘ اور ’’بہت سے‘‘ تھے۔

غیر احمدی:۔ قرآن مجید میں آتا ہے (الرعد:۷) اس سے پہلے بہت سے عذاب گزر چکے ہیں۔ کیا یہاں خلا کے معنے موت ہیں؟

(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۶۰۹ ناشر المکتبۃ السفلیۃ شیش محل روڈ لاہور)

جواب:۔ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ خَلَا کا لفظ بصیغۂ ماضی جب انسانوں کے متعلق استعمال ہو تو ہمیشہ وفات یافتہ انسانوں ہی کے متعلق آتا ہے مگر کیا تمہاری پیش کردہ آیت میں مَثُلٰتُ (الرعد:۷) (عذاب) ذی روح ہے؟

محمدیہ پاکٹ بک کی پیش کردہ دوسری آیت (الرعد:۳۱) میں ہلاک شدہ قومیں ہی مراد ہیں، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ رعد میں فرمایا:۔

(ابراھیم:۱۰) یعنی کیا تمہیں ان قوموں کی خبر نہیں ملی جو تم سے پہلے تھیں یعنی قوم نوح، عاد،ثمود اور وہ لوگ جو ان کے بعد ہوئے جن کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا ان کے پاس رسول آئے تو انہوں نے ان کا انکار کیا۔

انہی اقوام کی تباہی اور ہلاکت کی تفصیل سورۂ ہود اور دوسری سورتوں میں متعدد مقامات پر قرآن مجید میں دی گئی ہے۔ پس تمہاری پیش کردہ سورۃ رعد والی آیت میں بھی کے معنے ہلاک شدہ ہی کے ہیں نہ کچھ اور۔

خَلَا کے معنی از روئے قرآن کریم

رَفَعَ اِلَی السَّمَاءِ خَلَا کے اندر داخل نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کا خلا کسی کا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی کہے کہ چونکہ آنحضرتؐ نے آسمان پر نہ جانا تھا اس لیے وہ ذکر نہ کیا گیا۔ تو ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت نے تو قتل بھی نہ ہونا تھا، جیساکہ اﷲ تعالیٰ وعدہ فرماچکا تھا (المائدۃ:۶۸) پھر قتل کا ذکر کیوں کیا۔ معلوم ہوا کہ رَفَع اِلَی السَّمَاءِ ۔ خَلَا میں شامل نہیں۔

دوم:۔ بہت جگہ یہ لفظ قرآن کریم میں موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، ملاحظہ ہو:۔

۱۔ دو(۲) مرتبہ (البقرۃ:۱۳۵، ۱۴۲)

۲۔ (المائدۃ:۷۶)

۳۔ (الرعد:۳۱)

۴۔ (حم السجدۃ:۲۶)

۵۔ (الاحقاف:۱۸)

۶۔ (الاحقاف:۱۹)

۷۔ (الاحقاف:۲۲)

۸۔ (یونس:۱۰۳)

۹۔ (النور:۳۵)

۱۰۔ (الاحزاب:۳۹)


خَلَا کے معنی ازلغتِ عرب

سوم:۔لغت سے خَلَا کے معنی مَاتَ کے ثابت ہیں:۔

خَلَا فُلَانٌ اِذَا مَاتَ(لسان العرب زیر مادہ ’’خلا‘‘)۔ خَلَا الرَّجُلُ اَیْ مَاتَ (اقرب الموارد زیر لفظ خلا)

خَلَا فُلَانٌ اَیْ مَاتَ (تاج العروس زیر لفظ خلا)

شعر کی مثال ؂

اِذَا سَیِّدٌ مِّنَّا خَلَا قَامَ سَیِّدٌ

قَؤُوْلٌ لِّمَا قَالَ الْکِرَامُ فُعُوْلٌ

(دیوان الحماسہ الأبی تمام جبیر بن اوس الطائی شاعر السموال بن عاد باب الحماسہ ناشر المکتبۃ السفلیۃ لاہور)

خلا کے معنی از تفاسیر

۱۔ تفسیر مظہری زیر آیت و ما محمد الا رسول……۔ قَدْ خَلَتْ۔ مَضَتْ وَ مَاتَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ فَسَیَمُوْتُ ھُوَ اَیْضًا۔ (ایضاً جلد۲ صفحہ ۱۴۷)

