پہلی آیت ۔ اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلا و من الناس۔ الحج ۔ 76

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
پہلی آیت ۔ اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلا و من الناس۔ الحج ۔ 76


(الحج :۷۶) کہ اﷲ تعالیٰ چنتا ہے اور چنے گا فرشتوں میں سے رسول اور انسانوں میں سے بھی۔

اس آ یت میں یَصْطَفِیْ مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لئے آتا ہے پس یَصْطَفِیْ کے معنی ہوئے ’’چنتا ہے اور چنے گا‘‘ اس آیت میں یَصْطَفِیْ سے مراد صرف حال نہیں لیا جا سکتا کیونکہ الف۔ آیت کی ترکیب اصل میں اس طرح ہے۔

اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلاَ ئِکَۃِ رُسُلًا وَاللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ النَّاسِ رُسُلاً کہ اﷲ فرشتوں میں سے بھی رُسُل چنتا ہے اور انسانوں میں سے بھی رُسُل چنتا ہے۔ لفظ رُسُل جمع ہے اس سے مراد آنحضرتؐ (واحد) نہیں ہو سکتے۔ پس ماننا پڑے گا کہ آنحضرتؐ کے بعد رسالت کا سلسلہ جاری ہے اور یَصْطَفِی مستقبل کے لئے ہے۔

نوٹ:۔ بعض غیر احمدی رُسُل بصیغہ جمع کا اطلاق واحد پر ثابت کرنے کے لئے (المرسلات:۱۲) والی آیت پیش کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں رُسُل کو بمعنی رسول واحد لیا ہے سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ شہادۃ القرآن کی عبارتِ محولہ میں حضرت مسیح موعودؑ نے جمع کا ترجمہ واحد نہیں کیا، بلکہ جمع ہی رکھا ہے۔ چناچہ حضرت اقدسؑ نے تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۴۴ و ۲۴۵ پر اس آیت کا الہامی ترجمہ رقم فرمایا ہے۔۔

’’وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعیین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضاء و قدر کا اندازہ جو مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آجائے گا…… پس یہی معنے آیت کے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا او ریہ آیت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسولوں کی آخری میزان ظاہر کرنے والا مسیح موعود ہے‘‘

پس یہ عبارت صاف طور پر بتا رہی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس آیت میں رُسُل سے مراد’’ مرسلین‘‘ اور ’’رسولوں‘‘ بصیغہ جمع ہی لیا ہے۔ ہاں اُقِّتَتْ کے لفظ سے میزان کنندہ (میزان ظاہر کرنے والا) کا وجود نکالا ہے۔ پس مخالفین کا شہادۃ القرآن کا حوا لہ پیش کرنا سراسر دھوکہ ہے۔

ب:۔ یَصْطَفِیْ مضارع منسوب بذاتِ خداوندی ہے اور اس آیت کی اگلی آیت ہے(الحج:۷۷) خدا تعالی جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے۔ کیا خدا تعالی اس آیت کے نزول کے وقت جانتا تھا اب وہ نہیں جانتا یَعْلَمُ بھی مضارع ہے۔

غیر احمدی:۔اس آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خود خدا کی اس قدیم سنت سے باہر ہو کہ وہ انسانوں میں سے رسول چنتا ہے جو اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اسی سنت قدیمہ کی رو سے اب بھی یہ رسول بھیجا گیا ہے، بجائے اس کے کہ ارسالِ رُسل کی سنتِ الٰہیہ سے موجودہ نبوت کا استدلال کیا جاتا آئندہ نبوت کا خواہ مخواہ ذکر چھیڑ دیا گیا بیہودہ ترجمہ ہے۔

(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۶۰ طبع ثانی ۱۹۸۹ء از مولوی محمدعبداﷲ معمار امرتسری)

جواب:۔جب سنت قدیمہ یہی ہے کہ وہ ’’تبلیغ‘‘ کے لئے رسول بھیجا کرتا ہے تو پھر اب بھی نبوت جاری ہے۔کیونکہ اﷲ تعالی فرماتا ہے (الاحزاب:۶۳۔ فاطر: ۴۴) کہ اﷲ تعالی کی سنت کبھی بدلا نہیں کرتی۔ اندریں حالات تمہارا ’’ارسال رسل‘‘ کا انکار کرنا ’’بیہودہ ہے‘‘ یا ہمارا اقرار ؟

