تیسری آیت ۔ ومن یطع الله والرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
تیسری آیت
ومن یطع الله والرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا
سورۃ نمبر النساء آیت 69

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا

(النساء:۷۰)

جو اطاعت کریں گے اﷲ کی اور اس کے رسول (محمدصلی اﷲ علیہ وسلم)کی پس وہ ان میں شامل ہو جائیں گے جن پر اﷲ نے انعام کیا۔یعنی نبی، صدیق، شہید اور صالح اور یہ ان کے اچھے ساتھی ہوں گے۔

اس آیت میں خدا تعالیٰ نے امتِ محمدیہ میں طریقِ حصول نعمت اور تحصیلِ نعمت کو بیان کیا ہے۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچتا ہے۔

دوسری جگہ جہاں انبیاء سابق کی اتباع کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس کے نتیجہ میں انعام نبوت نہیں دیا گیا۔جیسا کہ فرمایا:۔ (الحدید:۲۰) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اﷲ تعالیٰ اور باقی تمام انبیاء پر وہ صدیق اور شہید ہوئے۔

یاد رہے کہ یہاں اٰمَنُوْا صیغہ ماضی اور رُسُلِہٖ صیغہ جمع ہے۔ بخلاف مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ والی آیت کے کہ اس میں یُطْعِ مضارع ہے اور الرسول خاص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے ہے۔

گویا پہلے انبیاء کی اطاعت زیادہ سے زیادہ کسی انسان کوصدیقیت کے مقام تک پہنچا سکتی تھی۔مگر ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت ایک انسان کو مقام نبوت پر بھی فائز کر سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ والی آیت میں لفظ مع ہے۔مِنْ نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گے۔خود نبی نہ ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ:۔

۱۔ اگر تمہارے معنے تسلیم کرلئے جائیں تو ساری آیت کا ترجمہ یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نبیوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود نبی نہ ہوں گے۔وہ صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود صدیق نہ ہوں گے وہ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے مگر خودشہید نہ ہوں گے وہ صالحین کے ساتھ ہوں گے مگر خود صالح نہ ہوں گے۔ تو گویا نہ حضرت ابو بکرؓ صدیق ہوئے،نہ عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ و حضرت حسینؓ شہید ہوئے اور نہ امت محمدیہ میں کوئی نیک آدمی ہوا۔ تو پھر یہ امت خیر امت نہیں بلکہ شر امت ہوئی۔ لہٰذا اس آیت میں مع بمعنی ساتھ نہیں ہو سکتا بلکہ مع بمعنی من ہے۔

۲۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔ (النساء:۱۴۷) مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کی اور خدا کی رسی کو مضبوط پکڑا اور اﷲ کے لئے اپنے دین کو خالص کیا۔پس وہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں۔اور خدا تعالیٰ مومنوں کو عنقریب بڑا اجر دے گا۔

کیا یہ صفات رکھنے والے لوگ مومن نہیں صرف مومنوں کے ساتھ ہی ہیں اور کیا ان کو ’’اجر عظیم‘‘ عطا نہیں ہو گا؟ چنانچہ تفسیر بیضاوی میں آیت بالا کے الفاظ کا ترجمہ یہ کیا ہے ’’فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمِنْ عِدَادِھِمْ فِی الدَّارَیْنِ‘‘۔ (بیضاوی زیر آیت ۔النساء:۷۰) یعنی وہ لوگ دونوں جہانوں میں مومنوں کی گنتی میں شامل ہیں پس کا ترجمہ بھی یہ ہو گا کہ ’’وہ دونوں جہانوں میں منعم علیہم یعنی انبیاء کی گنتی میں شامل ہوں گے۔‘‘

۳۔ (آل عمران:۱۹۴)(کہ مومن یہ دعا کرتے ہیں) کہ اﷲ! ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے۔اس آیت کا کیا یہ مطلب ہے۔اے اﷲ ! جب نیک لوگوں کی جان نکلے ہماری جان بھی ساتھ ہی نکال لے؟نہیں بلکہ یہ ہے کہ اے اﷲ! ہم کو بھی نیک بنا کر مار۔

۴۔ایک جگہ شیطان کے متعلق آتا ہے۔(الحجر:۳۶) کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا اور دوسری جگہ (الاعراف:۱۲)آتا ہے۔

