حضرت مسیح علیہ السلام اور یسوع کے دو حلیے ۔ قرآنی مسیح یا انجیل و بائبل کا یسوع

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
حضرت مسیح علیہ السلام اور یسوع کے دو حلیے

موجودہ انجیل نے یسوع کی ایسی گندی تصویر کھینچی ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی منصف مزاج انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خدا کے اس برگزیدہ نبی کی تصویر ہے جسے قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسیح ابن مریم کے نام سے موسوم کیا ہے۔

۱۔نسب نامہ

قرآن مجید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب نامہ کو بالکل پاک اور مطہر قرار دیتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے:۔ (مریم:۲۹) مگر انجیل کے یسوع کا نسب نامہ سخت ناپاک اور گندہ ہے۔چنانچہ انجیل متی ۱/۱ میں ’’یسوع کا نسب نامہ‘‘کے عنوان کے نیچے تین عورتوں تا مار، راحاب اور ریاہ کی بیوی (بنت سبع)کا ذکر ہے(متی باب ۱ آیت ۲،۵،۷) اور تورات میں لکھا ہے کہ یہ تینوں بدکار اور زنا کار عورتیں تھیں۔ملاحظہ ہو : ۔

راحاب فاحشہ تھی۔ (یشوع ۲/۱)

تا مار نے اپنے خسر سے زنا کیا۔ (پیدائش ۱۶،۳۸/۱۹)

بنت سبع زوجہ اور یاہ نے (نعوذ باﷲ)داؤد سے زنا کیا۔ (۲۔سموئیل ۱۱/۲)

تورات میں ہے
:۔ بدکاروں کی نسل کبھی نام آور نہ ہوگی ۔ (یسعیاہ۱۴/۲۰)

’’ّ*** بچہ دس پشت تک خدا کی بادشاہت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (استثنا ۲۳/۱)

۲۔مریم کا صدّیقہ ہونا


قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو صدیقہ قرار دیا ہے۔فرمایا:۔ (المائدۃ:۷۶) نیز فرمایا (التحریم :۱۳) گویا وہ حضرت عیسیٰ پر کامل طور پر ایمان لائی اور خدا کی باتوں پر کما حقہٗ عمل کرتی تھی۔

وَمَرۡيَمَ ٱبۡنَتَ عِمۡرَٲنَ ٱلَّتِىٓ أَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَنَفَخۡنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتۡ بِكَلِمَـٰتِ رَبِّہَا وَكُتُبِهِۦ وَكَانَتۡ مِنَ ٱلۡقَـٰنِتِينَ (١٢) (التحریم :۱۳)


مگر انجیلی یسوع کے متعلق انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ماں اس پر ایمان نہ لائی تھی۔ چنانچہ متی۴۶تا۱۲/۵۰ و مرقس ۳۱تا۳/۳۵ میں ہے کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی جب یسوع کو ملنے آئے تو وہ اپنے شاگردوں میں کھڑا تھا۔کسی نے جب اس کو بتایا کہ تیری ماں اور تیرے بھائی تجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو اس نے جواب دیا ۔’’کون ہے میری ماں؟اور کون ہیں میرے بھائی؟اپنے شاگردوں کی طرف منہ کر کے کہا : میری ماں اور میرے بھائی تو یہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ (لوقا ۸/۲۱) گویا اس کی ماں اور اس کے بھائی خدا کے کلام کو سنتے اور اس پر عمل نہ کرتے تھے۔ کیونکہ اگر وہ واقعی خدا کی مرضی پر چلنے والی اور اس کی باتوں پر عمل کرنے والی ہوتی تو وہ یسوع کے بیان کردہ معنوں کی رو سے اس کی روحانی ماں بھی ٹھہرتی ہے۔ تو اس صورت میں یسوع پر اس کی دونی عزت لازم آتی مگر اس کا ’’کون ہے میری ماں‘‘ کہنا اور پھر ماں کے معنے بیان کر کے اپنے شاگردوں کو اس میں شامل کرنا اور جسمانی ماں کو اس سے باہر نکالنا صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ اس کی ماں اس پر ایمان نہ لائی ۔ لہٰذا انجیلی یسوع کا مصداق نہ رہا ۔