۲۔ تفسیر جامع البیان صفحہ۶۱۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ بِالْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ فَیَخْلُوْا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (ایضاً جز نمبر۱ صفحہ ۱۰۳)

۳۔ تفسیر بحر مواج جلد۱ صفحہ ۴۱۳۔ معنی این است کہ بدرستی از و پیغمبران گزشتہ اند وہمہ از جہان رفتہ اند۔

۴۔ تفسیر سراج منیر جلد۱ صفحہ ۲۵۱۔ فَسَیَخْلُوْا کَمَا خَلَوْا بِالْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ یعنی پہلے رسول یا مرگئے یا قتل ہوگئے اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہوں گے۔

۵۔تفسیر خازن زیر آیت و ما محمد الا رسول……۔ وَ مَعْنَی الْاَیَۃِ فَسَیَخْلُوْا مُحَمَّدٌ کَمَا خَلَتِ الرُّسُلُ مِنْ قَبْلِہٖ۔

۶۔ حضرت امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔

وَ حَاصِلُ الْکَلَامِ اَنَّہٗ تَعَالٰی بَیَّنَ اَنَّ قَتْلَہٗ لَا یُوْجِبُ ضُعْفًا فِیْ دِیْنِہٖ بَدَلِیْلَیْنِ۔

(اَلْاَوَّلُ) بِالْقِیَاسِ عَلٰی مَوْتِ سَائِرِ الْاَنْبِیَاءِ وَ قَتْلِھِمْ۔

(وَالثَّانِیْ) اَنَّ الْحَاجَۃَ اِلَی الرَّسُوْلِ لِتَبْلِیْغِ الدِّیْنِ وَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَا حَاجَۃَ اِلَیْہِ فَلَمْ یَلْزِمْ مِنْ قَتْلِہِ فَسَادُ الدِّیْنِ(تفسیر کبیر رازی زیر آیت ما کان لنفس ان تموت الا باذن اﷲ……) کہ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ آنحضرتؐ کے قتل ہوجانے سے آپ کے دین میں کوئی کمزوری واجب نہیں آتی۔ اوّل اس و جہ سے کہ تمام گزشتہ انبیاء کی موت اور قتل پرقیاس کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ دوسرے اس و جہ سے کہ نبی کی بعثت کی غرض تو تبلیغ دین ہوتی ہے۔ پس جب وہ تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرچکے تو پھر اس کو زندہ رکھنے کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔

۷۔ حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔ ’’یعنی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم محض رسول خدا ہیں۔ ان کے پہلے بھی رسول راہ رَوعالم آخرت ہوئے۔ کیا اگر حضرتؐ انتقال فرماگئے یا قتل کئے گئے تو تم پیچھے قدم ہٹ جاؤ گے۔ یعنی الٹی چال چلو گے۔ ‘‘

(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۳۷۔ باب۳ تصوف کے بیان میں ’’فارسی‘‘عشرت پبلشنگ اڈس ہسپتال روڈ انار کلی لاہور)

۸۔ تفسیر مدارک برحاشیہ خازن زیر آیت و ما محمد الا رسول……۔ خَلَتْ۔ مَضَتْ۔ فَسَیَخْلُوْا۔

۹۔ تفسیر کشاف زیر آیت و ما محمد الا رسول……۔ فَسَیَخْلُوْا کَمَا خَلَوْا۔ نبی کریمؐ کا خَلَا ویسے ہی ہوگا جیسے پہلوں کا ہوچکا ہے۔

۱۰۔ تفسیر قنوی علی البیضاوی صفحہ ۱۲۴۔ جلد۳۔ فَسَیَخْلُوْا کَمَا خَلَوْا بِالْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ…… اِنَّھُمُ اعْتَقَدُوْا اِنَّہٗ رَسُوْلٌ کَسَائِرِ الرُّسُلِ فِیْ اِنَّہٗ یَخْلُوْا کَمَا خَلَوْا رُدَّ عَلَیْھِمْ اِنَّہٗ لَیْسَ اِلَّا رَسُوْلًا کَسَائِرِ الرُّسُلِ فَسَیَخْلُوْا کَمَا خَلَوْا۔ یعنی لوگوں نے اعتقاد کیا کہ آنحضرتؐ فوت نہ ہوں گے تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ باقی رسول جب فوت ہوگئے تو یہ کیوں نہ فوت ہوں گے۔