نوٹ:۔ مَعَ کے معنی معیت(ساتھ )کے بھی ہوتے ہیں۔جیسا کہ آیت (البقرۃ:۱۹۵، التوبۃ:۱۲۳)(کہ خدا نیک لوگوں کے ساتھ ہے)میں۔ اور مع کے معنی من بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر مثالیں دی گئی ہیں۔ اور مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ والی آیت میں تو اس کے معنی سوائے من کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔کیونکہ اگر یہ معنے نہ کئے جائیں تو امت محمدیہ نعوذباﷲ شرّ امت قرار پاتی ہے جو بالبداہت باطل ہے۔ لہٰذا ہمارے جواب میں (التوبۃ:۴۰)اور (البقرۃ:۱۹۵) پیش کرنا غیر احمدیوں کے لئے مفید نہیں۔

نبوت موہبت ہے

بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی میں نبوت ملے گی۔ تو اس سے یہ ماننا لازم آئے گا کہ نبوت ایک کسبی چیز ہے۔ حالانکہ نبوت موہبت الٰہی ہے نہ کہ کسبی۔ اور نبی تو ماں کے پیٹ سے ہی نبی پیدا ہوتا ہے۔

جواب: ۔اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک نبوت وہبی ہے لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی موہبت نازل نہیں ہوتی جب تک کہ انسان کی طرف سے بعض اعمال ایسے سرزد نہ ہوئے ہوں جو اس موہبت کے لئے جاذب بن جائیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (الشوریٰ:۵۰) کہ اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کو لڑکیاں موہبت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہیلڑکے موہبت کرتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا (مریم:۵۰)کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق اور یعقوبؑ موہبت کئے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد موہبت ہے لیکن کیا اولاد کے حصول کے لئے کسی انسانی عمل کی ضرورت نہیں؟

بیشک نبوت کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی اور اطاعت اور اعمال صالحہ شرط ہیں، لیکن اعمال صالحہ بھی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق کے بغیر بجا لائے نہیں جا سکتے چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شِکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۷۰) ’’اعمالِ صالحہ کا صادر ہونا خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۶۷حاشیہ)

عورتیں کیوں نبی نہیں بنتیں؟

بعض غیر احمدی (النساء:۷۰) والی آیت و نیز (الفاتحہ:۷) والی آیت پر(جب یہ امکانِ نبوت کی تائید میں پیش کی جائے) یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اگر نبوت کا ملنا ’’اطاعت نبویؐ‘‘ پر موقوف ہے تو پھر کیا و جہ ہے کہ عورتوں میں سے کسی کو نبوت نہیں ملتی۔ حالانکہ اطاعت نبویؐ تو عورتیں بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح کی دعا اگر حصول نبوت کو مستلزم ہے تو یہ دعا تو عورتیں بھی کرتی ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ عورتیں نبی نہیں بنتیں؟ تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض محض آیاتِ مذکورہ بالا پر غور نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے حالانکہ اس کا جواب بھی ان آیات میں موجود ہے اور وہ یہ کہ والی آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ جو لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے ہم ان کو نبی بنائیں گے بلکہ فرمایا جو لوگ اطاعت کریں گے ہم ان کو ان لوگوں میں شامل کر دیں گے جن پر ہم نے انعام کیا (النساء:۷۰) (بصیغہ ماضی) یعنی نبی، صدیق اور صالح۔ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ زمانۂ ماضی میں جس جس طرح ہم نے مندرجہ بالا انعامات تقسیم کئے تھے۔اب ہم اطاعتِ نبویؐ کے نتیجہ میں وہی انعام اسی طریق پر امتِ محمدیہ کے افراد میں تقسیم کریں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ کہ کیا(النساء:۷۰) میں جو لوگ شامل ہیں ان میں سے کوئی عورت بھی کبھی ’’نبی‘‘ ہوئی؟ تو اس کا جواب خدا تعالیٰ خود دیتا ہے کہ (الانبیاء:۸) یعنی اے نبیؐ! ہم نے آج تک کسی عورت کو نبی نہیں بنایا۔پس جب کبھی کوئی عورت نبوت کا انعام پانے والی کبھی ہوئی ہی نہیں۔ تو پھر امت محمدیہؐ میں کس طرح ہو سکتی ہے؟کیونکہ اس امت کو تو وعدہ ہی یہ دیا گیا ہے کہ (النساء:۷۰) کہ تم کو بھی وہی انعامات ملیں گے جو پہلی امتوں کو ملے۔مردوں کو نبوت ملی۔عورتیں زیادہ سے زیادہ صدیقیت کے مقام تک پہنچیں۔چنانچہ اس امت میں بھی انتہائی مقام مردوں کے لئے نبوت اور عورتوں کے لئے صدیقیت مقرر ہوا۔