مندرجہ بالا استدلال انجیل کی اس عبارت سے اور زیادہ قوی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بھائی بھی اس پر ایمان نہ لائے تھے ۔(یوحنا ۷/۵) کیا کوئی عیسائی موجودہ انجیل میں سے کوئی ایک ہی حوالہ ایسا پیش کرسکتا ہے کہ جس میں یہ لکھا ہو کہ یسوع کی ماں مریم یسوع پر ایمان لائی تھی ؟ ہرگز نہیں ۔

۳۔ماں سے بدسلوکی

قرآن مجید نے اپنے مسیح علیہ السلام کو (مریم:۳۳)قرار دیا ہے اور یوں بھی (بنی اسرائیل:۲۴) کے عام حکم سے انبیاء علیہم السلام کا استثنا نہیں۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے کامل طور پر وفادار تھے اور اس سے انتہائی طور پر نیک سلوک کرتے تھے ۔

وَبَرَّۢا بِوَٲلِدَتِى وَلَمۡ يَجۡعَلۡنِى جَبَّارً۬ا شَقِيًّ۬ا (٣٢) (مریم:۳۳)

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعۡبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلۡوَٲلِدَيۡنِ إِحۡسَـٰنًا‌ۚ إِمَّا يَبۡلُغَنَّ عِندَكَ ٱلۡڪِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوۡ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ۬ وَلَا تَنۡہَرۡهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوۡلاً۬ ڪَرِيمً۬ا (٢٣) (بنی اسرائیل:۲۴)


مگر انجیل کا یسوع اپنی ماں کو ’’کون ہے میری ماں!‘‘ (متی ۱۲/۴۶ و مرقس ۳/۳۳) ’’اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام‘‘ (یوحنا ۲/۴) کے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ گویا اپنے آپ کو اس سے کلی طور پر مستغنی اور بے تعلق قرار دیتا ہے اور اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ایسا آدمی تو یسوع کے فتوے کے مطابق واجب القتل ہے۔ (متی ۱۵/۴ و رومیوں ۱/۳۲) لہٰذا وہ (مریم:۳۳) کا مصداق نہ رہا۔

۴۔ پاک انسان ہونا

قرآن مجید نے اپنے مسیح علیہ السلام کے متعلق (البقرۃ:۲۵۴)فرمایا ہے گویا وہ بہت پاک اور مقدس انسان تھے۔ جس طرح کہ خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء ہوتے ہیں مگر انجیل کا یسوع انجیل کے روسے ایک پاک کریکڑ کا انسان ثابت نہیں ہوتا۔

۵۔ایک بدکار عورت سے محبت

(الف)
اس کے پاؤں پر ایک بد چلن عورت نے عطر ڈالا ۔ (لوقا ۷/۳۷)

(ب)
عطر ڈالنے والی بد چلن عورت کا نام مریم تھا ۔ جو مر تھا اور لعزر کی بہن تھی ۔ (یوحنا ۱۔۱۱/۳ و ۱۲/۳)

(ج)
یسوع اس بد چلن عورت سے محبت رکھتا تھا ۔ ( یوحنا ۱۱/۵)

(د)
اس بد چلن عورت کو بھی یسوع سے محبت تھی ۔ (لوقا ۷/۴۷)

(ر)
وہ بدچلن عورت روئی تو یسوع بھی گھبرا کر رونے لگا ۔ (یوحنا ۱۱/۳۵)

(و)
یسوع اس بد چلن عورت کے گھر گیا اور اس سے تنہائی میں باتیں کرتا رہا۔ (لوقا ۳۷تا۷/۵۰)

(ز)
اس کے ساتھ عورتیں رہتی تھیں (لوقا۱،۸/۳و متی ۲۷/۵۵)

(ش)
ایک بد چلن سامری عورت سے جو کئی خاوند کر چکی تھی یسوع نے تنہائی میں معنی خیز گفتگو کی ۔ (یوحنا ۷تا۴/۱۹)