اس آیت سے وفات مسیحؑ پر صحابہ کرامؓ کا اجماع

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات صدمہ آفات نے صحابہؓ کی کمر ہمت کو توڑ دیا۔ حتی کہ حضرت عمرؓ نے کہنا شروع کیا کہ جو کوئی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمکو فوت شدہ کہے گا اس کی گردن اڑادوں گا۔ چنانچہ بخاری کتاب النبیؐ الٰی کسرٰی و قیصر باب مرض النبیؐ و وفاتہٖ میں مندرجہ ذیل حدیث ہے:۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ اَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَرَجَ وَ عُمَرُ یُکَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اِجْلِسْ یَا عُمَرُ فَاَبٰی عُمَرُ اَنْ یَّجْلِسَ فَاَقْبَلَ النَّاسُ اِلَیْہِ وَ تَرَکُوْا عُمَرَ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ اَمَّا بَعْدُ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ قَالَ اللّٰہُ اِلٰی قولہ وَ قَالَ وَاللّٰہِ لَکَأَنَّ النَّاَسَ لَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ حَتّٰی تَلَا ھَا اَبُوْ بَکْرٍ فَتَلَقّٰھَا مِنْہُ النَّاسُ کُلَّھُمْ فَمَا اَسْمَحَ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ اِلَّا یَتْلُوْھَا۔ فَاَخْبَرَنِیْ سَعِیْدُ ابْنُ الْمُسَیِّبِ اَنَّ عُمَرَ قَالَ وَاللّٰہِ مَا ھُوَ اِلَّا سَمِعْتُ اَبَا بَکْرٍ تَلَاھَا فَعَقَرْتُ حَتّٰی مَا تُقِلُّنِیْ رِجْلَایَ وَ حَتّٰی اَھْوَیْتُ اِلَی الْاَرْضِ حِیْنَ سَمِعْتُہٗ تَلَاھَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ۔

یہ خطبہ مسند امام ابو حنیفہؒ صفحہ ۱۸۸ اور حمام الاسلامیۃ صفحہ ۵۴ پر بھی موجود ہے۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے خطبہ پڑھا جس میں بتایا کہ جس طرح اور رسول فوت ہوچکے ہیں آنحضرتؐ بھی فوت ہوگئے ہیں۔ جس پر صحابہؓ میں سے کسی نے انکار نہ کیا اور حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ میں کھڑا نہ ہوسکتا تھا اور زمین پر گرگیا اور میں نے سمجھ لیا کہ آنحضرتؐ فی الواقعہ فوت ہی ہوچکے ہیں۔

اس سے یوں استدلال ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کے استدلال کو اس طرح توڑا ہے کہ آپؐ ایک رسول ہیں اور آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ اگر حضرت عمرؓ یا کسی اور صحابی کے ذہن میں بھی یہ بات ہوتی کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ بجسدہ العنصری ہیں تو وہ آگے سے فوراً کہہ دیتا ہے کہ اجی عیسیٰ ؑبھی تو رسول ہی تھے وہ پھر کیوں زندہ ہیں، لیکن کسی کا ایسا نہ کرنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کے وہم میں بھی حیاتِ عیسیٰ ؑ کا عقیدہ نہ تھا بلکہ وہ سب کو وفات یافتہ تسلیم کرتے تھے۔ یہی و جہ ہے کہ انہوں نے سرِ تسلیم خم کیا اور بالکل چون و چرانہ کی۔

اس اجماع سے ان روایات کی بھی حقیقت کھل جاتی ہے جو بعض صحابہ کرامؓ کی طرف حیاتِ عیسیٰ ؑ کے بارے میں منسوب کی جاتی ہیں۔کیونکہ اگر کوئی ایسی روایت ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں (۱) یا تو وہ اس سے پہلے کی ہے (۲) یا بعد کی۔ صورت اوّل میں وہ قابل استناد نہیں، کیونکہ اجماع سے وہ گر جائے گی اور صورت ثانی میں بہرحال قابلِ ردّ۔

