چوتھی آیت ۔ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیهم ولا هم یحزنون ۔ سورۃ الاعراف 35

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیهم ولا هم یحزنون

يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سورۃ 7 ۔ سورۃ الاعراف آیت 35

(الاعراف:۳۶) اے بنی آدم(انسانو!) البتہ ضرور آئیں گے تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کریں گے تمہارے سامنے میری آیتیں۔پس جو لوگ پرہیزگاری اختیار کریں گے اور اپنی اصلاح کریں گے ان کو کوئی غم اور ڈر نہ ہو گا۔

’’اِمَّا یَاْتِیَنَّ‘‘کا ترجمہ یہ ہے ’’البتہ ضرور آئیں گے‘‘ کیونکہ یَاْتِیَنَّ مضارع مؤکد بہ نون ثقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے جیسا کہ کتاب الصرف مؤلفہ حافظ عبد الرحمن امرتسری میں لکھا ہے:۔

’’نون تا کید۔ یہ حرف آخر مضارع میں آتا ہے اور اس کے آنے سے مضارع کے پہلے لام مفتوح کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ نون مضارع کے آخر حرف پر فتحہ اور معنے تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کے دیتا ہے، جیسے لَیَفْعَلَنَّ(وہ البتہ ضرور کرے گا) اس کو مضارع مؤکد بلامِ تاکیدو نون تاکید کہتے ہیں۔‘‘ اور اس پر حاشیہ میں لکھا ہے:۔

’’اکثر تو لام مفتوح آتا ہے۔ مگر کبھی اِمَّا بھی آ جاتا ہے۔ جیسیاِمَّا یَبْلُغَنَّ‘‘

(دیکھو کتاب الصرف سبق نمبر۱۳ نونِ تاکید صفحہ۱۵ ایڈیشن نمبر۹ صفحہ ۲۳)

نیز ملاحظہ ہو بیضاوی جلد۲ صفحہ ۲۸۲ مطبع احمدی زیر آیت (الزخرف:۴۲) لکھا ہے۔

’’وَمَا مَزِیْدَۃُ مُؤَکِّدَۃٌ بِمَنْزِلَۃِ لَامِ الْقَسَمِ فِی اسْتِجْلَابِ النُّوْنِ الْمُؤَکِّدَۃِ۔‘‘

پس ’’یَأْتِیْ‘‘(آئے گا) مضارع کے آخر میں ’’نون تاکید‘‘ آیا۔ اور اس کے شروع میں اِمَّا آیا۔پس اس کے معنے ہوئے ’’البتہ ضرور آئیں گے رسل‘‘(ایک سے زیادہ رسول)۔

نوٹ:۔ یہ آیت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس میں تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہاں یہ نہیں لکھا ہوا کہ ہم نے گزشتہ زمانہ میں یہ کہا تھا۔ نیز اس آیت سے پہلے کئی مرتبہ’’ےَا بِنِیْ اٰدَمَ‘‘ آیا ہے اور اس میں سب جگہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگ مخاطب ہیں جیسا کہ (الاعراف:۳۲) اے انسانو! ہر مسجد (یا نماز) میں اپنی زینت قائم رکھو۔

چنانچہ امام جلا ل الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:۔ فَاِ نَّہٗ خِطَابٌ لِاَھْلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ وَ لِکُلِّ مَنْ بَعْدَھُمْ(تفسیر اتقان جلد۲ صفحہ ۳۶ مصری) کہ یہ خطاب اس زمانہ اور اگلے زمانہ کے تمام لوگوں کوہے۔

(ب)تفسیر حسینی موسومہ بہ تفسیر قادری میں ہے:۔ ’’یہ خطاب عرب کے مشرکو ں کی طرف ہے۔اور صحیح بات یہ ہے کہ خطاب عام ہے۔(تفسیر حسینی جلد۱ صفحہ ۳۰۵ آخری سطر مطبوعہ نولکشورزیر آیت )

(ج)امام فخر الدینؒ رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔وَ اِنَّمَا قَالَ رُسُلٌ وَ اِنْ کَانَ خِطَابًا لِلرَّسُوْلِ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم ُو َھُوَ خَاتَمُ الْاَنْبِیَآءِ عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ……وَ اَمَّا قَوْلُہٗ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ فَقِیْلَ تِلْکَ الْاٰیَاتُ ھِیَ الْقُرْآنُ……ثُمَّ قَسَمَ اللّٰہُ تَعَالٰی حاَلَ الْاُمَّۃِ فَقَالَ (فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ)(تفسیر کبیرجلد۴صفحہ ۲۹۹ مصرزیر آیت البقرۃ:۱۱۳)۔

غیر احمدی:۔ (الاعراف:۳۲)میں ’’مسجد‘‘ کا لفظ غیر مذاہب کے معبدوں کے لیے استعمال ہوا ہے نہ کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے لئے۔

