روح و مادہ ۔ آریوں کے دلائل کی تردید

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
روح و مادہ
آریوں کے دلائل کی تردید

دلیل اوّل:۔
خدا قدیم سے ہے اور اس کی صفات بھی قدیم سے ہیں اور منجملہ اس کی صفات کے مالک کی صفت بھی ہے اور مالک بغیر مملوک کے نہیں پایا جاتا۔پس ساتھ اس کا کوئی مملوک قدیم سے ہونا ضروری ہے اور وہ روح ومادہ ہے۔

جواب:۔ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ قدیم سے مالک اور خالق ہے مگر مملوک کو روح و مادہ میں مقیّد کرنا کونسی عقلمندی ہے۔ہم بھی قدامت نوعی کے قائل ہیں نہ قدامت ِ شخصی کے۔یعنی مخلوق کی انواع میں سے کوئی نہ کوئی قدیم سے چلی آتی ہے اور خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا تعطل ایک وقت میں ہم نہیں مانتے۔یہ دلیل آریوں کی بعینہٖ عیسائیوں کی اس دلیل جیسی ہے جو وہ تثلیث کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں کہ وجود معلولات متعددہ علل متعددہ کو چاہتا ہے ۔پس علل کی کثرت ماننی پڑتی ہے پس تثلیث ثابت(زیادہ علل کیوں نہیں؟صرف تین کیوں؟)اسی طرح آریہ لوگ بھی خدا کی صفت ’’مالک‘‘ ثابت کرنے کے لئے روح و مادہ کو پیش کرتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں روح و مادہ کے بغیر اور بھی اشیاء ہوسکتی ہیں۔

دلیل دوم:۔ ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علّت مادی ضرور ہوتی ہے پس روح و مادہ کی علّت کیاہے؟

جواب نمبر۱:۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر چیز کی صنع کے لئے آلات ضروری ہیں۔مگر تم خود پر میشور کو آلات کے بغیر کام کرنے والا مانتے ہو ۔ (دیکھو رگ وید آدی بھومکا صفحہ ۶،۹)

جواب نمبر۲:۔
علّت مادی مرکبات کی ہوتی ہے ۔کیونکہ مرکب وہ ہے جو دو سے بنے۔پس وہ دونوں اس کی علّت ہوں گے مگر مفرد تو کسی سے بنا نہیں اس لئے مرکبات کے قاعدہ کو اس پر چسپاں کرنا بالکل فضول ہے۔

دلیل سوم:۔ نیست سے ہست اس لئے نہیں ہوسکتاکہ نیستی کے معنی ہیں کچھ بھی نہیں اور جو نہ ہو اس سے ہو جائے یہ محض ہنسی ہے ۔

جواب نمبر ۱:۔ ہمارا یہ کہنا کہ صندوق لکڑی سے بنا ہے اور یہ کہنا کہ مادہ خدا کی قدرت سے بنا ہے ۔ دونوں میں فرق یہی ہے کہ پہلے میں علّتِ مادی مراد ہے اور دوسرے میں علّتِ فاعلی ۔ ( رگ ویدبھاش بھومکا صفحہ ۸۰)

خدا کے لئے سب ہست ہے۔نیست اور ہست تو ہم انسان اپنی نسبت سے بولتے ہیں۔ اُس کی علّت فاعلی سب کچھ کر دکھاتی ہے۔

اس دلیل کے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب

قرآن مجید کی آیت (البقرۃ:۱۱۸) پر اعتراض کہ کُنْ کس کو کہا؟

بَدِيعُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ‌ۖ وَإِذَا قَضَىٰٓ أَمۡرً۬ا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ ۥ كُن فَيَكُونُ (١١٧) (البقرۃ:۱۱۸)

جواب نمبر۱:۔ زید کا نقشہ پرمیشور کو معلوم تھا یا نہ؟اگر معلوم تھا تو کس کا نقشہ معلوم تھا؟نیز یہ محاورہ ہے۔

جواب نمبر۲:۔ انسان جب اپنے ذہن میں کوئی نقشہ کھینچتا ہے ۔مثلاً کسی مکان بنانے کا نقشہ۔ تو بنانے کے وقت اسباب و آلات کی تلاش و پڑتال میں لگ جاتا ہے اور اُسے خارجی وجود میں لاتا ہے مگر خدا چونکہ خود آلہ ہے اس لئے وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ صرف امر کُنْ سے بنا دیتا ہے۔

دلیل چہارم:۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر خلق مادہ سے ہوتی ہے۔

جواب:۔ موجودہ قانون یا مشاہدہ دلیل نہیں کیونکہ :۔

الف۔ جس طرح اب ہر چیز مادہ سے بنتی ہے اور پہلے لازماً عدم سے وجود میں آئی تھی۔اسی طرح اب انسان مرد اور عورت سے پیدا ہوتے ہیں مگر پہلے بلا باپ و ماں ۔کیونکہ ابتداء ماننی لازمی ہے۔ (ستیارتھ باب ۸ دفعہ ۴۲)

دیکھو (الفرقان:۳) یعنی ہر شے عدم سے وجود میں آتی ہے مگر بعد میں ایک اندازہ سے آتی ہے۔

ٱلَّذِى لَهُ ۥ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلَمۡ يَتَّخِذۡ وَلَدً۬ا وَلَمۡ يَكُن لَّهُ ۥ شَرِيكٌ۬ فِى ٱلۡمُلۡكِ وَخَلَقَ ڪُلَّ شَىۡءٍ۬ فَقَدَّرَهُ ۥ تَقۡدِيرً۬ا (٢) (الفرقان:۳)

ب۔
الہام اب نہیں ہوتا۔ہاں ابتدا میں ہوا بقول تمہارے۔اسی طرح خلق کو قیاس کرلو۔

ج۔ ہمارے مشاہدہ میں پرے نہیں۔

د۔ ہمارے مشاہدہ میں مادہ اصل حالت میں نہیں۔(صفحہ ۱۰و دیباچہ ستیارتھ پرکاش)آریہ لوگ ابتدا میں مخلوق کا پیدا ہونا اِسی طرح مانتے ہیں کہ کھیتوں کی طرح اُگ پڑے تھے ۔پس اگر یہ ایسا ہی ہوا تھا تو اس کی نظیر دو۔ورنہ شرماؤ۔
 
Top Bottom