(ص)
یہ فقرہ خاص طور پر قابل غور ہے ’’اتنے میں اس کے شاگرد آگئے اور تعجب کرنے لگے کہ وہ عورت سے باتیں کر رہا ہے پس عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر کو چلی گئی ۔ ‘‘ (یوحنا ۲۷،۴/۲۸)

(ض)
ایک نوجوان لڑکے سے محبت ۔ (یوحنا ۲۱/۷ و ۱۹/۲۶)

(ط)
ا س کو گود میں بٹھانا اور چھاتی سے لگانا (یوحنا ۱۳تا۱۳/۲۶و۲۰،۲۱/۲۱) گویا اس لڑکے سے یسوع کو محبت تھی اور شاگرد یسوع سے جب کوئی راز کی بات پوچھنا چاہتے تو براہ راست پوچھنے کی بجائے اس لڑکے کے ذریعہ سے دریافت کرتے اور یسوع بتا دیتا ۔ یوحنا ۲۱/۲۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ پطرس کو یہ فکر تھا کہ یسوع کے چلے جانے کے بعد اس لڑکے کا کیا حال ہوگا اور اس کا کون پُرسان حال ہوگا مگر یسوع نے مہمل سے فقرہ میں بات کو ٹال دیا۔ یہی اور اسی قسم کی اور باتیں تھیں جن کی بنا ء پر جب پیلاطوس نے یہودیوں سے پو چھا کہ تم یسوع پر کیاالزام لگاتے ہو تو انہوں نے جواب میں اس سے کہا کہ ’’اگر یہ بد کار نہ ہوتا تو ہم اسے تیرے حوالے نہ کرتے۔‘‘ (یوحنا ۱۸/۳۰) بایں ہمہ جناب کا اپنا حال یہ تھا کہ ایک ’’خونِ حیض ‘‘والی عورت کے چھونے سے قوت نکل گئی ۔ (مرقس۵/۳۰ و لوقا۸/۴۶)

۶۔بد نمونہ


قرآن مجید نے اپنے مسیح کو (الزخرف:۶۱) یعنی بنی اسرائیل کے لئے اچھا نمونہ قرار دیا ہے۔ مگر انجیلی یسوع کا نمونہ اس کے اخلاق و عادات قطعاً اس قابل نہیں تھیں کہ کوئی منصف مزاج انسان ا س کو نمونہ کہہ سکے ۔

وَلَوۡ نَشَآءُ لَجَعَلۡنَا مِنكُم مَّلَـٰٓٮِٕكَةً۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ يَخۡلُفُونَ (٦٠) (الزخرف:۶۱)

۱۔ گالیاں دینا ۔ زنا کار لوگ (متی ۱۲/۳۹) ’’ اے سانپو! افعی کے بچو!‘‘ ( متی۲۳/۳۳) اے بدکارو! (متی ۷/۲۳)۔ اندھو (متی ۱۷تا۱۹ /۲۳) وغیرہ۔

۲ ۔ گندے ہاتھو ں سے کھانا کھانا ۔ اس کے بعض شاگردوں نے جب اس کی موجودگی میں ناپاک یعنی بن دھوئے ہاتھوں سے روٹی کھائی۔ (مرقس ۷/۲) تو اس پر بعض فقیہوں اور فریسیوں نے اعتراض کیا۔ اس کے جواب میں بجائے اپنے شاگردوں کو تادیب کرنے کے الٹا یہودیوں سے بحث کرنا شروع کر دیا اور کہا کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر انسان کو ناپاک نہیں کر سکتی۔( مرقس۷/۱۵) بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا ۔ متی ۱۵/۲۰۔

۳۔ مغلوب الغضب تھا۔

الف۔
یہودیوں کو گالیاں دیں ۔

ب ۔ انجیر کے درخت پر بلا وجہ غصہ کھایا ۔ (مرقس۱۱/۱۴و متی۱۹۔۲۱/۱۵)

۴۔
غیر کی چیز پر بلا اجازت ہاتھ صاف کرنا جائز سمجھتا تھا ۔ اس کے شاگردوں کا بالیں توڑنا اور اس کا حمایت کرنا ۔ (متی ۱،۱۲/۵ و مرقس ۲/۲۳)