اعتراض:۔ اگر اَلرُّسُل کا الف لام استغراقی مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ آنحضرتؐ سے پہلے ہی تمام رسول فوت ہوجائیں کیونکہ مِنْ قَبْلِہٖ بو جہ مقدم ہونے کے اَلرُّسُل کی صفت نہیں بن سکتی۔ ہاں خَلَتْ فعل کے ساتھ متعلق ہوسکتی ہے۔ لہٰذا لازم آیا کہ آنحضرتؐ سے پہلے ہی تمام رسول فوت ہوں ورنہ آنحضرتؐ اور مرزا صاحبؑ دونوں کی نفی ہوئی۔

جواب:۔ ’’مِنْ قَبْلِہٖ‘‘ ’’اَلرُّسُل‘‘ کی صفت ہی ہے جس کے معنی ہیں کہ تمام وہ رسول فوت ہوگئے جو آنحضرتؐ سے پہلے تھے اور صفت کا موصوف سے پہلے آنا جائز ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔

(ابراھیم:۲،۳)

عَزِیْزٌ اور حَمِیْدٌ اﷲ کی صفات ہیں جو اس پر اس آیت میں مقدم مذکور ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے۔ وَ یَجُوْزُ اَنْ یَّکُوْنَ الْعَزِیْزُ الْحَمِیْدُ صِفَتَیْنِ مُتَقَدِّمَیْنِ وَ یُعَرِّبُ الْاِسْمُ الْجَلِیْلُ مَوْصُوْفًا مُتَأَخِّرًا (روح المعانی زیر آیت الی صراط العزیز الحمید۔)

۲۔ (الصّٰفّٰت:۱۲۶، ۱۲۷)

کیا تم بعل کو پکارتے (پوجتے) ہو اور اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ (یعنی سب سے اچھا بنانے والے) خدا کو جو تمہارا رب ہے چھوڑتے ہو۔ اس آیت میں اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ صاف طور پر اﷲ کی صفت ہے مگر موصوف یعنی اﷲ بعد میں ہے، اور صفت احسن الخالقین اس پر مقدم مذکور ہے۔ اسی طرح مِنْ قَبْلِہِ اَلرُّسُل بھی صفت ہے اور اس پر مقدم مذکور ہے۔ فلا اعتراض۔

پانچویں دلیل:۔

(النحل: ۲۱، ۲۲)

ترجمہ:۔ یہ مشرک جن لوگوں کو اﷲ کے سوائے پکارتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ انہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ مردہ ہیں زندہ نہیں اور نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔

استدلال:۔ حضرت عیسیٰ ؑ بھی ان ہستیوں میں سے ہیں جن کو معبود مانا جاتا ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

(المائدۃ:۱۸) پس وہ بھی وفات یافتہ ہیں۔ ان کا کہیں استثناء نہیں۔

نوٹ:۔ بعض حیلہ ساز لوگ اس جگہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اَمْوَاتٌ۔ مَیِّتٌ کی جمع ہے یعنی مرنے والے ہیں کسی وقت ضرور مریں گے۔

جواب:۔ یہ بالکل غلط ہے کہ اَمْوَاتٌ۔ مَیِّتٌ کی جمع ہے۔اَمْوَاتٌ تو مَیْتٌ کی جمع ہے جس کے معنے ہیں ’’مرے ہوئے‘‘ اور مَیِّتٌ کی جمع مَیِّتُوْنَ ہے۔ دیکھو لغت کی کتاب المنجدزیر لفظ موت۔ اور آیت بھی اس کی مؤیّد ہے کیونکہ اس میں (النحل:۲۲)یعنی ایسے اموات جو زندہ نہیں ہیں۔ پس اَمْوَاتٌ کو مَیِّتٌ کی جمع قرار دینا زبان اور قرآن دونوں سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔

اگر ملائکہ اور جنوں کا اعتراض کرو تو یاد رہے کہ وہ عالمِ امر سے ہیں اور (النحل:۲۱) میں عالم خلق کا بیان ہے اس لئے ان کا یہاں ذکر نہیں۔ ہاں حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر ہے۔ ملائکہ اور جنوں کے نہ مرنے کا کیا ثبوت ہے؟ (العنکبوت: ۵۸) کے کلیہ سے وہ کیونکر باہر رہ سکتے ہیں۔

