ہستی باری تعالیٰ یعنی اللہ کے وجود پر پانچویں دلیل

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
ہستی باری تعالیٰ یعنی اللہ کے وجود پر پانچویں دلیل

پانچویں دلیل ہستی باری تعالیٰ کی جو قرآن شریف نے دی ہے گو اسی رنگ کی ہے لیکن اس سے زیادہ زبردست ہے اور وہاں استدلال بالا ولیٰ سے کام لیا گیا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے

تَبَـٰرَكَ ٱلَّذِى بِيَدِهِ ٱلۡمُلۡكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ (١) ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلۡمَوۡتَ وَٱلۡحَيَوٰةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ أَيُّكُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلاً۬‌ۚ وَهُوَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡغَفُورُ (٢) ٱلَّذِى خَلَقَ سَبۡعَ سَمَـٰوَٲتٍ۬ طِبَاقً۬ا‌ۖ مَّا تَرَىٰ فِى خَلۡقِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ مِن تَفَـٰوُتٍ۬‌ۖ فَٱرۡجِعِ ٱلۡبَصَرَ هَلۡ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ۬ (٣) ثُمَّ ٱرۡجِعِ ٱلۡبَصَرَ كَرَّتَيۡنِ يَنقَلِبۡ إِلَيۡكَ ٱلۡبَصَرُ خَاسِئً۬ا وَهُوَ حَسِيرٌ۬ (٤) وَلَقَدۡ زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنۡيَا بِمَصَـٰبِيحَ وَجَعَلۡنَـٰهَا رُجُومً۬ا لِّلشَّيَـٰطِينِ‌ۖ وَأَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابَ ٱلسَّعِيرِ ( الملک:۲تا۵)


یعنی بہت برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں ملک ہے ۔اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم میں سے کون زیادہ نیک عمل کرتا ہے اور وہ غالب ہے بخشندہ ہے۔اس نے ساتوں آسمان بھی پیدا کئے ہیں اور ان میں آپس میں موافقت اور مطابقت رکھی ہے ۔تُو کبھی کوئی اختلاف اﷲ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا۔پس اپنی آنکھ کو لَوٹا۔کیا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے۔دوبارہ اپنی نظر کر لَوٹا کر دیکھ تیری نظر تیری طرف تھک کر اور درماندہ ہو کر لوٹے گی۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات اتفاقاً پیدا ہوگئی اور اتفاقی طور سے مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ کر بن گیا۔اور سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا خود بخود جُڑ کر آپ ہی چلتی جائے اور اس کی کَل پھرانے والا کوئی نہ ہو لیکن ان کا جواب اﷲ تعالیٰ ان آیات میں دیتا ہے کہ اتفاقی طورپرجڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اورانتظام نہیں ہوتابلکہ بے جوڑی ہوتی ہیں۔ مختلف رنگوں سے مل کر تصویر بنتی ہے لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کاغذ پر پھینک دیں تو اس سے تصویر بن جائے گی۔اینٹوں سے مکان بنتا ہے۔لیکن کیا اینٹیں ایک دوسرے پر پھینک دینے سے مکان بن جائے گا؟بفرض محال اگر یہ مان لیا جائے کہ بعض واقعات اتفاقاً بھی ہوجاتے ہیں لیکن نظام عالم کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی ہوگیا۔مانا کہ خود بخود مادہ پیدا ہوگیا، مانا کہ خود بخود ہی مادہ سے زمین پیدا ہوگئی۔اور یہ بھی مان لیا کہ اتفاقًاہی انسان بھی پیدا ہوگیا،لیکن تم انسان کی خلقت پر نظر تو کرو کہ کیا ایسی کامل پیدائش کبھی خود بخود ہو سکتی ہے؟

عام طور سے دنیا میں ایک صفت کی خوبی سے اس کے صنّاع کا پتہ لگتا ہے۔ایک عمدہ تصویر کو دیکھ کر فوراً خیال ہوتا ہے کہ کسی بڑے مصور نے بنائی ہے۔ایک عمدہ تحریر کو دیکھ کر سمجھا جاتا ہے کہ کسی بڑے کاتب نے لکھی ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جائے اسی قدر اس کے بنانے یا لکھنے والے کی خوبی اور بڑائی ذہن نشین ہوتی جاتی ہے۔پھر کیونکر تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسی منظم دنیا خود بخود اور یونہی پیدا ہوگئی!

ذرا اس بات پر تو غور کرو کہ جہاں انسان میں ترقی کرنے کے قویٰ ہیں وہاں اسے اپنے خیالات کو عملی صورت میں لانے کے لئے عقل دی گئی ہے اور اس کا جسم بھی اس کے مطابق بنایا گیا ہے۔ چونکہ اس کو محنت سے روزی کمانا تھا اس لئے اسے مادہ دیا کہ چل پھر کراپنا رزق پیدا کرے۔درخت کا رزق اگر زمین میں رکھا ہے تو اسے جڑیں دیں کہ وہ اس کے اندر سے پیٹ بھرے۔اگر شیر کی خوراک گوشت رکھی تو اسے شکار مارنے کے لئے ناخن دئیے۔اور اگر گھوڑے اور بیل کے لئے گھاس کھانا مقرر کیا توان کو ایسی گردن دی جو جھک کر گھاس پکڑ سکے۔اور اگر اونٹ کے لئے درختوں کے پتے اور کانٹے مقرر کئے تو اس کی گردن بھی لمبی بنائی۔کیا یہ سب کارخانہ اتفاق سے ہوا؟اتفاق نے اس بات کو معلوم کر