غیر احمدی:۔تشریعی نبی بھیجنا بھی تو خدا کی سنت ہے وہ کیوں بدل گئی؟

جواب:۔یہ کس نے کہا ہے کہ تشریعی نبی بھیجنے کی سنت بدل گئی ہے۔ تشریعی نبی بھیجنے کے لئے تو اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب سابقہ شریعت ناقص یا نا مکمل ہو یا نا قص تو نہ ہو مگر محرف (مبدّل) ہو گئی ہو تو نئی شریعت نازل فرماتا ہے اور غیر تشریعی نبی بھیجنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جس وقت ضرورتِ زمانہ کے لحاظ سے نہ سابقہ شریعت ناقص ہو اور نہ محرف ہوئی ہو بلکہ لوگوں میں بدعملی اور ضلالت و گمراہی پیدا ہو گئی ہو تو اﷲ تعالیٰ ان میں ’’تبلیغ‘‘ اور اصلاح کے لئے غیر تشریعی نبی بھیجا کرتا ہے۔

پس چونکہ قرآن کریم مکمل شریعت ہے اور اس میں تحر یف بھی نہیں ہوئی بلکہ یہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے عین مطابق یہ ضروری ہے کہ کوئی تشریعی نبی نہ آئے بلکہ غیر تشریعی نبی آئے۔ پس جب تک قرآن کریم میں تحریف ثابت نہ کرو، یا یہ ثابت نہ کرو کہ قرآن مجید (نعوذباﷲ )ناقص کتا ب ہے، اس وقت تک تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم کے بعد تشریعی نبی کا نہ آنا سنت قدیمہ کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مکمل اور غیر محرف شریعت کی موجودگی میں نئی شریعت کا نہ بھیجنا ہی خدا کی سنت ہے جو اس وقت بھی جاری ہے لیکن کیا تم انکار کر سکتے ہو کہ اس وقت دنیا میں ضلالت و گمراہی اور بد عملی کا دور دورہ نہیں؟ اگر ہے اور ضرور ہے تو پھر تمہا ری تسلیم کردہ ’’سنت ارسال رُسُل‘‘ کے مطابق اس زمانہ میں کوئی غیر تشریعی نبی کیوں نہیں آ سکتا؟

غیر احمدی:۔ رُسُل صیغہ جمع ہو نے کا کیا یہ مطلب ہے کہ دس دس بیس بیس اکٹھے رسول آئیں؟

جواب:۔نہیں! بلکہ صیغۂ جمع کا مفاد صرف یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اﷲ تعالیٰ صرف ایک ہی رسول نہیں بھیجے گا بلکہ وقتاً فوقتاً نبی بھیجتا رہے گا اور وہ رسول من حیث المجموع اتنے ہوں گے کہ ان پر صیغہ جمع اطلاع پائے۔

غیر احمدی:۔صیغہ مضارع کبھی حال کے لئے اور کبھی استقبال کے لئے ہوتا ہے۔

(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۶۳ طبع ثانی ۱۹۸۹ء از مولوی محمد عبداﷲ معمار امرتسری)

جواب:۔اس آیت میں استقبال کے لئے ہی ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو رسولِ واحد تھے۔ ان پر رُسُل صیغۂ جمع کا اطلاق نہیں پاسکتا۔ نیز ان کا اصطفاء تو اس آیت کے نزول سے کئی سال پہلے ہو چکا تھا۔ نزول کے وقت تو نہیں ہو رہا تھا۔ اس لئے یہاں مضارع حال کے لئے ہو ہی نہیں سکتا ۔ بلکہ بہرحال مستقبل کے لئے ہے۔

اگر’’حالِ ماضی‘‘ کے لئے ہوتا تو اس سے پہلے یا مابعد کسی واقعۂ ماضی کا ذکر ہوتا، لیکن اس آیت سے پہلے بھی اور بعد بھی آخر سورۃ تک کسی واقعۂ ماضی کی طرف اشارہ تک نہیں بلکہ سب جگہ موجودہ مخالفین ہی سے خطاب ہے لیکن اگر واقعہ ماضی ہو تو’’اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی‘‘ فرمایا ہوتا۔جیسے (آل عمران:۳۴) وغیرہ آیات ہیں پس یہ آیت امکانِ نبوت کے لئے نص قطعی ہے جس کا تمہارے پاس کوئی جواب نہیں۔

نوٹ:۔بعض دفعہ مخالفین کہا کرتے ہیں کہ آیت ہذا میں ایک عام قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے رسول بھیجا کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ مضارع سے عام قاعدہ صرف ایک ہی صورت میں مراد لیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مضارع استمرارِ تجدّدی کے طور پر استعمال کیا جائے لیکن استمرارِ تجدّدی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں زمانہ مستقبل بھی ضرور پایا جائے ہم مخالفین کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا استمرار تجدّدی دکھائیں جس میں زمانہ مستقبل شامل نہ ہو صرف ماضی اور حال مراد ہو۔ استمرارِ تجدّدی کے لئے مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں۔