چھٹی دلیل:۔

آیت

(الاعراف:۲۶)

ترجمہ:۔ اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم کو فرمایا کہ تم اسی زمین میں ہی زندگی بسر کرو گے اور اسی میں مرو گے اور پھر اسی سے اٹھائے جاؤ گے۔

استدلال:۔ یہ ایک عام قانونِ الٰہی ہر فرد بشر پر حاوی ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ کے صریح خلاف حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ موجود ہوں۔ اس آیت میں(فعل) پر (ظرف) مقدم ہے۔ پس از روئے قواعدِ نحو اس میں حصر ہے جس سے استثناء ممکن نہیں۔

نوٹ:۔ اس آیت کی تائید میں یہ آیتیں بھی ہیں:۔۱۔(المرسلات: ۲۶، ۲۷) کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹنے والی نہیں بنایا؟

۲۔ (البقرۃ:۳۷)اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا ہے اور فائدہ اٹھانا ایک مدت تک ۔

ساتویں دلیل:۔

(مریم:۳۲)

ترجمہ:۔(حضرت عیسیٰ ؑ کہتے ہیں)اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں نماز پڑھتا اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں۔

استدلال:۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا زکوٰۃ دینا ان کی تمام زندگی بھر فرض قرار دیا گیا ہے اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے پاس زکوٰۃ دینے کے لائق روپیہ بھی ہو اور مستحقین زکوٰۃ بھی زندہ رہیں۔ پس آسمان میں اگر وہ زندہ فرض کیے جاویں تو وہاں روپیہ اور زکوٰۃ لینے والوں کا ایک گروہ بھی ان کے ہمراہ ہونا ضروری ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اگر کہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس وہاں مال نہیں اس لیے ان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ان کے پاس مال نہیں رہنا تھا تو (مریم:۳۲) کی بجائے مَا دُمْتُ عَلَی الْاَرْضِ کہنا چاہیے تھا۔ جس کا مطلب یہ ہوتا کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ’’میں جب تک زمین پر رہوں۔‘‘ زکوٰۃ دیتا رہوں۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا تعالیٰ کا خاص طور پر زکوٰۃ دینے کا حکم بتاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ صاحبِ نصاب تھے اور جب تک زندہ رہے صاحب نصاب رہے۔

دوسرا سوال اس آیت کے متعلق یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر جو نماز پڑھتے ہیں تو کس طرف منہ کرکے؟ اگر کہو کہ عرش خداوندی کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں تو اس پر سوال یہ ہے کہ ان کو وہ کیسے معلوم ہوئی۔ اگر کہو کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو بذریعہ وحی بتادی ہوگی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیحؑ اسلامی نماز اس لئے نہیں پڑھتے کہ یہ آنحضرتؐ پر نازل ہوئی تھی بلکہ اس لئے کہ یہ خود ان پر نازل ہوئی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ابھی تک موسوی شریعت منسوخ نہیں ہوئی۔ اگر کہو کہ آنحضرتؐ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو معراج کی رات عندالملاقات بتادی ہوگی تو یہ غلط ہے۔کیونکہ معراج کی رات جب حضرت عیسیٰ ؑ آنحضرتؐ سے ملے ہیں اس وقت تک ابھی نماز فرض ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بعد فرض ہوئی۔ اور نماز کے فرض ہونے کے بعد آنحضرتؐ کے ساتھ ان کی ملاقات ثابت نہیں۔

پھر سوال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ دارالعمل میں ہیں یا دارالجزاء میں؟ اگر کہو دارالعمل میں تو پھر ان پر نماز و زکوٰۃ وغیرہ تمام اعمال کا بجالانا فرض ہے۔ اور اگر کہو دارالجزاء میں تو وہ دو قسم کا ہے (۱) دوزخ (۲) جنت۔ حضرت عیسیٰ ؑ اوّل الذکر میں تو جا نہیں سکتے۔ پس معلوم ہوا کہ وہ جنت میں ہیں اور جنت کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے:۔

(الحجر:۴۹) کہ جنتی جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ اب دنیا میں واپس نہیں آسکتے۔

آٹھویں دلیل:۔

(مریم:۳۴)