لیا تھا کہ اونٹ کو گردن لمبی دوں اور شیر کو پنجے اور درخت کو جڑیں اور انسان کو ٹانگیں۔ہاں کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو کام خود بخود ہو گیا اس میں اس قدر انتظام رکھا گیا ہو۔پھر اگر انسان کے لئے پھیپھڑا بنایا تو اس کے لئے ہوابھی پیدا کی ۔اگر پانی پر اس کی زندگی رکھی تو سورج کے ذریعہ اور بادلوں کی معرفت اسے پانی پہنچایا ۔اور اگر آنکھیں دیں تو ان کے کارآمد بنانے کے لئے سورج کی روشنی بھی دی تاکہ وہ اس میں دیکھ بھی سکے ۔کان دئیے تو ساتھ اس کے خوبصورت آوازیں بھی پیدا کیں۔زبان کے ساتھ ذائقہ دار چیزیں بھی عطا فرمائیں ۔ناک پیدا کیا تو خوشبو بھی مہیّا کردی۔ممکن تھا کہ اتفاق انسان میں پھیپھڑا پیدا کردیتا لیکن اس کے لئے یہ ہوا کا سامان کیونکر پیدا ہو گیا؟ممکن تھا کہ آنکھیں انسان کی پیدا ہو جاتیں لیکن وہعجیب اتفاق تھا کہ جس نے کروڑوں میلوں پر جا کر ایک سورج بھی پیدا کر دیا کہ تا وہ اپنا کام کر سکیں۔اگر ایک طرف اتفاق نے کان پیدا کر دئیے تھے تو یہ کون سی طاقت تھی جس نے دوسری طرف آواز بھی پیدا کردی۔برفانی ممالک میں مان لیا کہ کتے اور ریچھ تو اتفاق نے پیدا کردئیے لیکن کیا سبب کہ ان کتوں یا ریچھوں کے بال اتنے لمبے بن گئے کہ وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں۔اتفاق ہی نے ہزاروں بیماریاں پیدا کیں اور اتفاق ہی نے ان کے علاج بنا دئیے۔اتفاق ہی نے بچھو بوٹی جس کے چھونے سے خارش ہونے لگ جاتی ہے پیدا کی اور اس نے اس کے ساتھ پالک کا پودا اگا دیا کہ اس کا علاج ہو جائے۔یہ دہریوں کا اتفاق بھی عجیب ہے کہ جن چیزوں کے لئے موت تجویز کی ان کے ساتھ طوالت کا سلسلہ بھی قائم کردیا۔اورجن چیزوں کے ساتھ موت نہ تھی وہاں یہ سلسلہ ہی نہ رکھا۔انسان اگر پیدا ہوتا مگر نہ مرتا تو کچھ سالوں میں ہی دنیا کا خاتمہ ہوجاتا۔اس لئے اس کے لئے فنادی،لیکن سورج اور چاند اور زمین نہ نئے پیدا ہوتے ہیں نہ اگلے فنا ہوتے ہیں ۔کیا یہ انتظام کچھ کم تعجب انگیز ہے کہ زمین اور سورج میں چونکہ کشش رکھی ہے اس لئے ان کو ایک دوسرے سے اتنی دور رکھا ہے کہ آپس میں ٹکرا نہ جائیں۔کیا یہ سب باتیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ ان سب چیزوں کا خالق وہ ہے جو نہ صرف علیم ہے بلکہ غیر محدود علم والا بھی ہے۔اس کے قواعد ایسے منضبط ہیں کہ ان میں کچھ اختلاف نہیں اور نہ کچھ کمی ہے۔مجھے تو اپنی انگلیاں بھی اس کی ہستی کا ثبوت معلوم ہوتی ہیں۔مجھے جہاں علم دیا تھا اگر شیر کا پنجہ مل جائے تو کیامیں اس سے لکھ سکتا تھا۔شیر کو علم نہیں دیا اسے پنجے دئیے۔مجھے علم دیا۔لکھنے کے لئے انگلیاں بھی دیں۔

سلطنتوں میں ہزاروں مدبر ان کی درستی کے لئے دن رات لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی دیکھتے ہیں کہ ان سے ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ جن سے سلطنتوں کو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے۔بلکہ بعض اوقات وہ بالکل تباہ ہو جاتی ہیں لیکن اگر اس دنیا کا کاروبار صرف اتفاق پر ہے تو تعجب ہے کہ ہزاروں دانا دماغ تو غلطی کرتے ہیں ،لیکن یہ اتفاق غلطی نہیں کرتا۔سچی بات یہی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو بڑے وسیع عالم کا مالک اور عزیز ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو یہ انتظام نظر نہ آتا۔اب جس طرف نظر دوڑا کر دیکھوتمہاری نظر قرآن شریف کے ارشاد کے مطابق خائب و خاسر واپس آئے گی اور ہر ایک چیز میں ایک نظام معلوم ہوگا۔نیک جزا اور بدکار سزا پا رہے ہیں۔ہر ایک چیز اپنا مفوّضہ کام کر رہی ہے اور دم کے لئے سُست نہیں ہوئی۔یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں۔ عاقل را اشارہ کافی است۔
 
Top Bottom