دسویں آیت ۔ ولقد ضل قبلهم اکثر الاولین ۔ ولقد ارسلنا فیھم منذرین ۔ سورۃ الصافات آیت 37 ، 38

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
دسویں آیت ۔ ولقد ضل قبلهم اکثر الاولین ۔ ولقد ارسلنا فیھم منذرین ۔ سورۃ الصافات آیت 37 ، 38

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ ۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ


دسویں دلیل:۔

(الصّٰفّٰت: ۷۲،۷۳)

کہ پہلی امتوں کی جب اکثریت گمراہ ہو گئی تو ہم نے ان کی طرف نبی بھیجے۔ گویا جب کسی امت کا اکثر حصہ ہدایت کو چھوڑ دے تو خداتعالیٰ کے انبیاء ان کی طرف مبعوث ہوتے ہیں۔ تاکہ ان کو پھر صراط مستقیم پر چلائیں۔

۲۔ (البقرۃ:۲۱۴)

ہم نے انبیاء رسل اور کتابیں بھیجیں تاکہ وہ (نبی) ان اختلافات کا فیصلہ کریں جو ان لوگوں میں پیدا ہوگئے تھے۔

ثابت ہواکہ اختلاف اور تفرقہ کا وجود ضرورتِ نبی کو ثابت کرتا ہے۔

۳۔ (الجمعۃ:۳)کہ ہم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث کیا …… اور آپ کی آمد سے قبل یہ لوگ صریحاً گمراہی میں تھے۔

گویا جب گمراہی پھیل جائے تو خدا تعالیٰ نبی بھیجتا ہے۔

۴۔ (الروم:۴۲)کہ خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا۔ یعنی عوام اور علماء یا غیر اہل کتاب کی حالت خراب ہو گئی تو نبی بھیجا گیا۔

ان چار آیات سے ثابت ہے کہ جب دنیا میں گمراہی پھیل جاتی ہے۔ تفرقے پڑ جاتے ہیں۔ پہلے نبی کی امت کا اکثر حصہ اس کی تعلیم کو چھوڑ دیتا ہے تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نبی اور رسول کو مبعوث فرماتاہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ضلالت و گمراہی،امت محمدیہ کے اکثر حصہ کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کو چھوڑ دینا۔ علماء اور عوام کا بگڑنا واقع ہوا یا نہیں ؟

خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ (وَ فِیْ رَوَایَۃِ شِبْرًا بِشِبْرٍ )حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ اَتٰی اُمَّہٗ عَلَانِیَّۃً لَکَانَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ وَاِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی اثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَ تَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّ سَبْعِیْنَ کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ۔

(ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی افتراق ھٰذہ الامۃ)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ البتہ ضرور آئے گا میری امت پر وہ زمانہ جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا۔ یہ ان کے قدم بقدم چلیں گے۔ یہاں تک کہ اگر کسی یہودی نے علانیہ اپنی ماں کے ساتھ بد کاری کی ہوگی تو میری امت میں سے بھی ضرور کوئی ایسا ہوگا جو یہ کرے گا۔ اور بنی اسرائیل کے بہتر(۷۲) فرقے ہو گئے تھے اور میری امت کے تہتر(۷۳) فرقے ہو جائیں گے۔ سوائے ایک کے باقی سب کے سب جہنمی ہوں گے۔

۲۔ عَنْ عَلِیٍّ قِالِ قِالِ رِسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّأْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مِنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَ فِیْھِمْ تَعُوْدُ رَوَاہُ الْبَیْھَقِیْ فِیْ شُعْبِ الْاِیْمَانِ۔

(مشکوٰۃ کتاب العلم باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا۔ جب اسلام میں کچھ باقی نہ رہے گا مگر نام۔ اور قرآن کا کچھ باقی نہ رہے گا مگر الفاظ۔ مسجدیں آباد نظر آئیں گی مگر ہدایت سے کوری۔ ان لوگوں کے مولوی آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے انہی سے فتنہ اٹھیں گے۔ اور ان ہی میں واپس لوٹیں گے۔

ان ہر دوحدیثوں سے ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ضلالِ مبین پھیلے گی۔ امت محمدیہ میں تفرقے پڑیں گے۔ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ اور قرآن کے فقط الفاظ۔ اور پھر علماء اور عوام کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہو جائے گی۔ گویا کہ (الروم:۴۲)کا پورا نقشہ کھنچ جائے گا۔

پس قرآن کی بتائی ہوئی مندجہ بالا سب ضروریا ت اور احادیث کی بتائی ہوئی سب جملہ علامات موجود ہیں جو بعثتِ رسول کو مستلزم ہیں۔

پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدنبوت کا امکان ثابت ہے۔
 
Top Bottom