ترجمہ:۔ (حضرت عیسیٰ ؑ کہتے ہیں) کہ سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں دوبارہ اٹھایا جاؤں گا۔

استدلال:۔ سلامتی کے یہ تینوں اوقات بعینہٖ اس سورت میں حضرت یحییٰ ؑ کے لیے بھی آئے ہیں اور اگر بفرض محال حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں اور یہودِ نا مسعود کے نرغے سے بچ کر آسمان پر جا بیٹھے ہیں تو اس سلامتی کا کہاں ذکر ہے؟ وہ تو زیادہ اظہار امتنان کا موقعہ تھا۔ ان مواقع مذکورہ میں تو سب نبی موردِ سلامتی بنتے ہیں، آپ کے شریک ہیں، لیکن دو اہم اور عظیم الشان واقعات کی حضرت مسیحؑ کے ساتھ خصوصیت ہے، یعنی آسمان پر جانا اور آسمان سے واپس آنا، یہ سلامتی کے ساتھ ذکر کرنے کے زیادہ قابل تھے۔ خصوصاً جب کہ یہ مسیح کا کلام ان کے اختیار سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کے ماتحت ہے۔

نویں دلیل:۔

آیت

(بنی اسرائیل:۹۴)

کفار نے آنحضرتؐ سے جو نشانات طلب کیے ان میں سے ایک یہ بھی نشان انہوں نے طلب کیا اور سب سے اس کو آخر میں رکھا اور اپنے ایمانی فیصلہ کو اس پر ٹھہرایا کہ آپؐ آسمان پر جائیں اور وہاں سے کتاب لائیں جس کو ہم پڑھ کر آپ پر ایمان لائیں۔ آپ کو اﷲ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ حکم دیا کہ کہو میرا ربّ پاک ہے۔ میں بندہ رسول ہوں۔ یعنی اﷲ کی قدرت میں تو کسی قسم کا نقص نہیں، لیکن رسول کو آسمان پر لے جانا سنت اﷲ نہیں۔

جائے غور ہے کہ کفار کا یہ کہنا کہ تو آسمان پر چڑھ جاوے اور کتاب لاوے تب ہم ایمان لائیں گے، تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو آسمان پر نہ اٹھا لیا تاکہ سب کفار ایمان لے آویں، بلکہ یہ فرمایا کہ ایسا نہ ہوگا۔ جس کی و جہ یہ ہے کہ تو ایک بشر رسول ہے اور بشر رسول آسمان پر نہیں جایا کرتے۔ بھائیو! غور کرو جب حضرت عیسیٰ ؑ بھی بشر رسول ہیں تو وہ کیونکر آسمان پر جاسکتے ہیں ؂

غیرت کی جا ہے عیسیٰ ؑ زندہ ہو آسماں پر

مدفون ہو زمیں میں شاہِ جہاںؐ ہمارا

دسویں دلیل:۔

آیت

(الانبیاء:۳۵)

ترجمہ:۔ اور ہم نے تجھ سے پہلے (اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) کسی انسان کو غیرطبعی زندگی نہیں دی۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تُو تو فوت ہوجائے اور وہ زندہ رہیں۔

استدلال:۔ مسلمانو! دیکھو اﷲ تعالیٰ کس قدر غیرت سے فرماتا ہے کہ لیکن ایک تم ہو کہ عیسیٰ ؑ کو تو زندہ مانتے ہو مگر اس سید المعصومینؐ کو فوت شدہ تسلیم کرتے ہو۔ استدلال صاف ہے، زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے صاف فرمادیا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ تُو تو جو انفع للناس ہے دنیا سے رحلت کرجائے اور اَور کوئی تجھ سے پہلے کا زندہ ہو۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیحؑ فوت ہوگئے۔

گیارہویں دلیل:۔

آیت

(الصّفّ:۷)

حضرت عیسیٰ ؑ علیہ السلام نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا اس کا نام احمد ہوگا۔

تم کہتے ہو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم احمد ہیں تو ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہوچکے ہیں کیونکہ احمد نے بہرحال مِنْ بَعْدِیْ ہی آنا ہے۔ اگر آج بقول تمہارے وہی عیسیٰ ابن مریم واپس آجائیں تو آنحضرتؐ احمد ان سے پہلے ہوجائیں گے نہ کہ بعد۔ تو کیا اس وقت قرآن میں سے مِنْ بَعْدِیْ کاٹ کر اس کی جگہ اور تبدیلی کردو گے؟