جواب:۔آیت زیر بحث کے سیاق و سباق میں سوائے مسلمانوں کے کسی اور قوم کا ذکر ہی نہیں اور یہ تمام نصائح مسلمانوں کو کی گئی ہیں۔ چنانچہ (الاعراف:۳۶) سے پہلی دو آیات یہ ہیں:۔ ۔ (الاعراف:۳۴ تا ۳۶)

ان آیات کا ترجمہ تفسیر حسینی سے نقل کیا جاتا ہے:۔

’’کہہ اے محمدصلی اﷲ علیہ وسلم! سوائے اس کے نہیں کہ حرام کئے ربّ تیرے نے گناہ کبیرہ کہ بڑے عذاب کے سبب ہیں جو ظاہر ہے ان میں سے جیسے کفر اور جو پوشیدہ ہے جیسے نفاق اور حرام کیا وہ گناہ جس پر حد مقرر نہیں ہے۔ جیسے گناہِ صغیرہ۔ اور حرام کیا ظلم یا تکبر ساتھ حق کے…… اور حرام کیا یہ کہ شرک لاؤ تم ساتھ اﷲ کے۔اور شرک پکڑو اس کی عبادت میں اس چیز کو کہ خدا نے نہیں بھیجی……کوئی دلیل۔ اور یہ بھی حرام کیا ہے کہ کہو تم جھوٹ اور افتراء کرو خدا پر جو کچھ تم نہیں جانتے ہو۔ کھیتوں اور چارپایوں کی تحریم اور بیت الحرام کے طواف میں برہنہ ہونا اور واسطے ہر گروہ کے ایک مدت ہے جو خدا نے مقرر کر دی ہے۔ان کی زندگی کے واسطے۔‘‘ (تفسیر حسینی جلد۱صفحہ ۳۰۵ اردو مترجم مکتبہ سعید ناظم آباد کراچی زیر آیت الاعراف: ۳۳ تا ۳۵)

صاف ظاہر ہے کہ’’قُلْ‘‘ کہہ کر خطاب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے اور پھر حضورؐ کے ذریعہ سے یہ پیغام تمام بنی نوع انسان کو پہنچایا گیا ہے کہ (الاعراف:۳۶)

باقی رہا تمہارا کہنا کہ ’’مسجد‘‘ سے مراد اصحاب کہف (عیسائیوں) کی مسجد ہے تو یہ محض مغالطہ آفرینی ہے کیونکہ یہ آیت عیسائیوں کے گرجوں کے اندر اچھے اچھے کپڑے پہن کر جانے کی ہدایت نہیں دیتی بلکہ کعبہ شریف خصوصاًاور دوسری اسلامی مساجد میں عموماً نماز پڑھنے کے لیے جانے والوں کو مخاطب کرتی ہے۔ چنانچہ تفسیر حسینی میں (الاعراف:۳۲)کی مندرجہ ذیل تشریح کی گئی ہے۔

بعض مفسر اس بات پر ہیں کہ یہ خطاب عام ہے اور اکثر مفسر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے۔اس واسطے بنو ثقیف اور دوسری ایک جماعت عرب مشرکوں کی تھی کہ ان کے مرد اور عورتیں برہنہ طواف کرتی تھیں۔اور کپڑے اتار ڈالنے سے یہ فال لیتے تھے کہ گناہوں سے ہم بری ہو گئے اور بنو عامر احرام کے دنوں میں حیوان کھانے سے پرہیز کرتے تھے اور تھوڑے سے کھانے پر قناعت کر کے اس فعل کو اطاعت جانتے تھے اور کعبہ کی تعظیم کا خیال باندھتے تھے۔مسلمانوں نے کہا کہ یہ تعظیم وتکریم کرنا ہم کو تو بہت سزا وار اور لائق ہے۔ حق تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا اور ارشاد کیا کہاپنے کپڑے کہ ان کے سبب سے تمہاری زینت ہے نزدیک ہر مسجد کے جس کا تم طواف کرتے ہو یا جس میں تم نماز پڑھتے ہو۔‘‘(تفسیرحسینی جلد۱صفحہ۳۰۴زیرآیت الاعراف:۳۲)

(ب) حضرت امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍؓ اِنَّ اَھْلَ الْجَاھِلِیَّۃِ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ کَانُوْا یَطُوْفُوْنَ بِالْبَیْتِ عُرَاۃً۔ اَلرِّجَالُ بِالنَّھَارِ وَالنِّسَآءُ بِاللَّیْلِ وَکَانُوْا اِذَا وَصَلُوا اِلٰی مَسْجِدِ مِنٰی طَرَھُوْا ثِیَابَھُمْ وَ اَتُوُا الْمَسْجِدَ عُرَاۃً وَ قَالُوْا لَا نَطُوْفُ فِیْ ثِیَابٍ اَصَبْنَا فِیْھَا الذُّنُوْبَ…… فَقَالَ الْمُسْلِمُوْنَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ فَنَحْنُ اَحَقُّ اَنْ نَّفْعَلَ ذٰلِکَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ اَیْ اَلْبِسُوْا ثِیَابَکُمْ وَ کُلُوا اللَّحْمَ۔ (تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ ۲۹۳ مصری الاعراف:۳۲)