۵۔ بزدل ہونا ۔
خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے بندوں کی عموماً اور انبیاء کی خصوصاً یہ صفت بتائی ہے کہ وہ بزدل نہیں ہوتے ۔ (یونس:۶۳) (المجادلۃ:۲۲)

أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (٦٢) (یونس:۶۳)

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحَآدُّونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥۤ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ فِى ٱلۡأَذَلِّينَ (٢٠) (المجادلۃ:۲۲)



ع کجا غوغائے شاں بر خاطر من وحشتے آرد

کہ صادق بزدلی نہ بود و گربیند قیامت را

(درثمین فارسی )


چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے نبی تھے لہٰذا بزدل نہ تھے مگر انجیل کا یسوع بزدل تھا ۔ ملاحظہ ہو :۔

۱۔ قتل کا مشورہ سن کر چھپ کر چلا گیا اور کہا کسی کو میرا نام نہ بتانا ۔ (متی ۱۵تا۱۲/۱۷)

۲۔
ایک شہر میں تمہیں ستائیں تو دوسرے میں بھاگ جاؤ ۔ (متی ۱۰/۲۳)

۳۔
اسی تعلیم کے نتیجے میں پولوس رسول قید خانہ سے سیوا جی مرہٹے کی طرح ٹوکرے میں بیٹھ کر بھاگا تھا ۔ (۲۔ کرنتھیوں ۳۲،۱۱/۳۳)

۴۔
جب یہودیوں نے مارنے کو پتھر اٹھائے تو ڈر کر کہا سب لوگ خدا کے بیٹے ہیں ۔ (یوحنا ۳۱تا۱۰/۳۵)

۷۔ مفسد ہونا


خدا کے انبیاء دنیا میں اصلاح کی غرض سے آتے ہیں جیسا کہ (ھود:۸۹) لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بوجہ نبی اور رسول ہونے کے بنی اسرائیل کی اصلاح ہی کے لئے آئے تھے ۔ مفسد ہونا تو قرآن مجیدنے منافق کی نشانی قرار دی ہے

قَالَ يَـٰقَوۡمِ أَرَءَيۡتُمۡ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ۬ مِّن رَّبِّى وَرَزَقَنِى مِنۡهُ رِزۡقًا حَسَنً۬ا‌ۚ وَمَآ أُرِيدُ أَنۡ أُخَالِفَكُمۡ إِلَىٰ مَآ أَنۡهَٮٰڪُمۡ عَنۡهُ‌ۚ إِنۡ أُرِيدُ إِلَّا ٱلۡإِصۡلَـٰحَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُ‌ۚ وَمَا تَوۡفِيقِىٓ إِلَّا بِٱللَّهِ‌ۚ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَإِلَيۡهِ أُنِيبُ (٨٨) (ھود:۸۹)

مگر انجیل کا یسوع دنیا میں اصلاح کے لئے نہیں بلکہ فساد کیلئے آیا تھا ۔ ملاحظہ ہو: ۔

الف۔ ’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا ہوں۔ صلح نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں۔‘‘ (متی۱۰/۳۴) اور کہا کپڑے بیچ کر تلوار خریدو ۔ (لوقا ۲۲/۳۷)

ب۔
’’میں زمین پر آگ ڈالنے آیا ہوں اور اگر آگ لگ چکی ہوتی تو میں کیا ہی خوش ہوتا ۔ تم گمان کرتے ہو کہ میں صلح کرانے آیا ہوں میں کہتا ہوں کہ نہیں میں جدائی کرانے۔ کیونکہ اب سے ایک گھرکے پانچ آدمی آپس میں مخا لفت رکھیں گے ۔ باپ بیٹے سے مخالفت رکھے گا اور بیٹا باپ سے ۔‘‘ (لوقا ۵۲،۱۲/۵۳)

ج ۔
’ ’میر ا وہی شاگرد ہو سکتا ہے جو اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں کا دشمن ہو۔‘‘ (لوقا۱۴/۲۶)

د۔ اور خود ہی کہتا ہے جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے ۔ (لوقا ۱۱/۱۷)