۱۔وَقَدْ تُفِیْدُالْاِسْتَمْرَارَ التَّجَدَّدِیَ بِالْقَرَائِنِ اِذَا کَانَ الْفِعْلُ مُضَارِعًا کَقَوْلِ طَرِیْفٍ ؂

اَوَکُلَّمَا وَرَدَتْ عُکَاظَ قَبِیْلَۃٌ بَعَثُوْا اِلَیَّ عَرِیْفَھُمْ یَتَوَسَّمُ

(کتاب قواعد اللغۃ العربیہ صفحہ ۱۰۸ علم المعانی مطبوعہ قاہرہ)

اور کبھی جب فعل مضارع ہو۔ بعض قرائن سے استمرار تجددی کا بھی فائدہ دیتا ہے جیسا کہ طریف شاعر کا یہ شعر ہے ؂

جب کبھی عکاظ کے میدان میں کوئی قبیلہ آکر اترتا ہے تو وہ اپنے بڑے آدمی کو میری طرف بھیجتے ہیں جو گھاس کی تلاش کرتا رہتا ہے یا جو میری طرف دیکھتا رہتا ہے یہاں یَتَوَسَّمُ مضارع ہے جس نے استمرار تجددی کا کام دیا (یہی مضمون بتغیر الفاظ تلخیص المفتاح صفحہ ۲۰ سطر ۳ پر ہے)

۲۔ تفسیر بیضاوی تفسیر سورۃ آل عمران رکوع ۴ زیر آیت (آل عمران:۳۷) لکھا ہے ’’اُعِیْذُھَا فِیْ کُلِّ زَمَانٍ مُسْتَقْبِلٍ۔‘‘ یعنی اُعِیْذُھَا میں استمراری تجددی ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ میں اس کے لئے پنا ہ مانگتی ہوں۔ ہر آنے والے زمانہ کیلئے۔ گویا استمراری تجد دی میں زمانہ مستقبل بالخصو ص پایا جاتا ہے۔

اسی طرح آیت (الحج:۷۶)میں استمراری تجددی ہو سکتا ہے اوراس کے لئے قرینہ ’’الرسل‘‘ بصیغہ جمع اور فعل مضارع کا خدا کی طرف منسوب ہونا ہے (استمرار میں تینوں زمانے شامل ہوتے ہیں۔ کوئی زمانہ مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ خصو صاً زمانہ مستقبل جس کا ہونا اس میں لازمی ہے )

نوٹ۔ اگر کوئی کہے کہ اگر استمرار تجددی تسلیم کر لیا جائے تو لازم آئے گا کہ ہر ایک سیکنڈ میں نبی اور رسول آتے رہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ استمرار کے لئے وقت اور ضرورت کی قید ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ (المائدۃ:۷۶)کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ ’’کَانَا یَاکُلَانِ‘‘ ماضی استمراری ہے (کیونکہ یاکلان مضارع پر ’’کانا‘‘ داخل ہوا) تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ تمام دن رات کھا نا ہی کھاتے رہتے تھے۔ یہاں استمرار کا مطلب یہ ہے کہ عند الضرورت کھانا کھاتے تھے۔ اسی طرح اَللّٰہُ یَصطَفِیْ کا مطلب ہے کہ عندالضرورت خداتعالیٰ رسول بھیجتا رہے گا۔

پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ میں انسانوں کو بھی نبوت کے لئے چنتا رہوں گا اور فرشتوں کو بھی مختلف ڈیوٹیوں کے لئے بھیجتا رہوں گا۔ گویا سلسلہ نبوت جاری رہے گا۔ یا د رہے کہ ملائکہ صرف وحی لانے ہی کے لئے نہیں آتے بلکہ اﷲ تعالیٰ کے جس قدر احکام ہیں ان کے نفاذ کے لئے لاتعداد ملائکہ ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ چن کر ہمیشہ بھیجتا رہتا ہے۔ پس منکرین نبوت کایہ کہنا کہ انبیاء کی طرف ایک ہی فرشتہ وحی لایا کرتا ہے بے اثر ہے۔ یہاں صرف وحی لانے کا ذکر نہیں بلکہ عام طور پر احکام الٰہی کے نفاذ کے لئے فرشتوں کے چننے کا ذکر ہے۔
 
Top Bottom