اسی طرح کی دعا میں بھی اَنْعَمْتَ صیغہ ماضی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے خدا! جو جو انعامات تو پہلی امتوں کے افراد پر نازل کرتا رہا ہے وہ ہم پر بھی نازل کر۔ پس چونکہ پہلی امتوں میں کبھی کوئی عورت نبی نہیں ہوئی اس لئے اب بھی کوئی عورت نبی نہیں ہو گی۔ جب امت محمدیہ کا کوئی مردکی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے خدا! مجھ پر بھی وہ انعام نازل فرما جو تو نے پہلی امتوں کے مردوں پر کئے۔ اور جب کوئی امت محمدیہ کی عورت یہ دعا کرتی ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اے خدا! تو نے جو انعام پہلی امتوں کی عورتوں پر نازل کئے وہ مجھ پر بھی نازل فرما۔پس اﷲ تعا لیٰ نے اپنے پرحکمت کلام میں ماضی کا صیغہ رکھ کر اس اعتراض کو بیخ و بُن سے اکھاڑ دیا۔ فا لحمدﷲ علیٰ ذٰلک۔

ہر اطاعت کرنے والا نبی کیوں نہیں بنتا

بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہوالی دعا تو امت محمدیہ کے افراد کرتے رہتے ہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت تو صحابہ رضوان اﷲ اجمعین نے بھی کی۔پھر والی آیت کے ما تحت ان سب کو نبوت ملنی چاہیئے تھی؟

الجواب نمبر۱:۔ اس کا جواب یہ کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔(الانعام:۱۶۵) کہ یہ اﷲ تعا لیٰ ہی سب سے بہتر جانتا ہے کہ کس کو نبی بنائے۔کب نبی بنائے اور کہاں نبی بنائے؟

الجواب نمبر۲:۔اﷲ تعا لیٰ سورۃ نور میں فرماتا ہے (النور:۵۶)کہ اﷲ تعالیٰ ایمان لانے اور اعمال صالحہ بجا لانے والے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ ان سب کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔

اب ظاہر ہے کہ آیتِ استخلاف مندرجہ بالا کی رو سے خلیفہ صرف حضرت ابوبکر۔عمر۔عثمان و علی رضی اﷲ عنہم ہی ہوئے۔ کیا تمام صحابہؓ میں صرف یہ چار مومن باعمل تھے؟ کیا حضرت عائشہؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت بلالؓ،حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ، طلحہؓ،زبیر ؓ رضوان اﷲ علیہم وغیرہ صحابہ ؓ نعوذ باﷲ مومن نہ تھے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بیشک یہ سب مومن تھے لیکن خلافت اﷲ کی دین ہے جس کو چاہے دے۔لیکن وعدہ عام ہے جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب نبوت و خلافت صرف انہی لوگوں کو مل سکتی ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمانبردار ہوں۔ اس کے بغیر نہیں مل سکتی۔علاوہ ازیں جب کسی قوم سے ایک شخص نبی ہو جائے تو وہ انعام نبوت سب قوم پر ہی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآنِ مجید میں ہے:۔

(المائدۃ:۲۱)کہ اے قوم اس نعمت کو یاد کرو جو خدا نے تم پر نازل کی جب کہ اس نے تم میں سے نبی بنائے۔

گویا کسی قوم میں سے کسی شخص کا نبی ہونا اس تمام قوم پر خداتعالیٰ کی نعمت سمجھا جاتا ہے۔ پس اور والی آیات میں جس نعمت نبوت کا وعدہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہ نہیں کہ ہر کوئی نبی بنے بلکہ صرف اس قدر ضروری ہے کہ اس امت میں سے بھی ضرور نبوت کی نعمت کسی فرد پر نازل کی جائے۔