عیسائی:۔
خدا کے نبی جب آتے ہیں کچھ لوگ ا ن کی مخالفت کرتے ہیں کچھ ایمان لے آتے ہیں ۔ اس طرح تفریق پڑ جاتی ہے۔

احمدی :۔ خد اکے انبیاء کی آمد سے دو مخالف جماعتوں کا ہوجا نا انبیاء کی آمد کی غرض نہیں قرار د ی جاسکتی ۔ گو اس کو بعثت نبوت کے متعلق قرار دے لیا جائے ۔ مثلا ایک طالب علم بی۔اے کا امتحان دے اور اس میں فیل ہو جائے۔ امتحان دینے سے اس کی غرض تو پاس ہونا تھی مگر وہ خلاف منشاء فیل ہو گیا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں لڑ کے نے بی۔اے کا امتحا ن دیا تاکہ و ہ فیل ہو جائے تو یہ خلافِ عقل ہوگا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ فلاں نبی دنیامیں اس لئے آیا کہ تا دنیا میں لڑائیاں ہونے لگ جائیں ۔ بالکل خلافِ عقل بات ہے ۔

۸۔شیطان کا ساتھی

قرآن مجید کہتا ہے (النحل:۱۲۹)کہ متقیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے اور انبیاء کے ساتھ تو بو جہ ان کے اتقی الناس ہونے کے سب سے زیادہ ۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی خدا تھا

وَٱصۡبِرۡ وَمَا صَبۡرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِ‌ۚ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ وَلَا تَكُ فِى ضَيۡقٍ۬ مِّمَّا يَمۡڪُرُونَ (١٢٧) إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ وَّٱلَّذِينَ هُم مُّحۡسِنُونَ (١٢٨) (النحل:۱۲۹)

مگر انجیل میں جو یسوع کی سوانح زندگی درج ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ ا س کے ساتھ نہ تھا ۔

۱۔ اس کی ناکام زندگی ۔

۲۔ اس کا ایلی ایلی لما سبقتانی کہنا ۔ (متی ۲۷/۴۶)

۳۔
شیطان کا اس کے ساتھ چالیس روز رہنااور پھر کچھ عرصہ کے لئے اس سے جدا ہونا۔(لوقا۴/۱۳)

۹۔جھوٹ بولنا

قرآن مجید سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء سب سے زیادہ سچے اور سچ بولنے والے اور راستباز ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی راست گو اور سعادت شعار انسان تھے مگر انجیل کا یسوع راست گو نہ تھا ۔

۱۔ بھائیوں کو کہا تم عید پر جاؤ ۔ میں نہیں جاتا ۔ مگر جب وہ چلے گئے تو ان کے پیچھے پیچھے چھپ کر خود بھی چلا ۔ (یوحنا ۸تا۷/۱۰)

۲۔
یوحنا……چاہو تو مانو۔ ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے (متی ۳،۱۱/۴) مگر یوحنا کا انکار۔ (یوحنا ۱/۲۱)

۳۔
داؤد……سردار کاہن ابیاتار کے عہد میں خدا کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹیاں کھائیں۔(مرقس ۲/۲۶) حالانکہ وہ سردار ابیاتا ر نہیں بلکہ اخمیلک تھا ۔(۱۔سموئیل ۲۱/۱)

۱۰۔غلط پیشگوئیاں


قرآن مجید کی آیت:۔ (الجن:۲۷،۲۸)کے مطابق انبیاء کی صداقت کا معیار ان کی سچی پیشگوئیا ں ہیں اور ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی سچے نبی ہونے کی وجہ سے اس میں داخل ہیں مگر انجیلی یسوع کی تمام پیشگوئیاں غلط نکلیں ۔

(ا) تم میں سے کئی زندہ ہوں گے کہ میں آجاؤ ں گا۔ متی۱۶/۲۸ و مرقس ۹/۱

(۲)
شاگردوں کو کہا تم میر ے ساتھ حکومت کر و گے ۔ متی۱۹/۲۸

(۳)
ساتھ مصلوب ہونے والے چور کو کہا ۔ تو میرے ساتھ آج ہی جنت فردوس میں ہو گا۔ لوقا ۲۳/۴۳۔ مگر وفات کے تین دن بعد کہتا ہے کہ میں ابھی تک خدا کے پاس اوپر نہیں گیا ۔ یوحنا ۲۰/۱۷

