اعتراض 27۔ مرزا صاحب نے فوٹو ۔تصویر کھنچوائی۔ حالا نکہ لکھا ہے۔ کل مصور فی النار

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 27۔ مرزا صاحب نے فوٹو ۔تصویر کھنچوائی۔ حالا نکہ لکھا ہے۔ کل مصور فی النار

کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ

جواب :۔ ( ۱) تمہا رے پیش کردہ کلیہ میں سے تو خدا تعالیٰ بھی مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ قرآن مجید میں ہے کہ وہ ’’مُصَوِّرٌ‘‘ہے۔ جیسا کہ فرمایا :۔(سورۃ الحشر :۲۵)

۲۔ قرآن مجید میں حضرت سلیما ن علیہ السلام کے محل کے متعلق لکھا ہے :۔

الف۔’’(سورۃ سبا:۱۴)

ب۔ ان آیا ت کا ترجمہ تفسیر حسینی الموسومہ بہ قادری میں مندرجہ ذیل ہے :۔

’’کا م بناتے تھے جنّ سلیما ن ( علیہ السلام) کے واسطے جو چاہتے تھے سلیما ن ؑ۔ دَر اور دالان اچھے اور دیواریں خوب……اور بناتے تھے مورتیں۔ اور فرشتوں اور انبیاء علیہم السلام کی صورتیں اس وضع پر جس پر کہ وہ عبادت کے وقت رہتے تھے۔ تا کہ لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر اسی صورت سے عبادت کریں۔……اور بناتے تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے واسطے لکڑی وغیرہ کے کاسے۔ بڑے حوضوں کے مثل اور دیگیں اونچی اونچی…………کہا ہم نے کہ نیک کا م کرو۔ اے آل داؤد! واسطے شکر ان نعمتوں کے کہ ثابت ہیں۔ ‘‘ (تفسیر قادری المعروف بہ تفسیر حسینی اردو زیرآیت سباء:۱۴)

ج۔اما م رازی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:۔

’’اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اَنْزَلَ عَلٰی اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ تَابُوْتًا فِیْہِ صُوَرُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ اَوْلَادِہٖ فَتَوَارَثَہٗ اَوْلَادُ اٰدَمَ اِلٰی اَنْ وَصَلَ اِلٰی یَعْقُوْبَ۔ ‘‘ (تفسیر کبیر امام رازیؒ زیرآیتالبقرۃ:۲۵۰)

’’یعنی اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک ’’تابوت‘‘ نازل فرمایا جس میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ہونے والے سب نبیوں کی تصویریں تھیں۔ پس وہ صندوق اولاد آد م ؑ میں بطور ورثہ چلتا چلا آیا۔ یہاں تک کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا۔ ‘‘

د۔ تفسیر بیضاوی میں ’’تابوت سکینتہ ‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۵۰) کی تشریح میں لکھا ہے:۔

’’قِیْلَ صُوَرُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ اٰدَمَ اِلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ قِیْلَ اَلتَّابُوْتُ ھُوَ الْقَلْبُ۔ ‘‘ (بیضاوی جلد۱ صفحہ ۱۱۸ مطبع احمدی)

یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک سب انبیا ء علیہم السلام کی تصویریں اس صندوق میں تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ تابوت سے مراد دل ہے۔

( ۳)اسی طرح سورۃ البقرۃ:۲۵۰ ع ۳۳ کی آیت:۔

’’‘‘کی تفسیر میں لکھا ہے۔

’’تابوتِ سکینتہ اور وہ ایک صندوق تھا کہ سب انبیاء علیہم السلام کی تصویریں اس میں بنی ہوئی تھیں۔‘‘

(تفسیر قادری ترجمہ اردو تفسیر حسینی زیر آیت ان اٰیۃ ملکہ……البقرۃ:۲۵۰)

(۴) اصل بات یہ ہے کہ ’’تصویر‘‘ اور ’’فوٹو‘‘ میں باریک امتیاز ہے۔ ممنوع ’’تصویر‘‘ ہے فوٹو نہیں۔ تصویر سے مراد ابھری ہوئی ’’صورت‘‘ یعنی ’’بت‘‘ ہے۔ فوٹو درحقیقت ’’تصویر‘‘نہیں بلکہ ’’عکس‘‘ہوتا ہے اور فوٹو گرافی کو ’’عکاسی‘‘کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ کی مندرجہ ذیل تشریح درج ہے:۔

’’اِنَّہٗ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا صُوْرَۃٌ یُرِیْدُ التَّمَاثِیْلَ الَّتِیْ فِیْھَا الْاَرْوَاحُ۔ ‘‘(بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قَالَ اَحَدُکُمْ آمین)

یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مراد لفظ ’’تصویر‘‘ سے وہ بت ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان میں روحیں ہیں۔

(۵)۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اس اعتراض کا مفصل جواب براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۶۵ تا ۳۶۷ پرتحریر فرمایا ہے۔ وہا ں سے دیکھا جائے۔
 
Top Bottom