پس ثابت ہوا کہ اب جبکہ احمد آچکا ہے تو حضرت عیسیٰ ؑ واپس نہیں آسکتے۔

بارہویں دلیل:۔

آیت

(یونس: ۲۹)

ترجمہ:۔ اور جس دن ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور پھر ہم ان سے جنہوں نے شرک کیا کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ پھر ہم ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے اور ان کے معبود مشرکوں سے کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔ اﷲ ہمارے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے۔ ہم تو یقینا تمہاری عبادت سے غافل ہیں۔

(یونس:۳۰)

ان آیات سے صاف طور پر ثابت ہوتاہے کہ قیامت کے دن تمام معبودانِ باطلہ خدا کو گواہ رکھ کر کہیں گے کہ ہم کو معلوم نہیں کہ یہ لوگ ہماری عبادت کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی انہی معبودوں میں سے ہیں کہ جن کی خدا کے سوا عباد ت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ (المائدۃ: ۱۸) سے ثابت ہے۔ اب اگر بقول غیراحمدیان حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں اور صلیبوں کو توڑیں تو وہ کس طرح قیامت کے دن خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر یہ کہیں گے کہ مجھے معلوم نہیں کہ عیسائی میری عبادت کرتے اور مجھے خدا بناتے تھے؟

یا تو یہ کہو کہ نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ ؑ غلط بیانی کریں گے یا یہ تسلیم کرو کہ اب دوبارہ دنیا میں وہ تشریف نہیں لائیں گے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باﷲ غلط بیانی سے کام لیں۔ پس دوسری بات ہی درست ہے کہ وہ واپس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے۔ و ھٰذا ہُوالمراد۔

دیگر آیات:۔ ان مندرجہ بالا آیات کے علاوہ اس مسئلہ پر روشنی ڈالنے والی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:۔

۱۔ (النحل:۷۱)

ترجمہ:۔ اﷲ وہ ذات ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو وفات دیتا ہے اور بعض تم میں رذیل ترین عمر (انتہائی بڑھاپے)کی طرف لوٹائے جاتے ہیں جس کی و جہ سے وہ جاننے کے بعد نہ جاننے والا بن جاتا ہے۔

ہمارے دوست بتائیں کہ کیا حضرت عیسیٰ ؑ کے اس قانون سے مستثنیٰ ہونے کا کوئی ثبوت ان کے پاس ہے؟ ہرگز نہیں۔

۲۔ (الحج:۶) ترجمہ اوپر گزر چکا ہے۔

۳۔ (یٰس:۶۹)

ترجمہ:۔ جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں ہم پھر اس کو خلقت میں الٹاتے ہیں یعنی وہ جوانی کے بعد بڑھاپے سے ہوتا ہوا نادان بن جاتا ہے۔ کیا حضرت عیسیٰ ؑ پر یہ قانون حاوی نہیں؟

۴۔ (الروم:۵۵)

ترجمہ:۔ اﷲ وہ ذات ہے جس نے تم کو ضعف سے پیدا کیا اور پھر کچھ عرصہ کے لئے قوت عطا فرمائی اور پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا بنایا۔

بقول مخالفینِ احمدیت بھی حضرت عیسیٰ ؑ نے آسمان پر جانے سے پیشتر قوت پائی تھی۔ اب اتنے عرصہ کے بعد ضرور ہے کہ آپ دوبارہ ضعف کا شکار ہوچکے ہوں اور دنیا میں آکر بجائے خدمت دین کرنے کے اپنی ہی خدمت کرائیں۔

۵۔ (الفرقان:۲۱)

ترجمہ:۔ ہم نے اے محمدصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم! تجھ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر وہ کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں پھرا کرتے تھے۔

صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قبل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب رسولوں کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے، منجملہ ان کے ایک حضرت عیسیٰ ؑ بھی ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ آپ بھی اس دارِ فانی سے رحلت فرماگئے ہیں۔ (البقرۃ: ۱۵۷)
 

منسلکات

Last edited:
Top Bottom