(۴)
پطرس کو جنت کی کنجیاں (متی ۱۶/۱۹) مگر پھر اس کو شیطان کہا ۔ متی ۱۶/۲۳۔

(۵)
الف۔ صرف یونس کا معجزہ ان کو دیا جائے گا ۔ متی ۱۲/۳۹۔

ب۔
یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا (یوناہ باب۱ ۱ ٓخری آیت پرانی بائیبل ایڈیشن۱۸۸۷ء)

ج۔
یسوع صرف ایک ہی دن زمین میں رہا۔ (لوقا ۲۴/۱و متی۲۸/۱)

د ۔
یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا مگر بقول عیسائیاں مر کر رہا ۔

۱۱۔ ملعون

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (مریم:۳۲) کے الفاظ میں مبارک قرار دیا ہے مگر انجیلی یسوع برو ئے انجیل *** تھا۔

وَجَعَلَنِى مُبَارَكًا أَيۡنَ مَا ڪُنتُ وَأَوۡصَـٰنِى بِٱلصَّلَوٰةِ وَٱلزَّڪَوٰةِ مَا دُمۡتُ حَيًّ۬ا (٣١) (مریم:۳۲)

۱۔ الف۔ مسیح *** تھا کیونکہ صلیب پر لٹکایا گیا۔ (گلتیوں ۳/۱۳)

ب۔
جو صلیب دیا جائے وہ خدا کا ملعون ہے ۔ (استثنا ۲۱/۲۳)

۲۔
پطرس کو کہا ۔ جو تو زمین پر باندھے گا ۔ آسمان پر وہی بندھے گا۔ (متی ۱۶/۱۹ و ۱۸/۱۸)

پطرس نے یسوع کو *** کی ۔ (متی ۲۶/۷۴)

۱۲۔مکذب انبیاء

قرآن مجید۔
مسیح تمام پہلے انبیاء کا مصدق تھا اوراپنے بعد بھی انبیاء کی آمد کا مبشر تھا ۔ (الصّف:۷)

وَإِذۡ قَالَ عِيسَى ٱبۡنُ مَرۡيَمَ يَـٰبَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيۡكُم مُّصَدِّقً۬ا لِّمَا بَيۡنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوۡرَٮٰةِ وَمُبَشِّرَۢا بِرَسُولٍ۬ يَأۡتِى مِنۢ بَعۡدِى ٱسۡمُهُ ۥۤ أَحۡمَدُ‌ۖ فَلَمَّا جَآءَهُم بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ قَالُواْ هَـٰذَا سِحۡرٌ۬ مُّبِينٌ۬ (٦) (الصّف:۷)

مگر انجیلی یسوع تمام انبیاء کو چور اور ڈاکو کہتا تھا اور بعد میں آنے والوں کو جھوٹا کہتا تھا :۔

’’جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکو ہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۰/۸)

’’اور بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘ متی ۲۴/۱۱۔ پس قرآن کا مسیح، موجودہ انجیل والا یسوع نہیں ہو سکتا۔

فَافْھَمُوْا اَیُّھَا الْعَاقِلُوْنَ الطَّالِبُوْنَ لِلْحَقِّ ۔


شراب۔ (۱) یسوع نے سب سے پہلے جو معجزہ دکھایا وہ شراب بنانا تھا۔ (یوحنا ۷،۲/۹ و ۴/۴۶)

۲۔
پھر کہا۔ نئی مے نئی مشکوں میں بھرنی چاہیے۔ (لوقا ۵/۳۷)

۳۔
پو لوس کہتا ہے:۔ ’’ تھو ڑی سی شراب پی لیا کر۔‘‘ (۱۔تیمتھیس ۵/۲۳)

بھائی اور بہنیں :۔
’’ اس کے بھائی ا س کے پاس آئے۔‘‘ (لوقا ۸/۱۹ و مرقس۳/۳۱ و یوحنا۷/۵)

’’اس کی بہنیں۔‘‘ (متی ۵۵،۱۳/۵۶)
 
Top Bottom