ہمارے ترجمہ کی تائید

حضرت امام راغب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس آیت کے وہی معنے بیان کئے ہیں جو اوپر بیان ہوئے چنانچہ تفسیر بحر المحیط (مؤلفہ محمد بن یوسف) اندلسی میں لکھا ہے:۔وَ قَوْلُہٗ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ تَفْسِیْرٌ لِقَوْلِہٖ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ……وَالظَّاھِرُ اَنَّ قَوْلَہٗ مِنَ النَّبِیِّیْنَ تَفْسِیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ فَکَاَنَّہٗ قِیْلَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ مِنْکُمْ اَلْحَقَہُ اللّٰہُ بِالَّذِیْنَ تَقَدَّمَھُمْ مِمَّنْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔ قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ اَنْعَمَ عَلَیْھِمْ مِنَ الْفِرَقِ الْاَرْبَعِ فِی الْمَنْزِلَۃِ وَالثَّوَابِ النَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ وَالصِّدِّیْقُ بِالصِّدِّیْقِ وَالشَّھِیْدُ بِالشَّھِیْدِ وَالصَّالِحُ بِالصَّالِحِ وَ اَجَازَ الرَّاغِبُ اَنْ یَّتَعَلَّقَ مِنَ النَّبِیِّیْنَ بِقَوْلِہٖ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ اَیْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَ مِنْ بَعْدِھِمْ (تفسیر بحرالمحیط زیر آیت مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ النساء:۶۹جلد۳ صفحہ۲۸۷ مطبوعہ مصر)یعنی خدا کا فرماناکہ ’’مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ‘‘ یہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی تفسیر ہے۔اور یہ ظاہر ہے کہ خدا کا قول مِنَ النَّبِیِّیْنَ تفسیر ہے۔ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی۔ گویا یہ بیان کیا گیاہے کہ تم میں سے جو شخص اﷲ اور اس رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا۔اﷲ تعا لیٰ اس کو ان لوگوں میں شامل کر دے گا جن پر قبل ازیں انعامات ہوئے اور امام راغبؒ نے کہا ہے کہ ان چار گروہوں میں شامل کرے گا مقام اور نیکی کے لحاظ سے۔نبی کو نبی کے ساتھ اور صدیق کو صدیق کے ساتھ اور شہید کو شہید کے ساتھ اور صالح کو صالح کے ساتھ۔اور راغبؒ نے جائز قرار دیا ہے کہ اس امت کے نبی بھی نبیوں میں شامل ہوں۔جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ یعنی مِنَ النَّبِیِّیْنَ(نبیوں میں سے)۔

اس حوالہ سے صاف طور پر حضرت امام راغبؒ کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس امت میں بھی انبیا ء کی آمد کے قائل تھے۔چنانچہ اس عبارت کے آگے مؤلف بحر المحیط(محمد بن یوسف بن علی بن حیان الاندلسی جو۷۵۴ھ میں فوت ہوئے)نے امام راغبؒ کے مندرجہ بالا قول کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ راغبؒ کے اس قول سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی آپ کی امت میں سے بعض غیر تشریعی نبی پیدا ہوں گے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے۔اس پر مصنف اپنا مذہب لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ درست نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدنبوت کا دروازہ بند ہے۔

لیکن ہمیں مؤلف بحر المحیط یعنی محمد بن یوسف الاندلسی کے اپنے عقیدہ سے سروکار نہیں ہمیں تو یہ دکھانا مقصود ہے کہ آیت الخکا جو مفہوم آج جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہ نیا نہیں۔ بلکہ آج سے سینکڑوں سال قبل امام راغب رحمۃ اﷲ علیہ بھی اس کا وہی ترجمہ کرتے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

غیر احمدی:۔ ترمذی میں حدیث ہے کہ’’ اَلتَّا جِرُالصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ‘‘ آج تک کتنے لوگ تجارت کی و جہ سے نبوت حاصل کر چکے ہیں؟

(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۷۱ طبع ثانی ۱۹۸۹ء مطبع طفیل آرٹ پرنٹر لاہور از مولوی عبداﷲ معمار امرتسری)

جواب:۔ یہ روایت ضعیف ہے۔کیونکہ اسے قبیصہ ابن عقبۃالکوفی نے سفیان ثوری سے اور سفیان ثوری نے ابو حمزہ عبد اﷲ بن جابر سے۔اس نے حسن سے اور اس نے ابو سعید سے روایت کیا ہے۔

قبیصہ کے متعلق لکھا ہے:۔قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ ھُوَ ثِقَۃٌ اِلَّا فِیْ حَدِیْثِ الثَّوْرِیْ وَ قَالَ اَحْمَدُ کَثِیْرُ الْغَلْطِ……قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ لَیْسَ بِذَاکَ الْقَوِیِّ(میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۳۱۰ذکر قبیصہ بن عقبہ) کہ ابن معین فرماتے ہیں کہ قبیصہؔ کی وہ روایت جو وہ سفیان ثوری سے روایت کرے کبھی قبول نہ کرنا احمدؔ کے نزدیک یہ راوی کثرت سے غلط روایت کرتا تھا اور ابن معین کے خیال میں یہ قوی راوی نہ تھا۔ یہ روایت بھی اس راوی کی سفیان ثوری ہی سے ہے۔لہٰذا جھوٹی ہے۔

۲۔ اگر درست بھی ہوتی تو بھی حرج نہ تھا کیونکہ اَلتَّا جِرُالصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ تو خود ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ ہیں۔ لہٰذا آپ ہی وہ خاص تاجر اور وہ سچ بولنے والے امین نبی تھے جن کی تعریف اس قول میں کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ حضور نبی تھے۔
 
Top Bottom