یعنی ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ عرب قبائل بباعث جاہلیت کے خانہ کعبہ کا طواف ننگے بدن کرتے تھے۔ دن کو مرد اور رات کو عورتیں طواف کرتی تھیں۔اور جب وہ مسجد منیٰ کے قریب پہنچتے تھے تو اپنے کپڑے اتار کر مسجد میں ننگے بدن آتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہم ان کپڑوں کے ساتھ کبھی طواف نہیں کریں گے جن میں ہم گناہ کرتے ہیں۔پھر جب اس بارے میں مسلمانوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم سے استفسار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی یہ حکم دیا کہ اپنے کپڑے پہنو اور گوشت کھاؤ۔

(ج)تفسیر بیضاوی میں ہے:۔

خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ۔ ثِیَابَکُمْ لِمَوَارَاۃِ عَوْرَتِکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ لِطَوَافٍ اَوْ صَلٰوۃٍ۔ وَ مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یَاْخُذَ الرَّجُلُ اَحْسَنَ ھَیْئَتِہٖ لِلصَّلٰوۃِ وَ فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلٰی وَجُوْبِ سَتْرِ الْعَوْرَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ۔

وَ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا:۔ مَا طَابَ لَکُمْ رُوِیَ اَنَّ بَنِیْ عَامِرٍ فِیْ اَیَّامِ حَجِّھِمْ کَانُوْا لَا یَاْکُلُوْن َالطَّعَامَ اِلَّا قُوْتًا……فَھَمَّ الْمُسْلِمُوْنَ بِہٖ فَنَزَلَتْ(بیضاوی مجتبائی جلد ۲ صفحہ۱۵۳زیر آیت الاعراف:۳۲)

پس ثابت ہوا کہ یہاں مسجد سے مراد عیسائیوں کے گرجے نہیں بلکہ کعبۃ اﷲ اور مسلمانوں کی دوسری مسجدیں مراد ہیں۔نیز یہ کہ حضرت آدمؑ کے زمانہ کا واقعہ بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔

غیر احمدی:۔ لفظ’’رسول‘‘ نبی اور رسول اور محدث تینوں معنوں پر مشتمل ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے۔

جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصطلاح تو خاص تھی جس کے رو سے لفظ محدث بالواسطہ غیر تشریعی نبی کا ہم معنی اور قائمقام ہے۔اس لحاظ سے اگر لفظ ’’رسول‘‘ میں غیر تشریعی نبوت کا حامل شامل ہو تو پھر بھی امکان نبوت ثابت ہے۔

غیر احمدی:۔ لفظ رسول تو تشریعی و غیر تشریعی دونوں قسم کی نبوت پر مشتمل ہے پھر اس آیت سے تشریعی نبوت کا امکان بھی ثابت ہوا۔

جواب:۔جی نہیں! بلکہ اس آیت میں تو اس کے با لکل بر عکس یہ بتایا گیا ہے کہ اب جن رسولوں کی آمد کا وعدہ دیا جا رہا ہے وہ سب غیر تشریعی نبی ہوں گے اور صرف (الاعراف:۳۶) وہ سابقہ نازل شدہ آیاتِ قرآنی ہی کو پڑھ پڑھ کر سنایا کریں گے۔ملاحظہ ہو حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ کا ارشاد۔ فرماتے ہیں:۔

وَاَمَّا قَوْلُہٗ(تَعَالٰی یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ) فَقِیْلَ تِلْکَ الْاٰیَاتُ ھِیَ الْقُرْاٰنُ۔(تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ ۲۹۹ مصری زیرآیت الاعراف:۳۶)

نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان موعودہ رسولوں کی بعثت کی غرض تو تقویٰ پیدا کرنا اوراصلاح کرنا ہو گی جیسا کہ فرمایا ہے۔ (الاعراف:۳۶) یعنی جو تقویٰ اختیار کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا وہی امن میں ہو گا۔ دوسرا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ اس آیت سے ’’اِتْیَانُ الرُّسُلِ اَمْرٌ جَائِزٌ غَیْرُ وَاجِبٍ‘‘ (بیضاوی مجتبائی جلد ۲ صفحہ ۱۵۴ زیر آیت الاعراف:۳۵ و مطبع احمدی جلد۱ صفحہ ۲۸۲ نیز تفسیر ابی السعود بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت جلد۴ صفحہ ۲۹۹ مصری) یعنی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد رسولوں کا آنا جائز ہے۔اگرچہ ضروری نہیں کہ رسول ضرور ہی آئیں۔

بہر حال امکان نبوت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
 
Top Bottom